موبائل دوستی، اور منچلہ عشق

2009جولائی کے مہینے کی ایک رات،حسین رُت ،رنگین شب اور دل آفروز سماں تھا ،ایک دیوانہ بہت خوش اپنی مستی میں گم ،خیالوں میں گنگناتا ہوا آج وقت سے پہلے ہی، گھر کی طرف چل دیا ،بتاتا چلو ان صاحب کا نام نورالفرحان ،تمام دوست انکو فرحان بی اے کے نام سے پکارتے تھے۔بی اے اس لیے ، ان صاحب نے بہت لمبا بی اے کیا تھا ، پورے پانچ سال بعد بی اے پاس کیا تھا ،سو دوستوں نے نورالفرحان بے اے نام ڈال دیا ۔ نورالفرحان لاہور کے دل کاہنہ نو کے بازار میں فروٹ کی ریڑھی لگاتا ،اور اپنی زندگی کو خوب انجوائے کر رہا تھا ،آمدنی اتنی ہو جاتی تھی کہ ایک خوشحال زندگی گزاری جا سکے،دو دوست ریاض،اور شاہدجن کے ساتھ نورالفرحان کافی وقت گزارتا اور خوش رہتا۔

نورالفرحان کو محبت کرنے کا بہت شوق تھا،اسی وجہ سے ہر دوسرے دن کسی نئے چہرے کی محبت میں گرفت ہو جاتاتھا۔مگر اب کی بار کچھ خاص ہی بات لگتی تھی، کیونکہ آج کل یہ اپنے دوستوں سے دور ، اپنے فروٹ ریڑھی سے دور الگ ہی دنیا میں رہناشروع ہو گیا تھا،ہر وقت اس کے کان کے ساتھ موبائل ،اور صاحب محو گفتگو رہتے ،چہرے پر خوشی کے آثار ہر وقت رہتے،اورآج تو نورالفرحان سات بجے ہی گھر جا رہا تھا ،ریاض اور شاہد اس کے پاس آئے اور پوچھا کہ یار تو آج کل کس دنیا میں گم رہتا ہے ،کیا ہو گیا ہے تم کو؟کہیں پھر پیار تو نہیں ہو گیا ؟ کس سے ہوا ہے ؟ کون ہے ہماری بھابھی؟ کہا ں رہتی ہے؟ریاض نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ،مگر نورالفرحان بس یہاں سے بھاگ کر اپنے محبوب کی آغوش میں جانا چاہتا تھا ،جس وجہ سے آج جلدی ریڑھی بند کر دی تھی،ریاض اور شاہد سے جان چھوڑانے کا جب کوئی راستہ نہ ملا تو نورالفرحان نے موبائل بند کیا اور اپنی محبوبہ کی منت کی جان بس ۲ منٹ میں واپس کال کرتا ہوں ۔

ریاض : کتنی دیر لگادی بھائی تم نے ہمیں بتانے میں کے اب تجھے بڑے والا پیار ہو گیا ؟
نورالفرحان: ( سانس پھولتے ہوئے ) یار ایسی بات نہیں ہے۔
شاہد: رہنے دو ! اْس لڑکی کے بارے میں بتاو جس کے ساتھ ہر وقت موبائل پر چمٹے رہتے ہوں ؟
نورالفرحان: ہاں بھائی۔ لڑکی کا نام عندلیب ہے۔ وہ بی۔اے کر رہی ہے۔
ریاض: ( جلدی میں ) فیملی بیک گراوئنڈ ؟
نورالفرحان: فرسٹ کلاس فیملی ہے ۔
شاہد: وہ سب چھوڑو۔ لڑکی اور اْس کے خاندان والے کیسے ہیں ؟
نورالفرحان: لڑکی اور اْسکے گھر والوں کی شرافت ؟ یوں سمجھ لوں کالونی میں اْن سے زیادہ معزز کوئی نہیں۔

اتنا ہی بتایا تھا کے نورالفرحان بھاگ نکلا گھر کی طرف،ریاض اور شاہد ادھر ہی پریشان ہو گئے کہ اب کی بار یہ بچ جائے بس کیونکہ نورالفرحان تو پورا دیوانہ ہوا پڑا تھا ،اْسے کسی کی بھی کوئی پروا نہیں رہی تھی ۔

یونہی دن گزرتے گئے اور نورالفرحان اپنی نئی نویلی محبت میں مگن ہوتا گیا اور ساری دنیا کو بھولتا گیا ۔دن ہو یا رات کوئی بھی ایسا پل نہ ہوتا تھا کہ نورالفرحان موبائل پر محو گفتگو نہ ہوتا،کاروبار کی طرف دھیان کم ہونے کی وجہ سے کام بھی کم ہونا شروع ہو گیا ، گاہک نورالفرحان سے آم اور سیب کے ریٹ پوچھتے رہتے ،مگر نورالفرحان صاحب کو فرصت ہی کہا تھی کہ وہ کسی اور کی بات سنے۔سارا ،سارا دن ، اور ساری، ساری رات اپنی محبوبہ سے باتیں کرنے ، اسی کے خیالوں میں ڈوبے رہنے سے اپنی نیندختم کر بیٹھا تھا ، سارا دن فروٹ کی ریڑھی پر رہتا اور رات ہوتے ہی اپنے گھر کی چھت پر لیٹ جاتا اور ساری رات باتیں کرتا رہتا ،اور جیسے ہی سورج اپنی آنکھیں کھولتا ، نورالفرحان کی اماں جان اسْے جگانے چھت پر جاتی تو صاحب اماں جان کی آہٹ سنتے ہی آنکھیں بند کر لیتے ،اور آماں جان کے جگانے پر اٹھتے اور نیچے آجاتے ۔ساری ساری رات جاگے رہنا، اورنہ کچھ کھانے پینے کی بدولت نورالفرحان کا رنگ زرد پڑ گیا ۔ آنکھوں کے گرد ہلکے نمایاں ہوتے گئے اور بیمار سا رہنا شروع ہوگیا تھا۔ہر وقت ہلکا بخار رہتا۔مگر اپنی محبوبہ سے ایک بھی پل دور نہ رہتا ،سبھی گھر والوں کو بھی نورالفرحان پر شک ہونا شروع ہوگیااوردوست بھی ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتے رہتے، آج پورا سا ل ہو گیا تھا کہ نورالفرحان اورعندلیب کی دوستی ہوئے ایک دن کچھ یوں انکشاف ہوا نورالفرحان اپنا موبائل ریاض کی دوکان پر چارجنگ پر لگا کر اپنی فروٹ ریڑھی پر پریشان بیٹھا تھا ،ہم سب دوست اسے دیکھ کر پریشان ہوئے جا رہے تھے کہ کیا بنا رکھا اس نے اپنا حال ،خیرریاض نے موقع کو غنیمت جان کر کوشش کی کہ یہ چیز ہے کیا جس نے اس کے دوست کا برا حال کر رکھا ہے ،ریاض نے موبائل چارجنگ سے اتارا اور دیکھا ،inboxمیں 51ایس ایم ایس تھے جسے پڑھنے کے بعد ریاض کے ہوش اُڑگئے، نورالفرحان صاحب اور مس عندلیب میں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی ہے اورعشق کا بخار جناب کو موبائل پر ہی ہوا تھا۔ اور مکالمہ کچھ یوں چل رہا تھا۔

عندلیب :تم کل ہر صورت میں میرے سامنے آؤمجھے تم کو دیکھنا ہے
نورالفرحان:جان کیوں اتنی ضد کر رہی ہوں؟
عندلیب :کہا نہ کہ کل تم ہماری گلی میں آرہے ہوں ، تو آ رہے ہوں
نورالفرحان:okایڈریس بتاؤ؟
عندلیب :جلو موڑ پارک، سٹریٹ نمبر 3نزد سوزو واٹر پارک ٹھیک 1.30pmپار ا ٓ جانا میں انتظار کروں گی۔
نورالفرحان: کوشش کروں گا ، وعدہ نہیں ۔
عندلیب : آج کے بعد مجھ سے بات نہیں کرنی تم نے ، مت آؤ۔
نورالفرحان: جان ایسی بات مت کرو ہر حا ل میں تمہاری گلی میں آؤں گا۔
تمام ایس ایم ایس پڑھنے کے بعد ریاض کو سمجھ آگئی کہ آج یہ پریشان کیوں ہے۔
ریاض نورالفرحان کے پاس گیا اور کہا کہ یار ہماری بھی کبھی بات کرواں بھابھی سے ،کیا ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے جو تم نے اپنی محبت بارے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا، ایسے ہی ڈائیلاگ شاہد نے بھی بولے ، نورالفرحان کو دوستوں نے احساس ڈلوایا کہ ہم تمہارے دوست ہے ۔

نورالفرحان پہلے ہی پریشان تھا اورسوچ میں مگن تھا کہ میں کل کیا کروں گا ، دوستوں نے پریشانی کا سبب پوچھا تو جناب نے سب کچھ کھل کر بتا دیا،ساری باتیں سن کر ہم سب دوستوں کو ہنسی بھی آئے اور دکھ بھی کیوں کہ ہمیں نظر آگیا تھا کہ یہ عشق اب ختم ہونے والا ہے۔ سب دوستوں نے مشورہ دیا ٹھیک ہے تم کل جاؤ ۔مل کر آؤ پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ، نورالفرحان صاحب نے ایک کار بک کروائی ہوئی تھی ، جسے ریاض کے کہنے پر کینسل کر دیا گیا ،اور فیصلہ یہ ہوا کہ ہم بائیک پر بالکل سادہ جائے گے ،اگلے دن ٹھیک 12;pmپر ریاض اور نورالفرحان ٹوٹی ہوئی بائیک ، جس کا والیم بہت اونچا تھا پر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئے،90منٹ کی مساوت کے بعد ہم عندلیب کی گلی میں پہنچے،ایڈریس کے مطابق عندلیب کے گھر کے باہر شریف ہاوس لکھا ہوا نظر آیا ہم پہنچان چکے تھے ، کہ یہی اس کا گھر ہے کیوں کہ عندلیب کے پاپا جی کا نام شریف تھا اور وہ پاس ہی جلو پارک میں چئیرمین تھا،ساری صورتحال دیکھ کر ریاض نے اسی وقت سر آصف کو فون کیا اور سب کچھ بتایا اور کہا کہ آپ تیار رہیے گا آج اس دیوانے کا دل پھر ٹوٹنے والاہے۔ نورالفرحان اور ریا ض گلی میں داخل ہوئے ، عندلیب کے گھر کی بیٹھک کا درواز ہ لا ئٹ آف ہونے کی وجہ سے کھلا ہو اتھا ، سامنے ہی عندلیب ء تھوڑے سے بچوں کے ہمراہ بیٹھی تھی ، اس نے اسی وقت ان دونوں کو دیکھ لیا ،ریاض او ر نورالفرحان نے بھی سے دیکھ لیا ،عندلیب کو دیکھ کر نورالفرحان پھولے نا سمایا ، کیوں کہ وہ بہت خوب صورت تھی،4منٹ گلی میں رکنے کے بعد جوتوں کے ڈر کی وجہ سے وہاں سے نکلنا ہی غنیمت جاناابھی بی آر بی نہر کے پاس ہی پہنچے تھے کہ عندلیب کا فون آگیا نورالفرحان نے کال رسیوکی اوربات کی ، عندلیب نے پوچھا کہ کیا جو گلی میں کھڑے تھے وہ تم تھے؟

نورالفرحان بہت خوش تھا ،وہ عندلیب کہ حسن کی تعریف کرنا چاہتا تھا ،مگر یہ عندلیب کو ایک سادہ شخصیت کامالک ہونے کی بنا پر ایک آنکھ بھی نہیں بھایا تھا ،جیسے ہی نورالفرحان نے ہاں بولا ، عندلیب نے کال بند کر کے اپنا نمبر آف کر دیا۔ نورالفرحان کی خوشی کو ایک پل میں ہی نظر لگ گئی تھی،اس کے آنسو نظر نہیں آرہے تھے مگر محسوس کئیے جا سکتے تھے، بڑا دھماکہ تو رات 11:21pmپر ہوا جب نورالفرحان سب دوستوں کے ہمراہ بازار میں تھا ، اوربار بار عندلیب ء کا نمبر ڈائل کر رہا تھا،جیسے ہی نمبر آن ہوا عندلیب نے کال اْٹھائی اور کہا آج ہمارے گھر میری آنٹی آئی اور ابو کے سامنے اپنی چادر اتار کر پاؤں میں پھینک دی اور کہا بھائی اپنی بیٹی کا رشتہ مجھے دے دوں ،اور ابو نے ہاں کر دی ہے لہذا آج کے بعد ہماری بات نہیں ہو گی ، اتنی بات کر کے عندلیب نے فون بند کر کے نمبر آف کر دیا،جو کہ آج تک بند ہے، نورالفرحان بہت بھولا نکلا نہیں سمجھا کہ عندلیب نے ایسا کیوں کیا ؟آنکھوں میں آنسو لیے گھر چلا گیا ، اگلے روز بازار نہ آیا ،سر آصف نے کال کر کے بلایا اور دو کلو آم میٹھے والے ,اور4 سیب لیے اور نورالفرحان کو بولا اسے اچھے سے دھو کر لاؤاور برف بھی آموں میں ڈال کر لا ؤ،پھر دونوں ٹوٹی پھوٹی بائیک پر بیٹھے ، سر آصف نے نورالفرحان کو نہر کنارے جانے کو بولا ، نہر پر پہنچنے کے بعد وہی لیکچرجو سر ہر دفعہ عشق سے نکام ہونے پر دیتے تھے وہ دیا ،یہ لیکچر لے کر نورالفرحان آدھا ٹھیک ہو جاتا تھا ، اسی لیے عندلیب کے ٹھکرا دینے کے بعد بھی نورالفرحان کچھ حد تک نارمل ہو گیا تھا،

مگر اب اس نے اب دیواروں سے باتیں کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اب دھیرے دھیرے دیواروں سے باتیں کرنے لگ گیاتھا۔سب دوست اس کے پاس آتے اسے وقت دیتے ، سمجھاتے ، بہلاتے لیکن بے سود، اب نورالفرحان کچھ نہیں سننا چاہتا تھا وہ بس اب صرف اور صرف تنہا رہنا چاہتا تھا۔ایک دن نورالفرحان پاس والی دیوار سے کچھ یوں بات کر رہا تھا ، کہ آج کے بعد میں کسی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دوں گا کبھی پیا ر نہیں کروں گا ، مگر افسوس نورالفرحان کا دل بہت بڑا ہونے کی وجہ سے پھر کسی نے اپنی جگہ جلدی بنا لی مگر اب کی بار عندلیب کی جگہ نجمہ کوملی۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 129293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.