مضامین قرآن

سوال : مضامین قرآن کی تفصیل بیان کریں؟
جواب: مضامینِ قرآن حکیم کا پس منظر:
قرآن پاک تمام الٰہامی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے ۔ جواللہ تعالیٰ عزوجل کے آخری نبی حضرت محمد ﷺپر نازل ہوئی وقفے،وقفے سے ۔ یہ واحد اسلامی کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ عزوجل نے خود لی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہ الٰہامی کتاب لفظ،بالفظ محفوظ ہے۔ اور دین اسلام کی پیروی کرنے والوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ عزوجل کا قرب حاصل کرسکیں اور اپنی زندگی اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق بسر کرسکیں۔
قرآن کریم سے پہلے نازل ہونی والی آسمانی کتابوں اور صٰحیفے اس کے نازل ہوتے ہی منسوخ ہوچکے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس کے ماننے والوں (یعنی دین اسلام کی پیروی کرنے والوں) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان آسمانی کتابوں پرایمان رکھیں مگر انکی تعلیمات پر عمل نہ کریں۔
مضامین قرآن کی تعریف:
ایسی واضح ہدایات جو اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمائیں اور وہ واضح ہدایات قرآن پاک کا حصہ بن گیں انکو مضامین قرآن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں موجود آیات مبارکہ کے پوشیدہ نکات کے رازوں کو مضامین قرآن کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
مضامین قرآن کی تعداد:
مضامین قرآن کی تعدادہر مفسرِقرآن نے اپنے اپنے علم کے مطابق بیان کی ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہمیت کے حاصل مضامینِ قرآن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مانے جاتے ہیں۔
شاہ ولی اللّہ کانظریہ مضامین قرآن کے بارے میں:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ’’الفوزالکبیر‘‘ کے باب اوّل میں بیان فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں جو معانی اور مطالب بیان کیے گیے ہیں وہ صرف پانچ قسم کے ہیں۔ ان کو علومِ خمسہ یا علومِ پنجگانہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔
علومِ خمسہ یا علوم پنجگانہ:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان علومِ کو اس طرح بیان کیا ہے:
۱۔ عِلْمُ الْاَحْکَامْ
۲۔ عِلْمُ الْمُخَاصِمَہ
۳۔ عِلْمُ التَّذْکِیْرَبِالٰاءِ اللّٰہ
۴۔ عِلْمُ التَّذْکِیْرِبِاَیَّامِ اللّٰہ
۵۔ عِلْمُ التَّذْکِیْرِ بِالْمَوْت وَمَابَعْدَہٗ
علومِ خمسہ کی تشریح:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیان شدہ علوم خمسہ میں سے سب سے پہلا علم ’’ عِلْمُ الْاَحْکَامْ‘‘ہے۔
عِلْمُ الْاَحْکَامْ کی تشریح:
قرآن مجید میں انسانوں کی فلاح کے لیے جو احکام بیان کیے گیے ہیں انکا جاننا ’’عِلْمُ الْاَحْکَامْ‘‘کہلاتاہے ۔ یہ احکام دوقسم کے ہیں۔
احکام کی اقسام

اوامر نواہی
(i) اوامر: اس سے مراد وہ احکام ہوتے ہیں جن پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔
(ii) نواھی: اس سے مراد وہ احکام ہیں جن سے کسی کام کے کرنے سے منع کیا گیا ہو۔
اور ’’اوامر‘‘کی پھر دواقسام ہیں جن کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:
’’ اَوْامر ‘‘کی اقسام

عبادات معاملات
(i) عبادات: عبادات سے مراد عقائد اور اللہ تعالیٰ عزوجل کی عبادات شامل ہیں ۔ مثلا عقیدہ توحید ورسالت، کتبِ سماوی اور تمام انبیائے کرام پر ایمان لانا ، قیامت پر ایمان لانا اسلامی عقیدہ ہے ۔ اس کے علاوہ عبادات میں نماز ،روزہ،حج اور زکوٰۃ بھی شامل ہیں۔ عبادات میں فرض ،واجب اور مُستحب وغیرہ کی اصطلاحات شامل ہیں۔
(ii) معاملات: معاملات میں مندرجہ ذیل قسم کے امور شامل ہیں:
امور کی اقسام

تدبیرِ منزل سیاستِ مدینہ
(i)تدبیرِ منزل: اس سے مراد انسانی زندگی یا خانگی زندگی سے متعلق احکامات ہوتے ہیں۔
(ii) سیاستِ مدینہ: اس سے مراد ہے امورِ سلطنت سے متعلق احکامات ۔ تاکہ کسی کے حقوق کی پامالی نہ ہوسکئے۔
نواہی:
نواہی میں ایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو بنی نوعِ انسان کے لیے مضر ہیں اور ان کے کرنے سے معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
مثلا:
شراب خوری، سودخوری،قتلِ عمد، جوا وغیرہ ،وغیرہ شامل ہیں۔
اہم نقطہ:
علم الاحکام کے مطابق جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ اسلامی تعلیمات کی رو سے حلال ہیں اور جن کاموں سے منع کیا گیا ہے وہ اسلامی تعلیمات اور شریعتِ محمدی ﷺکی رو سے حرام ہیں ۔ نیک کام کرنا باعث ثواب اور بُرا کام کرنا باعث گناہ اورعذاب ہیں۔
’’عِلْمُ الْمُخَاصِمَہ‘‘کی تشریخ:
اس سے مراد ان آیات قرآنیہ کا علم جس میں گمراہ اقوام مشرکین، یہود،نصاریٰ اور مُنافقین کے باطل عقائد کو واضح کیا گیا ہو اور ان کے عقائد کو قرآن مجید اور سنت نبوی کی روشنی میں ردِکیا گیا ہو ۔ ’’عِلْمُ الْمُخَاصِمَہ‘‘کو’’ علمِ المناظرہ‘‘بھی کہتے ہیں۔
’’عِلْمُ الْمُخَاصِمَہ‘‘کے موضوعات:
’’عِلْمُ الْمُخَاصِمَہ‘‘یا ’’علم المناظرہ‘‘ میں دو قسم کے موضوعات شامل ہوتے ہیں جو کہ حسب ذیل یہ ہیں:
موضوعات

تردید فی ضمن عقائد باطلہ تردید فی ضمن الشبہات

(i) تردید فی ضمن عقائد باطلہ:
اس سے مراد ہے کہ گمراہ اقوام مشرکین، یہود،نصاریٰ اور مُنافقین کے باطل عقائد کو شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کی روشنی میں رد کرنا اور انہیں اس بات کا ثبوت دینا کہ دین اسلام سچا دین ہے اورتمہارے عقائد باطلہ سے اس دین کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
تردید فی ضمن الشبہات:
اس سے مراد گمراہ اقوام کے شکوک وشبہات کاذکر کرکے انکی مذمت کرنا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رد کرنا شامل ہے۔
مختصرذکر ’’تردید فی ضمن عقائد باطلہ‘‘ اور’’تردید فی ضمن الشبہات‘‘:
قرآن مجید میں چار گمراہ قوموں مشرکین ،منافقین ،یہودیوں اور عیسائیوں سے بحث ومباحثہ کیا گیا ہے۔ اس بحث ومباحثے کے دو حصے ہیں:
1۔ پہلا حصہ وہ ہے جس میں اُن کے غلط عقیدوں کی تردید کی گئی ہے۔
2۔ دوسرے حصے میں اُن کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔
1۔ مشرکین کے عقائد:
مشرکین اپنے آپ کو حنیفی کہتے تھے ۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ دینِ ابراہیمی پر چلتے ہیں۔ حنیفی وہ ہے جو ابراہیمی دین کی پیروی کرے اور ابراہیمی طریقہ اختیار کرے۔ ابراہیمی طریقے میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:
۱۔ خانہ کعبہ کا حج کرنا ۲۔ نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا
۳۔ جنابت کی حالت میں غسل کرنا ۴۔ ختنہ کروانا اوردوسے فطری احکام کی پیروی کرنا
۵۔ حرمت والے مہینوں کا احترام کرنا ۶۔ مسجد حرام کا احترام کرنا
۷۔ نسب اور رضاعت سے حرام ہونے والی محرم عورتوں سے نکاح نہ کرنا
۸۔ جانوروں کو ذبح کرکے کھانا ۹۔ نحر کے طریقے سے اُونٹ کی قربانی کرنا
۱۰۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کرنا، خاص طور پر حج کے دنوں میں۔
اصل ابراہیمی دین میں یہ احکام بھی شامل تھے جن پر عمل کرنا نیکی اور بھلائی سمجھا جاتا تھا:
۱۔ وضو کرنا ۲۔ نماز پڑھنا
۳۔ سحری کے وقت سے لے کر سورج کے ڈوبنے تک روزہ رکھنا
۴۔ یتیموں اورمسکینوں کوصدقہ دینا ۵۔ مصیبت میں دوسروں کے کام آنا
۶۔ رشتہ داروں کی مدد کرنا
لیکن مشرکین کی اکثریت ان سب باتوں کوبھلا چکی تھی۔ اسی طرح قتل ،چوری ،زنا،سود اور ڈاکہ بھی دین ابراہیمی میں حرام تھا اور ان تمام چیزوں کو برا سمجھا جاتا تھا مگر مشرکین میں یہ سب برائیاں موجود تھیں اوروہ خواہشوں کے پیچھے چلتے تھے ۔ وہ شرک کرتے تھے ، قیامت کو نہیں مانتے تھے،وہ بنوت ورسالت کے منکر تھے، اُن کے ہاں ظلم وزیادتی اور ہر قسم کی برائی عام تھی ، جاہلیت کے بُرے رسم ورواج تھے۔ اُن میں سچی عبادت کی روح ختم ہوچکی تھی۔
(مُشرکین کے عقائد)
1۔ شرک کرنا:
(اللہ تعالیٰ کی صفات کو دوسروں کی طرف منسوب کرنا شرک کہلاتا ہے)
۱۔ کائنات میں کسی اور کے اراسے اور اختیار کا تصرف ماننا جیسے اللہ تعالیٰ عزوجل جب کسی کسم کا ارادہ
کرتا ہے تو ۔’’کُنْ‘‘کہتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے اسی طرح کوئی دوسرے بھی کر سکتے ہیں۔
۲۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور بھی غیب کا علم رکھتا ہے۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اوربھی شفاء دے سکتا ہے۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے پاس نفع ونقصان پہنچانے کا اختیار تسلیم کرنا۔
یہ سب مشرکانہ عقیدے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو غیر اللہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے۔
شرک کاجواب قرآن پاک کی رو سے :
قرآن پاک نے مشرکین عرب کے شرک کی تردید چارطریقوں سے کی ہے:
(i) سب سے پہلے قرآن نے اُن سے اُن کے شرک کی دلیل مانگی اور واضح کیا کہ اُن کی یہ دلیل کہ یہ ہمارے باپ دادا کا عقیدہ ہے اس لیے ہم اس کی پیروی کرتے ہیں ، بالکل غلط ہے ۔ بلکہ اُن کے آباء واجداد کا اصل عقیدہ توحید کا عقیدہ تھا جسے اب وہ بھلاچکے ہیں۔
(ii) قرآن نے یہ وضاحت بھی کی کہ جن بندوں کو وہ اللہ تعالیٰ کے شریک سمجھتے ہیں ، اُن میں اور اللہ تعالیٰ میں کوئی برابری نہیں ہے۔ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کسی اور کی عبادت جائز نہیں۔
(iii) قرآن مجید نے یہ حقیقت بھی واضح کی کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کرام توحید کا عقیدہ رکھتے تھے۔
(iv) قرآن نے واضح کردیا کہ بتوں کی حیثیت انسان کے مقابلے مین بہت پست اور حقیر ہے یہ انسانیت کی توہین ہے کہ وہ پتھر کے ٹکڑوں کو اپنا معبود اور خدا سمجھ کر اُن کی پوجا کریں۔
یاد رہے کہ یہ دلیل صرف اس قوم کو دی گئی جو بتوں کو خدائی کا درجہ دیتی تھیں۔
2۔ تشبیہ:
تشبیہ سے مرادہے انسانی صفات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ۔ مشرکین کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی سفارش قبول کرتا ہے، چاہیے اُسے پسند ہو یا ناپسند ،جیسا کہ بادشاہ اپنے درباریوں کو بعض باتیں نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیتے ہیں۔
اسی طرح جب مشرکین اللہ تعالیٰ کے علم ،اُس کے سُننے اور دیکھنے کی صفات کا ذکر سنتے تو ان کی حقیقت سمجھنے سے قاصر رہتے بلکہ وہ اُن کو بھی انسانی علم اور انسان کے سننے ،دیکھنے کی طرح خیال کرتے تھے ۔
اس کے علاوہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اُس کے وجود کو بھی انسانی جسم کی طرح تصور کرتے جس کے قیام کے لیے خاص جگہ کا ہونا ضروری ہے۔
تشبیہ کی تردید قرآن مجید کی رو سے:
جولوگ تشبیہ پر یقین رکھتے اور انسانی صفات کو اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب کرتے تھے اُن کو تین طرح سے جواب دیا گیا ہے:
1۔ اُن سے اُن کے دعوے کی دلیل طلب کی گئی اور جب اُنہوں نے کہا کہ یہ اُن کے باپ دادا کا طریقہ ہے تو اس کے جواب میں اُن کو بتایا گیا کہ تمہارے باپ دادا کا اصل طریقہ توحید کا تھا ،تشبیہ اور شرک کا نہ تھا۔
2۔ اُن کو سمجھایا گیا کہ اُن کے عقیدے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ باپ اور بیٹا ایک جیسے ہوں۔ جب کہ خالق اور مخلوق ایک جیسے نہیں ہے تو وہ آپس میں برابر کیسے وہ گئے اور کوئی مخلوق اپنے خالق کی شریک کیسے بن گئی۔
3۔ اُنہیں سمجھایا گیا کہ جن چیزوں کو وہ اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں اور انہیں اپنا معبود سمجھتے ہیں اُن کی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا کون سی عقل مندی ہے ۔ تم اپنے لیے بیٹیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے ہو مگر اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہو اور کہتے ہو کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
3۔ تحریف:
تحریف کا مطلب یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد طویل عرصے تک ابراہیمی دین پر قائم رہی پھر بعثت نبوی سے تین سوبرس پہلے عمر وبن لحی نامی ایک ملعون شخص پیدا ہوا جس نے اُن میں بت پرستی شروع کرادی ۔ اُسی نے بحیرہ ،سائبہ ،حام اور تیروں کے ذریعے فال گیری جیسی بدعتیں ایجاد کیں۔ مشرکین نے ان تمام رسوم ورواج کو اپنے باپ دادا کا طریقہ سمجھ کر اختیار کر لیا اور اس آباء پرستی کو حق میں ایک دلیل بنا لیا۔
تحریف کا جواب:
مشرکین میں سے جو لوگ تحریف ہی کو اصل حقیقت سمجھے ہوئے تھے اُن کو قرآن نے دو طرح سے جواب دیا:
(i) ایک یہ کہ اُن کے جوعقائد اور اعمال ہیں وہ اُن کی اپنی ایجاد ہیں۔ اُن کے باپ دادے کا طریقہ اُن سے بالکل مختلف تھا۔
(ii) دوسرے اُن کو آگاہ کیا گیا کہ وہ جن چیزوں کا اعتقاد رکھتے ہیں اصل میں اُن کی کوئی حقیقت نہیں ، بلکہ وہ سب غیر معصوم انسانوں کی من گھڑت باتیں ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
حشرونشر کے انکار کا جواب:
مشرکین کے اس تصور کو حشرونشر اور آخرت کوئی چیز نہیں ہیں، درج ذیل دلائل سے ردگیا گیا:
(i) ایک دلیل یہ دی گئی ہے کہ دیکھو جس طرح خشک اور مردوزمین بارش سے دوبارہ زندہ اور سرسبز وشاداب وہ جاتی ہے اسی طرح زندگی دوبارہ پیدا ہوسکتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ عزوجل مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اسی طرح وہ مردہ انسانوں کو بھی ایک دن زندہ کردے گا۔
(ii) دوسری دلیل یہ دی گئی کہ تمام الہامی کتابیں رکھنے والی اُمتوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی ہے اور تمام مذاہب کا اس عقیدے پر متفق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آخرت برحق ہے۔

4۔ عقیدہ رسالت وآخرت:
اگرچہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے ہاں بھی قیامت اور حشرونشر کے عقیدے کا ذکر ملتا ہے لیکن اُسے اتنی وضاحت اور تفصیل سے نہیں بیان کیا گیا جیسے قرآن نے بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکین اس عقیدے سے نا اقف تھے۔
رسالت عقیدے پر اعتراضات کے جوابات:
نبوت ورسالت کے بارے میں مشرکین نے جو اعتراضات کیے ہیں، قرآن میں اُن سے کے الگ الگ جوابات دے گئے ہیں:
(i) عقیدۂ رسالت پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ کوئی انسان نبی نہیں ہو سکتا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ پہلے کے تمام انبیائے کرام انسان ہی تھے:
وَمَآأَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیٰٓ اِلَیْھِمْ ط
’’اوراے نبی(ﷺ)! ہم نے آپ (ﷺ)سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو پیغمبر بناکر بھیجا جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے‘‘۔(النحل:۴۳)
3۔ نبوت ورسالت کے بارے میں مشرکین کے بعض دوسرے اعتراضات یہ تھے:
(i) اُن کی فرمائش کے مطابق نبی ﷺمعجزے کیوں نہیں دکھاتے۔
(ii) اُن کے کسی نامزد شخص کو نبی کیوں نہیں بنایا جاتا۔
(iii) کسی فرشتے کو رسول بنا کر کیوں نہیں بھیجا گیا۔
(iv) الگ الگ ہر شخص پر وحی کیوں نہیں آتی۔
ان سب اعتراضوں کے جواب میں فرمادیا گیا کہ یہ سب کچھ ایک مصلحت کے تحت ہے ، جس کو وہ اپنی نادانی کی وجہ سے نہیں سمجھ سکتے۔
جوابا ت میں تکرار:
چونکہ نبی ﷺکی بعثت مشرکین میں ہوئی تھی، اس لیے قرآن کی اکثر سورتوں میں نبوت ورسالت سے متعلق مضامین کو بار بار نئے انداز میں تاکید کے ساتھ دہرایا گیا ہے اور ان جاہلوں اور کم عقلوں سے اسی انداز میں کلام کرنا مناسب تھا۔
(یہودیوں کے عقائد)
یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ توریت کو مانتے ہیں ۔ مگر انکی گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے توریت کے احکام بدل ڈالے تھے ۔ یہ تبدیلی الفاظ میں بھی کی گئی اور معانی میں بھی کردی گئی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس کی بہت سی آیتیں چھپارکھی تھیں اور خود اپنی طرف سے آیتیں گھڑ کر اس میں شامل کردی تھین۔ وہ توریت کے احکام پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اُن میں سخت مذہبی تعصب تھا ۔ وہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا انکار کرتے تھے ۔ وہ نہ صرف آپ ﷺ کی شان میں بے ادبی ،گستاخی اور طعنہ زنی کرتے تھے،بلکہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے بارے میں بھی گستاخانہ کلام کرتے تھے۔ اُن میں دولت کی ہوس اور بخل جیسی اخلاقی خرابیاں پائی جاتیں تھیں۔
یہود یوں کی بُرا ئیاں:
(i) توریت میں تحریف۔
(ii) عام احکامات کو خاص احکامات میں بتدیل کرنا ۔
(iii) معنوی تحریک کی ایک غلط بنیاد
(iv) توریت کی آیتوں کو چھپانا
(v) من گھڑت شرارت
(vi) یہودیوں نے نبوتِ محمدی ﷺکا انکار کیا
(عیسائیوں کے عقائد)
دوسری طرف عیسائی قوم تھی ، جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی رسالت پر ایمان کا دعویٰ رکھتی تھی لیکن ان کی گمراہی یہ تھی کہ وہ خدا کو ایسی تین چیزوں کا مرکب قرار دیتے تھے،جو کبھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور کبھی تینوں ایک ہیں ۔ اسے انہوں نے ’’اقانیم ثلاثہ‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ ان کے نزدیک ان میں سے ایک باپ ہے ، جو خالق ہے ،دوسرابیٹا ہے جو سب سے پہلی مخلوق ہے اور تمام مخلوقات میں سے ایک باپ ہے ، جو خالق ہے ، دوسرا بیٹا ہے جوسب سے پہلی مخلوق ہے اور تمام مخلوقات میں شامل ہے۔ تیسرا روح القدس ہے جس سے روحانی قوتیں مراد ہیں ۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ بیٹے کی روح نے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل اختیار کرلی ۔ جیسا کہ جبرائیل علیہ السلام کبھی کبھی بشر کی صورت میں ظاہر ہوتے تھے، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بیک وقت خدا ،خدا کے بیٹے اور بشر ہیں۔ انکی ذات میں خدا کی صفات اور انسانی اوصاف جمع ہوگئے ہیں۔ عیسائی علماء اپنے اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے انجیل کی بعض ایسی عبارتوں کا حوالہ دیتے ہیں ، جن میں عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔ یا جن میں ان کے بعض ایسے کاموں کا ذکر ہے جو صرف خدا ہی کرسکتا ہے۔
عیسائی علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے جس انجیل کا حوالہ دیتے ہیں اس میں خود اُن کے اپنے اعتراف کے مطابق اتنی تبدیلیاں ہو چکی ہیں کہ اُس کے بعد اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
عیسا ئیوں کے عقا ئد پر قرآن پاک کا جواب:
قرآن پاک نے عیسائیوں کے اس غلط عقیدے ،اقانیم ثلاثہ کی پرزور تردید کی ہے اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ عزوجل کے بندے تھے۔ وہ اس کی طرف سے ایک روح تھی ، جیسے حضرت مریم علیہاالسلام کے بطن میں پھونکا گیا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو روح القدس یعنی جبرائیل علیہ السلام کی تائید حاصل تھی اور انہیں بعض خاص عنایات اور معجزات سے نوازا گیا تھا۔
(منافقین کے عقائد)
منافقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن حقیقت میں مسلمان نہ تھے ۔ ان کے دوگروہ تھے۔ جن کی وضاحت کچھ یوں ہے:
(i) منافقوں کا ایک گروہ وہ تھا جو زبان سے اسلام کا اقرار کرتا ، لیکن ان کے دل میں کفر تھا ۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے کہ وہ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گئے۔
(ii) منافقوں کا دوسرا گروہ کمزور عقیدے کے ساتھ اسلام میں داخل ہوا تھا ۔ یہ لوگ اپنے قبیلے یا قوم کے تابعے تھے ۔ جب انکا پورا قبیلہ یا قوم مسلمان ہوگئی تو ان لوگوں نے بھی دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔
(iii) اس گروہ میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بالکل دنیا پرست اور نفسانی خواہشات کے پجاری تھے ۔ عیش وعشرت میں پڑے ہوئے تھے اور ان کے دلوں میں اللہ اور رسول ﷺکی محبت کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔
(iv) ان میں کچھ اور لوگ بھی تھے جن کے دلوں میں لالچ ، حسد، کینہ اور اس طرح کی دوسری بداخلاقیاں پائی جاتی تھیں ۔
اھم نقطہ علم المخا صمہ:
’’علم المخاصمہ‘‘ یا’’علم المناظرہ‘‘کا تعلق متکلمین اور مناظرین سے ہے۔ متکلمین اور مناظرین نے ہر دور میں مشرکین،یہود،نصاریٰ اور منافقین کو قرآن مجید کے حوالے سے ہر دور میں منہ توڑ جواب دیا ہے۔
عِلْمُ التَّذْکِیْرَبِالٰاءِ اللّٰہ :
اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ عزوجل کی نعمتوں اور نشانیوں کا علم۔ قرآن مجید میں ایسے امور کا تذکیرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ عزوجل کی قدرت وحکمت سے آشنا ہو کر اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرے اور احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرے۔
عِلْمُ التَّذْکِیْرَبِالٰاءِ اللّٰہ کے موضوعات:
اس ضمن میں قرآن مجید نے مندرجہ ذیل قسم کے موضوعات کا احاطہ کیا ہے:
۱۔ صفاتِ الٰہیہ ۲۔ تخلیق کائنات
۳۔ حکمت خداوندی ۴۔ بنی آدم پر احسانات کا ذکر
۵۔ انعامات خداوندی کا ذکر ۶۔ رات اور دن کا آنا جانا
۷۔ افلاک کی پیدائش
اس میں وہ امور بھی شامل ہیں جن کا انسان محتاج ہے، بادل،بارش،چشمے،دریا،سمندر اور فصلیں وغیرہ ،وغیرہ۔
اھم نقطہ:
اس علم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان روحانی سکون کو پانے کے لیے ذکروعبادات میں مصروف رہے تاکہ وہ فلاح دارین حاصل کر سکئے۔ علماء ،خطباء اور واعظین کا کام ہے کہ اسے عوام الناس کے سامنے بیان کریں۔
عِلْمُ التَّذْکِیْرِبِاَیَّامِ اللّٰہ :
اس علم سے مراد ہے قرآن مجید میں گزشتہ گمراہ اقوام کی تباہی وبربادی کی وجوہات کا علم ہے۔ اس علم میں عام طور پر دو قسم کے تاریخی واقعات جو کہ حسب ذیل یہ ہیں:
واقعات

گمراہوں سے متعلق نیک لوگوں سے متعلق
گمراہوں سے متعلق:
وہ لوگ جو اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو گئے قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ راہِ راست پر نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ عزوجل کے نیک بندوں کو جھٹلاتے اور ان پر ظلم کرتے تھے اس لیے وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
نیک لوگوں سے متعلق:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے فرمانبردار بندوں اور پیغمبروں کا تذکرہ بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ قصے اس لیے بیان کیے گئے ہیں کہ خدا کے نیک بندوں کو اپنے بزرگوں کے حالات سے آگاہی ہو اور وہ یہ جان سکیں کی اُن کے بزرگوں اور رسولوں نے ہزاروں مصائب برداشت کرنے کے باوجود اپنا فریضہ انجام دیا۔
اھم نقطہ:
مؤرخین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم التذکیربایام اللہ پر درس دیں ۔ تاکہ بنی آدم کو اصل حقیقت معلوم ہو سکے۔
عِلْمُ التَّذْکِیْرِ بِالْمَوْت وَمَابَعْدَہٗ:
اس علم سے مراد قرآن کریم میں بیان کیے گئے اُن مناظرکا علم ہے جو موت کے وقت اور موت کے بعد ہر انسان کو پیش آئیں گئے۔
عالم فانی:
شریعت محمدی ﷺکی رو سے ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ قرآنی عقیدہ کے مطابق جب قیامت برپا ہوگی تو انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ان کا حساب وکتاب ہونے کے بعد جزاوسزا کا فیصلہ صادر ہوگا۔ اس علم میں مندرجہ ذیل مضامین آتے ہیں:
۱۔ فنا ۲۔ موت ۳۔ قیامت
۴۔ حشرونشر ۵۔ حساب وکتاب ۶۔ میزان
۷۔ جزاوسزا ۸۔ جنت ۹۔ جہنم
اہم نقطہ:
یہ تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان کو آخرت کا علم حاصل ہو اور وہ آخرت کی بہتری کے لیے اعمال صالحہ کرئے۔ ہر صاحب علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس علم کو لوگوں کے سامنے شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق بیان کرئے تاکہ حق اور باطل واضح ہو سکئے۔
 
Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 258638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.