نور اعلیٰ نور - قسط ۱۵

دنیا بھر میں افراتفری کا عالم تھا…… عراق، افغانستان، پاکستان، ایران……مغربی ممالک خاص طور پر ان ملکوں پر ایسے چھپٹتے تھے جیسے کوئی چیل چوزوں پر چھپٹتی ہے……
امریکہ عراق پر حملہ کر کے سب کچھ ملیا میٹ کر چکا تھا۔ امریکہ کا جواز تو یہ تھا کہ عراق میں ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن ہیں۔ مگر ساری جنگ تمام ہونے کے با وجود بھی اسے وہاں سے کچھ نہ ملا۔ اس غلطی پر امریکہ نے ’’سوری‘‘ ضرور کر لی تھی۔ لہذا اس کے سارے گناہ معاف……
قدرتی آفات کا بھی تانتا بندھا ہوا تھا۔ کبھی پاکستان میں زلزلہ آتا، کبھی سیلاب…… کبھی جاپان میں زلزلہ آتا کبھی امریکہ میں کوئی طوفان آتا…… زلزلے تو اتنے متواتر آتے تھے کہ شاید ہی تاریخ میں پہلے کبھی اس طرح پے در پے آئیں ہوں……
۔۔۔۔۔۔۔

آج اس کے پھلوں کے ٹھیلے پر بڑے اچھے اور تازہ پھل تھے۔ کل ہی اس نے کچھ پیسے ادھار لے کر اپنے ٹھیلے کے لئے مال خریدا تھا۔ بس یہ بِک جائے تو اس کے گھر کا چولھا جلے۔ وہ تین سال کی عمر میں ہی یتیم ہو گیا تھا۔ بہت غریب …… بچپن سے ہی چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

پولیس والے آئے دن اسے تنگ کرتے …… کبھی اس کا ٹھیلہ بند کرا دیتے…… کبھی اسے الٹ دیتے…… کبھی اس پر لاتیں مارتے…… اسے گالیاں دیتے…… دھتکارتے…… وہ تنگ آ گیا تھا۔ پولیس والے اس کی جان تب ہی چھوڑتے جب کبھی وہ ان کی مٹھی کچھ گرم کر پاتا۔مشکل سے بے چارہ انہیں کچھ پیسے دیتا ……

اسے بڑی امید تھی کہ کل ادھار لے کر ٹھیلے پر نیا مال ڈالا ہے تو آج اچھی بکری ہو جائے گی۔
مگر آج پھر دن دھاڑے ایک لیڈی پولیس ا ٓفیسر آئی اور اسے بے عزت کرنا شروع کر دیا ۔ اسے گالیاں دیں…… ان کا جھگڑا شروع ہوگیا…… جھڑپ بڑھ گئی اور اس لیڈی پولیس نے اسے سب کے سامنے تھپڑ دے مارا اور اس کے ٹھیلے پر لاتیں ماری……اس کی سبزیاں اور فروٹ نیچے گر کے ہر طرف بکھر گئے…… وہ شور مچاتا رہا مگر بے سود…… وہ عورت اس سے اس کا ترازو لے کر اسے گالیاں بکتی چلی گئی۔ ہائے! کیا حالت تھی اس غریب کی…… ایک عورت کے ہاتھوں مار کھا کر وہ شرم سے ڈوب مرنے کو تھا…… سارے بازار میں وہ بے عزت ہو گیا تھا……

اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ کل ہی ادھار لے کر اس نے نیا مال ڈالا تھا…… اب وہ گھر کیا لے کر جائے گا ، ادھار کیسے واپس کرے گا، کیسے کھائے گا، پیئے گا…… وہ بلدیہ کے آفس بھاگا کہ وہاں جا کر بات کرے تو شاید اسے اس کا ترازو واپس مل جائے۔مگر وہاں کے عہدیدار نے اس سے ملنا تو دور اسے دیکھنا تک بھی گوارہ نہ کیا۔ وہ لاچار ، بے خود سا ہو رہا تھا…… جیسے کوئی راہ نہ پاتا ہو……
’’اگر تم مجھ سے نہیں ملو گے تو میں اپنے آپ کو زندہ جلا دوں گا……‘‘۔ وہ چنگھاڑا اور وہاں سے باہر بھاگا۔
’’ایسا جینا بھی کیا جینا؟؟؟‘‘۔ ’’اس سے تو مر جانا بہتر ہے!!!‘‘ وہ باہر سے گیسولین لا کر اپنے آپ کو اس میں تر کر چکا تھا۔ اس نے اپنے کپڑوں کو ماچس کی تیلی دکھائی اور بھڑک اٹھا۔

یہ وہ آگ تھی جس نے سارے تونیسیہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہاں انقلاب آ گیا…… پھر یہ آگ ایسی پھیلی کہ مصر، لیبیا ، یمن اور سیریا بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے……صرف اتنا ہی نہیں، اس آگ کی تپش سعودیہ عرب، بحرین، کویت، جاردن تک میں محسوس کی گئی۔یہ سن دو ہزارگیارہ، بارہ اور تیرا عیسوی کے عجیب سال تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔

یہاں ذولفقار کی منگنی ہوئی اور دوسرے دن یونیورسٹی میں نیلوفر حاضر تھی۔ذولفقار نے دور سے ہی نیلوفر کو اس کی سہیلیوں کے جھرمٹ میں چہکتے دیکھ لیا۔ وہ سورج کی طرح چمک رہی تھی…… ہلکے پیلے جوڑے میں ملبوس اور سنہری رنگ میں رنگے ہوئی بال……ما شا ء اﷲ وہ سراپا حسن تھی۔ ذولفقار اسے دیکھتے ہی بھول گیا کہ کل ہی اس کی منگنی زیبا سے ہوئی ہے اور آج……اس کا دل بیٹھ سا گیا۔

آخر وہ کس انہونی کیفیت کا شکار ہے۔ جب نیلوفر نہیں تھی تو وہ دن بدن اسے بھولتاجا رہا تھااور آج اسے ایک ہی نظر دیکھ کر اس کا دل باغ باغ ہو گیا ہے۔ نیلوفر نے جو بے رخی ذولفقار سے برتی تھی تو اس نے بھی اسے کوئی میسج یا کال وغیرہ نہیں کی۔ بلکہ سیدھا اپنے روم میں گھس کر بیٹھ گیا۔

’’آ گئی یہ……‘‘ ذولفقار اپنے روم سے باہر نہیں نکلنا چاہتا تھا، مبادا اس کی نظریں پھر نیلوفر سے مل جائیں۔ وہ اسے دوبارہ دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا بات کرے ، کیسے نظر ملائے…… ایسی بے رخی پہلے کسی نے اس سے نہ برتی تھی۔ ذولفقار نے بھانپ لیا کہ آج اس کا دن اچھا نہیں گزرنے والا۔

اپنی کلاس لینے کے بعد ذولفقار لائبریری میں وہیں جا بیٹھا جہاں وہ نیلوفر کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ نہ جانے اس نے ایسا کیوں کیا وہ خود بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ اس کے اندر ایک جنگ، ایک کشمکش سی چل رہی تھی۔

آخر کار نیلوفر اپنے وجود سے کرنیں بکھیرتی لائبریری کی طرف بڑھنے لگی۔ جہاں ذولفقار بیٹھا تھا اس کے عین سامنے لائبریری کا دروازہ تھا اور سیدھی راہداری اس کے آگے تھی۔ ان دونوں کی نظریں مل گئی…… نیلوفر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آگے بڑھنے لگی……پلک تک نہ چھپکی……وہ لائبریری میں داخل ہوئی اور ایک ادا سے اپنی ایک آنکھ کی بھنو اٹھا کر بے نیازی سے، تیکھے تیور دکھاتی، دوسری طرف کو جا بیٹھی۔ ذولفقار نے بھی اپنی تمام تر توجہ اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب پر مرکوز کر دی۔
مگر اس کی صرف نظریں کتاب پر تھیں، سوچ کہیں اور……

’ہم م م ……‘‘ ذولفقار کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ نیلوفر اپنا کھیل شروع کر چکی تھی۔ پہلے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنا پھر جب وہ اس کے پیچھے پیچھے ویرانے تک نکل آئیں تو انہیں وہاں اکیلا چھوڑ دینا۔
۔۔۔۔۔۔۔

حسن نے ذولفقار کا نمبر ملایا۔
’’ہیلو کیا حال ہے؟‘‘ ذولفقار کی آواز آئی۔
’’السلام و علیکم! الحمد اﷲ بالکل ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ؟‘‘ حسن نے جواب دیا۔
’’کہاں غائب ہو اتنے دنوں سے؟؟؟‘‘ دولفقار نے پوچھا۔
’’میں تو یہیں ہوں۔ تم ہی کہیں غائب ہو آج کل!!!‘‘
’’نہیں…… بس ادھر ہی ہوں‘‘ دولفقار نے جواب دیا۔ ’’اور کیا چل رہا ہے…… کوئی نئی تازی؟؟؟‘‘
’’ہاں دادا جان کراچی شفٹ ہو گئے ہیں……‘‘
’’ میں نے کہا تمہیں بتا دوں…… تمہارا پوچھ بھی رہے تھے……‘‘ حسن نے ذولفقار کو نئی تازی سنائی۔
’’اچھا !!!‘ ‘ ذولفقار نے کھِل کر زور سے کہا۔
’’کب آئے……؟؟؟‘‘ ’’ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے‘‘۔ ذولفقار کو دادا جان سے ایک لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ اسے ایسا لگا جیسے اسے کوئی مضبوط سہارا مل گیا ہو۔
’’بس کل ہی آئیں ہیں‘‘۔ ’’ تم آؤ گے ان سے ملنے ؟؟؟‘‘ حسن نے پوچھا۔
’’ارے…… ہاں بھئی ظاہر ہے……‘‘ ’’ہو سکتا ہے آج ہی آ جاؤ…… ‘‘
’’ام م م…… مگر تھوڑی دیر ہو گئی ہے نا ابھی……‘‘ وہ اداس سی آواز بنا کر پھِر بولا۔ ’’ چلو کل آ جاؤ گا……‘‘ ۔ ’’ تم انہیں ضرور میرا سلام دینا‘‘۔
’’ نہیں …… نہیں…… تم آ جاؤ بے شک ابھی ہی……‘‘ حسن نے کہا کہ اس وقت آنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
’’چلو میں دیکھتا ہوں‘‘ ذولفقار نے جواب دیا اور فون بند کیا۔

ذولفقار اسی رات دادا جان سے ملنے حسن کے ہاں پہنچ گیا۔
’’السلام و علیکم دادا جان!!!‘’
’’ السلام و علیکم…… ما شاء اﷲ ما شاء اﷲ‘‘ دونوں نے ایک دوسروں کو گرم جوشی سے گلے لگایا۔
’’ کیسے ہو بیٹا ذولفقار ؟؟؟‘‘
’’ الحمد ﷲ میں بالکل ٹھیک ۔ آ پ بتائیں دادا جان آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟؟‘‘
’’ بس اﷲ کا بڑا کرم ہے بیٹا …… سب ٹھیک ہے…… سب ٹھیک ہے‘‘۔ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’ مبارک ہو بیٹا آپ کا رشتہ طے ہو گیا ……‘‘
’’ اور عائشہ اور حسن کے رشتے کے لئے بھی مبارک باد……‘‘۔ ’’ بڑا اچھا کام کر دیا اﷲ نے……‘‘
ذولفقار اور دادا جان ایک دوسرے سے کراچی اور سوات کی خبریں لینے لگے۔ حسن کے گھر والے اس کے لئے کھانے کا خاص انتظام کرنے لگے۔ آخر اب وہ صرف حسن کا دوست نہیں تھا سالہ بھی تھا۔

’’اب آپ یہیں ہوا کریں گے؟؟؟‘‘کھانا لگ چکا تھا۔ ذولفقار دادا جان سے ان کے کراچی مستقل شفٹ ہونے کی وجہ پوچھنا چاہ رہا تھا۔
’’ہاں بیٹا…… انشاء اﷲ……‘‘
’’شاید اب میری یہاں ذیادہ ضرورت ہے‘‘۔ دادا جان کے اس جواب کا کوئی خاص مطلب ضرور تھا۔ سب کھانا کھانے لگے۔

ذولفقار کا جی تو نہیں چاہ رہا تھا کہ دادا جان کو الوداع کہے مگرکافی وقت ہو گیا تھا۔ اس نے کھانے کے بعد چائے پی، پھر سب سے اجازت لی۔
’’ ارے کہاں!!!‘‘ ’’ آج ادھر ہی رک جاؤ بھئی……‘‘ حسن نے حیرت سے کہا۔ ’’ دادا جان آئے ہوئے ہیں…… کل چلے جانا……‘‘
’’ نہیں یار …… بس نکلتا ہوں……‘‘
’’ کیوں ؟؟؟ کل تو ویسے بھی چھٹی ہے……تم تو ایسے بھاگ رہے ہو جیسے پہلے کبھی رکے ہی نہیں ہو یہاں……‘‘۔ حسن نے اصرار کیا۔ دولفقار اکثر پڑھائی کے دوران حسن کے گھر کمبائن اسٹڈی کے لئے رک جایا کرتا تھا۔مگر اب تو انہیں گریجویشن کئے سال بھر سے بھی سے زیادہ ہو گیا تھا۔
’’ ام م م…… اچھا چلو…… میں گھر فون کر کے بتا دیتا ہوں‘‘ ذولفقار نے ان کے ہاں رات ٹھہرنے کی حامی بھر لی۔

دادا جان ہمیشہ کی طرح رات کے ایک خاموش پہر ، نیند سے بیدار ، تنہائی میں عبادت اﷲ میں مصروف تھے۔ذولفقار فجر کی آذان سن کر اٹھا اور نماز پڑھنے حسن کے گھر کی چھت پر آیا۔ ذولفقار کی نظر داداجی پر پڑی تو وہ چھت پر مصلہ بچھائے،آنکھیں بند کئے دیوارسے ٹیک لگائے بالکل ساکت بیٹھے تھے۔ بڑے بارعب لگ رہے تھے وہ …… کتنی گہری شخصیت تھے وہ……
ذولفقار کے آنے کی آہٹ سن کر انہوں نے اپنی دونوں آنکھیں کھول دیں۔
’’السلام و علیکم!‘‘ ذولفقار نے فوراََ سلام کیا۔
’’و علیکم السلام!‘‘ دادا جی بھی اسے دیکھ کر خوش ہو گئے۔ ذولفقار فجر کی دو سنتیں پڑھنے کو تیار تھا۔ دادا جی بھی کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھی۔ پھر دونوں مسجد با جماعت نماز ادا کرنے چلے گئے۔

’’آپ رات کو اس طرح تنہائی میں کیوں اٹھتے ہیں؟؟؟‘‘’’ اس سے کیا ہوتا ہے؟؟؟‘‘ یہ دونوں نماز پڑھ کر واپس آ چکے تھے اور وہیں چھت پردادا جی کی عبادت کی جگہ پر بیٹھے تھے۔
’’مصطفیﷺ اندر حِراخلوت گزیں
قوم و آئین و حکومت آفریں‘‘
دادا جان نے ایک معنی خیز شعر پڑھا۔
’’محمد ﷺ جب غار حرا میں خلوت نشینی اختیار کر جاتے تھے ……تو گویا کہ قوم ، آئین، حکومت، غرض ہر شے کے اسرار جان جاتے تھے‘‘۔ دادا جان نے شعر کو آسان الفاظ میں کہہ دیا۔
ذولفقار کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ ان کی گہری باتوں کو سمجھنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔
’’جب انسان اس مادی دنیا سے الگ ہو کر اپنے اندر …… اپنی روح میں جھانکتا ہے…… تو اس پر آفاقی دنیا ، روحانی دنیا کے راز کھلتے ہیں‘‘۔ دادا جان نے کہنا شروع کیا۔
’’وہ حقیقت پانے لگتا ہے…… اور حقیقت تو تمھاری روح ہے، جو زندہ و پائندہ ہے…… لہذا اس کی حفاظت ذیادہ کرو…… اس کا خیال رکھو…… اسے سمجھو…… جیسے اپنی ظاہری جسامت کا خیال رکھتے ہو……‘‘
’’……اور روح پاک ہے…… اس کی نسبت خالق حقیقی سے ہے……جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ اﷲ نے آدم کے پتلے میں اپنی روح میں سے پھونکا……‘‘
’’اور ابھی تم میرے ساتھ ہو…… جب بھی ہم دوسروں کے ساتھ ہوتے ہیں تو اﷲ سے دور ہو جاتے ہیں…… ہماری توجہ ظاہری مخلوق پر ذیادہ ہو جاتی ہے‘‘۔
’’اور جب تم تنہا ہوتے ہو……‘‘ ۔ دادا جی کچھ دیر خاموش ہوئے ،پھر بھاری سی آواز میں کہا۔ ’’…… تو اﷲ تمہارے پاس آ جاتا ہے‘‘۔
’’تم کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے …… اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو…… اﷲ دیکھ رہا ہے‘‘۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78356 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More