سید مبارک شاہ

یکم مئی بروز جمعہ حلقہ ارباب زوق گجرات کے اجلاس میں شرکت کے بعد ڈاکٹر قمر صدیقی صاحب کے ہمراہ واپس آتے ہوئے شاعر ہونے کی حیثیت سے ہماری شعری رگ پھڑکنے لگی اور ہم اک دوسرے کو اپنا اپنا کلام سنانے لگے۔قمر بھائی اپنی محبت کے باعث لاکھوں نہیں تو ہزاروں کی تعداد میں اپنے چاہنے والے ضرور رکھتے ہیں۔جن کی محفل میں بیٹھ کر ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ڈاکٹر قمر صدیقی لفظوں پرحکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ان کاقلم چلے یا ان کے لب ہلیں الفاظ ہمیشہ ان کے قدم چومتے ہیں۔ خیر کلام کی ابتدا غزلوں سے ہوئی سلسلہ چلتا چلتا حمدو نعت اور پھر منقبت تک پہنچ گیا۔پھر ایسے میں میرے زہن میں جناب سید مبارک شاہ صاحب کا خیال آیا۔میں نے صدیقی صاحب سے کہا۔ بھائی آئی ایم ریلی انسپائرڈ بائی دس مین۔صدیقی بھائی مسکرا کر بولے۔ملنا چاہو گے؟ تو میں نے کہا جی بھائی ضرور۔صدیقی صاحب کہنے لگے ٹھیک ہے ہم عنقریب ان کے ساتھ ایک شام منانے والے ہیں جب بھی وہ میرے پاس تشریف لائے میں آپ کو ضروربتاؤں گا۔اور
میں اس دن کے انتظار میں ڈوب گیا جب شاہ صاحب یہاں تشریف لائیں اور میں ان سے مل سکوں۔

جون کی 2 تاریخ اور منگل کا دن تھا جب بھائی ڈاکٹر مظہر الحق نےکھاریاں کی زمین پر قدم رکھا اور مجھے شرف ملاقات بخشا۔ان کی آمد سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میرے زہن میں بس ایک مصرع گھوم رہا تھا کہ
آنے والے تیری راہوں میں بچھاؤں پلکیں
مظہر بھائی انتہائی خوش مزاج اور ملنسار شخص ہیں۔ان کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ ایک اعلٰی درجے کا شاعر ہونے کے باوجود ان میں ہر شاعر کی طرح اپنی شاعری سنانے کی علت نہیں پائی جاتی۔ان کا مخلصانہ لہجہ اور دل موہ لینے والی باتیں ایک دفعہ ان سےملنے کے بعد دوسری دفعہ کی ملاقات کے لیئے مجبور کر دیتی ہیں۔مظہر بھائی نے اپناشعری مجموعہ تریاق اور اپنے عزیز مرحوم دوست طاہر جمیل صاحب کا مجموعہ کلام پانی کے چراغ جو کہ مظہر بھائی نے خود پبلش کروایا۔مجھے تحفہ کے طور پر عنایت کیا۔بہت وقت ایک ساتھ گزارا جس میں ہر تھوڑی دیر بعد مظہر بھائی کا یہی جملہ ہوتا تھا آرب سنائیں کچھ آئی ایم گڈ لسنر۔کافی گھنٹوں تک ہمارا سننے سنانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔مظہر بھائی کی جدت سے بھرپور شاعری سن کر دل باغ باغ ہو گیا۔اور پھراچانک ایک جھماکے کی طرح میرے ذہن میں سید مبارک شاہ صاحب کا خیال آیا۔مظہر بھائی کا شمار شاہ صاحب کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے شاہ صاحب کا ذکر کرنے کی دیر تھی مظہر بھائی نے مجھے شاہ صاحب کی غزلوں اور نظموں کے حصارمیں جکڑ دیا۔اور میں بت بنا حیرت سے کبھی مظہر بھائی کو دیکھتا اور کبھی شاہ صاحب کی شخصیت پہ سوچتا۔تھوڑی دیر بعد مظہر بھائی نے میرے لیپ ٹاپ کا رخ اپنی طرف موڑا اور یو ٹیوب ویب اوپن کر کے مجھے وہ ویڈیوز دکھانے لگے جو مظہربھائی نے خود بنائیں تھیں اور خود ہی اپلوڈ کی تھیں۔جو کہ طاہر جمیل اور سید مبارک شاہ صاحب کی تھیں۔یہ ویڈیوز دیکھتے دیکھتے شام ساڑھے چھ بجے مظہر بھائی مجھےشاہ صاحب کے سحر میں جکڑ کے گھر کو چل دیئے۔
شاہ صاحب اردو ادب میں ایک منفرد شخصیت کے حامل ہیں۔ہر شعر انہیں باقی شعراء سےالگ کرتا ہے۔انداز الگ سوچ الگ۔کہیں افلاک سے بھی آگے کی پرواز اور کہیں پاتال کی گہرائیوں میں جھانکتے نظر آتے ہیں۔کہیں پر وہ زمین کے خداؤں کو مخاطب کر کے نسلِ آدم کا مقام و مرتبہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل
اور کہیں انسانوں کی عدالت میں کھڑے خدائے واحد کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
گنتی جپنے والو تم نے
تم نے خدا کو ایک کہا ہے
شاہ صاحب کی منفرد شخصیت ہر محفل میں ان کی پہچان رہی ہے۔بڑے بڑے مضامین کو دولائنوں میں بند کر کے عقلِ انسانی کو حیرت میں ڈال دینے والی ہستی شاہ صاحب کی ہیہے۔
انہوں نے نوعِ انساں کے دکھ درد خدا کی وحدانیت،خدا اور انسان کے تعلق،ماں کی محبت اور ماں سے محبت کے بارے میں مختلف انداز سے بیان کیا۔اپنی والدہ محترمہ سے محبت کو اپنے لفظوں میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
لوگوں نے تابوت کو اٹھتے دیکھا ہو گا
میں نے اپنے گھر سے جاتا رب دیکھا
اور ایک جگہ کہا کہ
اب میں اس کی قبر پہ بیٹھا سوچ رہا ہوں
میں نے ماں کا چہرہ غور سے کب دیکھا تھا
جس دن میں نے کھولیں آنکھیں شاید اس دن
یا جب اس نے موند لیں آنکھیں تب دیکھا تھا
مگر ہوا کچھ یوں کہ
آسماں اپنی طرف روز بلاتا ہے مجھے
اور دھرتی کی کشش میرے قدم روکتی ہے
جون کی 27 تاریخ کو دن 2 بجے مظہر بھائی کی کال موصول ہوئی کہ آرب شاہ صاحب ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ہیں آج حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔یہ سن کر مجھے حیرت اور غم کاشدید جھٹکا لگا۔اور میرے زہن میں شاہ صاحب کی نظم ہارٹ اٹیک گردش کرنے لگی
ڈھل بھی جا اے انہدامِ وقت کے ساکت سماں
بوجھ ایسا ہے کہ جیسے آکے چھاتی پر گرا ہو آسماں
سانس پتھر ہو چلے ہیں اے خلائے جاں نورد
خوں رگوں میں یا کوئی تیزاب سا نس نس میں ہے
دل کہ جس کی دھڑکنیں تھیں شرح کربِ کائنات
آج اس کے درد کی تشریح کس کے بس میں ہے
تمام احباب کو اس غمناک خبر سے آگاہ کیا کہ آج اردو ادب نے لفظوں کے ایک عظیم جادوگر کو کھو دیا۔اس قیامت ڈھا دینے والی خبر نے اردو ادب کے ستون ہلا کر رکھدیئے۔اس شخص نے جانے سے پہلے کہا تھا کہ
مر جانے کے خوف کو مارا جا سکتا ہے
زندہ رکھنا زندہ رکھا جا سکتا ہے
وہ شخص جانے کے بعد بھی آج ہمارے درمیاں موجود ہے۔اس کے الفاط اس کے ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
اور شاہ صاحب کے اس شعر کے ساتھ اختتام کروں گا۔
فلک پہ کوئی دراڑ ہو گی مری مسافت کی انتہا پر
زمیں میں کوئی شگاف ہو گا کہ جس کو میرا بدن بھرے گا
خیر اندیش
آرب ہاشمی
Arib Hashmi
About the Author: Arib Hashmi Read More Articles by Arib Hashmi: 3 Articles with 4452 views کہتے ہیں لوگ مجھ کو حسیں ہوں میں
یہ تو غمِ حسین کا مجھ پر جمال ہے
.. View More