سر دارمحمد عبد القیوم خان۔ مخلص کشمیری رہنما

10جولائی 2015،رمضان المبارک کی 22 جولابروز جمعہ کا معروف کشمیری پاکستانی رہنما سردار محمد عبد القیوم خان اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ اگلے روز ۱۱ جولائی کو سردار صاحب کی تدفین عمل میں آئی۔ عین اُس وقت جب سردار صاحب کی روح پرواز کررہی تھی پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف روس کے شہر’ اوفا‘ میں بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات میں مصروف تھے۔پاک بھارت معاملات زیر بحث ہوں تو کشمیر کے بغیر نہ مکمل تصور کیے جاتے ہیں۔ سر در عبدالقیوم ان کشمیری رہمناؤں میں سے تھے جو کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی سوچ رکھتے تھے۔وہ کشمیر اور پاکستان کے ہی لیڈر نہ تھے بلکہ انہیں عالمی سطح کے رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔وہ عالم اسلام میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔وہ مذہبی اسکالر، سیاست کے موضوعات کے ماہر،نامور مجاہداور شعلہ بیان مقرر تھے۔ وہ آزاد کشمیر کے چار مرتبہ صدر منتخب ہوئے، ایک بار وزیر اعظم اورقائد ِ حزب اختلاف کے منصب پر بھی فائز رہے۔ سر در عبدالقیوم کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کے پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ جن میں سول اور عسکری رہنما بھی شامل ہیں اچھے اور قریبی تعلقات بھی رہے اور ان لیڈروں کے دور میں سردار صاحب کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، حتیٰ کہ وہ جیل میں بھی ڈال دیے گئے۔ بھٹو سے لے کر جنرل ضیاءالحق تک، بے نظیر سے نواز شریف تک اور اس سے پہلے ایوب خان
کے دور میں سردار صاحب نے کشمیر کے لیے طویل جدوجہد کی۔لیڈروں سے اختلاف بھی ہوا، اچھے تعلقات بھی رہے۔

مجھے سردار عبدالقیوم مرحوم کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ سردار صاحب برطانوی انڈین آرمی کی انجینئر نگ کور کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کشمیر کی عملی سیاست میں سرگرم عمل ہوچکے تھے۔ کرنل علی احمد شاہ ریاست کے صدر تھے اس وقت پہلی مرتبہ 13 مئی 1950کو سردار صاحب نے وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔گویا سردار عبد القیوم کی عملی سیاست پچاس کی دھائی میں شروع ہوئی۔ یہ دور مختصر تھا۔ چھ سال کی عملی سیاسی جدوجہد کے بعد سردار عبد القیوم ستمبر1950 میں پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔سردار صاحب کا یہ دور بھی مختصر تھا ۔ اس دوران آپ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعت ’مسلم کانفرنس ‘ سے وابستہ ہو چکے تھے، آپ 1956میں دوسری بار کشمیر کے صدر منتخب ہوئے ۔ 1962میں کشمیر کونسل کی لوکل باڈیز کے الیکشن میں رکن منتخب ہوئے۔ آپ انتخابات میں بھر پور حصہ لیا کرتے تھے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بسنے والے کشمیریوں کو ان انتخابات میں حقِ راے دہی حاصل تھا۔مجھے یاد ہے کہ ان انتخابات کے سلسلے میں سردار صاحب نے کشمیری ووٹروں سے ملاقات اور انہیں مسلم کانفرنس کو ووٹ دینے کی مہم کے سلسلے میں کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ میری رہائش اس زمانے میں لیاری کی ایک آبادی آگرہ تاج کالونی میں تھی ۔ یہاں کافی تعداد میں کشمیری بھی رہائش پذیر تھے۔ اس بستی کے نوجوانوں نے تاج ویلفیئر سینٹر کے نام سے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا ہوا تھا۔ منظور احمد بٹ مرحوم اس ادارے کے سرگرم کارکن تھے ، خود بھی کشمیری تھے سماجی کاموں کے علاوہ سیاست میں بھی سر گرم تھے۔وہ بنیادی طور پر تو مسلم لیگی تھے لیکن کشمیر ہونے کے ناطے وہ کشمیری معاملات میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے سردار عبد القیوم خان کو اپنے علاقے میں آنے کی دعوت دی۔یہ 1960 کی دیہائی تھی سردار عبد القیوم کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی سچا پاکستانی ، محبت وطن، کشمیر اور کشمیریوں کا ہمدرد گفتگو کررہا ہے۔آواز میں نرمی، لہجہ میں شگفتگی، آنکھوں میں سوج بوجھ کی چمک، سر پر ٹوپی، سادہ لباب، بناوٹ سے پاک گفتگو، سچی اور کھری باتوں میں کشش تھی، اپنا پن تھا۔ سیدھے سادھے اور سچے مسلمان تھے ۔میری عمر اس وقت کم ہی تھی ، سیاسی و سماجی تقریبات میں دیگر بچوں کے ساتھ آخری صف میں ہوا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ آخری صاف سے پہلی صف میں اپنا مقام بنایا اور کئی سال تاج ویلفیئرسینٹر کے سیکریٹری کے عہدہ پر فائز رہا جب کے منظور احمد بٹ صاحب اس وقت صدر ہوا کرتے تھے۔ تاج ویلفیئر سینٹر کے تحت ہونے والی تقریبات جو سیاسی، سماجی، تہذہبی و ثقافتی نوعیت کی ہوا کرتی تھیں شاید ہی کوئی سیاسی لیڈر ایسا ہو جس کو یہاں مدعو نہ کیا گیا ہو ۔یہاں ہم نے تقریباً اس دور کے تمام ہی بڑی شخصیات کو قریب سے دیکھا اور سنا۔

سردار عبدالقیوم خان مرحوم کشمیر ی جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں مثالی کردار ادا کرتے رہے۔ ایک اعتبار سے انہوں نے پاکستان کے حکمرانوں اور مخالف سیاسی رہنماؤں کے مابین پل کا کردار ادا کیا۔ وہ کشمیر اور پاکستان کی بہتری کے لیے، بلندی کے لیے عملی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ وہ کشمیر اور پاکستان کے لیے جئے ، اس کی سربلندی کے لیے عملی جدوجہد کرتے کرتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ کشمیر اور پاکستان سے عشق اور سچی لگن کی مثال کم کم ملتی ہے۔ کالم نگار مجید اصغر نے سردار صاحب کی تاریخی نصیحت جسے ان کی آخری وصیت بھی کہا جاسکتا ہے اپنے کالم میں تحریر کی ہے۔ سردار صاحب کا کہنا تھا کہ میری تین باتیں یاد رکھنا ایک’غربا و مساکین کا ساتھ کبھی نہ چھوڑنا، ان کی غمگساری کرتے رہنا، یہی طبقہ تمہاری اصل طاقت ہے‘، دوم ’ پاکستان کا پرچم ہمیشہ تھامے رکھنا، اس وقت بھی نہ چھوڑ نا جب اہل اقتدار کی نالائقیوں کی وجہ سے خود اہل پاکستان مایوس ہونے لگیں‘، سوم ’ہمیشہ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ رہنا کہ پاکستان اور کشمیر عوام کی آخری امید انہیں سے وابستہ ہے۔ سردار صاحب نے اپنی نحیف آواز میں ایوب خان کی ایک تقریر کا حوالہ بھی دیا جس میں ایوب خان نے کہا تھا کہ’ میں اہل کشمیر سے کہتا ہو ہوسکتا ہے پاکستان کے سیاستداں آپ کو چھوڑ دیں مگر پاکستان کی مسلح افواج کبھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گی‘۔ مجید صاحب نے درست لکھا کہ یہ پاکستان سے سردار صاحب کی لازوال محبت ہی تھی جس نے سقوط مشرقی پاکستان کے وقت ان سے ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ تخلیق کروایا جو پورے پاکستان میں بچے بچے کی زبان پر ہے۔ یہی نعرہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ تمام زندگی سردار عبد القیوم کی سیاست کا مہور اور مرکز رہا۔ اِسی نعرہ کے گرد ان کی سیاست ہمیشہ گردش کرتی رہی۔ معاملا کچھ بھی ہو، گفتگو کسی بھی موضوع پر ہو، ملک کوئی بھی ہو ،رہنما قومی ہو یا عالمی ان کی گفتگو کی بنیاد یہی نعرہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ ہوا کرتا تھا۔

سر دار صاحب ٹکراؤ کی سیاست کے قائل نہ تھے ، افہام و تفہیم کے ساتھ آگے بڑھنے کے قائل تھے۔ ان کے اسی عمل کے باعث کئی لوگوں نے ان کی سیاست سے اختلاف بھی کیا، وہ فوج سے ٹکڑاؤ کے قائل نہ تھے، جیسا کہ انہوں نے اپنی آخری وصیت یا نصیحت میں بھی ذکر کیا۔ سردار صاحب کے اس عمل کو بعض لوگوں نے ان کی سیاست کو فوج کی چھتری تلے سیاست کرنے سے تعمیر کیا حالانکہ ایسا ہرگز نہ تھا ، وہ فوج کو سیاست سے دور رہنے کے قائل تھے، ا س کی عزت کیا کرتے تھے، فوجی مارشل لاءکے مخالف تھے۔اس کی کھلے عام مخالف کرتے رہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کشمیر کی آزادی کے لیے ، کشمیر اور پاکستان کے تعلق کو ایک ایسی حقیقت تصو ر کیا کرتے تھے جسے دنیا کی کوئی قوت ختم نہیں کرسکتی۔کشمیرکی جدوجہد ِ آزادی کے لیے ان کی عملی جدوجہد پر شک کی کہی گنجائش نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹومرحوم کے دور اقتدار میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت اور نو ستاروں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی۔ سردار صاحب کیونکہ کشمیر کی ایک سیاسی جماعت کے قائد تھے، اس سیاسی جماعت کے جھنڈے تلے وہ کشمیر میں سیاست کیا کرتے، حکومت میں شریک رہے، یہ بات درست ہے کہ انہیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی کشمیر میں سیاست پسند نہیں تھی اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو سردار صاحب کی یہ بات پسند تھی ان کی تو ہمیشہ کوشش رہی اور اب بھی ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بھی سیاست کریں اور حکومت بنائیں۔ اس بنیادی نقطہ پر سردار صاحب کا تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں سے ٹکراؤ کا پیدا ہوجانا لازمی تھا اور ٹکراؤ ہوا۔ اس کے باوجود سردار صاحب سچے پاکستان اورپکے کشمیری تھے۔

سردار صاحب کی تعلیم کیا تھی اس کے بارے میں تو صرف یہ معلوم ہوسکا کہ انہوں نے پنجاب یونیوسٹی سے 1947میں سیکنڈری ایجوکیشن کا امتحان پاس کیا، وہ برطانوی انڈین آرمی کے انجینئرنگ کور میں کس تعلیم کی بنیاد پر شامل ہوئے؟ انہوں نے 1946سے1942کے درمیان فوج میں رہتے ہوئے کشمیر کی جدوجہد میں عملی حصہ لینے کا منصوبہ بنایا اور فوج سے فارغ ہوکر انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی۔کشمیر کے چار مرتبہ 1990,1985,1971,1956 میں منتخب صدر اور ایک مرتبہ وزیر اعظم1991 رہے۔ وہ ایک مدبر، گہری سوچ رکھنے والے، تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے، مذہبی خیالات کے حامل، برصغیر کے سیاسی و سماجی حالات پر گہری نظر کے رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی تصانیف بھی تخلیق کیں۔ ان کی کتاب ’مقدمہ کشمیر‘مشہور ہوئی جس میں انہوں نے کشمیر کی جدوجہد اور تحریک پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ سردار صاحب کو اردو، کشمیری کے علاوہ عربی اور فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔

پاکستان سے سچی محبت رکھنے والا، کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرہ کے خالق اور اس پر صدق دل سے جدوجہد کرنے والا ، کشمیر کو ظلم و ستم سے آزادی دلانے کی عملی جدوجہد کرنے والا ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے جدا ہوگیا۔ 11جولائی بروز ہفتہ سردار صاحب کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اﷲ ترتعالیٰ سردار صاحب کی مغفرت فرمائے ان کی جدجہد کو قبول فرمائے۔ آمین۔(19جولائی2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277847 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More