مصادر ومراجع

مصدر اور مرجع میں فرق بیان کرتے ہوئے تحقیق میں مصادرومراجع کی اہمیت بیان کیجئے؟
جواب :
مَصْدَراور مَرْجَعْ میں فرق:
مصدر اور مرجع میں فرق کو سمجھنے کے لیے پہلے ان کے لغوی معنوں اور پھر ان کے اصطلاحی معنوں کو سمجھناضروری ہوتاہے ۔
مصدر کے لغوی معنی:
مصدر کے لغوی معنی ہوتے ہیں جڑ،بنیاد،صادِر ہونے کی جگہ،نکلنے کی جگہ اورسرچشمہ وغیرہ اور یہ جمع ہے مصادِر کی۔
مصدر کے اصطلاحی معنی:
مصدر اُن دستاویزات کے مجموعے کا نام ہوتا ہے جن میں ایسے واقعات وغیرہ کا ریکارڈہو جن کو مصنف نے خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سُنا ہو۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ اس قسم کی دستاویزات میں ابتدائی معلومات درج ہوتیں ہیں۔
مرجع کے لغوی معنی:
رجوع کرنے کی جگہ،لَوٹنے کی جگہ،جائے پناہ،ٹھکانا،وہ لفظ جس کی طرف ضمیر پھرے اور یہ جمع ہے مراجع کی ۔
مرجع کے اصطلاحی معنی:
یہ ایسی دستاویزات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کو اصل مصادر سے مواد لے کر مرتب کیا گیا ہو۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ وہ دستاویزات جن کو وہ افراد مرتب کریں جو خود ان واقعات میں شریک نہ ہوں یا جنہوں نے خود اس واقعے کا مشاہدہ نہیں کیا ہوتا۔ اور ان دستاویزات میں ان فرادکی شہادتیں ہوتی ہیں جوواقعے کے چشم دیدگواہ نہیں ہوتے لیکن انہوں نے کسی وجہ سے یہ ریکارڈ تیار کیا ہوتا ہے۔ اس کو مرجع کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
عملِ تحقیق اور مصدر ومرجع:
عملِ تحقیق میں جن دستاویزات سے استفادہ کیا جاتا ہے وہ دو قسم کی ہوتیں ہیں ۔جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
دواقسام

مصادر اصلیہ مصادر ثانویہ

مصادر اصلیہ(Primary Source)
اس سے مراد وہ دستاویزات جن میں ابتدائی معلومات درج ہوں۔اُس حصے کو مصادر اصلیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
مصادر اصلیہ میں شامل دستاویزات:
مصادر اصلیہ میں شامل مندرجہ ذیل دستاویزات کو بڑی اہمیت حاصل ہے جن کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔
۱۔ ایسی کتابیں جن کے لکھنے والے کسی واقعے کے ذاتی گواہ ہوں۔
۲۔ وثیقہ جات(Agreements)
۳۔ دستاویزات(Confidential Record)
۴۔ اہم موضوعات پر علماء کی تقاریر
۵۔ اہم شخصیات کے نوٹس اور ڈائریاں
۶۔ اہم مخطوعات جو ابھی تک شائع نہ ہوئے ہوں اور وہ ایسی معلومات پر مشتمل ہوں
جوتاحال کسی کو معلوم نہ ہوئی ہوں
۷۔ ذاتی مشاہدات اور تاریخی الواح
۸۔ قرآن پاک
۹۔ صحاح ستہ
اہم نقطہ:
اس کے ساتھ یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ مصادر اصلیہ میں سے بعض کے مؤلفین کے ذاتی حالات ،سیاسی افکار، دینی اورمذہبی رُجحان کس قسم کے تھے گویا کہ روایت اور درایت دونوں اصولوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔
۲۔ مصادر ثانویہ:
اس سے مراد وہ کتابیں یا دستاویزات جو اصلی ماخذ سے مواد لے کر مرتب کی گئیں ہوں یا اصلی کتب کے تراجم ہوں۔
مصادر ثانویہ میں شامل دستاویزات:
مصادر ثانویہ میں شامل مندرجہ ذیل دستاویزات کو بڑی اہمیت حاصل ہے جن کی وضاحت کچھ یوں ہے:
۱۔ قرآن پاک کے تراجم
۲۔ تفاسیر قرآنی
۳۔ صحاح ستہ کے تراجم
۴۔ اسلامی واقعات کی تشریح
۵۔ تاریخی واقعات کی تشریح
۶۔ نصابی کتب
۷۔ جنتریاں
۸۔ دائرۃ المعارف
۹۔ واقعات کے اطلاعات کے خلاصے
جے لیونرڈ بیٹس کا نظریہ:
اس کے نظریہ کے مطابق عام طور پر مؤرخین بنیادی مصادر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ جس کی وضاحت کچھ یوں ہے:
دوحصّے

بنیادی مخطوطات بنیادی مطبوعات

۱۔ بنیادی مخطوطات:
اس حصّے کی تقسیم کچھ یوں کی جاتی ہے:
۱۔ ذاتی کاغذات
۲۔ دستاویزی ریکارڈ
۳۔ انٹرویو اور متفرقات
۲۔ بنیادی مطبوعات:
اس کی مزید تقسیم اس طرح کی جاسکتی ہے:
۱۔ مرکزی حکومت کی مطبوعات
۲۔ صوبائی حکومت کی مطبوعات
۳۔ خود نوشت سوانح عمریاں اور یادداشتیں
۴۔ تقریریں اور خطوط کے مجموعے
۵۔ معاصر مضامین /ہم عصرمضامین

مصادر ومراجع کی اہمیت:
مصادر و مراجع کی اہمیت کیسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ محقق کے لیے علمی مواد کی تلاش ایک مسئلہ ہوتا ہے۔مصادر و مراجع اس مرحلہ پر محقق کو راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔مصادر و مراجع کے فرائض اور دائرہ کار کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
۱۔ بنیادی معلومات کی فراہمی:
مصادر و مراجع کی وجہ سے محقق کو بنیادی معلومات کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔
۲۔ مندرجات کے بارے میں علم:
کتاب کے مندرجات کے بارے میں مصادر و مراجع کے ذریعے کافی حد تک علم ہو جاتا ہے۔
۳۔ مصنف وعنوان اور اشاعت کا صحیح علم:
مصادر ومراجع کی بدولت ہی کتاب کے مصنف وعنوان کے علاوہ کتاب کب اور کہاں شائع ہوئی۔ کتنے صفحات پر مشتمل ہے ۔ صفحات کی تعداد سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں مطالعے کے لیے کس قدر مواد موجود ہے۔
۴۔ نایاب کتابوں کے بارے میں معلومات:
مصادر و مراجع کی ہی بدولت نایاب کتابوں کی معلومات فراہم ہوتی ہے کہ یہ کتابیں کب اور کس سن میں مرتب ہوئیں اور ان کتابوں کا سنِ اشاعت کیا ہے۔
۵۔ کتابوں کے نام کا زندہ رہنا:
مصادر و مراجع کی بدولت ہی کتابوں کے نام زندہ رہتے ہیں۔ یہ واقعات اس وقت رونما ہوتے ہیں جب کتب خدانخواستہ ضائع ہوجائیں تو مصادر و مراجع میں ان کی تفصیل باقی رہتی ہے۔
۶۔ علمی مواد کی اشاعت کا صحیح اندازہ:
مصادر و مراجع ہی واحدمعتبر ذریعہ ہے جس سے علمی مواد کی اشاعت کا صحیح انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں علمی مواد کتابی شکل میں کتنی تعداد میں شائع ہورہا ہے۔
۷۔ موضوعات کی تحقیق کا صحیح اندازہ:
مصادر و مراجع ہی کی بدولت موضوعات کی تحقیق کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلاں ، فلاں موضوعات پر تحقیقی کام ہو چکا ہے۔
۸۔ علمی مواد کی اشاعت کا اندازہ:
مصادر و مراجع ہی کی بدولت علمی مواد کی اشاعت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ کہ فلاں، فلاں ممالک میں علمی مواد کی اشاعت کی رفتار کیا ہے۔
۹۔ عملی مواد کی اگلی نسلوں تک منتقیلی:
مصادر ومراجع ہی کی وجہ سے عملی مواد کو نسل در نسل منتقل کیا جاتا ہے ۔ جسے سے آئندہ آنے والی نسلیں استفادہ کرتیں ہیں۔
۱۰۔ تحقیقی مواد کی چوری کوروکنا:
مصادر و مراجع ہی واحد ذریعہ ہے جس سے تحقیقی مواد کی چوری کو روکا جاسکتاہے ۔ اس بات کا انداز اس وقت ہوتا ہے جب کیسی محقق کا تحقیقی مواد کوئی دوسرا محقق اپنے نام سے شائع کردے اور پہلے والے محقق کا ذکر اپنی تحقیقی مقالے میں نا کرئے بلکہ اُسے اپنے نام سے شائع کروادے ۔ محقق کی اس طرح کی حرکات کو تحقیقی مواد کی چوری کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔


خلاصہ بحث
کسی بھی قسم کی تحقیق کیوں نا ہو مصادر ومراجع اس میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ گویا کہ ہم کہ سکتے ہیں کہ مصادرومراجع کے بغیر کوئی بھی تحقیقی عمل ناممکن اور نامکمل ہوتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ عملِ تحقیق کے دوران تحقیقی عمل کا آغاز بھی مصادرومراجع سے ہی ہوتا ہے۔ اور محقق اپنی تحقیق کا آغاز یا تو مصادرِ اصلیہ سے کرتا ہے یا پھر مصادرِثانویہ سے شروع کرتا ہے اور مصادرِ اصلیہ کی طرف آتا ہے۔
Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 257175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.