انجان بنے رہو

ہم ایک الجھے ہوئے معاشرے میں زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے……؟کیونکہ یہاں ہر شخص کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ بے انصافی نے ہر فرد کو ذہنی مریض بنا رکھا ہے ۔ دیکھنے میں ہم چلتے پھرتے انسان ہیں ،مگر حقیقت میں مردہ ضمیر لئے جی رہے ہیں۔ ہمیں حسد، بغض اور لالچ نے اندھا کر رکھا ہے۔ ہم سے انسانیت چھن چکی ہے۔ذاتی مفادات کے لئے کسی بھی حد تک گر جاتے ہیں، ہمیں اپنے وطن یا قوم سے محبت نہیں ہے۔ہم کسی بھی فائدے کے لئے اپنی دھرتی ماں کا سودا کر لیتے ہیں ۔ تنقید برائے تنقید کا رواج عام ہے۔برداشت نا پید ہو گئی ہے۔ جس قوم میں برداشت ختم ہو جائے ،وہ کبھی بھی زندہ نہیں رہ سکتی ۔

ہماری قوم کا بنیادی مسئلہ انصاف کا نہ ہونا ہے۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ انصاف کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے،جو وہ پورا نہیں کرتی،حالانکہ انصاف کرنا یا کرانا عدالتوں کی نہیں ،بلکہ معاشرے اور اُس کے چلانے والی انتظامیہ کا کام ہے۔ کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے،یعنی وہ انصاف کرنے میں تفریق نہیں کرتا ،لیکن قانون اندھا نہیں، بلکہ اس کی آنکھیں تو بہت تیز ہوتی ہیں،مگر اس کی روشنی انتظامیہ ہوتی ہے، جو عدلیہ کے لئے روشنی کا کام کرتی ہے۔اگر انتظامیہ اپنا کردار درست طریقے سے ادا نہ کرے تو عدلیہ عام معاملات میں انصاف کرنے سے معذور ہو جاتی ہے۔ اس لئے اگر انتظامیہ ایمانداری سے کام کرے اور انصاف دلانے کا جذبہ اس کے اندر ہو تو کوئی بھی انصاف سے محروم نہ رہے۔ ہمارے ہاں انتظامیہ کے اس معاملے میں کارکردگی انتہائی شرمناک ہے۔ انہی کی وجہ سے موجودہ صورت حال میں ناانصافی کا دن بدن بول بالا ہو رہا ہے۔غیر ذمہ دار اور بدعنوان انتظامیہ کی وجہ سے با اثر شخصیات عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں ۔ آپ سابق صدر آصف زرداری ، سابق صدر پرویز مشرف کے کیسیزکو دیکھ لیں ۔آہستہ آہستہ اپنے تمام کیسیز سے بری ہو رہے ہیں۔ عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا کئی دفعہ حکم دیا مگر ہر مرتبہ کوئی تکنیکی وجہ سے آزاد گھوم رہے ہیں۔سیاست کے اسی عمل دخل کے باعث واضح نظر آنے والا جرم بھی جرم نہیں رہتا ۔ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے جرائم پیشہ عناصر کے گرد فوج نے گھراؤ کیا تو اُن کے پارٹی لیڈروں کا چیخنا، چلانا اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ انہیں ان پر شکنجا تنگ کرنے کی کتنی تکلیف ہوئی ہے۔جرائم ہو رہے ہیں،بے انصافیاں ہو رہی ہیں،کیونکہ حکومت کے اپنے مفادات ہیں ،اس وجہ سے آج بھی ڈھیل دی گئی ہے،ورنہ اگر حکومت کا جرائم پیشہ افراد کو صحیحی معنوں میں لگام ڈالنے کا ارادہ ہو تو کب کا صفایا کر دیا گیا ہوتا۔
عام آدمی ٹی وی اور اخبارات میں گئی گھناؤنی وارداتوں کے متعلق دیکھتا ،سنتا اور پڑھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب تو یہ انصاف کے کٹھرے میں پہنچ کر کیسے بچ سکتے ہیں ،کیونکہ سرعام کی گئی بڑی واردات کو تو چھپانے سے نہیں چھپایا جا سکتا،مجرم اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا،مگر ایسا نہیں ہوتا۔ وہ چند دن بعد ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں ۔کچھ وقت کے بعد وہ الزام سے بری یا ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔یہاں کے مجرم عدالتوں میں بیٹھے ججوں کی بجائے گواہان اور پولیس پر اپنا دھیان رکھتے ہیں۔جب پولیس ہی نہیں چاہے گی اور گواہ اُن کے خلاف منہ نہیں کھولیں گے تو عدالت کیا کر سکتی ہے۔ عدالت ثبوتوں پر اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔ اگر گواہ نے عدالت کے سامنے بیان نہیں دیا تو مجرم بری ہو گا۔ انتظامیہ کی جانب سے پیش ہونے والے استغاثہ انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مجرم سزا سے بچ جاتا ہے ۔ ہمارے بہت بااثر لوگ کئی سنگین جرائم میں ملوث پائے جانے کے باوجود اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے عدالتوں سے بری ہو گئے ہیں۔

جمہوریت کا الاپ الاپنے والوں کو اس بات کا باخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ جمہوریت میں قانون کی حکمرانی نا گزیر ہے ۔ عدالتیں قانون کے مطابق ہی انصاف کرتی ہیں ،اگر ان سے انصاف ملنے میں کوتاہی ہو رہی ہے،تو یہ سمجھ لینا کہ ہماری عدالتیں انصاف دینے کے قابل نہیں ،یہ درست نہیں ہے،کیونکہ افراد اور انتظامیہ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ انتظام افراد کے لئے ہوتا ہے۔افراد انتظام کے لئے نہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے،جو خود کے لئے انصاف چاہتے ہیں ،لیکن جب دوسرے کے لئے سچائی بیان کرنے کا موقع ملے تو سچ کے سوا سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔ماضی میں جج حضرات اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ سو ملزم چھوٹ جائیں مگر ایک بے گناہ کو سزا نہ ملے، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ مجرم تو بچ جاتے ہیں اور کئی بے گناہ سزا بھگت رہے ہوتے ہیں ۔اس بات سے عدالت اور انتظامیہ با خوبی واقف ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مجرموں کی بالادستی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ دن دھاڑے اور سرِعام جرائم ہو رہے ہیں لیکن ان جرائم کے گواہ نہیں ملتے ، یہاں تک کہ کھلے عام قاتلانہ وارداتوں کی کوئی گواہی نہیں دیتا،کیونکہ مجرم با اثر ہوتے ہیں،انہوں نے تو عدالت سے بری ہو جانا ہے مگر گواہ بے چارہ ناحق مارا جاتا ہے ۔اسی لئے عافیت سمجھتے ہیں کہ انجان بنے رہو۔

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.