کل نفس ذائقتہ الموت ۔

"ارے یار سنتے ہو ۔ میں نے سنا کہ کل ہی ہمارے پڑوس میں رہنے والے ثاقب کا تیز رفتاری کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہوا ۔ اب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ۔ ہا ہا ہا " بات کے آخر میں بلند ہونے والا قہقہہ مجھے الجھن زدہ کر گیا ۔

میں مغسلتہ الملابس (لانڈری) میں اپنے دو سوٹ واپس لینے آیا تھا ۔ پچھلے ہفتے ہی دھلنے کے لیے دیے تھے ۔ دفعتاً ایک جواں سالہ لڑکا لانڈری میں داخل ہوا اور کاؤنٹر پہ بازو ٹکا کے دوسرے ہاتھ سے سیگریٹ کا کش لے کر ہوا میں دھواں بکھیرتے ہوئے لانڈری والے سے مخاطب ہوا ۔ شاید وہ اس سے قریبی تعلق رکھتا تھا اس لیے لانڈری والا مجھے چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو گیا ۔

"اوہ ! اللہ خیر کرے ۔ تم بھی خطرناک رفتار سے گاڑی چلاتے ہو ۔ خیال رکھا کرو"

"ایک تو مجھے پہلے بھی بہت ہنسی آ رہی ہے ۔ اب تم نے ایک اور چٹکلہ چھوڑ دیا ۔ ارے اسے خود پہ بھروسہ نہیں تھا تو شو مارنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اب بھگتے خود ۔ میری مہارت کا تو تمھیں پتا ہی ہے ۔ میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ یاد ہے تمھیں جب ایک بار میں نے بڑا خطرناک اوور ٹیک اتنی آسانی سے لے لیا تھا کہ .... "

اس نے اپنی مہارت کے قصے شروع کر دیے اور میں نے بوریت کے ہاتھوں لانڈری کے شیشے سے بنے دروازوں کے پیچھے کے مناظر پر نظر دوڑائی ۔

یہ لانڈری مین روڈ پر واقع تھی ۔ مختلف رنگوں اور اقسام کی گاڑیوں کا رواں دواں منظر مجھے لطف دینے لگا ۔

میں اپنی ہی دنیا میں مگن تھا کہ دفعتاً میری سماعتوں سے اس لڑکے کا اک دل دہلا دینے والا جملہ ٹکرایا "یار ! بس اسے گاڑی چلانا نہیں آتا ۔ ورنہ میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ میں موت کو چیلنج کرتا ہوں ۔ کہ میری مہارت سے جیت کر دکھائے ۔ ہا ہا ہا " اس نے کہا اور قہقہے لگاتا ہوا لانڈری سے نکل گیا ۔ لانڈری والے نے افسوس سے سر ہلایا اور میری طرف متوجہ ہوا ۔

میرے من میں اک لرزہ خیز احساس جاگا ۔ مجھے لگا کچھ بہت غلط ہوا یا ہونے والا ہے ۔ پھر خود کو سرزنش کرتے ہوئے اسے اپنا وہم سمجھ کر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا ۔

جیب سے بل کی ادائیگی کے لیے رقم نکالتے ہوئے ایک پل کے لیے ایسا لگا جیسے ساری دنیا تھم سی گئی ہو , اس آواز نے مجھے منجمد کر دیا تھا ۔ لانڈری میں چلنے والی کپڑے دھونے اور سکھانے والی مختلف مشینوں کی گررر گررر کی آوازوں کا صور اسرافیل نے گلا گھونٹ دیا تھا ۔ وہ دو گاڑیوں کے تصادم کی آواز تھی ۔

میں بھاگ کر حادثے کی جگہ پہ پہنچا ۔ میرا لاشعور دعائیں مانگ رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہونے والا وہی نادان لڑکا نہ ہو ۔

مگر تقدیر بازی لے گئی اور میں دعا مانگنے میں ذرا سا لیٹ ہو گیا ۔ وہ خون میں لت پت روڈ کے عین وسط میں اوندھے منہ پڑا تھا ۔ ہاں وہی ہوا ! موت نے اس کا چیلنج قبول کر لیا تھا ۔

مجھ میں وہاں رک کر یہ دیکھنے کی ہمت نہ تھی کہ اس چیلنج میں جیت کس کی ہوئی ۔ حالانکہ نتیجہ واضح ہی تھا ۔ پھر بھی میں تخمین و ظن کا سہارا لے کر خود کو جھوٹی تسلیاں دینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔

"اجل ہی نے چھوڑا نہ کسری نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر ایک لے کے کیا کیا نہ حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یونہی ٹھاٹھ سارا

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے"
nosheen fatima abdulhaqq
About the Author: nosheen fatima abdulhaqq Read More Articles by nosheen fatima abdulhaqq: 4 Articles with 2515 views میرے شاعری پر مشتمل صفحے میں ایک نظم بعنوان "کبھی جو ہم فراغت میں " موجود ہے ۔ اس سے پہلے کی تمام کاوشیں بےکار سمجھی جائیں ۔ کیونکہ وہ عروض سے آشنائی .. View More