ہیپا ٹائٹس۔جگر کی بیماری

دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں لیکن بے خبر ہیں،تھکاوٹ ،فلو اور بخار وغیرہ اس بیماری کی ابتدائی علامات ہیں ان علامات کو نظر انداز کرنے اور معالج سے چیک اپ نہ کروانے کی صورت میں کئی افراد اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں انہیں اکثر محسوس نہیں ہوتا کہ ان کے جگر میں انفیکشن ہو چکی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے آج اس بیماری کا علاج با آسانی ہو جاتا ہے۔ہیپا ٹائٹس بیاسی لاکھ سال پرانی بیماری ہے اور عام وائرل انفیکشن ہیپاٹائٹس بی میں زیادہ تر لوگ مبتلا ہیں اس بیماری کی ابتدا عام طور پر تھکاوٹ سے ہوتی ہے فلو اور بخار میں مبتلا ہونے کے بعد یہ وائرس جگر میں حلول کرتا ہے لیکن انسان کو خبر نہیں ہوتی کہ اس کا جگر ٹھیک طریقے سے فنکشن نہیں کر رہااس بیماری کے ابتدا میں معالج سے چیک اپ کروانے کے بعد ہی پتہ لگایا جا سکتا ہے ، فوری طور پر چیک اپ یا علاج نہ کروانے کی صورت میں وائرس جگر کے کینسر کے خلیات میں تبدیل ہو سکتے ہیں جو انسان صحت کیلئے مزید خطرناک ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے بیماری کے ابتدا میں علامات ظاہر ہونے یا جسم کے کس حصے میں خطرناک وائرس رچ گیا ہے چیک اپ اور علاج سے انسان صحت یاب ہو سکتا ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں نئی ادویات نے بہت ترقی کی ہے عام طور پر اگر وائرس زیادہ خطرناک نہیں تو اینٹی بوائٹک سے ہی علاج ممکن ہوتا ہے،اس کی شروعات متاثرہ افراد کی آنکھوں کے گرد جلد پیلی ہو جانے سے ہوتی ہے مثلاً یہ بیماری یرقان میں مبتلا انسان سے مشابہت رکھتی ہے اور جگر کی سوزش کہلائی جاتی ہے،الکوحل پینے والے افراد زیادہ تر اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ زیادہ چربی اور مختلف ادویہ کے استعمال سے بھی کئی افراد جگر کے انفیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں علاوہ ازیں ذیا بیطس اور کینسر کے مریضوں کا بھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،سب سے زیادہ اور ہائی رسک منشیات کے عادی ،مختلف جنسی رابطے ،بلڈ ٹرانس فیوژن اور کاربن سے منسلک پیشہ ور افراد متاثر ہو تے ہیں، دائمی ہیپا ٹائٹس بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اس میں مبتلا افراد اکثر بے چینی ،بخار ، تھکاوٹ ،پیلاہٹ کے علاوہ سیاہ پیشاب یا پاخانہ خطرے کا الارم ہیں ایسی صورت میں فوری معالج سے رجوع کیا جائے۔ہیپاٹائٹس آج کل حفظانِ صحت کی کمی کے باعث ایشیائی ممالک میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے بدیگر الفاظ سفر میں ہے ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہایت تیزی سے منتقل ہو رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے رسک سے بھر پور اس بیماری کے پھیلنے کی دیگر وجوہات حفظانِ صحت کا نا مکمل انتظام مثلاً آلودہ پانی یا روزمرہ کے باسی اور ایکسپائر ہوئے کھانے پینے کی اجزاء بھی اس بیماری میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہیں ایسی صورت میں جگر کی بیماری بڑی آسانی سے آنتوں کے ذریعہ پھیلتی ہے۔ ہیپاٹائٹس اے کیلئے کوئی دوا دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی علاج کیا جا سکتا ہے صرف آرام کی تنبیہ کی گئی ہے اور سفر کرنے سے قبل ہمیشہ حفاظتی انجیکشن یا ویکسین کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے، ہیپاٹائٹس بی جو کہ جنسی روابط یا خون کی منتقلی کے باعث پھیلتا ہے اس کے شکار افراد کی صحت یابی کے نوے فیصد امکانات ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے منشیات کے عادی افراد جو انجیکشن کی سوئیوں کی تبدیلی نہیں کرتے ، جسم پر ٹیٹو بنواتے ، کانوں اور ناک حتیٰ کے آج کل ہونٹوں اور آنکھوں کے گرد بالیاں ،پئیر سنگ کروانے کا رحجان ہے ہیپا ٹئٹس بی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے دنیا بھر میں ہر سال ان فضولیات (ماڈرن) چمک دمک سے تین سے چار میلین افراد وائرس میں مبتلا ہو تے ہیں،ایک اندازے کے مطابق دائمی ہیپاٹائٹس میں ایک سو تین میلین سے زائد افراد متاثر ہیں ہیپاٹائٹس سی کے خلاف کوئی انجیکشن دستیاب نہیں لیکن مختلف اینٹی وائرس ادویات کی کومبی نیشن سے نوے سے سو فیصد علاج ممکن ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 228133 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.