’رینہم لائبریری‘ اورپاکستانی صحافی و کالم نگار مسعود اشعر

روزنامہ جنگ کے صحافی و کالم نگار مسعود اشعر ان دنوں لندن کے سفر پرہیں۔ انہوں نے اپنے حالیہ کالم ’ہماری عیدیں، انگلستان کے پرندے اور کتابیں‘ (30جولائی2015)میں لندن کے ایک گاؤں کی لائبریری ’رینہم لائبریری ‘ Rainham Libraryمیں جانے اور کتابیں لینے ، لائبریری اور وہاں کے گورے لائبریرین کو دعائیں دینے کا واقعہ تحریر کیا ہے۔یہ کالم تین موضوعات پر مبنی ہے لیکن میں اس کالم کے آخری حصے کا ذکر ہی کرونگا۔لندن کے ایک گاؤں کی لائبریری اور لائبریرین کے کردار کو دیکھتے ہوئے ہم اپنے ملک کے کتب خانوں اور ان کے مہتمم کتب خانہ کے طرز عمل کا موازنہ کرکے اصلاحات کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔اچھی باتوں کی نقل کرنے میں کوئی مزائقہ نہیں۔پہلے مسعود اشعر کا بیان کردہ واقعہ سن لیجئے۔ پھر بات کو آگے بڑھانے میں آسانی ہوگی۔

جناب مسعود اشعر لکھتے ہیں ’’کتابوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہوسکتا ۔ ظاہر ہے کتابیں خریدنا مشکل کام ہے۔ ہمارا بیٹا ہمیں اس چھوٹے سے شہر کی لائبریری لے گیا ۔ یہ لائبریری ہم نے چند سال پہلے دیکھی تھی اور یہاں سے کتابیں بھی لی تھیں۔ مگر اب یہ لائبریری دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے اس چھوٹے سے شہر میں اتنی شاندار لائبریری۔ چند سال میں یہ لائبریری اتنی بڑی اور اتنی شاندار ہوگئی، الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی ہیں، ایک طرف بچوں کا سیکشن ہے وہاں مائیں اپنے چھوٹے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے تعلیمی کھلونوں اور تصویری کتابوں سے انہیں مانوس کرا رہی تھیں۔ اور دوسری طرف میزوں پر بڑی عمر کے عورت مرد بیٹھے کمپیوٹر پر کتابیں پڑھ رہے تھے۔ہم کتاب گھر لے جانا چاہتے تھے مگر ہمارا سرجن بیٹا لائبریری کا ممبر نہیں تھا۔ ظاہر ہے دن رات مصروف رہنے والے ڈاکٹر وں اور سرجنوں کو کتاب پڑھنے کا وقت ہی کہا ملتا ہے مگر ہم نے کہا ہمیں زوداشی گورد(Kazuo Ishiguro)کا نیا ناول چاہیے جو اسی سال چھپا ہے۔ ہم نے جب سے اس کا ناول The Remains of the Dayپڑھا ہے اس وقت سے ہم اس کے عاشق ہوگئے ہیں۔اسے انگریزی زبان اور انگریزی بیانیے پر جو قدرت حاصل ہے وہ آج کے بہت سے انگریزوں کو بھی نصیب نہیں ۔ تو ، اب سوال یہ تھا کہ ناول کیسے لیا جائے؟ لائبریری کی ممبر شپ تو مفت ہے مگر ممبر بننے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ آپ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ اس کے لیے بجلی کابل یا کوئی ایسی چیز دکھانا ضروری ہے۔ اس وقت ہمارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ اب ہمارے بیٹے نے صرف یہ کیا کہ اپنا کارڈ دکھا کراور اپنے گھر کا پتہ دیا۔ اس گورے نے کوئی جھک جھک نہیں کی اور ہمیں ناول The Buried Giantدے دیا۔ یعنی اس نے ہماری شکلیں دیکھ کر ہمارا اعتبار کر لیااور بیٹے کو ممبر بنا لیا۔ اب آپ ہی بتائیے ، اسے کیا کہتے ہیں اور
رینہم Rainham کی لائبریری اور اس کے لائبریرین کو دعائیں دے رہے ہیں‘‘۔

یقینا لائبریری اور رینہم لائبریری کے لائبریرین کا عمل اس لائق تھا کہ انہیں دعائیں دی جاتیں۔ہمارے ملک میں کتب خانوں کی کیا صورت حال ہے۔ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چھوٹے شہر ، گاؤں ، دیہات تو دور کی بات ہے ہمارے ہاں تو بڑے شہروں میں بھی کتب خانے موجود نہیں اگر چند موجود بھی ہیں تو ان حالت نہ گفتہ بے ہے۔ لائبریری کوایک نامیاتی ادارہ تصور کیا جاتا ہے یعنی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے والا ادارہ، بڑھنے والی چیزیں کتابیں ، خواہ وہ مطبوعہ ہوں یا ای بک (E-Book)کی صورت میں ہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی آنے والی کتابوں کا لائبریری میں آنا لازمی ہے اگر یہ عمل رک جائے اور وقت کے ساتھ ساتھ لائبریری میں نئی کتابیں نہ خریدی جائیں تو وہ لائبریری نہیں بلکہ گودام یا کتابوں کا اسٹور ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارے کتب خانوں میں لائبریری بجٹ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ سرکاری اداروں میں کتب خانوں کو سالانہ بنیاد پر بجٹ فراہم نہیں کیا جاتا۔ نجی کتب خانوں میں صورت حال اس لیے بہتر نظر آتی ہے کہ وہ لائبریری پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ کتب خانوں میں لائبریری خدمات کے حوالے سے ہم روایتی طریقہ کار پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی لائبریری ایسی ہو جو رینہم لائبریری کے اس طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے کسی کو ممبر شپ اتنی جلدی فراہم کردے اور اسے اسی وقت کتاب بھی جاری کردے۔ ہمارے کتب خانوں میں وہی فرسودہ نظام رائج ہے۔ اگر کسی جگہ لائبریرین کو یہ اختیار حاصل بھی ہے کہ وہ از خود ممبرشپ دے تو وہ اس مائڈ سیٹ کے مطابق اس پر عمل نہیں کرتا۔ بلکہ لائبریری میں آنے والے ریڈر کو غیر ضروری دوڑا تا ہے۔ وہ کام جو چند ساعتوں میں ہوسکتا ہے اسے کئی گھنٹوں حتیٰ کے دنوں میں انجام دیا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لائبریری کی خدمات کو وقت اور ضرورت کے مطابق انجام دیا جائے۔ جو مائڈسیٹ کام کو طول دینے کا بن چکا ہے اس میں تبدیلی لائے جائے۔ یہ کام لائبریری اسکول بہت اچھی طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک نجی عوامی لائبریری کا ذکر اس لیے کررہا ہوں کہ اس لائبریری میں مجھے بے شمار مرتبہ جانے کا اتفاق ہواکیونکہ اس کا مہتمم میرا قریبی دوست تھا۔ میں اکثر اس کے پاس جا یا کرتا ۔ وہ لائبریری کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے بلاک 8میں قائم ہے اور ایک ہاؤسنگ سوسائیٹی اُسے چلارہی ہے، اسی سوسائیٹی نے اس گلشن کے اس بلاک کو آباد کیا ہے۔ وہاں ممبر شپ دینے کا طریقہ رینہم لائبریری کی طرح ہی ہے یعنی اس علاقے میں رہنے والوں کو کوئی بھی شناخت دینا ہوتی ہے۔ لیکن لائبریرین کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ متعلقہ دستاویزات وصو ل کرکے ممبر شب دے سکے ۔ ممبر شب فارم وصول کر کے ، تما م دستاویزات کے ہمراہ سوسائیٹی کے سیکریٹری کو بھیجا جاتا ہے وہ ممبر شب فارم پر احکامات جاری کرتا ہے ۔ فارم جانے آنے میں کئی روز لگ جاتے ہیں۔ اس طرح میں نے اکثر وہاں پر رکنیت حاصل کرنے والوں کو کئی کئی چکر لاگاتے دیکھا۔ اس طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ مرکزیت کو ختم کرنے ڈی سینٹرالائزیشن سے بہت سے کام جلد انجام پاتے ہیں۔ جب آپ نے ایک لائبریرین کو اس مقصد کے لیے ملازم رکھ لیا تو اسے اختیار بھی دیں کہ وہ تمام کام قاعدہ کے مطابق انجام دے۔

رینہم لائبریری جس کا ذکر مسعود اشعر صاحب نے کیا لندن کے ایک گاؤ کی لائبریری ہے۔ جس میں گزشتہ برس لائبریری استعمال کرنیوالوں کی تعداد 57,882بتائی گئی ہے ۔ اس ایک سال کے دوران 5,321کتابیں لائبریری سے جاری کی گئیں۔ یہ لائبریری جدید لائبریری بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں ای بکس بھی گویا یہاں ڈیجیٹل لائبریری کی سہولت بھی مہیا ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل لائبریری کی سہولتیں خام خام پائی جاتی ہیں۔ یہ زمانہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا دور ہے۔ گھر گھر نیٹ موبائل فون پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں ان اداروں کو جو لائبریری کی سہولتیں فراہم کررہے ہیں ۔ ڈیجیٹل لائبریری کو بھی یقینی بنا نا چاہیے۔ مطالعہ کی عادت کے فروغ میں کتب خانے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اب جب کہ حکومت کی جانب سے نئی تعلیمی پالیسی کی تدوین کا عمل جاری ہے۔ ملک میں کتب خانوں کے قیام اور فروغ کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ذولفقار علی بھٹو کے دور میں ملک میں 50ہزار کتب خانوں کی بات کی گئی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ موجودہ حکومت کو بھٹو دور کی تعلیمی پالیسی میں شامل کتب خانوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی طرز پر ملک میں زیادہ سے زیادہ کتب خانوں کے قیام کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ ہر تعلیمی ادارے میں جہاں لائبریری پہلے سے موجود ہو اس کے ساتھ ڈیجیٹل لائبریری کے قیام کو لازمی قرار دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کمپیوٹر ، کمپیوٹر لیب، انٹر نیٹ کی سہولت اور دیگر ضروری ساز وسامان کی فراہمی کے لیے بجٹ میں گنجائش رکھی جائے۔ پہلے سے موجود کتب خانوں کی جانب توجہ کی بھی اشد ضرورت ہے۔ لائبریری بجٹ کو لازمی حصہ بنایا جائے۔ بجٹ میں لائبریری کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے معقول رقم مختص کی جانی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں کالجو ں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ اس اعتبار سے ملک میں کولجوں کے کتب خانے تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ ، ان میں خدمات انجام دینے والے لائبریرین بھی لائبریری سائنس کی ڈگری سے مزین ہیں لیکن ان کتب خانوں کی خدمات ناقص اور توجہ طلب ہیں۔ (31جولائی2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273905 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More