یوگا بطور طرزِ زندگی

اولاد سے محروم ایک عورت ہاتھ اٹھائے اولاد کے لئے دعا کر رہی تھی ۔ فطرت نے اس کی دعا قبول کر لی۔ اچانک ایک بچہ اس کی گود میں آگرا۔ پاتا کے معنی گرنا اور انجلی ایک دعائیہ انداز کو کہتے ہیں۔ چنانچہ اسی حوالے سے اس بچے کا نام پتنجلی رکھا گیا۔پتنجلی (Patanjali) 200 قبل مسیح ایک مشہور فلاسفر تھا۔ اس نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ وہ یوگا کا باپ (Father of Yoga) جانا جاتا ہے۔ وہ ہندوستانی طب آیو ویدک کا بانی تھا۔ پتنجلی کا باپ انگوریو (Angireo) ہمالیہ کا رہنے والا تھا۔ جب کہ اس کی والدہ گونیکہ (Gonika) کشمیر کی رہنے والی تھی۔ اس کی والدہ ہی اس کی پہلی گورو تھی جس نے اس کی تربیت کی اور تعلیم دی۔ (Yoga Sutrus) یعنی یوگا کے ضابطے اس کی مشہور کتاب ہے جس میں اس نے یوگا کے کل 195 ضابطے بتائے ہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ یوگا ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ 195 ضابطے دن بھر زندگی گزارنے کا ایک فریم ورک ہے۔

یوگا کا لفظ سنسکرٹ کے لفظ Yuj سے اَخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے جو ڑنا (To Join)یا اکٹھا کرنا (To Unite)

یعنی یوگا کا مطلب ہے کسی شخص کے جسم، دماغ اور روح کو ایک دوسرے سے روحانی طور پر اس طرح منسلک کر دیا جائے کہ اس شخص کو ایک خوشگوار، متوازن اور بھرپور زندگی حاصل ہو جائے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے جسم کی کوئی حیثیت نہیں جب کہ اصل چیز روح ہے ۔ مگر یوگا میں جسم کو پوری اہمیت دی جاتی ہے۔ یوگا کے مطابق روح اس وقت تک مسرتوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتی جب تک دماغ اچھی سوچ نہ رکھتا ہو اور دماغ اس وقت تک اچھی سوچ نہیں رکھ سکتا جب تک جسم صحت مند نہ ہو۔

یوگا کا شمار ہندوستان کے قدیم ترین اور بہترین چھ فلسفوں میں ہوتا ہے جس کی ابتدا تقریباً چھ ہزار سال پہلے ہوئی۔ کہاوت ہے کہ اس کا علم سب سے پہلے شیو نے اپنی بیوی پاروتی کو دیا اور پھر یہ عام انسانوں تک پہنچا۔ ہندوستان کی تمام قدیم مقدس کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ وید اور اپنشد (Upanishads) یوگا کی ابتدائی تعلیم دیتے ہیں۔ کچھ مقدس کتابوں میں کائنات کی فطرت کے بارے میں یوگا کے فلسفے کی عکاسی کی گئی ہے۔ رامائن اور مہا بھارت میں خدا کے بارے میں کہانیاں اور یوگا کے حوالے سے اخلاقی اور فلسفیانہ گفتگو پائی جاتی ہے۔ خصوصاً مہا بھارت میں گیتا والا حصہ کرشنا کا ارجن کو یوگا کے بتائے ہوئے اصولوں پر مشتمل ہے۔ Hatha Yoga ،یوگا کے بارے میں تھیوری کی بجائے ایک فنی کتابچہ (Technical Manual) ہے ۔

یوگا کے مقصد آخر یعنی ’’نجات یا آزادی‘‘ پانے کے لئے بھگوت گیتا میں چار واضح راستے متعین کئے گئے ہیں۔ ان راستوں کو (Margas) کہتے ہیں۔ چنانچہ جنانہ مرگا (Janana Marga) علم کا راستہ ہے جو ہمیشہ حق اور باطل کا پتہ دیتا ہے۔ کرما مرگا (karma Marga) رفاہی اور سماجی کام کرنے کا وہ راستہ جس میں انسان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا۔ بھکتی مرگا (Bhakti Marga) یعنی قربانی کا راستہ اور یوگا مرگا (Yoga Marga) ذہن کو کنٹرول کرنے کا راستہ۔ اس راستے میں ذہن اور شعور کا مکمل مطالعہ کیا جاتا ہے اور اسے پوری طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یوگا کی منزل کو پانے کے لئے ہم جو راستے اختیار کرتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔
۱۔ راجا یوگا۔ راجا یوگا دماغ اور حسوں پر قابو پانے کا عمل ہے۔
۲۔ ہاتھا (Hatha) یوگایہ ورزش اور جسم کی ساخت کی مدد سے انسان کی قوتوں کو اس کی مرضی کے تابع کرتا ہے۔
۳۔ منترا (Mantra) یوگا، کامل یوگی بننے کے لئے مقدس کتابوں اور نصاب کا پڑھنا منترا یوگا کہلاتا ہے۔
۴۔ لایا (Laya) یوگا، حقیقی خوشی کو پانے کے لئے انسان کو خود کو خدائی قوتوں میں جذب کر دینا لایا یوگا ہے۔
۵۔ بھگتی Bhakti) (یوگا، حقیقی منزل کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ خدا پر قربان کر دینا بھگتی یوگا ہے۔
۶۔ کرما (Karma) یوگا، انسان کا اپنی ذات کے فائدوں اور سزا اور جزا سے بے نیاز ہو کر کام کرنا کرما یوگا ہے۔
۷۔ جنانہ (Jnana) یوگا، یہ وہ علم ہے جس سے انسان حق اور باطل، صحیح اور غلط، حقیقت اور فریب کو پوری طرح جان جاتا ہے اور اس پر ساری روحانی سچائیاں ظاہر ہو جاتی ہیں۔

ہندستان کی قدیم ساری کتابوں میں یوگا کے بارے میں مکمل معلومات نہ تھیں۔ پٹ انجلی نے اس ضرورت کو پورا کیا اور یوگا کے بارے میں تمام معلومات کو یکجا کیا۔پتنجلی کی یوگا سترس (Yoga Sutras) کے مطابق یوگا کا مقصد کیوالیہ (Kaivalya) یعنی نجات یا مکمل آزادی کی منزل کا حصول ہے۔ یہ ایک روحانی منزل ہے جہاں انسان ہر طرح کی پابندیوں سے مبرا ہو جاتا ہے۔ اسے سکون، راحت اور وہ علم حاصل ہو جاتا ہے جو وقت، جذبات اور مادیت سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ یہ جان جاتا ہے کہ مادی دنیا میں خوشی اور مسرت بھی فانی ہے اور آخر میں انسان کو دکھ اور مصائب ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوگا اسے روحانی مسرتوں، خوشیوں، صحت اور علم سے ہمکنار کرتا ہے اور اسے یوگا کے مزید عمل پر مائل کرتا ہے۔

پتنجلی کے مطابق بنیادی طور پر یوگا کے آٹھ بنیادی ستون یا بنیادی ضابطے ہیں جنہیں (Ashtanga Yoga) (ashta=eight(8) anga=limb )یا (8-Limbed Yoga) بھی کہتے ہیں۔ ان ضابطوں سے مزید ضابطے نکلتے ہیں جن کی کل تعداد 195 ہے اورجن پر عمل کرنے سے انسان اپنے اندر کی سچائی جان جاتا ہے جو کہ یوگا کا مقصد آخر ہے۔ یہ آٹھ بنیادی ستون یاضابطے کچھ یوں ہیں:
۱۔ Yama (moral restraints)۔ان ضابطوں کا مقصد دوسروں سے تعلقات رکھنے کے بارے تعلیمدینا ہے۔اس ضابطے کے مزید پانچ اصول ہیں۔ (Ahimsa) کسی کو تکلیف نہیں دینی۔ (Satya) سچائی پر قائم رہنا۔ (Asteya) چوری نہیں کرنی۔ (Bramacharya) لوگوں کو نیکی کا راستہ دکھانا۔(aparigraha)لالچ نہیں کرنی۔
۲۔Niyama (observances)۔ان ضابطوں کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے کہ اس نے زندگی میں کن چیزوں سے اپنانا ہے۔ ان ضابطوں کی تعداد بھی پانچ ہے۔(Sauca) پاکیزگی،(Santosa) قناعت، (Tapas) عبادت گزاری ، (Swadhyaya) اپنے نفس کی پہچان، اور(Isvara pranidhana) خود کو خدا کے سپرد کرنا۔
۳۔Asana (posture)۔اس ضابطے کا مقصد لوگوں کویہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اپنے جسم سے کیا سلوک کریں۔ کیونکہ یوگا کے مطابق جب تک جسم اچھا نہیں ہو گا، دماغ صحت مند نہیں ہو سکتا اور اگر دماغ صحت مند نہ ہو تو روح مسرتوں سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ آسن جسمانی ورزشوں کی تعلیم ہے۔ اس میں انسان جسم کو مختلف انداز میں حرکت دیتا ہے۔ آسن ہی یوگا کا وہ ضابطہ ہے جو آج دنیا بھر میں یوگا کے نام سے جانا جاتا ہے اور مغربی ممالک میں دواؤں کے متبادل کے طور پر لوگ اسے اپنا رہے ہیں۔
۴۔(Pranayama) ۔(طاقت) Breathing exercises, and control of prana۔ سانس کی ورزش سے جسم کی طاقت پر قابو پانا۔ یوگا میں سانس لینے اور سانس باہر نکالنے پر کنٹرول کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔جسمانی ورزش اور سانس کا کنٹرول یوگا میں پاکیزگی کی انتہائی منزل سمجھی جاتی ہے اور یہ دونوں عمل ایک ساتھ کئے جاتے ہیں۔
۵۔ (Pratyahara) ۔ Control of the senses انسانی حسیات خواہشات کی علمبردار ہو تی
ہیں۔ انسان جب اپنی حسوں پر قابو پا لیتا ہے تو خواہشات کا غلام نہیں رہتااور اس طرح اپنی حقیقت کو پہچانتا اور قلبی سکون پاتا ہے۔
۶۔ (Dharana) ۔ "Immovable concentration of mind"۔جب انسان مختلف ریاضتوں کے نتیجے میں اپنے جسم دماغ اور حسوں پر قابو پا لیتا ہے تو یوگی کی چھٹی منزل دھرنا شروع ہوتی ہے۔ جہاں وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف اپنے مقصد کی طرف یکسو ہو جاتا ہے۔
۷۔ (Dhyana) ۔ مراقبہ۔Maditation انسان جب اپنے جسم ،اپنی سانسوں،اپنی حسیات، اپنے ذہن اور اپنی انا سمیت ہر چیز پر قابو پا لیتا ہے تو اپنی توجہ آفاقی سچائیوں کی تلاش پر مرکوز کرتا ہے۔ یہ وہ منزل ہے جہاں انسان سچے شعور اور ادراک کو پا لیتا ہے۔
۸۔ (Samadhi) ۔ To merge, To bring together۔ یک سو ہو جانا۔ یہ یوگا کی آٹھویں، آخری اور انتہائی منزل ہے۔ یہاں انسان میں اور میرا کی قید سے آزاد ہو کر روح کی بلندیوں اور پاکیزیوں سے روشناس ہو جاتا ہے۔

یوگا کے یہ آٹھ ضابطے انسان کو ذہنی، جسمانی، اخلاقی اور روحانی صحت عطا کرتے ہیں۔

1863ء میں کلکتہ میں پیدا ہونے والے ایک سوامی ویوک آنندا نے جب 1890 ء میں امریکہ میں ویداتا (Vidata) سوسائٹی کی بنیاد رکھی تو اُس کا مقصد انڈسٹریل دور کے ذہنی اور جسمانی بیمار لوگوں کا روحانی علاج تھا۔ جس کے لئے اس نے امریکا میں یوگا کی تعلیم دینے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے یوگا تعلیمات کی طرف بہت کم توجہ کی، مگر 1960 ء کی دہائی سے اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہونے لگی۔ امریکی او ریورپی باشندوں نے اس کے روحانی پہلو اور اس سے متعلقہ دیگر تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے جسمانی خوبصورتی کے لئے اسے ورزش (Exercise) کے طور پر اپنایا۔ یوگا کا طریقہ کار چونکہ بہت سائنٹیفک ہے اس لئے اسے عام لوگوں میں بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے بھی مقبولیت ملی۔ آج ذہنی دباؤ کم کرنے، ہائی بلڈ پریشر کنٹرول کرنے اور دل کے امراض پر قابو پانے کے لئے یوگا کا استعمال امریکہ کے ہسپتالوں، ہیلتھ سنٹروں اور صحت عامہ کے دیگر پروگرامز کا حصہ بن چکا ہے۔ کیم (CAM) یعنی(Complimentry and Alternate to Medicines) کے نام سے امریکہ میں ایک سوسائٹی ہے جو دواؤں کے متبادل تلاش کرتی ہے۔ CAM کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 2.8 فیصد امریکی یوگا کو Cam Therapy کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہ CAM کے طور پر استعمال ہونے والے طریقوں میں پانچویں نمبر پر ہے۔ آج ورزش کے طور پر جو یوگا نظر آرہا ہے وہ ہندوستانی سے زیادہ امریکی ہے۔ یوگا جو ایک مکمل طرز زندگی ہے امریکہ کے یوگا سے بہت مختلف ہے۔ اس کے صرف تین اجزاء کو امریکہ والوں نے (Mind-Body Therapy) کے طور پر اپنایا ہے وہ تین اجزاء ہیں۔
1۔ (Posture) جسم کی بہتر ساخت کے لئے جسم کے مختلف انداز بنانا۔ اس کا مقصد جسم کو مضبوط کرنا۔ جس میں لچک پید اکرنا۔ جسم کو متوازن کرنا۔ جسم کے اندرونی اجزاء کا مساج کرنا۔ نظام ہضم اور خون کی گردش کو بہتر کرنا ہے۔
2۔ Breathing یعنی سانس کی ورزش۔ اس سے خون کی گردش تیز ہوتی ہے۔ جسم آکسیجن کم استعمال کرتا ہے جب کہ بقیہ آکسیجن پھیپھڑوں اور دیگر خلیوں کو ملتی ہے جس سے وہ لچکدار ہوتے ہیں۔ دماغ کو ملتی ہے جس سے انسان کو سکون ملتا ہے اور وہ خود کو ہوشیار اور چوکس محسوس کرتا ہے۔
3۔ Meditation مراقبہ یعنی گم سم بیٹھنا۔ اس عمل سے انسان سکون پاتا ہے۔ دائمی دردوں، بلڈ پریسر، تجسس اور کلیسٹرول لیول پر قابو حاصل کر لیتا ہے۔
امریکہ کے ایک رسالے (Columbia Journalism Review) کے مطابق ’’ہر امریکی یوگا سے پیار کرتا ہے۔ 16.5 ملین امریکی روزانہ یوگا کی پریکٹس کرتے ہیں اور 25 ملین اس میں دلچسپی لیتے اور گاہے بگاہے اس سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ میڈونا، سٹنگ (Sting) ، جینیفر (Janifer) اور اینی سٹن (Anisten) جسے مایہ ناز امریکی فنکار اس کے دلدادہ ہیں۔ امریکہ کے اخبارات میں یوگا کے متعلق روزانہ تقریباً 80 کے لگ بھگ مضامین شائع ہوتے ہیں۔ امریکہ کے لوگ یوگا سے متعلق چیزوں پر سالانہ تین بلین ڈالر خرچ کرتے ہیں جن میں یوگا کلاسز DVDs, CDs ، یوگا میٹ اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔ برصغیر میں شیوازم، برہمن ازم، جین ازم، بد ھ ازم اور دیگر تمام روحانی روایات میں یوگا کا استعمال ہوتا ہے۔ یوگا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دوسرے بہت سے فلسفوں کی طرح صرف کتابی نہیں بلکہ ایک عملی فلسفہ ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442093 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More