انسانی جان کی قدر و قیمت

نوّے کی دہائی میں میرے ساتھ کالج میں میرے ایک سینئر تھے۔ بہت شفیق، بہت مہربان اور ہر لمحہ خیال رکھنے والے۔ مگر کبھی کبھی جب کسی معاملے میں ان کا اپنا مفاد ہوتا تو وہ سب شفقت، سب مہربانیاں اور سب تعلق بھول کر اپنا مفاد حاصل کر لیتے۔ ایسے وقت انہیں تعلقات اور مراسم کو داؤ پر لگانا برا محسوس بھی نہ ہوتا۔ بلکہ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ کسی وجہ سے کوئی ساتھی مشکل میں ہوتا تو وہ آنکھیں پھیر لیتے اور مشکل میں اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے۔ میں مذاق میں انہیں کہا کرتا کہ آپ وہ رہبر ہیں کہ لوگ آپ کا عمومی رویہ دیکھ کر آپ پر آسانی سے اور خوشی سے اعتماد کرنے لگتے ہیں اور جب ان کا اعتماد مستحکم ہو جاتا ہے، وہ راستہ پر چلتے آپ کی ہدایات کو حتمی اور معتبر جانتے ہوئے ان پر عملدرآمد شروع کر دیتے ہیں، اندھا دھند آپ کے آسرے چلنا شروع ہو جاتے ہیں تو کوئی بڑا سا گڑھا آنے پر آپ انہیں مطلع کرنے کی بجائے پیچھے سے ایسی ٹانگ مارتے ہیں کہ بیچارہ اعتماد کرنے والا پیچھے مڑ کر یہ بھی نہیں دیکھ سکتا کہ دھکا دینے والا کون تھا۔ اپنے مفاد کے مقابلے میں آپ کے نزدیک کسی کی جان و مال، عزت و وقار وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ جواب میں کہتے بھائی ساری دنیا ہی ایسی ہے میں کوئی الگ تو نہیں۔

آج جب میں اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اُن کی بات بہت سچ لگتی ہے۔ نوّے کی دہائی میں لوگوں میں پھر بھی کچھ شرم و حیا ، کچھ احساس اور کچھ دوسروں کے جذبات کا خیال ہوتا تھا۔انسانی جان کی کچھ قدروقیمت تھی۔ اب تو ہر چیز مفقود ہے۔ شرم، حیا، اخلاقی قدریں سب پرانی باتیں ہو گئیں۔ انسان کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ہم پوری دنیا سے کچھ الگ ہی مخلوق ٹھہرے ہیں۔ دنیا زندگیوں کو احترام دے رہی ہے۔ وہاں جانور کو بھی تکلیف دینا جرم سمجھا جاتا ہے۔ میں کل ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا کہ ایک یورپی ملک میں ایک بطخ اپنے بچوں کے ساتھ سڑک پر آنے کی وجہ سے پوری ٹریفک رک گئی ۔ دور دور تک گاڑیاں رکی ہوئی تھیں اور اس وقت تک رکی رہیں جب تک پولیس اس بطخ اور اس کے بچوں کو پوری حفاظت کے ساتھ ایک پارک میں پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو گئی۔

ہماری حکومتیں تو پوری طرح بے حس اور مفاد پرست حکومتیں ہیں۔ ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ پانی میں ڈوب کر لوگ مر جاتے ہیں۔ جانور پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ مکانات ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ زندہ رہ جاتے ہیں وہ حالات کے ہاتھوں روز مرتے ہیں۔ مگر حکمران کوئی مستقل حل تلاش نہیں کرتے۔ ہر سال ایک ہی نعرہ ’’ہم مشکل حالات میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ مگر یہ صرف نعرہ ہوتا ہے، مرتے تو لوگ ہیں۔حکمرانوں کو کچھ پرواہ نیں ہوتی۔ وزیر اعلیٰ موقع پر آتے ہیں۔ جھوٹے سچے بیانات دیتے ہیں اورکچھ فوٹو سیشن کرا کر سمجھتے ہیں کہ لوگ بے وقوف بن گئے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی قیمت ایک آدھ حوصلہ افزاء نعرے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ باقی وزراء آنکھ بھر کر دیکھتے بھی نہیں۔ان کی فوج ظفر موج اپنے مفادات سمیٹنے اور لوٹ مار میں مصروف رہتی ہے۔ وہ لوگ عوامی معاملات میں گونگے اور بہرے کا کردار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے اور نہ ہی کر سکتے ہے اور یہ اسی ملک کا کمال ہے کہ ان گونگے اور بہرے منتخب نمائندوں کو وزارت کا مزا لینے کے لئے ایک ایک محکمے کے کئی کئی محکمے بنا کر انتظامیہ کو برباد کر دیا گیا۔

بات ہو رہی تھی انسانی جان کی ناقدری کی۔ یہاں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں، کوئی قدر نہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے جاپان میں ایک طالب علم نے وہاں کے وزیر تعلیم کو خط لکھا کہ سکول میں اس کے ساتھی طالب علموں نے اس کے ساتھ پرتشدد مذاق کیا ہے۔ اساتذہ نے سب کچھ جاننے اور اس کی شکایت کے باوجود ان طلباء کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ اس لئے اب وہ کوئی راستہ نہ پاتے ہوئے خود کشی کرنے جا رہا ہے۔ جناب اکیٹو اریما اس وقت وزیر تعلیم تھے جو تعلیم کے علاوہ کلچر، سپورٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی اور بہت سے محکموں کے وزیر بھی تھے۔ کئی دیگر محکموں اور کارپوریشنوں کے انچارج تھے۔ ان کے پاس اتنے محکمے تھے کہ جن کے لئے ہمارے ملک میں دس سے زیادہ وزیر، دس سے زیادہ مشیر اور دس سے زیادہ پارلیمانی سیکرٹری ہوتے ہیں اور کسی کو سمجھ نہیں آتی ، بلکہ سمجھ نہیں ہوتی کہ کرنا کیا ہے۔ مگر جناب اکٹوریما کو ’’کلی کلی جان دکھ سکھ تے ہزار وے‘‘ ہونے کے باوجود اپنے محکموں میں ہونے والی ہر چیز کی خبر ہوتی تھی۔ ہمارے وزیر تو بیچارے سارا دن ناجائز قبضہ کرنے والے گروپوں کے مسائل حل کرنے، ان کی اخلاقی، عملی اور ہر طرح کی مدد کرنے میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ان آلام سے چھوٹیں تو کوئی دوسرا کام کر پائیں۔ دوسرا ہمارے وزیروں کو تقریبات میں شرکت بھی بہت کرنا ہوتی ہے اور یہی فوٹوسیشن تو ان کے لئے باث عزت اور باعث برکت ہوتا ہے۔ بیچارے کیا کریں۔ عوامی رابطہ اسی طرح ہوتا ہے اور یہ رابطہ بہت ضروری ہے۔

جاپانی وزیر بھی کمال شخص تھے۔ انہوں نے بچے کا خط ملتے ہی پریس کانفرنس کی جس میں بچے سے اپیل کی وہ ایسا کام نہ کرے۔ اس پریس کانفرنس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ خط میں بچے نے نہ تو اپنا نام لکھا تھا اور نہ ہی اتا پتہ۔ پریس کانفرنس کے ساتھ ساتھ وہ علاقہ جہاں سے خط آیا تھا اس علاقے میں ایمرجنسی کی صورتحال نافذ ہو گئی۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں پر نظر رکھنے کی اپیل کی گئی۔ اساتذہ سے خصوصی طور پر کہا گیا کہ ان بچوں کی نشاندہی کریں اور ان کے والدین سے رابطہ کر کے ان پر پوری نظر رکھیں کہ پچھلے چند دنوں میں جن بچوں کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو ایسے بچوں کو سمجھائیں کہ آئندہ ان کا پورا خیال رکھا جائے گا اور کسی کو بھی ان سے پرتشدد مذاق کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ تھی اس مہذب معاشرے میں ایک ننھی سی جان کی قدر و قیمت کہ جس کی حفاظت کے لئے پوری انتظامیہ حرکت میں آئی۔ جاپانی شاید اسی لئے ایک ایسی زندہ قوم ہیں کہ معاشیات میں دنیا کے لیڈر کے طور پر مانے جاتے ہیں۔

کاش ہمارے اہل اقتدار بھی انسانی جان کو اتنا ہی قیمتی سمجھیں۔ انسان کو انسان سمجھ کر اس کے جذبات اور احساسات کا اندازہ کر پائیں تو ہر سال سیلاب اتنی تباہی نہ مچائیں۔ ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات نہ ہوں۔ کراچی میں روز ٹارگٹ کلنگ نہ ہو …… مگر شاید ایسے جذبات رکھنے کے لئے کسی بھی شخص کا خود کا پوری طرح انسان ہونا بھی بہت ضروری ہوتاہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441403 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More