ہمیں انصاف کیوں نہیں ملتا؟

ہماری عدالتوں میں نہ تو طوائفیں ناچتی ہیں اور نہ ہی ہمارے جج دلال ہیں۔۔۔پھر ہمیں انصاف کیوں نہیں ملتا۔۔۔؟؟؟ یہ کسی دانشور یا پڑھے لکھے شخص کے الفاظ نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک ان پڑھ اورگنوار شخص یعنی ہمارے آفس کے peon "اچھو" کے الفاظ ہیں۔جسے سن کر میں ایک دم اچھل پڑا تھا۔میں سوچ رہا تھا کہ اچھو کے کند ذہن میں یہ بات آئی کیسے۔۔۔؟ اسے کیا معلوم عدالتیں کیا ہوتی ہیں۔ ان عدالتوں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والوں کو کیا کہتے ہیں۔ اُسے تو صرف چائے بنانی آتی ہے۔ یا پھر بہانے بنانا۔ میں نے اسے مذکورہ بالا ڈائیلاگ دھرانے کو کہا تو اس نے مشینی انداز میں وہ ڈائیلاگ بول دیا۔ میں نے اچھو سے اس ڈائیلاگ کا مطلب پوچھا تو اس نے سوائے آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھنے کے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔یعنی وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اُس نے جو اتنی بڑی بات کی ہے اُس کا مطلب کیا ہے۔ میرے یہ پوچھنے پر کہ یہ بات یا یہ جملہ اُس نے کس سے سنا تھا۔ تو اس نے بتایا کہ یہ ایک فلمی ڈائیلاگ ہے۔اصل میں کل ہی اُس نے ایک فلم دیکھی تھی جس میں ایک بے گناہ ملزم جوکہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا جرم ثابت ہو جانے کے بعد یہ ڈائیلاگ بولتا ہے۔

اگر اچھو کے فلمی ڈائیلاگ کو ہی آگے بڑھایا جائے تو یہ بات سچ ہے کہ ہماری عدالتیں کوئی رنڈی خانہ نہیں ہیں۔ اور ان عدالتوں کے جج بھی ایمان دار اور فرض شناس ٹائپ کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہاں سے انصاف کیوں نہیں ملتا۔۔۔؟؟؟ لیکن میں اچھو کی اس بات پر اتفاق نہیں کرتا۔ کون کہتا ہے کہ ان عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔۔۔!!! جب کسی کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے تو وہ انصاف ہی کہلاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ فیصلہ جس کے خلاف آئے گااُس کے لیے یہ نا انصافی ہی ہو گی۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی فیصلے سے دونوں فریق خوش ہوجائیں۔کسی ایک کو تو ناراض ہونا ہی ہوتا ہے۔ہمارے ہاں انصاف کے تقاضے کیا ہیں ؟ یہ تو انصاف دینے والے ہی جانتے ہیں یا پھر وہ جن کو انصاف میسر آ جائے ۔ لیکن عام تاثر یہی ہے کہ یہاں انصاف بکتا ہے۔۔۔لوکر لو گل۔۔۔!!! بھلا اس میں بکنے والی کونسی بات ہے۔ انصاف کوئی بازار میں رکھی ہوئی شے تھوڑی ہے جسے پیسوں کے عوض خرید ا جا سکے۔ ایسا کسی اور ملک میں ہوتا ہو گا ۔ یہاں تو ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور گناہ بھی گناہِ کبیرہ۔

اچھو میری ٹیبل پر چائے رکھنے کے بعد میرے سامنے ہی بیٹھ گیا تھا۔ اُس کا پہلا سوال تھا کہ جس طرح ہم فلموں میں دیکھتے ہیں کہ عدالتیں لگی ہوتی ہے۔ دونوں طرف سے وکیل چیخ چیخ کر اپنے اپنے ملزموں کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر جج صاحب سب کو خاموش کروا کر اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ جس کے حق میں فیصلہ آتا ہے وہ خوش ہو جاتا ہے اور جس کو سزا سنا دی جا تی ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ جج صاب میں بے قصور ہوں۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔میرے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔ آج اچھو میری توقعات کے برعکس مجھ سے باتیں کر رہا تھا۔وہ پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود مجھ سے ایسے سوال کر رہا تھا کہ جیسے وہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہو۔وہ میرے ساتھ معاشرے میں ہونے والے ظلم اور ذیادتیوں کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہا تھا۔ اُسے یہ سب کچھ فلموں نے سکھایا تھا۔ وہ فلموں کا بے حس رسیا ہے۔ ہر نئی فل اُس کے لیے دو دن میں ہی پرانی ہو جاتی ہے۔ وہ جب تک کسی فلم کی کہانی کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتا تب تک وہ اُس کی جان نہیں چھوڑتا۔ چاہے اُسے وہ فلم ایک ہی دن میں دس دفعہ ہی کیوں نہ دیکھنی پڑے۔ وہ ظاہری دنیا کو بھی فلمی دنیا کی طرح ہی سمجھتا ہے۔ اُس کی نظر میں ہر ابتدا کی انتہا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ظلم کا ایک دن خاتمہ ہو کر رہے گا۔ جیسے فلموں میں The End ہوتا ہے۔

میں اُس کی باتوں میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ اور مزید اس انپڑھ اور گنوار شخص کر کریدنا چاہتا تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ وقت کے تیشے نے اُسے کس قدر تراش دیا ہے۔میں جسے جاہل سمجھ رہا تھا وہ مجھے کچھ سمجھا نے کی کوشش کررہا تھا۔پھر اُس نے مجھے ایک واقعہ سنایا۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ اُس کا ایک خالہ زاد بھائی ایک زمیندار کے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔ قتل بھی صرف اتنی سی بات پر کہ وہ گدھا ریڑھی پر جانوروں کے لیے چارا لے کر جا رہا تھا ۔ اس کے پیچھے زمیندار کا بیٹا اپنی نئی نویلی کرولا گاڑی پر آرہا تھا۔ اُس نے راستہ مانگنے کے لیے دو چار ہارن دیے لیکن اُسے راستہ نہ مل سکا۔ اسی بات پر وہ تیش میں آ گیا اور گاڑی سے باہر نکل کر اچھو کے کزن کو زدوکوب کرنے لگا۔ اسی دوران اُس کے کزن کا بھی ہاتھ اُٹھ گیا۔ بس پھر کیا تھا ۔۔۔ تین فائر اُس کے جسم کے پار ہو گئے تھے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا تھا کہ اُس نے تڑپ تڑپ کر جان دی تھی۔ تھا نے دار نے بھی پرچہ درج کرنے میں حیل وحجت سے کام لیا ۔ بڑی مشکل سے پرچہ کٹا ۔ چالان عدالت میں پیش ہوا ۔ دو چار پیشیوں میں کیس کا فیصلہ ہو گیا ۔ فیصلہ یہ تھا کہ زمیندار کا بیٹا بے قصور ہے۔ مقتول نے کسی عدوات کی وجہ سے زمیندار کے بیٹھے پر درانتی سے قاتلانہ حملہ کر دیا تھا۔ جبکہ ملزم نے اپنی جان بچانے کی خاطر اُس پر جوابی وار کیا تھا۔ جس سے اُس کی موت ہو گئی۔ زمیندار کا بیٹا باعزت بری ہو چکا تھا۔ اب وہ اپنی اُسی گاڑی پر گاؤں میں دندناتا پھر رہا ہے ۔۔۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے اچھو کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ اُس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔اُس نے ایک دفعہ پھر وہی ڈائیلاگ دھرایا " ہماری عدالتوں میں نہ تو طوائفیں ناچتی ہیں اور نہ ہی ہمارے جج دلال ہیں۔۔۔پھر ہمیں انصاف کیوں نہیں ملتا۔۔۔؟؟؟
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99115 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.