امریکہ نے ایران سے سودا کیوں کیا؟

ایک لمبے عرصہ پر محیط امریکی کوشش ٓاخر رنگ لے ٓائی اور ایران امریکہ سودا طے پا گیا ۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ سودا ایران کی خواہش یا مجبور تھی تو یہ غلط ہے ۔ در اصل یہ سودا امریکہ کی شدید خواہش اور ضرورت ہے کیونکہ یہ مڈل ایسٹ میں امریکی مفادات کے حصول کی طرف ایک بڑا قدم اوراس گرینڈ امریکن ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا تعلق نہ صرف مڈل ایسٹ بلکہ روس اور چین کے ساتھ بھی ہے ۔یہ ایجنڈا معاشی، سیاسی اور فوجی مفادات کا وہ مجموعہ ہے جس کی تکمیل امریکی بقا کیلئے ضروری ہے ۔ایران اس سودے کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے لیکن امریکی مفادات کا حصول اس سودے کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں۔ ذیل میں وہ نکات بیان کیئے گئے ہیں جو اس سودے کی وجہ بنے :

کاروباری مفادات:
جسے دنیاUnited States of America کہتی ہے دراصل وہ United Corporation of America ہے۔یہ ریاست نہیں بلکہ ایک Corporate Entityہے جو جنگ لڑنے اور بم برسانے کا کاروبار کرتی ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک امریکہ 33ممالک پر بمباری کر چکا ہے۔ اسکے علاوہ اپنے وجود میں ٓانے سے لیکر اب تک بے شمار خفیہ ٓاپریشنزاور چھوٹے پیمانے پر جنگیں لڑنے اور لڑوانے کا اعزاز بھی اسے حاصل ہے۔امریکہ کیلئے جنگ Extension of Economyہے ۔پہلے بم مار کر گراؤ، پھرسرمایہ کاری کے نام پر بناؤ، پہلے دہشت گرد پیدا کرو ، پھر انہیں مارنے کیلئے اپنا اسلحہ فروخت کرو، پہلے وائرس پھیلاؤ، پھر اینٹی وائرس ایجاد کرکے نہ صرف واہ واہ وصول کرو بلکہ مال بھی کماؤ۔

جب یہ کارپوریشن کوئی نیا جنگی منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسکے سامنے پہلا سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس جنگ میں کتنے بے گناہ اور معصوم لوگ مارے جائیں گے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر کتنی لاگت ٓائے گی How much it will cost?اور اس سے ہمیں کتنا فائدہ ہوگا۔ امریکیوں کو اگر ٓاپ یہ پوچھیں کہ عراق یا افغانستان جنگ میں کتنے لوگ مارے گئے تو شائد وہ اس کا جواب نہ دے سکیں ، لیکن اگر ٓاپ ان سے یہ پوچھیں کہ اس پر کتنے ڈالرز لاگت ٓائی تو اس کا جواب فوری مل جائے گا۔ یہی بات اگر اسطرح کہیں کہ کسی ملک پر مزید حملہ نہ کریں اس سے بے گناہ لوگ مارے جائیں گے تو وہ اس پر کان نہیں دھریں گے لیکن اگر ٓاپ ان سے یہ کہیں کہ اس پر taxpayersکے اربوں ڈالرز خرچ ہونگے تو وہ اس پر ضرور سوچیں گے ۔امریکن کارپوریشن کیلئے ایران پر جنگ مسلط کرنا فی الحال ایک گھاٹے کا سودا تھا جس پر لاگت زیادہ اور فائد ہ کم تھا اسلیئے امریکی کاروباری ذہنیت نے انہیں یہ گھاٹے کا سودا نہیں کرنے دیا۔

ایران پر حملہ strategicallyغلط ثابت ہوتا:
موجودہ صورت حال میں ایران پر حملہ ایک strategicغلطی ثابت ہوتا۔ ایران کئی حوالوں سے عراق، لیبیااور افغانستان سے بہتر پوزیشن میں ہے یہ نہ صرف خود دفاعی لحاظ سے مضبوط ہے بلکہ اسکی پشت پر سابق سپر پاور روس کی بے پناہ فوجی طاقت بھی کھڑی ہے اور یہی نہیں بلکہ اسے مستقبل کی سپر پاور چین کا خاموش تعاون بھی حاصل ہے ۔ روس نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر اسکے ہمسایہ میں کوئی فوجی مہم جوئی ہوتی ہے تو وہ اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتااور اگر روس؛ ایران امریکہ جنگ میں کود پڑتا تو ایران امریکہ کیلئے تر نوالہ ثابت نہ ہوتا ۔ اسکے علاوہ امریکی فوجیں ابھی تک افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں ، شام اور عراق میں خانہ جنگی ہے ، لبنان میں حزب اﷲ اور فلسطین میں حماس پھر داعش، یمن میں ہوثی ،ادھر افغانستان میں طالبان اور القاعدہ، ایران پر حملے کی صورت میں یہ تمام طاقتیں امریکہ کے خلاف اکھٹی ہو جاتیں جس سے نہ صرف امریکہ کیلئے جنگ میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنا ممکن نہ ہوتا بلکہ سارا خطہ بھی جنگ کی لپیٹ میں ٓاجاتا یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اندرونی سیاسی مخالفت ، اسرائیل اور سنی عرب ریاستوں کی نا پسندیگی کے باوجود ایران سے یہ سودا کیا۔
واضح رہے کہ ایران کے ساتھ جنگ کا خطرہ وقتی طور پر ٹلا ہے ہمیشہ کیلئے ختم نہیں ہوا۔ اس کا ثبوت معاہدہ ہونے کے باوجود امریکہ کا ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کا عندیہ اور دوسرے جانب سپریم ایرانی لیڈر خمینی کا یہ بیان کہ امریکہ کے خلاف ایران کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی اورایران ؛ فلسطین ، یمن، شام، عراق، بحرین اور لبنان کے عوام کی حمائت جاری رکھے گا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ایران حزب اﷲ کی سپورٹ سے بھی ہاتھ نہیں کھینچے گااور جب تک ایسا نہیں ہوتا امریکہ ایران جنگ کا خطرہ کبھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ کا اصل مسئلہ ایران کا جوہری پروگرام نہیں بلکہ ایران کی اسرائیل کے خلاف پراکسی وار ہے جو وہ عرصہ سے مختلف جہادی تنظیموں جن میں حز ب اﷲ سر فہرست ہے کے ذریعہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

داعش اور روس کا خوف:
امریکہ کے یورپی اتحادی اس وقت دواطراف سے خطرے میں گھرے ہوئے ہیں ؛ ایک طرف داعش نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں تو دوسرے طرف ولادمیر پوٹن سابق سوویت یونین کے مردے میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے ۔مغربی ایجنسیوں کے مطابق داعش انٹر نیٹ کے ذریعہ یورپی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی برین واشنگ کرکے انہیں اپنے ساتھ شامل کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور برطانیہ سمیت دیگر کئی وسطی یورپی ممالک سے نوجوان لڑکے لڑکیاں شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ الزام بھی ہے کہ داعش منظم طریقے سے مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان نوجوانوں کو جہاد کیلئے اکسا رہی ہے جس سے ان ممالک میں دہشتگردی کی کاروائیوں اور مسلم انتہا پسندی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ یو ں اہل یورپ دونوں طرف سے اپنے ٓاپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں ۔ نیٹو اتحادیوں کی حفاظت امریکہ کی ذمہ داری ہے ۔ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا اور روس ایران کی حمائت میں کھڑا ہو جاتا تو پھر بات صرف ایرانی سر زمین تک محدود نہ رہتی بلکہ پورا یورپ بھی اسکی لپیٹ میں ٓاجاتا اسی خطرے کے پیش نظر امریکہ کو یہ معاہدہ کرنا پڑا۔

بشارالاسد کی سپورٹ کو ختم کرنا:
شام میں پچھلے چار پانچ سالوں سے خانہ جنگی چل رہی ہے اور بشار الاسد کی فوجیں بقول مغرب معصوم سویلین کا قتل عام کر رہی ہیں جبکہ بشار الاسد کہتے ہیں کہ وہ باغیوں سے لڑ رہے ہیں ۔ اس عرصہ میں کئی مرتبہ امریکہ اور اہل مغرب نے بشار الاسد کے خاتمے اور شام میں حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ بنایا لیکن چونکہ بشار الاسد کے پیچھے ایران اور اسکے پیچھے روس اور چین کھڑے تھے اس وجہ سے ایسے کسی منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا ۔ امریکہ کی ایک عادت ہے جہاں وہ دشمن بن کر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا وہاں وہ دوست بن کر وار کرتا ہے ۔ ایران کے ساتھ معاہدے کا مطلب تہران اور واشنگٹن کی دوستی اور اس دوستی کا مطلب بشار الاسد کی چھٹی ۔ اس معاہدے کے بعدمڈل ایسٹ میں امریکی سفارتی اور سازشی سر گرمیوں میں اضافہ ہو جائے گا ۔ امریکہ ایران کو بشار الاسد کی حمائت سے ہاتھ ہٹانے پر مجبور کرنے کی کوشش کرئے گا اسے کتنی کامیابی حاصل ہوگی یہ اگلے چند مہینوں میں واضح ہو جائے گا۔ بہر حال بشار الاسد نے جس معاہدے کو ایران کی فتح قرار دیا وہ اس پہلو کو نظر انداز کر گئے کہ اس معاہدے میں مذاکرات کی میز پر ان کا اقتدار بھی داؤ پر لگا دیا گیا ہے اور اب انہیں اپنی بقا کی جنگ شائد اکیلے ہی لڑناپڑے۔

ایران اور روس کے قریبی تعلقات:
ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ایک وجہ روس اور ایران کے قریبی تعلقات بھی ہیں ۔ جسطرح ایران پر حملے کی صورت میں ماسکوخاموش نہیں رہ سکتا تھا اسی طرح ماسکوپر یلغار کی صورت میں تہران بھی چپ نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ جنگ میں سب سے اہم چیز سپلائی لائن ہوتی ہے،جوفریق دوسرے کی سپلائی لائن کاٹنے میں کامیاب ہو جاتاہے وہ جنگ کا پلڑا اپنے حق میں کر لیتا ہے ۔ اسی طرح عالمی سطح پر ریاستوں کو ایک دوسرے کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمائت حاصل ہوتی ہے اور یہ حمائت اسکی سپلائی لائن ہوتی ہے ۔ کسی ریاست کو سفارتی تنہائی کا شکار کر دینا مطلب اسکی سپلائی لائن کا ٹ دینا ہے اور اسطرح اس ریاست سے اپنے مطالبات منوانا ٓاسان ہوتا ہے ۔ روس کو کریمیا اور یوکرین کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کی ناراضگی اور سفارتی تنہائی کا سامنا ہے جس کا مظاہرہ G7کے اجلاس میں کیا گیا۔ روس کی جی ایٹ ممالک کی رکنیت کو منسوخ کر دیا گیا۔ پوٹن کو یورپ میں کسی نے خوش ٓامدید نہیں کہا ماسوائے پوپ کے ۔ ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے امریکہ ایک طرح سے روس اور ایران کے درمیان ٓاگیا ہے اور وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ وہ اس پوزیشن کو مزید expandکر کے روس پر دباؤ بڑھا سکتا ہے ۔

چین کی معاشی ترقی کا راستہ روکنا:
چین کی صنعتی ترقی کیلئے تیل بڑا اہم ہے اور چین اپنی تیل کی ضروریات کا ایک بہت بڑا حصہ ایران سے خریدتا ہے ۔ چین کی بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی امریکہ کیلئے ناقابل برداشت ہے ۔ ایران سے معاہدے کی صورت میں بڑے پیمانے پر امریکی تیل کی کمپنیاں ایران میں سرمایہ کاری کیلئے پر تول رہی ہیں اور ٓانے والے وقت میں بڑی حد تک ایرانی تیل پر ان کمپنیوں کا کنٹرول نظر ٓانا شروع ہو جائے گا۔ ایرانی تیل کا امریکی کنٹرول میں جانا چین کیلئے نیک فعال نہیں کیونکہ مستقبل میں دو بڑے محاذ کھلنے والے ہیں ایک روس بمقابلا امریکہ اور دوسرا امریکہ بمقابلا چین ۔ امریکہ ان دونوں محاذوں پر لڑنے کیلئے اپنا مقدمہ اور گراؤنڈ ورک کر رہا ہے اور ایران کے ساتھ معاہدہ بھی اسی تیاری کا حصہ ہے ۔ جب ایرانی تیل امریکی کنٹرول میں ہوگا تو چین کے ساتھ کسی مہم جوئی کی صورت میں چین کو تیل کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا کرنا امریکہ کیلئے بڑا ٓاسان ہوگا ۔

خلیج فارس اور ٓابنائے ہرمز کا کنٹرول:
ٓابنائے ہرمز دنیا کو تیل کی سپلائی کیلئے بڑی اہم ہے ۔ایران چونکہ اس خطے میں واقع ہے اسلیئے اسے اس راستے پر امریکہ کے مقابلے میں برتری حاصل ہے۔ادھر امریکہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ جس کسی کے پاس بھی اس راستے کا کنٹرول ہوگا وہ کسی بھی وقت دنیا کو تیل کے بحران میں مبتلا کر سکتا ہے ۔امریکی نیوی اس سمندری راستے پرگشت کرتی رہتی ہے جس پر ایران کو ہمیشہ اعتراض رہا ہے اورکئی مواقعوں پر امریکہ اور ایران کے درمیان اس بات کو لیکر صورت حال بڑی کشیدہ رہی ہے ۔ ایران کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کی صورت میں امریکی نیول فورسز کو خلیج فارس اور ٓابنائے ہرمز میں ٓازادانہ نقل و حمل کی سہولت میسر ٓاجائے گی جو زمانہ جنگ اور امن دونوں میں بڑی مفید ثابت ہوگی ۔
گو کہ چین اور روس دونوں نے اس معاہدے کی حمائت کی ہے جس کی وجہ ان کے اپنے مفادات ہیں جن نکات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ چین اور روس کے علم میں بھی ہونگے اگر اس کے باوجود انہوں نے اس معاہدے کی حمائت کی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکی کمان میں بھی کچھ ایسے تیر ہیں جو وہ وقت ٓانے پر اپنے تحفظ میں استعمال کرینگے ۔

مڈل ایسٹ میں امن:
یونائیٹڈ کارپوریشن ٓاف امریکہ یہ کریڈٹ لینا چاہتی ہے کہ اس نے یہ معاہدہ امن کی خاطر کیا لیکن جب تک عالمی دہشتگرد اسرائیل کو لگام نہیں ڈالی جاتی، اسے معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام سے نہیں روکا جاتا اور جب تک بیت المقدس ٓازاد نہیں ہوتامڈل ایسٹ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
 
Zahid M. Abbasi
About the Author: Zahid M. Abbasi Read More Articles by Zahid M. Abbasi : 14 Articles with 13803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.