دوراندیشی کا نام ہی سیاست ہے !

جوڈیشل کمیشن اپنی تحقیقات مکمل کر چکا ہے اورجوڈیشل انکوائری رپورٹ بھی لیک ہو چکی ہے ،جس میں قرار دیا گیا ہے کہ 2013 کے انتخابات مکمل طور پر شفاف اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق تھے اوریہ کہ کسی قسم کی منظم دھاندلی نہیں ہوئی ہاں مگر!بے قاعدگیاں ضرور ہو ئی ہیں جس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے۔ جب یہ کمیشن قائم ہوا تھاتو ہم نے تو پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوگی ،بے قاعدگیاں ہی ثابت ہونگی اور عمران خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ تھیلوں کی جان چھوڑ دیں کیونکہ اس میں سوا ئے بلی کے کچھ نہیں نکلے گا ،مگر ان کے حلیف بھی کمال دانشور ثابت ہوئے ہیں خود تو سیاست میں وہ کبھی عوامی لیڈر بن کر ابھر نہیں سکے تھے اور تمام عمر مفادات کے لیے وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے گزار دی ۔اب جب پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن بن کر ابھری تو ان کی گود میں جا کر بیٹھ گئے اورغلط مشاورت سے عمران خان کواس مقام پر پہنچا دیا کہ
زمین پر چل نہ سکا آسماں سے بھی گیا
کٹے جو پر تو پرندہ اڑان سے بھی گیا
کسی کے ہاتھ سے نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
ہدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا

ایسے موقع پرست اور شکست خوردہ افراد کو شامل کرنا ہی غیر دانشمندانہ فیصلہ تھامذید برآں ان کے بے سرو پا مشوروں پر انتشار و اشتعال کو عام کرناگویا کہ اپنے وقار کو کم کرنے کے مترادف تھا ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کوئی ذاتی وسیع سیاسی تجربہ نہ رکھنے کی وجہ سے پے در پے غلط فیصلے کرتے چلے گئے ،ان کے چاہنے والے شور مچاتے رہے ،مگر وہ ہر ادارے اور ہر اس شخصیت کو اپنا ہدف بناتے چلے گئے جو ان سے اختلاف رکھتا تھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج اکثر یہ کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب کو سیاست نہیں آتی جبکہ دوسری طرف اس فیصلے سے (ن) لیگ کے تن میں ایسی جان آگئی ہے کہ کل سے ہر طرف شیر ہی دھاڑتا ہوا نظر آرہا ہے،بلاشبہ یہ جشن (ن) لیگ کا استحقاق تھا کہ انھوں نے ایک سال اپنے خلاف صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر در پردہ سیاسی جماعتوں کی ہرزہ سرائی کو برداشت کیا تھا ،سر بازار پگڑیاں اچھالی گئیں ،سٹریٹ پاور کے ذریعے انتشار ودھرنا سیاست کو فروغ دیا گیا ،پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پاکستان تماشا بن کر رہ گیاصرف ایسا نہیں کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ہی غیر شائستہ زبان استعمال کی گئی بلکہ بعض حکومتی وزراء نے بھی جہاں ضرورت پیش آئی غیر مہذبانہ بیانات کے گولے داغنے سے پرہیز نہیں کیا ،مگر پی ٹی آئی اس کردار کشی میں پیش پیش رہی ۔اس رپورٹ کے چند گھنٹوں بعدہی وزیراعظم،میاں نواز شریف نے قوم کے سامنے اس رپورٹ کے مندرجات رکھے اور اپنی جیت کا اعلان کچھ یوں کیا کہ کمیشن نے منصفانہ فیصلہ دے دیا ہے قوم کا وقت ضائع کرنے والے سبق سیکھیں اﷲ پاک نے ہمیں سر خرو کر دیا ہے ،رپورٹ نے ہمارے عوامی مینڈیٹ کی تو ثیق کر دی ہے ،منصفانہ اور بے داغ الیکشن کو متنازعہ بنا کر پاکستان کو پوری دنیا کے سامنے رسو ا کرنا تاریخ کا افسوسناک باب ہے جسے آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا ،امید ہے الزام لگانے والے منفی سیاست سے پرہیز کریں گے ۔انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا کہ وہ ہر قسم کی انتخابی اصلاحات کے لیے تیار ہیں ۔جبکہ تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان نے فوری ردعمل کے طور پر اس فیصلے کو مان لیا مگر اپنابا ضابطہ ردعمل رپورٹ دیکھنے کے بعد دینے کا اعلان کیا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 2013 کے انتخابات میں عمران خان ایک مقبول لیڈر اور تحریک انصاف ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ،عمران خان ایسے بڑے لیڈر بن کر ابھرے تھے جس کا خواب سبھی سیاستدان دیکھتے ہیں مگر اس مقام پر نہیں پہنچ پاتے ،ایسی مقبولیت اور محبت ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل تھی جس کا فائدہ تاحال پی پی اٹھا رہی ہے ۔عمران خان نے اپنی اس مقبولیت کے سبب خیبر پختونخواہ میں حکومت حاصل کر لی مگر وہ یہ بھول گئے کہ (ن) لیگ بھی دلفریب اور دلکش وعدوں کے ساتھ انتخابات میں شامل تھی اور عوام ہمیشہ کی طرح ان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ایسا ہی ہوا کہ حالیہ انتخابات (ن) لیگ بھاری مینڈیٹ سے جیت گئی اور اقتدار کے ایوانوں کی حقدار ٹھہری ۔مسئلہ دھاندلی زدہ الیکشن ہیں ،دھاندلی تو ہوتی ہے ہر جگہ ہوتی ہے، ہوتی رہی ہے اور یہاں بھی ہوئی، اس کا اقرار تمام سیاسی قائدین نے اپنے بیانات میں بھی کیا ۔مگر سارے الیکشن کو متنازعہ نہیں قرار دیا جا سکتا تھا مگر یہ کہا گیا کہ تحریک انصاف کو منظم دھاندلی کے ذریعے شکست سے دوچار کیا گیا ہے جبکہ وزارت عظمی کے اصل حقدار عمران خان ہیں ۔یہ مبینہ الزام بھی لگایا گیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری، سابق جسٹس سپریم کورٹ خلیل رمدے،پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی ،اور خفیہ اداروں کا ایک افسر اس سازش کے بنیادی کردار تھے جنہوں نے عمران خان کو شکست سے دوچار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ،یہ الزامات تاحال غلط ثابت ہو چکے ہیں اور عمران خان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قوم کا وقت ضائع کرنے پر قوم سے معافی مانگیں اور ان قابل قدر صاحبان سے بھی معافی مانگیں اور منفی سیاست کو چھوڑ کر خیبر پختونخواہ میں خود کو ثابت کریں ۔ہمارے اکثر دانشواران یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے اس ڈرامے کو استحکام دینے کے لیے ظاہری اور خفیہ ہاتھوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا اور وہ ہی ان کی اس حالت کے ذمہ دار ہیں ۔

گو کہ تحریک انصاف اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہی تھی مگر اب جبکہ یہ فیصلہ آ چکا ہے تو عمران خان کو چاہیئے اس فیصلے کے سامنے مکمل طورپر سر تسلیم خم کریں اور کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے پرہیز کریں ،خاموش رہ کر کام کریں اور عوام میں ان کا وقار جو کم ہو رہا ہے اسے بحال کریں ،کیونکہ ہواؤں کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی اگر آپ حق دار ہیں تووقت فیصلہ کر دے گا ۔اور رہی بات (ن) لیگ کی جیت کی تواﷲ پاک جیت آزمائش کے طور پر بھی دیتا ہے ایسے میں زیادہ عجز و انکساری دکھانی چاہییے تاکہ وہ خوش ہو اور پہلے سے زیادہ نوازے ۔اب (ن) لیگ کو چاہیئے کہ وہ ذمہ داریوں اور عہدوں کو ایسے پرخلوص اور اہل لوگوں میں بانٹے جو ملک و ملت سے وفادار ہوں۔ ویسے بھی اگر یہ ثابت ہو رہا ہے کہ عوام نے آپ پر اعتبار کیا تھا تو یہ بتائیں کہ ابتک عوام کے لیے میٹرو منصوبوں کے سوا کیا کیا ہے ؟ جبکہ آپ کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا کہ (۱)ملک میں آزاد عدلیہ کا قیام یقینی بنایا جائے گا جس سے بر وقت انصاف سے لیکر جزا و سزا اور داد رسی کے نظام کو فعال بنا دیا جائے گا اور جس سے پاکستان کے شہریوں کے شہری اور بنیادی حقوق محفوظ ہو جائیں گے( ۲)ملک میں روزگار کے مواقع بڑھائے جا ئیں گے ‘جس سے بے روزگاری ختم ہوگی اور جس کے نتیجے میں چوری ،ڈکیتی ،راہزنی ،اغوا برائے تاوان ،دھوکہ ،فریب ،فراڈ جیسے جرائم کا قلع قمع ہو جائے گا ۔(۳)ہر بچے کے لیے تعلیم لازمی ہوگی ‘مفت تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی ‘تعلیمی اداروں میں داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہونگے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ہر طرح سے معاشی تحفظ دیا جائے گا ۔(۴)محکمہ صحت کو فعال بنایا جائے گا تاکہ صحت عامہ اور حفظان صحت کے معاملات کو مثبت طور پر شہریوں کے لیے مفید بنایا جا سکے ‘جس میں مستحقین کے علاج معالجے کی سہولتیں مفت اور یقینی بنائی جائیں گی ۔(۵)ملک سے لوڈ شیڈنگ کو 5/6 ماہ میں ختم کر دیا جائے گا ۔(۶)ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے گا ۔(۷)ملک میں آزادی ء رائے اور شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو مکمل طور پر آزاد رکھا جائے گا ۔(۸)بیرونی ممالک سے حاصل کردہ امدادپر پاکستانی معیشت کا انحصار ختم کر دیا جائے گا کہ آئیندہ سے نہ صرف یہ کہ ملک کو قرضے کی لعنت سے بچایا جائے گا بلکہ ایک غیرت مند قوم کے طور پر دنیا میں رہنے کے لیے’’ کشکول‘‘ کو ہی توڑ دیا جائے گا ۔(۹)پاکستان کی مسلح افواج اور سکیورٹی ایجنسیسز کے وقار اور عظمت کو عدلیہ کے وقار اور عظمت کی طرح سر بلند رکھا جائے گا ۔(۱۰)ملک میں حکومت کے قیام کے ساتھ ہی بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں گے اور اقتدار نچلی سطح تک منتقل کیا جائے گا تاکہ عوام کے قریب ترین رہنے والے ان کے نمائندے ‘ان کے مسائل کا فوری حل کر سکیں ‘اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے بلند و بانگ دعوے کئے گئے ۔اگر کمال غیر جانبداری سے ان سب کا احاطہ کریں تو ان میں سے فی الفور کوئی ایک بھی ابھی تک حقیقی طور پر پورا نہیں کیا گیا ،اس لیے عرض ہے کہ جشن مت منائیں یہ سوچیں کہ ہر طرف سیلاب ہی سیلاب ہے ،افلاس کا ،بیروزگاری کا ،پانی کا ،لا قانونیت کا ،انتشار کا ،نفرتوں کا ،اموات کا ،دہشت گردی کا اور فرقہ واریت کا، پھر کیسی جیت اور جمہوریت کے تسلسل کو کیسی مبارکباد ؟ہم سے تو منافقت نہ ہوگی !خدارا یہ سیاست چھوڑ دیں اور ہر کوئی مخلص اور ملک و ملت کا وفا دار بن کر ملک کے وقار ،ناموس ،ترقی اور خوشحالی کے لیے محنت کریں کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور یہ نوشتہ دیوار ہے کہ سیاست دوراندیشی کا ہی نام ہے ۔
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 89933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.