نور اعلیٰ نور - قسط ۱۳

’’آدھی رات ہے۔ کمرے میں مکمل تاریکی ہے۔ زاھب اپنے بستر پر سو رہا ہے۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک عورت چہرے پر گھونگھٹ گرائے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ اس کے زیورات کے شور سے کمرے میں چھن چھن کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ پھر وہ زاھب کے قریب آئی اور اس پر جھکی۔ اس کو غور سے دیکھا، اس کے ہونٹ اپنے دانتوں میں دبائے اور جھٹکے سے اوپر اٹھی۔ زاھب کے ہونٹ چِر کر اس کے منہ میں تھے۔ اس کے منہ سے خون ٹپک رہا تھا۔ وہ عورت زلکا تھی۔ زاھب کی اپنی بیوی……‘‘

’’آآآ……‘‘ ۔ زاھب چیخ کرنیند سے جاگ اٹھا۔ اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جیسے ابھی سینے سے باہر ہی نکل آئے گا۔

زلکا جو کہ باہر سو رہی تھی گھبرا کر اندر آئی۔ ’’کیا ہو‘‘۔ ’’کیا ہوا‘‘۔ وہ زاھب کے بستر پر بیٹھ کر پوچھنے لگی۔ مگر زاھب خاموشی سے اسے دیکھا جا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں بار بار اس زلکا کی شکل آ رہی تھی جس کے منہ میں زاھب کے ہونٹ تھے۔ جن سے خون ٹپک رہا تھا۔

اب ہرشب یوں ہی ہوتا رہا۔ زاھب کبھی زلکا کو کسی چڑیل کی شکل میں خواب میں دیکھتا تو کبھی کسی مکروہ خونخوار عورت کی شکل میں…… کبھی کبھار تو جاگتی آنکھوں اسے وہم ہونے لگتے کہ کوئی عورت گھر میں اس کی تاک لگائے بیٹھے ہے۔ پھر جب وہ اپنی بیوی زلکا کو دیکھتا تو خود با خود اس کا ذہن زلکا کے اندر اس عورت کو ڈھونڈنے لگتا۔ اب تو اس نے ہر وقت زلکا سے ڈرنا شروع کر دیا تھا۔ زلکا کہیں پیٹھ کئے کام کر رہی ہوتی۔ تو زاھب کو خوف لگا رہتا کہ ابھی یہ پلٹے گی اور ایک چڑیل کی شکل میں اس پر حملہ آور ہو جائے گی۔ اسے کہتے ہیں جادو جو سر چڑھ کر بولے۔

’’چلی جا یہاں سے…… چلی جا‘‘۔ زاھب بیمار پڑ گیا۔ اس کی تیمارداری کے لئے کوئی نہ تھا۔ زلکا کو تو وہ اپنے پاس پھٹکنے بھی نہ دیتا تھا۔
’’چڑیل …… آ آ آ ……‘‘ ہر وقت زاھب یہی صدائیں لگاتا رہتااور زلکا کا دل دکھاتا رہتا۔وہ بھی اب اپنے خاوند سے ڈرنے لگی تھی۔
……اور یہ سب کب تک چلتا،آخر کار زاھب نے زلکا کو گھر سے نکال دیا اور اس سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ایکطلاتم برپا تھا۔ سمندر میں طغیانی تھی۔ آج کالی گھٹاؤسے سارا فلک بھراہوا تھا۔ تیز تیز ہوائیں چل رہیں تھیں۔ سمندر کی لہریں پہاڑ جیسی ہو رہی تھیں۔
ابلیس کا دربار لگا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش بھی شروع ہو گئی۔
’’میں نے ایک شخص سے چوری کروائی‘‘۔
’’دوسرا ……‘‘۔ دوسرا شیطان سامنے آیا۔
’’ایک غلام ہے لیمان…… اس نے اپنے مالک کے ساتھ بے ایمانی کی‘‘۔
’’اگلا ……‘‘۔ ابلیس بیزارہوگیا۔
’’قاضی نے غلط فیصلہ دیا‘‘۔
’’اگلا……‘‘۔ وہ چیخا۔
’’میں نے زاھب اور زلکا میں جدائی ڈال دی‘‘۔ حکما نے عرض کیا۔
ابلیس کا چہرا خوشی سے پھول گیا۔ وہ بے اختیار اٹھ بیٹھا۔ موسلا دار بارش ہونے لگی۔
’’ہا ہا ہا……‘‘ ۔ اس نے خوشی سے قہقہہ مارا۔ اور اپنے تخت سے نزول کیا۔ بجلی چمکی۔
’’میرے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچ گئی‘‘۔ ابلیس نے حکما کو گلے لگا لیا۔
’’یہ لے ……مزے کر …… ‘‘۔ ابلیس نے اپنا تاج حکما کے سر پر رکھا۔
’’آج سے تو عزت دار ہے‘‘۔ ’’جا بیٹھ میرے تخت پر…… آج کا دن تیرا ‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’مجھے ہر رات ڈراؤنے خواب آتے ہیں‘‘۔ رجا نے سہم کر سامری سے کہا۔
’’کیسے خواب؟‘‘ ۔
’’ جیسے میری بیوی اور بچی مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ اور ایک آدمی ہے اونچا کالا، اس نے میری بیوی اور بچی کے گلے میں جانوروں کی طرح پٹا ڈالا ہوا ہے‘‘۔
’’قربانی دو!‘‘۔ سامری نے فٹ سے کہ ڈالا۔
رجا ایک پل کو ٹھٹک کر رہ گیا۔ یہ تو وہی بات تھی جو ہر پل رجا کے لاشعور میں چلتی رہتی تھی۔
’’ہاں ! خداؤں نے تمہارا کام کیا ہے…… بہت گھناؤنا کام……زلکا اب آزاد ہے…… ‘‘۔ ’’خداؤ ں کو قربانی چائیے‘‘۔
’’کس چیز کی قربانی؟‘‘ رجا نے چڑ کر کہا۔
’’تمہاری عزیز تر شے کی……‘‘۔
رجا کا دل دھڑکنے لگا۔ پچھلی بار بھی جب یہ ذکر ہوا تھا تو سامری نے یہی کہی تھا کہ عزیز ترین چیز کی قربانی دو اور اس نے ابراھیم (ع) کی مثال دی تھی۔ جنہوں نے اﷲ کی راہ میں اپنی اولاد اسمائیل (ع) کو قربان کرنے تک کی حامی بھر لی تھی۔ رجا کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا کہ کہیں اس سے بھی اس کی بیٹی کی قربانی تو نہیں مانگی جا رہی۔
’’تم نے سہی جانا……‘‘۔ ’’تم سے بھی خدا تمہاری بیٹی کی قربانی مانگتا ہے…… تاکہ تمہیں آزمائے……‘‘ سامری نے اس کا ذہن پڑھ لیا۔
’’کیا……‘‘۔
’’ میری اولاد کی قربانی!!!‘‘ ۔ رجا جیسے چیخ اٹھا۔ ہر باپ کی طرح اسے بھی اپنی اولاد بہت پیاری تھی۔
’’ہا ہا ہا…… ڈرتا کیوں ہے رے! کیا تیرے خدا سے بڑھ کر بھی تیرے لئے کچھ ہے؟؟؟‘‘
’’خدا ؤ ں نے تیرے لئے کیا کچھ نہیں کیا …… اب تیری باری ہے‘‘۔
’’مگر میری اولاد……‘‘۔ ’’میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں……‘‘۔ رجا کے چہرے پر خوف کے آثار نمودار ہو گئے۔
’’ یہ تو تجھے کرنا ہی پڑے گا!‘‘ سامری کا مکروہ چہرہ کسی شیطان کا سا لگ رہا تھا۔ وہ موٹی موٹی آنکھیں نکالے رجا سے یہ گھناؤنی باتیں کر رہا تھا۔
’’ابراھیم نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا …… تو تو کیوں اپنے خداؤں سے نا امید ہوتا ہے……‘‘۔ سامری نے اسے قائل کرنا شروع کیا۔
’’فکر نہ کر……تیرے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو گا جو ابراھیم کے ساتھ ہوا‘‘۔
’’اور عین ممکن ہے ……تجھے بھی پھر ابراھیم کی طرح سرداری مل جائے……‘‘۔ ’’یاد رکھنا ! دنیا کی ہر شے تیری مٹھی میں ہو گی‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔

کئی دن ایسے ہی گزر گئے۔ روز رات رجا کو ڈراؤنی خواب آتے جن میں وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو کسی چڑیل کے روپ میں اس کے سینے میں چھرے گھونپتے دیکھتا۔ کبھی وہ دیکھتا کے انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں۔ اور اس کے اوپر نیچے لکڑیاں رکھے وہ اسے زندہ جلا رہے ہیں۔ ہر ایک خواب میں وہ اپنی بیوی اور بیٹی کی گردن میں پٹا ڈلے دیکھتا جس کی لگام کسی اونچے کالے شخص نے تھام رکھی ہے۔

وہی اونچا کالا شخص حکما، پل پل رجا کے کان میں پھونکتا پھرتا، ’’قربان کر……قربانی دے ……اپنی اولاد کی قربانی‘‘۔ رجا بے زار ہو گیا اورایک دن اپنی بیٹی کو لے کر چل پڑا۔

سامری دوردراز پہاڑ کی چوٹی پر آگ جلائے رجا کا انتظار کر رہا تھا۔یہ آگ بہت اونچی تھی اور اس کا دائرہ بہت وسیع کہ باآسانی کوئی شخص اس میں جل مرے۔ وہ آگ کے گرد پھیرے لگاتا اور چھوم چھوم کر جاپ کرتا۔ اس کے عمل سے صاف ظاہر تھا کہ یہ وقت اس کے لئے اس کی زندگی کا بہت خاص وقت ہے۔ وہ اپنے ساتھ بہت سا سامان لایا تھا، کئی کپڑے، رسیاں، مسالحے، سوکھی لکڑیاں، خنجر، چھریاں وغیرہ۔

دور سے اسے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ آگ کے ایک طرف بیٹھ گیا اور اپنے منتر لگاتار پڑھنے لگا۔

رجا اپنی بیٹی کو لئے وہاں پہنچ گیا۔ وہ سامری کو دیکھ کر سہم گئی اور اپنے باپ کے ساتھ چمٹ گئی۔ رجا نے اسے وہیں بٹھا لیا اور سامری کے ساتھ بیٹھ کر منتر پڑھنے لگا۔ کافی دیر تک وہ منتر پڑھتے رہے ۔ اتنے میں رجا کی بیٹی سو چکی تھی۔ منتر ختم کر کے سامری اور رجا نے سوتے میں ہی اس کے ہاتھ پاؤ باندھے۔
’’بابا مجھے کیوں باندھ رہے ہو؟‘‘ وہ اٹھ گئی۔
’’بابا!‘‘۔ وہ رونے لگی۔ سامری نے یک دم اس کے چہرے پر ایک کپڑا ڈال دیا اور اس کے منہ میں بھی ایک کپڑا ٹھونس دیاتا کہ کوئی آواز نہ آئے۔ اب رجا کی بیٹی بالکل بے سدھ پڑی تھی۔ بس رسیوں میں جکڑی تھوڑی تھوڑی حرکت کرتی پھر سپاٹ پڑ جاتی۔
رجا اور سامری نے پھر منتر شروع کیا۔ وہ دونوں دیوانوں کی طرح آگ کے گرد پھیرے لگاتے اور چھوم چھوم کر شیطان کو پکارتے۔ رجا کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ وہ کبھی ایک ٹانگ پر ناچتا کبھی گول گول گھومتا کبھی چلانگیں لگاتا……
’’قربانی دے……قربانی دے……‘‘
قربانی دے……قربانی دے……‘‘
قربانی دے……قربانی دے……‘‘
قربانی دے……قربانی دے……‘‘
رجا نے چھرا اٹھایا اور اپنی بچی کے سینے میں پے در پے وار کرنے لگا۔ سامری نے بھی وار کرنے شروع کئے۔
ایک معصوم جان رسیوں میں بندھی پڑی تھی اور دو شیطان ہاتھوں میں خنجر لئے اس کے سینے میں بار بار گھونپ رہے تھے۔ خون کے فوارے اڑ اڑ کر رجا اور سامری پر پڑ رہے تھے ۔ انہوں نے اپنے منہ پر پڑا خون چاٹنا شروع کر دیا۔ رجا نے اپنی مردہ بیٹی کی ٹانگیں پکڑیں اور اسے اٹھا کر پٹخنا شروع کر دیا۔ پھر اچانک اس نے اسے جلتی آگ میں پھینک دیا اور خود بھی دیوانہ وار اس میں کود پڑا۔ رجا جھلسنے لگا۔ وہ جلتا ہوا آگ سے باہر نکلا…… وہ بے قابو ہو چکا تھا ۔ اس نے بھاگ کر پہاڑ کے ایک کونے سے نیچے کھائی میں چھلانگ لگا دی۔

نہ کوئی مینڈھا آیا …… اور نہ اس کے شیطانوں کی کوئی اور مدد…… سب برباد ہو گیا۔

شیطان حکما نے سامری سے وہ عملیات لے لئے جو وہ ہاروت اور ماروت سے سیکھ آیا تھا۔ اس علم کا اس نے شیاطین میں خوب چرچا کیا۔ اور ہر سرکش شیطان کویہ جا پڑھایا۔ اسی طرح سامری نے بھی سلیمان ؑکا نام لے کر یہ علم بابل کے ہر کونے میں پھیلا دیا۔
’’ آج تک نسل در نسل انسان اور جنات جادوگر یہ علم اپنے شاگردوں میں منتقل کرتے چلے آ رہے ہیں‘‘۔
’’ ……اور میں حکما کی دوسری پیڑی ہوں جس تک یہ علم پہنچا‘‘۔ بلشا نے بات ختم کی اور سر جھکا دیا۔
داداجان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ انہوں نے بلشا کی زبانی ساری روداد سن لی۔

’’تو اب کیسے تمہارے عمل نے کام کرنا چھوڑ دیا؟؟؟‘‘ دادا جان نے بلشا سے پوچھا جو اب اطمینان سے ان کے اور انکے شاگردوں کے بیچ بیٹھا تھا۔
’’ذولفقار……‘‘۔ بلشا نے اپنا حالیہ انجام بھی انکے گوش گزار کر دیاکہ کس طرح وہ ذولفقار پر جادو کرنے جایا کرتا تھا اور آخر کار اس کے ساتھ کیا ہوا ……اور یہ بھی بتا دیا کہ ذولفقار کی چچی نے ان پر یہ جادو کرایا تھا ۔ جس کی وجہ ان کی انکی چچی کی بے عزتی کرنا اور ان سے ذولفقار کا رشتہ نہ ہونا تھی۔

داد جان کچھ دیرکسی سوچ میں گم ہو گئے، پھر بولے، ’’نیکی اور بدی کی کیسی گھناؤنی جنگ اس دنیا میں چل رہی ہے اورعام لوگ کتنے بے خبر ہیں……‘‘
’’جس شخص کی تم بات کر رہے ہو …… شاید میں اسے جانتا ہوں‘‘۔ ذولفقار اپنے خوفناک خوابوں کا ذکرتو دادا جی سے کر ہی چکا تھا۔ بلشا کی زبانی ذولفقار کا اور اس کے گھر والوں کا نام سن کر انہیں پتا چل گیا تھا کہ اس کہانی میں وہی شاملہے۔

’’ تو اب تم ایمان لے آئے ہو……؟؟؟‘‘ داد جان کی آنکھوں میں نمی سی آ گئی۔
’’ہونھہ…… اب بھی نہ لاتا تو کب لاتا……‘‘۔ بلشا نے اپنے آپ پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کیسے معصیت بھری زندگی گزاری ہے اور اس کا کیا انجام ہوا۔
’’ مگر میں جانتا ہوں …… اب سب ختم ہونے والا ہے…… وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے……وہ مجھے پکڑ لیں گے……‘‘۔’’ اشہد الا الہ الا اﷲ ……‘‘۔ بلشا نے کلمہ شہادت پڑھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

بلشا کو داروغہ شیاطین زنجیروں میں جکڑ کر لا رہے تھے۔ بلشا جان چکا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ لاپرواہی سے گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا تھا۔چاروں طرف دور دور تک شیاطین اس کے عبرت ناک انجام کا تماشہ دیکھنے کو بیقرار تھے۔یوں لگتا تھا جیسے قیامت کا منظر ہو۔

آخر کو وہ ابلیس کے سامنے پیش ہواجس کے دائیں جانب ایک آگ کا کنواں دہک رہا تھا۔ یہی ان کی سب سے اذیت ناک سزا تھی۔ جو بھی ان سے غداری کرتایا کوئی اور ناقابلِ معافی خطا کرتا جیسی بلشا نے کی تھی ، اسے ایسے ہی آگ کے کنویں پر لٹکا دیا جاتا …… جہاں وہ آہستہ آہستہ جل جل کے مر جاتا۔
’’تو ایمان لے آیا اس سے بیشتر کہ میں تجھے اجازت دیتا؟؟؟‘‘ وہی غرور جو آدم کی پیدائش کے وقت اس میں بھرا تھا ، اب بھی ابلیس کے لہجے سے ٹپک رہا تھا۔
’’اپنا انجام توتو خود خوب جانتا ہی ہے…… دیکھ رہا ہے نا یہ دہکتا کنواں……‘‘۔ آگ کے کنویں سے شعلے لپک رہے تھے۔ اتنے اونچے شعلے کہ آسمان سے باتیں کرتے۔ ساتھ ساتھ عجیب بھیانک آوازیں بھی گونجتی اور سب کے دل دھڑک جاتے۔
’’ تو توُ خود ہی بول چُک تیرے ساتھ کیا کیا جائے……؟؟؟‘‘
بلشا نے آہستہ سے اپنی نظریں اٹھائیں اور بے نیازی سے ابلیس کی طرف دیکھا۔یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر شہ سے بیگانہ سا ہو چکا ہے۔ جیسے وہ کسی نشے میں دھت ہے۔
’’ہاں تو بول! میں تیرے جواب کا منتظر ہوں!!!‘‘ جو بلشا کی نشیلی آنکھیں ابلیس سے ملیں تو اس نے اپنی بات دہرائی۔
’’ہونھ……‘‘ بلشا کے منہ سے نکلا۔
’’تجھ سے جو بن پڑے کر دیکھ……‘‘۔ ’’جو حقیقت میں نے پا لی ہے، اب میں اس سے پھرنے والا نہیں……‘‘۔
’’…… اور تو نے مجھ میں برائی ہی کیا دیکھی ہے……‘‘ ۔ بلشا ہنستے ہوئے رونے لگا۔ یہ کوئی عجیب کیفیت تھی۔ ’’ تو نے مجھ میں برائی ہی کیادیکھی ہے……ما سوائے اس کے کہ جب مجھ پر حق آشکار ہو گیا تو میں نے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا……‘‘
’’اب میں خدائے یکتا کہ سوا کسی سے ڈرنے والا نہیں……!!!‘‘
’’پھینک دو اسے آگ کے کنویں میں کہ سسک سسک کر مر جائے……‘‘ ابلیس چنگھاڑا۔
’’ اے اﷲ! مجھ پر صبر کی پنڈالیں انڈیل دے……تو ہی میرا خدا ہے سو میری مدد کو آ……مجھے ان ظالموں کا تختہ مشق بننے سے بچا لے‘‘۔ بلشا آسمان کی طر ف ہاتھ اٹھا کر پکارا۔

اسی لمحے ازرائیل(ع )فرشتوں کا لشکر لئے نازل ہوئے اور بلشا کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ان ظالموں نے ایک بے جان جسد کے سوا کچھ بھی آگ میں نہ ڈالا۔
۔۔۔۔۔۔۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78598 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More