رمضان پلٹ

 رمضان مسلمانوں کا مقدس مہینہ ہے، جس کے فیوض و برکات کسے تعارف کے محتاج نہیں۔ یہ مہینہ دینِ اسلام کے زندہ معجزات میں سے ایک ہے۔قرآن ایک اور زندہ معجزہ ہے اور آبِ زمزم ایک اور زندہ معجزہ ہے۔ اسلام ،اسی طرح اور بہت سے، زندہ معجزات رکھنے والا دین ِ بر حق ہے۔

ہماری یہ تحریر رمضان کے بعد مسلمانوں کی عام حالتِ زار پر مرکوزہے ،اگرچہ رمضان آنے سے پہلے اور رمضان کے دوران کے حوالے بھی ضرورت کے تحت شاملِ گفتگو ہیں۔

ہمارے ہاں اکثر رواج ہے کہ رمضان شریف کے تشریف لانے سے تین چار مہینے پہلے ہی اس کی باتیں، اس کے آنے کا موسم اور روزے کا دورانیہ موضوع سخن بن جاتے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی ذہن رکھنے والے اس سے متعلق ضرور بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔ایک مہینہ پہلے تو باقاعدہ طور پر اس کی تیاری کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مساجد میں تراویح کے لئے حفاظِ کرام کا تعین اور باقی ماندہ ضرورتوں اور سہولتوں کی فراہمی مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بازاروں میں عید کے حوالے سے رش میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ کئی ایک سمجھدار لوگ عید کے رش سے بچنے کے لئے پہلے ہی تیاری شروع کر لیتے ہیں۔ رمضان کی آمد کا ایک اونچا اعلان روز مرہ چیزوں کی قیمتوں میں یک لخت اضافے سے بھی کیا جاتا ہے۔ سبزیوں سے لے کر مینا بازار تک کی ہر چیز پر آمدِ رمضان کا مثبت اثر پڑتا ہے اور اس کی قیمت میں برکت پڑ جاتی ہے۔حکومتیں رمضان بازاروں کا ڈھونگ رچاتی ہیں اور سیدھی سادی عوام کو مذید اُلو بنانے کا پورا جتن کرتی ہے۔ لیکن کوئی دھوکا بار بار تو نہیں دیا جا سکتا۔

پھر ایک شام مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی رمضان کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کا ایک اہم فیصلہ کرنے بیٹھتی ہے۔ لوگ اس کمیٹی کا فیصلہ سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔مساجد رمضان کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کی صورت میں نمازوں کے اوقات میں ممکنہ تبدیلی کا اعلان کرتی ہیں۔ سائرن اورڈھول بجانے والے تیار ہو جاتے ہیں، پیپے کھڑکانے والے بھی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اگر کمیٹی اعلان کرے کہ آج رمضان کا چاند نظر نہیں آیا تو بہت سے نئے چہرے مسجد آنے میں ایک اور دن کا صبر اور انتظار برداشت کرتے ہیں۔اور تمام معاملات دھیمے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن اگر کمیٹی چاند کے نظر آنے کا اعلان کر دے تو مساجد یوں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں جیسے پچھلے سال یکم رمضان کو بھری تھیں یا اگلے سال یکم رمضان کو بھریں گی۔ایسے ایسے چہرے سروں پر ٹوپیاں سجائے مساجد میں تشریف لاتے ہیں کہ نظریں دھنگ رہ جاتی ہیں اور ذہن سوچتا رہ جاتا ہے کہ شاید نماز صرف رمضان میں ہی فرض ہے باقی سال میں اس کی فرضیت مشکوک ہے۔تمام ماحول ایک تنظیم میں آجاتا ہے۔ سڑکوں پر ہر کسی کی تیزی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ اس میں اس قدر جذبہ ایمانی ہے کہ اگر اس کی کوئی نماز رہ گئی تو اسے بہت بڑا خسارہ ہو گا جسے وہ کسی طور برداشت نہیں کر سکتا۔

رمضان کا شریف مہینہ اپنی سست روی سے چلتا ہوا اپنے وسط تک آتا ہے تو مساجد اور اہم جگہوں پر ختمِ قرآن کے اشتہارات لگنے لگتے ہیں۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ مسلمانوں میں ایمانی جذبہ اپنے عروج پر ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ رمضاں شریف کے گزر نے کا بھی ہلکا سا احساس ہوتا ہے ۔اشتہارا ت میں چھپنے والے ناموں میں گوشہ نشیں لوگ اپنے نام تلاش کرتے رہ جاتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی کہیں بھی نہیں ملتا۔ اشتہارات میں ہمیشہ نیک لوگوں کے نام ہی چھپا کرتے ہیں اور نیک ہونے کے لئے مسجد کی مالی خدمت کرنا بہت ہی ضروری ہے، ورنہ نیکی مشکوک ہے جیسے فطرانے کے بغیر روزے زمین اور آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں ،اسی طرح عوامی سطح پر پرہیز گاری کا خطاب نیکی کے کاموں میں مالی معاونت کئے بغیر نہیں مل سکتا۔ زبانِ خلق نقارہ خدا کے مصداق یہ معزز ، نیک پارسا لوگ جو مساجد کی بھاری خدمت کرتے ہیں،یا کوئی بڑے سیاسی اور سماجی عہدے رکھتے ہیں کے نام ان اشتہاروں کی زینت بنتے ہیں۔ اور لوگ ان کو پڑھ کر ان بزرگ ہستیوں کا احترام اپنے دل میں اور بڑھا لیتے ہیں تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔بعض عقیدت مند تو اپنے بزرگوں کی دیو ہیکل تصوریریں بھی ان اشتہارات پر خوش رنگوں میں یوں چھاپتے ہیں کہ تصوریر اور مجسمے میں تمیز کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

رمضان کے تیسرے اور آخری عشرے میں مساجد میں اعتکاف بیٹھا جاتا ہے۔ کچھ عرصے سے روایت بنتی جا رہی ہے کہ چند نوجوان دوست ،جو کہ پورا سال شازونادر ہی مسجد کو رونق بخشتے ہیں، ایک ٹولی کی شکل میں اعتکاف بیٹھ جاتے ہیں۔یہ نوجوان دیکھنے میں اصحابِ کہف کا مغالطہ ڈالتے ہیں،لیکن فیشن میں کسی سے پیچھے رہ جانے کو بہت برا مناتے ہیں۔ یہ باقی نمازیوں کو اپنے گروپ سے جدا سمجھتے ہیں۔اور آپس کی بات چیت ، چاہے کیسی بھی یا کتنی بھی لمبی ہو، کرنا بالکل جائز اور مستحب جانتے ہیں۔ موبائل اور بعض اوقات اخبار کا سہارا بھی لے لیتے ہیں اپنی بوریت اور تھکاوٹ دور کرنے کے لئے۔ (سارے تو بلا شبہ ایسے نہیں ہوتے)۔رمضان کے تیسرہ عشرے میں خوب دیگیں پکتی ہیں۔ ہر طرف چاولوں کی بہار نظر آتی ہے۔اکثر بریابی، اور کچھ زردہ بھی شاملِ دسترخوان ہو جاتا ہے۔

خدا خدا کر کے وہ شام آتی ہے جس کا لوگ ہر شام انتظار کر رہے ہو تے ہیں یعنی ’ چاند شام‘ جس کا عرفِ عام میں نام ’ چاند رات‘ پڑ گیا ہے۔ کیوں کہ پہلی رات کا چاند تو شام کی شام ہی نقاب پوش ہو جاتا ہے۔وہ چودھویں رات کا چاند تھوڑا ہوتا ہے کہ ساری رات ،رات کے ساتھ رہے۔ اس لئے اصل میں ’چاند شام‘ ہے۔ لیکن یہ ہماری بحث نہیں ہے۔چاند کے نظر آنے کا اعلان ہوتے ہیں ہماری کیفیت بدلتی ہے اور اتنی بدلتی ہے کہ بچارہ رمضان ، ایک معزول کمانڈر کی طرح، منہ چھپاتا پھرتاہے۔ وہی لوگ جو چند دن،یا چند گھڑیاں پہلے اس سے اپنی اتنی الفت کا اظہار کر رہے تھے، اچانک انکو کیا ہو گیا۔ کیا ان سب نے رمضان کے خلاف بغاوت کر دی یا انہوں نے رمضان کو ایک جابر سامراجی حکمران سمجھ کر اس سے اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ لگتا ہے جسے ان لو گوں کو کسی قید با مشقت سے ہمیشہ ہمیشہ کی رہائی مل گئی ہو۔ یوں خو شیوں میں ناچتے، جھومتے نکل رہے ہیں جیسے ان کو بہت بڑے خزانے ہاتھ لگ گئے ہوں۔ جیسے ابھی کچھ دیر پہلے کسی آمر نے کرفیو لگایا ہوا تھا اور اب ا س کر فیو کی میعاد ختم ہو گئی ہے۔ اور ان کو سکھ کا سانس نصیب ہوا ہے۔نوجوان لڑکے ، موٹر بائیکوں کو یوں ’گھوں گھوں‘ بھگا رہے ہیں جیسے وہ اس جابر کا تعاقب کر کے اسے اور بھی دور بھگا آنا چاہتے ہوں، جہاں سے وہ کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ نو جوان لڑکیاں بھی تو کسی سے پیچھے کیوں رہیں، آخر جوانی ایک بار ہی تو ملتی ہے۔ کیوں نہ اظہارا مسرت کیا جائے۔ باریک، تنگ اور دیدہ زیب لباس پہن کر کیوں نہ سڑکوں پر ٹولیوں کی شکل میں گشت کیا جائے۔ ابھی تو آ زادی ملی ہے جشن منانا چاہئے۔فضاؤں میں رنگ بکھیرنے کا اس سے زیادہ بہتر موقع اور موسم کب آئے گا۔

بازاروں کا رش دیدنی ہوتا ہے۔ اکثر اعتکاف سے اٹھنے والے حماموں پر پہنچتے ہیں اور خوب صاف ستھری شیو کرواتے ہیں۔ہاتھوں پر مہندی لگتی ہے، اور نوجوان دوشیزائیں دلہنوں کی طرح سجتی ہیں۔ اور پھر عید کے دن تو ماحول یوں لگتا ہے کہ ہمارا گزرے ہوئے رمضان سے نہ کوئی تعلق تھا نہ کوئی تعلق ہے۔ بس ایک مجبوری تھی۔ نہ وہ ہماری سوچ بدل سکا، نہ ہمارا لباس، نہ ہماری خواہشات، نہ رویئے ، نہ ہمیں حلال اور حرام میں تمیز کرنے پر مجبور کر سکا، نہ ہمیں اسلام کی عظمت کا احساس کروا سکا۔ وہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا۔ ہم جیسے تھے، ویسے کے ویسے ہی رہ گئے ہیں ۔۔۔شاید کچھ بگڑ ضرور گئے ہیں۔ چیزوں کی مہنگائی سے لے کر لوگوں کے دنیا کی طرف مائل رویوں تک ہر چیز تو رمضان کی نفی کرتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے تو ہم کس منہ سے کہیں کہ رمضان ہمیں اچھا انسان یا اچھا مسلمان بنا گیا ہے ،یا رمضان کے آنے سے شخصی تعمیر میں کوئی مدد ملی ہے۔ اگر کوئی چیز بڑھتی ہے تو وہ لالچ اور حرص۔ اصل قیمت سے کم از کم تین گنا کمانا تو معمولی سی بات ہے۔مزا تو تب تھا کہ رمضان کے آتی ہی قیمتیں خود بخود نیچے آ جائیں تاکہ غریب کی جیب کی ان تک رسائی ہو سکے۔رمضان جائے تو لوگوں کے چہروں ، دلوں اور رویوں میں تبدیلیاں چھوڑ کر جائے۔ یہاں تو سارے کام ہی الٹ ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس میں رمضان کا تو ذرہ بھر بھی قصور نہیں ہم تو خود ہی ایسے ہیں کہ ہم نے تو اچھی چیزوں سے بھی غلط برتاؤ کیا ہے اور ان سے اچھائی لینے کی بجائے برائی مول لی ہے۔ اصل اہمیت تو کرنے والوں کی ہوتی ہے ۔ بچوں کے ہاتھ میں کوئی اچھی اور قیمتی چیز بھی آجائے ، وہ اسے بھی خراب کر دیتے ہیں۔ افسوس کہ ہم رمضان جیسی بے مثال نعمت کو بھی اپنے عذاب میں اضافے کا سبب بنا رہے ہیں۔

رمضان کے دوران تو ماحول پر اسکا کچھ اثر نظر آتا ہے۔۔لوگ سروں پر ٹوپیاں سجائے مساجد کی طرف لپکتے ہیں، نمازیوں کی تعداد میں اضافہ نظر آتا ہے، مساجد کی خدمت کرنے میں لوگوں کا جذبہ دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن جیسے ہی رمضان انتیس یا تیس دن کے بعد ہمیں خیر باد کہتا ہے ،ہم اپنے ازلی دشمن شیطان کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہنے لگتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنے دیرینہ دوست کی رہائی پر جشن منا رہے ہوں۔بلکہ ایک ریلی کی شکل میں اس کی قیادت میں سارے شہر کی سڑکوں اور بازاروں پر گھوم پھر رہے ہوں۔ رمضان کا کوئی شائبہ ہم میں نظر نہیں آتا۔ اگرچہ ابھی ابھی ہم نے اتنی تن دہی سے پورے ایک مہینے کے روزے رکھے ہوتے ہیں۔ رمضان ہمارے اندے جو جو احساسات پیدا کرنے تشریف لاتا ہے، وہ یک دم کہاں اڑ جاتے ہیں ، کیا ہمارا تعلق رمضان سے اتنا مصنوعی تھا۔ یقین نہیں آتا کہ ہم اتنے مکار ہیں ۔ شاید نہیں ہیں ۔ شاید بے نور اور بے شعور ہیں اور رمضان کے جاتے ہی شیطان کے چنگل میں بچے جمورے کی طرح ناچنے لگتے ہیں۔ جو ایثار اور اخوت کا درس رمضان سارا مہینہ دیتا دیتا تھک جاتا ہے اسے خود غرضی کا ایک جھونکا ایسے بکھیر دیتا ہے جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ایسے لگتا ہے رمضان سمندر کی لہروں کو روک کر ساحلِ سمندر کی ریت، یعنی ہمارے دل و دماغ، پر کچھ نقوش ابھارتا ہے ۔ لیکن ایک ماہ کی سخت کوشش ایک لہر کے آتے ہی منہدم ہو جاتی ہے اور وہ ساحل ایک بار پھر انہی کنکروں ، ہڈیوں اور بے حیثیت چیزوں سے اٹ جاتا ہے جنہیں رمضان وہاں سے ہٹانے آیا تھا۔یا اسے ایسے سمجھ لیں جیسے کوئی مالی ایک جنگل کو گلشن بنانے کے لئے ایک ماہ تک اپنے شب و روز صرف کر دے لیکن جنگل کا قانون اسے پھر سے جنگل ہی میں بدل کر رکھ دے۔یا یہ رمضان کی غلط فہمی ہے کہ وہ ہم جیسی ریت سے سنگِ مرمر جیسا کام لینا چاہتا ہے جو ہم کبھی کر ہی نہیں سکتے۔ یا رمضان ہماری اس کمزوری سے پہلے ہی واقف ہے اور اسے پہلے ہی ہمارے رویئے کا علم ہے کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔یا وہ بھی آنے اور جانے پر مجبور ہے اور ہم سے اسے کوئی توقعات وابستہ نہیں ہیں۔یا وہ ہمارے رویئے دیکھ دیکھ کے ہم سے مایوس ہو چکا ہے۔یا اس کی امید کبھی نہیں ٹوٹتی اور وہ ہماری حالت سدھارنے پر بضد ہے اور اسے یقین ہے کہ کبھی نہ کبھی انسان کو ہوش آ ہی جائے گا اور وہ اس کی عظمت پہچاننے کی کوشش کرے گا۔ اسے ایک دن اپنے اندر کا دوغلا پن برا لگے گا اور وہ رمضان سے پہلے، رمضان کے دوران اور رمضان کے بعد ایک جیسا رہے گا۔ یعنی وہ رمضان سے رمضان تک اپنے آپ کو اچھے سے اچھا انسان بنانے کی کوشش میں لگا رہے گا۔

یہ اس وقت ہوگا جب رمضان انسان کے اندر اتر جائے گا اور اس کا دل ہمیشہ ماہِ رمضان کی کیفیت میں رہے گا اگرچہ ہلال کے جھروکے میں بیٹھ کر آنے اور جانے والا رمضان اپنی روٹین سے آتا اور جاتا رہے گا لیکن رمضان کا پیغام اور برکات مسلمان کے دل کو اپنا مستقل مسکن سمجھ کر اس میں ہمیشہ قیام پذیر رہیں گے۔یہی حال قرآن اور اسلام کا ہے ۔ ہم انہیں پڑھتے اور قبول تو کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے اندر نہیں اترتے یا ہم ان کے اندر نہیں اترتے۔ اس لئے ہم ان سے اپنے دل کی دوری محسوس کرتے ہیں اور جب یہ انعامات قلب و روح میں اتر جاتے ہیں تو پھر ایمانِ کامل ہو جاتا ہے اور دنیاوی لذتوں سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ دنیا کا مردار بدبو دار ہو جاتا ہے اور باہوش انسان اس سے دور بھاگتے ہیں۔ جب تک ایمان مکمل نہ ہو، دنیا کا مردار تر و تازہ لذیذ کھانے کی طرح اپنی طرف رغبت دلاتا ہے اور انسان حلال اور حرام کی تمیز کئے بغیر اسے ہڑپ کرتا چلا جاتا ہے۔دنیا سے بے رغبتی ایمانِ کامل کے بغیر ممکن نہیں۔

یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا از حد ضروری ہے کہ خوشی یا تہوار منانا منع یا حرام نہیں بلکہ اسلامی تہواروں کی خوشی منانا ، ایمان کا حصہ ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ خوشی مناتے ہوئے ہم اپنے دین، روایات، شرم و حیا ، حلال و حرام وغیرہ کو مدِ نظر رکھیں اور ان تہواروں میں اتنے وارفتہ نہ وہ جائیں کہ ہم اپنے آپ اور اپنی نسبت کو ہی بھول جائیں، جیسا کہ عام طور پر ہو رہا ہے۔
دعا ہے کہ اﷲ رب العزت ہمیں اچھا انسان بننے کی توفیق عطا فرمائے! آمین !
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283278 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More