آزادی یا غلامی

میرے بھائیوں اور بہنوں ! اگر تم اپنے بھائی بہنوں سے مخاطب ہو یا اپنی بیوی بچوں سے بات کر رہے ہو یا ماں باپ کی بات سن رہے ہو اور ٹیلی فون کی گھنٹی بجے تو کبھی بھی فون پر توجہ نہ دو کیونکہ وہ زیادہ اہم ہے جس کو آپ وقت دے رہے ہیں ۔ چاہے کتنی ہی دیر وہ گھنٹی بجتی رہے ۔”اشفاق احمد کے زاویہ کے یہ الفاظ اکثر میرے ذہن میں گونجتے رہتے ہیں ۔

موجودہ دور میں غائب حاضر سے بہتر اور دور کا جاننے والا ،فیس بک فرینڈیا کاروباری دوست خونی رشتوں سے بہتر ہوگیا ہے۔ ہماری نظر میں اہمیت کا حامل ہمیشہ وہی ہوتا جا رہا ہے جس کا رابطہ ہم سے برقی لہروں یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے ہمارے قرب کو ترستے رہتے ہیں اور ہم ان کو اہمیت دے رہے ہوتے ہیں جن کا اکثر نام کے علاوہ ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔زیادہ تر ہمارا قیمتی وقت بے قیمت لوگوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔

میرا دوست ایکسپورٹ کی فرم میں کام کرتا ہے ۔ وہ اکثر بتاتا ہے کہ جب بھی وہ اپنے باس سے ملتا ہے تو دوران گفتگو اگر کسی کا فون آجائے تو وہ فون نہیں اٹھاتے چاہے کتنا ہی ضروری ہی کیوں نہ ہو ۔ کہتا ہے جب بھی باس کی توجہ ہم فون کی طرف دلواتے ہیں تو باس بے اعتنائی سے جواب دیتے ہیں “اس فون کو میں نے رکھا ہے اس نے مجھے نہیں رکھا”۔

ویسے بھی ایسے معاملات میں ہماری شخصیت ہمارے اپنوں کے سامنے کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہماری ترجیحات میں وہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ اس طرح ہم پے یہ حقیقت بھی آشکار ہو تی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے ہم سے ہماری آزادی چھین کر ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے اور ہم وہی کچھ کرنے پے مجبور ہیں جو یہ کہتی ہے۔ اب ہم نے دوفیصلے کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ ترجیح ہم نے کیسے دینی ہے حاضر یا غائب کو ۔ دوسرا اس ٹیکنالوجی کی غلامی کرنی ہے یا زندگی آزاد انسانوں کی طرح گزارنی ہے؟

Tahir Afaqi
About the Author: Tahir Afaqi Read More Articles by Tahir Afaqi: 24 Articles with 17637 views I am interested to indulge myself for meeting new challenges of life and want to find new solutions for myself and for humanity.. View More