خفیہ پاکستان

ذرائع ابلاغ کے کردار کا کسی بھی ملک کی داخلی یا خارجہ پالیسی پر مکمل اثر انداز ہونا کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستانی میڈیا بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی رپورٹ کو من و عن درست تسلیم کرکے اپنی صفوں میں نمایاں جگہ فراہم کرنے لگاہے اور اس خبر کے اغراض و مقاصد کو جانچے بغیر اس پر یکطرفہ تبصرہ بھی شروع کردیتا ہے۔برطانیہ و امریکہ کے نشریاتی اداروں کی رپورٹس پر آج کل پاکستانی میڈیا شدید جوش و خروش کا شکار نظر آتا ہے ۔خبر کی تصدیق یا اس کے اثرات و مضمرات پر سوچے بغیر عمل پیرا ہونے کی روش نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو اپنی پیشہ ورانہ ذمے ادریوں سے اغراض کی جانب راغب کیا ہوا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں تحقیقاتی صحافت کی کمی پائی جاتی ہے اور تفتیشی صحافت کے شعبے کی جانب رجو ع کم ہونے کی وجہ معاوضوں میں کمی ، جان کو خطرات اور میڈیا ہاوسز کی جانب سے مراعات و معاونت و تحفظ کی کمی کے اسباب بھی سمجھے جاتے ہیں ۔جبکہ مغرب میں اس کے بلکل برعکس ہے ، فری لانس جرنلسٹ اپنی رپورٹنگ کو تہلکہ خیز بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں اور کسی بھی قسم کا اثر رسوخ اورمختلف ذرائع استعمال کرنے سے نہیں چوکتے جس بنا پر عالمی نشریاتی ادارے ایسی خبروں کو ترجیح دیتے ہیں جس میں سنسنی ، تہلکہ اور تفتیشی مواد اس قدر ہو کہ فوری پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلے ۔توہین آمیز خاکوں اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈوں کے اغراض و مقاصد کا بین نقطہ بھی یہی ہوتا ہے کہ جس رسالے یا اخبار کی اشاعت چند سو کی نہیں ہوتی ، وہ اپنے دشنامی پالیسی کے سبب لاکھوں کی اشاعت تک پہنچ جاتا ہے اور ایک رات میں ہی پوری دنیا میں ایک روپیہ خرچ کئے بغیر مشہور ہوجاتا ہے۔ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں جس میں کئی مصنفین اور اشاعتی اداروں نے منفی رویئے اختیار کرکے عالمی شہرت حاصل کی۔
کچھ ایسی قسم کی صورتحال پاکستان کے ساتھ بھی ترجیحاََ رکھی جاتی ہے ، کیونکہ پاکستان دہشت گردی و شدت پسندی کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک خاص حوالے سے پہچان رکھتا ہے اور پاکستانی پالیسیوں اور عوامل کو دنیا بھر میں نہایت باریکی سے دیکھا جاتا ہے اس لئے پاکستان مخالف لابی کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی جس میں پاکستان کو سبکی یا جگ ہنسائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ابھی تکمختلف چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے۔خاص طور پر پاکستان کی عسکری قوت اور خفیہ اداروں خاص کر آئی ایس آئی کے خلاف منظم پروپیگنڈا اور ملک دشمن خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ملکی معاملات میں مداخلت کے لئے وطن فروشوں کا استعمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو ہمیشہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور خاص طور پر آئی ایس آئی اور دیگر حساس اداروں و ایجنسیوں کی استعداد کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی سازش پاکستان کے خلاف پہلی بار نہیں ہوئی ہے بلکہ عالمی مغربی استعماری قوتوں نے کوئی موقع ایسا ہاتھ سے نہیں جانے دیا جب عسکری قوت اپنے مربوط پروگرام کے تحت کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہو۔ہمارے سامنے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔

پیولٹزر انعام یافتہ ادیب سیمور ہرش نے گذشتہ دنوں ایبٹ آباد آپریشن میں پاکستانی عسکری قوتوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے لکھا کہ اسامہ بن لادن 2006سے پاکستانی کنڑول میں تھے اور انھیں سعودی عرب کی مالی مدد سے ایبٹ آباد میں رکھا گیا تھا۔وائٹ ہاوس نے بھی اس کی سختی سے تردید کی اور ایسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا لیکن ہرش لنڈن ریویو آف بکس میں لکھتے ہیں کہ"ایسا لگتا ہے کہ جیسے وائٹ ہاوس کی پیش کردہ کہانی لیوس کیرل (’ ایکس ان داونڈر لینڈ ‘کے خالق)نے لکھی ہو۔ہم نے دیکھا کہ راتوں رات یہ مضمون جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلا اور اسامہ بن لادن کے حوالے سے پاکستانی عسکری قوتوں کو نشانہ بنانے کی مذموم سازشوں کا ایک بار پھر آغاز ہوا۔یہ مضمون اس قدر مقبول ہوا کہ لنڈن ریویو آف بکس کی ویب سائٹ ہی بیٹھ گئی۔

اسی طرح برطانوی نشریاتی ادارے نے10جون2010ء ؁ کو "ڈبل کراس خفیہ پاکستان"کے نام سے ایک دستاویزی فلم دکھائی تھی جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ پاکستان طالبان کو تربیت فراہم کرکے افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔اپنی رپورٹ میں برطانوی نشریاتی ادارے نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی مبینہ خودکش بمبار کو آئی ایس آئی نے بھرتی کیا اور ان کی تربیت کی۔امریکی سی آئی اے کے اس موقف کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی گئی کہ 2008نومبر میں ممبئی حملوں میں آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ پر پاکستانی فوج کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا کہ یہ یک طرفہ اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔اس قسم کا پروپیگنڈا یہی برطانوی نشریاتی ادارے دوسری جنگ عظیم کے آخری برسوں 1943-45ء میں بھی ادا کرتا رہا اور ان ایام میں "آزاد جرمن نشریاتی ادارے"کے نام سے اس برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی تمام نشریات کا رخ جرمنی اور یورپ میں جرمن زبان بولنے اور سمجھنے والوں کی طرف موڑ دیا تھا ۔"ریڈیو فری جرمنی"اتحادیوں کے مظالم کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتا کہ عوام میں اس کے اعتماد و ساکھ میں اضافہ ہوا اور آہستہ آہستہ اس کی ہر خبر پر یقین کئے جانے لگا ۔ اس چینل نے ہٹلر کو بطور ہیرو پیش کیا اور ہٹلر کی درجنوں تقاریر اس برطانوی نشریاتی ادارے پر نشر ہونے لگیں۔ Boomerangنامی ایک کتاب میں اس برطانوی نشریاتی ادارے کا تمام کچا چھٹا کھل کر بیان کیا گیا ہے، جرمن دوست اور بہ باطن دشمن ریڈیو نے جو کردار ادا کیا اس کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔

میمو گیٹ اسکینڈل میں امریکی شہری منصور اعجاز کی اسٹوری کو جس طرح مغربی ذرائع ابلاغ نے اچھالا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، یہ اسٹوری ایک اسیکنڈل کی صورت میں امریکی بڑے اخبار میں کچھ اس طرح شائع ہوئی کہ جیسے اس کا مقصد پاکستان کی ہائی کمان کے اثر رسوخ کو کمزور کرنے اور پاکستانی فوج کو کمزور ثابت کرنا تھا لیکن اس انگریزی اخبار میں شائع اس آرٹیکل سے حقانیت جتانے والوں کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہو گئی۔یہاں بھی ہم دیکھیں تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ جیسے پاکستان کی ہمدردی میں یہ آڑٹیکل شائع کرایا گیا تاکہ پاک فوج پر دباؤ ڈلوایا جاسکے۔اسی طرح عالمی این جی اوز کے ذریعے پاکستانی افواج کے خلاف رپورٹنگ شائع کرنے میں برطانوی نشریاتی ادارے سمیت مغربی ذرائع ابلاغ پیش پیش رہے ہیں ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا قبائلی علاقوں کے معاملات میں جس طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت مغربی ذرائع ابلاغ نے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا و مذموم سازشیں کی اور پاکستانی فوج نے جس طرح اس کی تردید کی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے سقو ط ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن کی جس طرح کھل کر حمایت کی اور پاکستانی دو قومی نظریئے کو سبوتاژ کیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ آج بھی شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کی آزادی کا ہیرو قرار دیتا ہے حالیہ برطانوی نشریاتی ادارے کیجانب سے بھارت کی جانب سے سینکڑوں افراد کو تربیت دینے کے حوالے سے ایک ایسی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کے زیادہ تر ماخذ پاکستانی ذرائع سے لئے گئے جبکہ مفروضوں میں ثبوتوں کی فراہمی کیلئے برٹش ذرائع کی کسی رپورٹ کو شائع نہیں کیا گیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی پاکستانی کی کسی سیاسی لسانی جماعت کے ساتھ عناد کسی بھی بنیاد ہو ، اس بات سے قطع نظر اس رپورٹ کے دوسرے پس منظر کو دیکھا جائے تو سنگین الزمات پاکستانی حساس اداروں پر عائد کرنے کی سازش معلوم ہوتے ہیں۔جیسے "را "کی جانب سے سینکڑوں ’ دہشت گردوں ‘ کی ٹریننگ سے پاکستانی اداروں نے چشم پوشی اختیار کی ہو، دس برس سے چلنے والی اس ٹریننگ سے ہماری فوجی ادارے بے خبر رہے ، یعنی ان میں اپنے ملک کی حفاظت کیلئے استعداد ہی موجود نہیں ۔یا پھر اس رپورٹ کا مقصد یہ ہو کہ جس طرح ماضی میں ڈبل کراس خفیہ پاکستان نامی دستاویزی پروگرام میں درپردہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی افغان طالبان کو پاکستان اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا تھا ، اسی طرح ایم کیو ایم بھی پاکستانی فوجی ادارے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔ با الفاظ دیگر کراچی ، بلوچستان خیبر پختونخوا میں ہزاروں بے گناہ افراد کی ہلاکت میں ہماری ایجنسیوں کا آشیر باد حاصل ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ سے بھارت کی ایجنسی را کا قد کاٹ ہماری ISIسے بڑھ گیا کہ را اس طرح ٹریننگ دیتی ہے کہ پاکستان کو خبر بھی نہیں ہو پاتی ۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے پہلی بار بھارت کے خلاف اس قدر کھل کر رپورٹنگ کیوں کی اور اس اغراض و مقاصد کیا ہیں ، اس کا ایک مظاہرہ ہمیں سلامتی کونسل کے اجلاس میں سامنے آیا جب بھارت نے ذکی الرحمن لکھوی کے معاملے پر پاکستان پر پابندیاں عائد کرانا کی کوشش کی جیسے چین نے ویٹو کردیا۔

کسی بھی سیاسی جماعت پر الزامات کا کندھا استعمال کرنے کے اغراض و مقاصد پر غور و فکر کی ضرورت ہے، ایم کیو ایم کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو 1992ء سے لیکر اب تک تحقیقات کیلئے جوڈیشنل کمیشن بنا دیا جائے۔ اور کمیشن کی رپورٹ پر فیصلہ سنا دیا جائے لیکن برطانوی نشریاتی ادارے یا امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مضمرات اور اغراض کو سامنے رکھ ہی کوئی فیصلہ کیا جائے تو مناسب ہے، سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن قومی اداروں کو ملوث کرنا اس سے بڑی سازش ہے جس کا پردہ فاش کرنا حکومت وقت کی مکمل ذمے داری و فرائض میں ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659587 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.