نور اعلیٰ نور - قسط۔ ۵

ذولفقار شام کو باتھ روم سے نہا کر باہر نکلاا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہو کر بال بنانے لگا۔ اسی کمرے سے منسلک اسٹور روم میں شاید کوئی کچھ کام کر رہا تھا۔ شاید امی یا عائشہ تھیں۔اس نے خاموشی سے بال بنائے اور پھر پرفیوم اٹھا کر لگانے لگا۔ اسٹور روم سے ہلکی ہلکی سی ناسمجھ آنے والی آوازیں آ رہی تھیں۔

ذولفقارکو تجسس سا ہوا کہ دیکھے تو اندر اتنی دیر سے کون ہے۔ اس نے تھوڑا سا قدم پیچھے کر کے دیکھا تو امی کو وہاں موجود پایا۔ وہ اسکی طرف پیٹھ کئے کھڑیں کچھ کر رہیں تھیں۔ وہ پھر اپنے آپ کو آئنے میں دیکھنے لگا۔ اپنے کپڑے، بال وغیرہ ٹھیک کرنے لگا۔
’’کیا کر رہیں ہیں یہ!!!‘‘ ذولفقار نے خود سے کہا۔ اسے کچھ عجیب سی تشویش ہوئی۔
وہ تھوڑا قریب جا کر اسٹور کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اسے امی کی سسکیوں کی صاف صاف آوازیں آنے لگیں۔ اسکے دل میں ایک ہول سا اٹھا اور وہ تیزی سے چل کر امی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
’’کیا ہو گیا امی!!! ‘‘
’’کیوں رو رہیں ہیں؟؟؟‘‘ اس نے حیرانی، اداسی اور فکرمندی کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا۔
امی نے بھیگی آنکھوں سے جھجھک کر اسکی طرف دیکھااور پھر اپنے ہاتھوں میں کچھ چھوٹے چھوٹے کپڑے لئے سسکیاں لینے لگیں۔ ان کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹپکا۔
’’کیا ہو گیا امی؟؟؟‘‘
’’او …… ہو……‘‘۔ ’’امی!!!‘‘
’’کیوں ایسے رو رہی ہیں؟؟؟‘‘ امی کے ہاتھوں میں کچھ پرانی چیزیں تھیں۔ انکے بچوں کے پرانے چھوٹے چھوٹے کپڑے، ابو کے کچھ کپڑے اور سامان اور بچوں کی بچپن میں استعمال کی گئیں فیڈرز وغیرہ۔
امی نے ایک ہاتھ سے اپنے گالوں پر بہتے آنسو صاف کئے۔ وہ نا جانے کب سے اسٹور میں چھپ چھپ کر رو رہیں تھیں۔
’’کیا ہو گیا؟؟؟‘‘۔ ذولفقار نے بے تابی سے امی سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ……بس ایسے ہی…… ‘‘۔ انہیں نے رک رک کر کہا۔
’’ صفائی کر رہی تھی…… یہ بچوں کی پرانی چیزیں دیکھنے لگی……‘‘۔ امی نے بامشکل کہا۔
’’چچ……سدرہ کی وجہ سے؟؟؟‘‘
’’کچھ ہوا ہے کیا؟‘‘
’’ اس نے بدتمیزی کی ہے پھر؟‘‘۔
’’نہیں نہیں…… کچھ بھی نہیں ……‘‘ امی نے پھر کہا اور اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔
’’چلیں باہر آ جائیں …… کب سے یہاں اکیلی کھڑی ہیں…… ‘‘
’’اوپر چھت پر چلی جائیں……عائشہ بھی وہیں ہوگی‘‘۔

تھوڑی دیرکے لیئے ذولفقار اداس سا ہو گیا۔ وہ سوچنے لگا ۔ ’’سب کچھ کتنا بدل گیا ہے ۔ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں مگن ہے کسی کو کسی کی پروا ہی نہیں ۔کوئی رو رہا ہے…… گھٹ رہا ہے…… پریشان ہے…… کسی کو کچھ نہیں پتا……‘‘
’’مجھے بھی تو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں، امی کمزور ہوتی جا رہی ہیں ……سدرہ اور وحید کتنے منہ زور ہو گئے ہیں ……کسی کی نہیں سنتے ……عائشہ کا رشتہ بھی نہیں ہو رہا …… میرا رزلٹ پتا نہیں کیا آئے گا ……‘‘ وہ اپنے آپ کر کوسنے لگا۔
پھر خود ہی اس نے اپنے خیالات کو جھڑک دیا۔ جوتے پہنے اور باہر نکل گیا ۔زیادہ تر وہ حسن کی طرف چلا جاتا تھا ۔اس کے ساتھ گھومتا پھرتا اور ر ات گئے واپس آتا۔

آج شام بھی یہی ہوا وہ حسن کی طرف چلا گیا۔ راستے میں اسپیشل فالودہ کھایا اور ایک پارک میں گھوم پھر کر واپس ہوا۔

ذولفقار نے حسن کو اسکے گھر چھوڑا اور خود گاڑی لے کر گھر کی طرف چلنے لگا ۔ آج بھی ایک لڑکی سڑک کے کنارے کسی کے انتظار میں کھڑی نظر آئی ۔ اس نے پکا ارادہ کیا……اس کے سامنے گاڑی روکی…… اور دروازہ کھول دیا۔ وہ لڑکی چپ چاپ گاڑی میں سوار ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ذلفقار رات گیارہ بجے تک گھر واپس پہنچا ۔
’’بیٹا اتنی دیر سے آئے ہو……میری سونے کی ایک چوڑی کھوگئی ہے‘‘۔ امی نے اسے دیکھتے ہی کہا جو ادھر ادھر ہاتھ مار رہیں تھیں۔عائشہ بھی پریشان کھڑی تھی ۔
ذولفقارنے انہیں دیکھتے ہی منہ بنا لیا ۔
’’ ایک تو کبھی کوئی اچھی خبر نہیں ملتی اس گھر میں !!!‘‘اسنے بے زاری سے کہا ۔
’’کہا ں ہیں یہ دونوں ؟‘‘ اس نے سدرہ اور وحید کے بارے میں پوچھا ۔
’’سدرہ تو کالج کے فنکشن میں گئی ہوئی ہے……اور وحید پتہ نہیں کہاں پھر رہا ہے۔‘‘امی نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا۔ انہیں اس وقت صرف اپنی کھوئی ہوئی چوڑی کی فکر تھی۔
’’ان میں سے کسی نے لی ہوگی ……اپنے خرچے اور کہاں سے پورے کریں گے……۔‘‘ ذولفقار کو ان دونوں پر شک ہوا ۔
’’پہلے بھی چھوٹی موٹی چیزیں چوری ہوئی ہیں……‘‘امی نے کہا وہ بہت پریشا ن تھیں۔
اتنے میں وحید چھت سے نیچے آتا دکھائی دیا۔
’’تم گھر پر ہو!!‘‘امی نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
’’کہاں جارہے ہوتم؟؟‘‘ان تینوں نے ایک ساتھ پوچھا ۔ وہ بس باہر نکلنے کو تھا۔
’’بس باہر جارہا ہوں نا‘‘وحید نے اونچی آواز میں جواب دیا ۔
’’کہاں باہر جارہے ہو ؟ ادھرتو آؤ!!!‘‘ ذولفقار نے کرخت لہجے میں اسے کہا۔
’’ہاں کیا ہوا ؟؟‘‘وحید چڑ کر بولا اور چلتے چلتے بات کی۔
’’امی کی سونے کی چوڑی گم ہو گئی ہے‘‘
’’مجھے نہیں پتا کہاں گم ہوئی ہے ……‘‘ وحید نے سیدھا سا جواب دیا اوررات کے اس وقت باہر نکلا۔
’’مجھے لگتا ہے اس نے نشہ کرنا شروع کردیاہے…… جن لوگوں کے ساتھ یہ پھرتا رہتا ہے، سب چرسی مشہور ہیں‘‘۔ ’’کمینہ……‘‘۔ وہ تینوں کچھ دیر پریشان بیٹھے وحید اور سدرہ کو لعن طعن کرتے رہے، پھر ذولفقار اٹھ کر اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔

روز کی طرح ایزائیل اور سومائیل بستر کی دونوں جانب بیٹھکر اپنی تسبیح میں مشغول ہو گئے، ذولفقار کی روح اس کے جسم سے نکل گئی اور وہ سو گیا۔

رات کے دو بجے تھے جب وہ کمرے میں داخل ہوا،بہت لمبا اور کالا سیاہ،سرخ آنکھیں ،کرخت اور منحوس چہرہ۔
وہ ذولفقار کے بستر کے عین سامنے اس کے پیروں کی جانب قالین پر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گیا۔ایک گھنٹے تک وہ وہیں بیٹھا اپنا عمل کرتا رہا۔ پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور ذولفقار کے سر کے پاس آیا ۔گلاس میں تھوڑا پانی نکالا اور ذولفقار کے تین بال توڑ لیے۔
وہ ایک ایک کر کے ان بالوں کو پانی میں گھماتا جاتا اور کچھ پڑھتا جاتا۔ہر بال پانی میں گھلتا جاتا اور پانی کا رنگ سرخی مائل ہوتا جاتا،تینوں بال پانی میں گھلے اور پانی کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو گیا۔ ایزائیل اور سومائیل یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ انہیں نہ دیکھ سکتا تھا۔
اب وہ ذولفقار کے سینے پر اپنے دونوں پاؤ رکھ کر بیٹھ گیا۔
’’خوں خوں خوں……‘ ‘ذولفقار نے نیند میں ہی اذیت ناک آوازیں نکالنی شروع کر دیں۔
اس نے چلو بھر پانی ہاتھ میں لیااور ذولفقارکے سر کے بالوں پہ مل دیا۔
وہ چلا گیا۔

’’ہاہ……!‘‘ ذولفقار کے منہ سے ڈرتے ڈرتے نکلا۔وہ پسینے میں شرابور تھا۔ڈر کے مارے وہ اپنے ہاتھ پاؤں تک نہیں ہلا رہا تھا جیسے اسے خوف ہو کہ اگر وہ ہلا تو کسی کو پتہ چل جائے گا کہ وہ زندہ ہے اور وہ اسے پھر اذیت دینے آجائے گا ۔ اس کے دل کی دھڑکنیں خوف سے بے قابو ہو رہی تھیں۔وہ ویسے ہی سپاٹ اور بے سدھ پڑا اپنی آنکھوں کے پتلیاں دائیں سے بائیں جانب ہلانے لگا۔ وہ لیٹا لیٹا کمرے کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگا کہ کہیں کوئی اسکے دائیں تو نہیں کھڑا یا پھر بائیں…… یا کہیں کوئی اسکے سر کے پیچھے تو نہیں کھڑا…… کافی دیر ایسے ہی گزر گئی…… فجر کی آذان کی آواز سنائی دینے لگی۔
آہستہ آہستہ اسے سکون محسوس ہونے لگا۔
’’شکر ہے اﷲ کا‘‘۔اسکے منہ سے نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دن ایسے ہی گزرتے رہے ۔ وحید چرس کاعادی ہو چکا تھا۔ آئے دن پیسے مانگتا اور گھر والوں سے جھگڑے کرتا۔سدرہ بھی اپنی واہیات دوستوں کے ساتھ اپنی دھن میں مگن تھی۔ رہا ذولفقار تو اس کابھی ایک ہی کام تھا……دن رات آوارہ گردی کرنا…… کسی کو کسی کے کرتوتوں پر ٹوکنے کی ہمت نہ تھی…… ٹوکتا بھی کوئی کس منہ سے! سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے تھے…… صرف ایک عائشہ اور ان کی والدہ ان سب کی حرکتوں پر کڑتے رہتے۔ مگر وہ بھی خاموشی میں ہی اپنی عزت سمجھتے تھے کہ گر کسی کو کچھ نصیحت کرنے کے کوشش کی تو دوسری طرف سے بدتمیزیوں اور بد سلوکیوں کی بارش شروع ہو جاتی……
یہ سب بہن بھائی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے تھے۔ خاص طور پر سدرہ اور وحید تو سب کو اپنا دشمن سمجھتے۔

ذولفقار کی انجینیرنگ کے چار سال مکمل ہو چکے تھے۔ وہ دو پیپرز میں رہ گیا تھا۔ حسن بھی پڑھائی سے فارغ ہو گیا تھا اور اپنی پہلی نوکری ڈھونڈنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔

ذولفقار کی امی کافی کمزور ہو چکی تھیں۔ گھر کے خراب ماحول نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ وہ آئے دن بیمار رہتیں اور ہر وقت ڈپریشن میں رہتیں۔ گھر میں کوئی خاص زریعہ معاش نہ ہونے کے باعث ان کا بینک بیلنس تیزی سے ختم ہو رہا تھا۔پھر تقریبََا ایک سال بعد چچی ان کے گھر پھر آئیں۔

’’کیا……! چچی آئیں ہیں؟‘‘۔ ذولفقار کی امی نے حیرت سے کہا ۔ جیسے انہیں یقین تھا کہ اب کبھی ان کی شکل نہیں دیکھنی پڑے گی۔
’’جی…… باہر بیٹھی ہیں‘‘۔ ذلفقار نے آہستہ سے کہا تو امی نے عجیب سا منہ بنایا اور ان سے ملنے کچن سے باہر نکلیں۔

’’ارے! بڑے عرصے بعد آئیں تم؟؟؟‘‘۔ امی نے انہیں دیکھتے ہی کہا ۔ وہ صوفے سے اٹھ کر امی سے ملنے کھڑی ہو گئیں۔
’’جی…… بس…… واقعی کافی دن ہو گئے‘‘۔ چچی نے جواب دیا۔
’’چلو خیر…… بیٹھو‘‘۔
’’اور سناؤ …… سب خیریت ہے؟‘‘ امی نے انہیں بٹھایا اور خیریت پوچھی۔
’’جی اﷲ کا شکر ہے۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’آپ بتائیں؟ بچے وغیرہ خیریت سے ہیں؟‘‘ چچی نے بھی حال چال دریافت کیا۔
’’سب ٹھیک ہے…… سب ٹھیک ہے‘‘۔ امی نے کہا۔
’’اسلام و علیکم چچی جان!‘‘ عائشہ کمرے سے باہر آئی۔
’’بڑے دنوں بعد آئیں؟؟؟‘‘
’’و علیکم السلام ! بس بیٹا …… اپنے گھر گھرستی میں لگے ہوئے تھے……‘‘
’’آپ لوگ بھی تو عرصہ ہوا چکر نہیں لگایا۔ جب سے ذولفقار کے ابو کا انتقال ہواتب سے پھر رخ نہیں کیا…… ‘‘ ۔ چچی نے بھی خوب جواب دیا۔ سچ بھی یہی تھا،ان کی امی کو ان لوگوں سے میل جول رکھنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
’’زیبا کو نہیں لائیں ساتھ……ہی ہی ہی ……‘‘۔ عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا جیسے وہ چچی کو یاد دلانا چاہ رہی ہو کہ اب وہ زیبا کو لے کر ان کے گھر کے چکر کیوں نہیں لگا رہیں جیسے پہلے لگایا کرتی تھیں۔
’’ہاں……! ہو گیا اس کا رشتہ وغیرہ کچھ……؟‘‘ امی بیچ میں بولیں۔ ان کے چہرے پر طنزیا مسکراہٹ تھی۔
’’نہیں…… فی الحال تو نہیں …… دیکھیں……‘‘۔ چچی سنجیدہ ہو گئیں۔
’’اچھا ! اب میں چلوں گی…… اصل میں کافی عرصہ ہوا وحید ہمارے ہاں آیا تھا…… کچھ پیسے ادھار لے گیا ہے……‘‘ چچی نے نہلے پہ دہلا پھینکا۔
’’شاید آپ لوگوں کو پتا نہیں……‘‘۔ امی کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔
’’ہیں؟؟؟ وحید تم سے ادھار لے گیا؟؟؟‘‘۔ امی کو جیسے بجلی کا جھٹکا لگ گیا۔
’’ کب؟؟؟‘‘ امی نے ایسے بے یقینی سے کہا جیسے چچی جھوٹ کہ رہیں ہوں۔
’’پانچ چھ ماہ ہو گئے…… کہ گیا تھا کہ دو ماہ میں واپس کر دے گا……‘‘
’’چلیں چھوڑیں…… بچہ ہے دے دے گا……‘‘۔
’’میں ذرا بازار نکلی تھی …… پیسے کم پڑ گئے تھے۔ آپ لوگوں کا گھر قریب تھا تو سوچا……‘‘۔
’’ہے نہیں کیا وحید گھر پر؟؟؟‘‘۔ چچی نے پوچھا تو ذولفقار جو سب کچھ سن رہا تھا فوراََ اٹھا اور وحید کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ حسب معمول وہ گھر پر نہیں تھا۔
’’کوئی بات نہیں……‘‘۔ چچی نے سلام کیا اور واپس چلی گئیں۔

چچی کے جاتے ہی وہ تینوں سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
’’یہ دیکھو ! اس عورت سے ادھار لے گیا…… ذلیل لڑکا!‘‘۔ امی غصے سے بپھری ہوئیں تھیں۔
’’بے عزت کر دیا ہمیں…… بہت ہی کمینہ ہے۔‘‘ عائشہ بھی سر ہلاتی ہوئی بولی۔
’’کتنے پیسے لئے ہیں کمینے نے!!!‘‘۔ ذولفقار نے بھی ایک گالی دی ۔
’’یہ بتا کے نہیں گئیں……ہونھ‘‘۔ عائشہ نے منہ بنا کر جواب دیا۔
’’لعنت ہو…… ذلیل کروا دیا …… اور مجھے پتا ہے اسی لئے آئی ہو گی یہ…… کہ اپنا بدلہ لے……‘‘
’’میں جانتی ہوں اسے……‘‘ امی بہت غصے میں تھی۔
’’آنے دو اس خبیص کو گھر……‘‘۔ ان سب کا ہی پارہ چڑھا ہوا تھا۔
’’لعنت ہو ایسی اولاد پر‘‘۔
’’اور وہ کہاں ہے …… دوسری…… سدرہ؟؟؟‘‘ ۔ ذولفقار نے پو چھا۔
’’مری پڑی ہے اپنے کمرے میں …… رات بھر کسی دوست کے گھر تھی……‘‘ ۔ امی بولیں۔
گھنٹہ بھھر لعنت ملامت کر کے سب کی زبان تھک گئی۔

’’کیا ہو گیا ہے ان سب کو……‘‘ ذولفقار اپنے کمرے میں بیٹھا سوچنے لگا۔ ذولفقار بہت افسردہ تھا۔ امی پہلے ہی کمزور اور بیمار سی رہتی تھیں اور اوپر سے اس طرح کی ذہنی ٹینشن……
’’پتا نہیں کیا چاہتے ہیں یہ لوگ…… نہ جانے کہاں پیسے اڑاتا ہے یہ…… کیا کرتا ہے‘‘۔ وہ وحید کے بارے میں سوچنے لگا۔
’’……اور وہ دوسری بھی کسی دن منہ کالا کرائے گی ہمارا……‘‘۔ وہ سدرہ کے بارے میں کہنے لگا۔
’’آج آنے دو ان کو…… بتاتا ہوں‘‘۔

ذولفقارنے گاڑی نکالی اور حسب معمول گھر سے نکل گیا۔ مگر اسے وحید کی اس حرکت پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ وہ حد سے بڑھتا جا رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ اسے سدرہ کی بڑھتی ہوئی بدتمیزیاں بھی یاد آ رہی تھیں۔ شام کا وقت تھا۔ وہ ڈرائیو کرتے کرتے کافی دور نکل گیا۔ اسکا غصہ قدرے ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ وہ کلفٹن کے کسی علاقے میں تھا……
’’چلو آج یہاں سے کسی کو بٹھاؤ……‘‘۔ اس نے روڈ کے کنارے پر کھڑی کچھ لڑکیوں کو دیکھا۔ وہ روڑ کے دوسرے پار تھا اور یو ٹرن لینے کو تھا کہ اچانک اسکے دل میں ایک ہول سا اٹھا۔ اس نے بمشکل اپنی گاڑی کو فٹ پاتھ پر چڑہنے سے بچایا۔ ا سکی سانسیں چڑھنے لگیں ، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان لڑکیوں میں کھڑی ایک لڑکی سدرہ بھی تھی، جو آپس میں قہقہے لگاتے اپنے خریداروں کے انتظار میں تھیں۔
’’یہ کیا ہے……‘‘ ۔ اسکے منہ سے نکلا۔ وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔ ایسا منظر دیکھ کر وہ خود کو سنبھال نہیں پا رہا تھا۔ اسکے ہاتھ پاؤ ٹھنڈے ہونے لگے۔ اس نے پھر ایک بار مڑ کر دیکھا اور سدرہ کو ان بدچلن لڑکیوں کے جھرمٹ میں موجود پایا۔ ان کے آگے ایک گاڑی رکی اور وہ تینوں لڑکیاں اس میں بیٹھ کر آگے نکل گئیں۔

ذولفقارکی آنکھوں میں خون اتر آیا۔اس نے ایکسلیریٹر پر زور دیا اور گاڑی گھما کر اس روڈ کی طرف دوڑائی جہاں وہ گاڑی گئی تھی۔ اس نے سامنے وہ سفید رنگ کی گاڑی دیکھ لی تھی جس میں سدرہ سوار ہوئی تھی۔اسکا خون کھولنے لگا۔ وہ تیزی سے اس گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ اس نے ایکسلریٹر پر پورا زور دے رکھا تھا او پانچویں گیئر میں گاڑی دوڑا رہا تھا۔ وہ اس گاڑی کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتا گیا ۔ اسکا سانس گاڑی میں بیٹھے بیٹھے پھول رہا تھا۔ شاید وہ اپنی گاڑی کو اس گاڑی سے ٹکرا کر ایک دھماکے سے سب کچھ فنا کر دینا چاہتا تھا۔

اچانک اس نے اپنی گاڑی سلو کر دی۔ ایک پیچھے آنے والی گاڑی اسکی کار سے ٹکرانے کو تھی کہ کسی طرح دونوں گاڑیوں کی رفتار بیلنس ہوئی اور وہ آپس میں ٹکرانے سے بچ گئیں۔ یہ اﷲ کے تعینات کردہ محافظ فرشتے فدائیل اور شومائیل تھے جنہوں نے ان کی گاڑیوں کی رفتار کو بیلنس کیا اور انہیں آپس میں ٹکرانے سے بچا لیا۔ ذولفقار کی موت کا وقت تو ساٹھ سال کی عمر مقرر تھی۔

روڈ پر سب گاڑیاں اسے زور زور سے ہارن مار رہی تھیں۔ جس گاڑی کا وہ پیچھا کر رہا تھا اس میں تو کوئی شخص اکیلا بیٹھا تھا۔ یہ وہ گاڑی نہیں تھی۔ اس نے دل بر داشتہ ہو کر گاڑی ایک کونے میں لگائی اور زور سے اپنا سر اور دونوں بازو اسٹیرنگ پر دے مارے۔
’’کہاں ہے وہ……‘‘۔ ذولفقار اچانک رونے لگا۔’’کہاں ہے وہ……‘‘ وہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے چیخا۔
’’یہ کیا ہے ……اﷲ ……‘‘ ۔ وہ آہ و زاری کرنے لگا۔ اسکے دل کی دھڑکن قابو میں نہ تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے……
’’یہ کیا ہے…… یا اﷲ’‘‘۔
’’ یا اﷲ! یہ کیا ہو گیا……‘‘۔ ’’میری بہن……!!!‘‘
’’ہائے……‘‘۔ وہ بے خود سا گاڑی کی کرسی پر گر گیا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟…… آہ‘‘
’’اسکا ذہن بالکل ماؤف ہو چکا تھا۔ اسکے ہاتھوں سے جیسے جان نکلنے لگی۔ وہ بالکل ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔
’’اﷲ !اﷲ !اﷲ!‘‘۔ اسکے دل سے بے خودی میں اﷲ اﷲ نکلنے لگا۔ اسکے گھر کا کوئی فرد اس حد تک بھی جا سکتا تھا۔ ایسا اسکے وہم و گماں میں بھی نہ تھا۔

وہ بہ مشکل گھر پہنچا تو وحید اور امی کوآپس میں جھگڑتے پایا۔
’’چپ ہو جا بڑھیا!!!‘‘
’’مجھے پیسے چائیے…… چائیے …… چائیے……‘‘۔ وحید دیوانہ وار زور زور سے چلا چلا کر کہ رہا تھا۔
امی ادھ موئی سی ہو رہیں تھیں اور عائشہ انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ’’بکواس بند کرو…… تم نے چچی سے بھی ادھار لیا ہے……‘‘۔ عائشہ چیخ کر بولی۔
’’میں تم دونوں کو قتل کر دوں گا……‘‘۔ وحید نے عائشہ کو زور کا دھکا دیا۔ وہ نیچے گر گئی۔
’’وحید!!!‘‘۔ سدرہ کا غصہ تو ذولفقا میں پہلے ہی بھرا ہوا تھا۔وہ چلایا اور بھاگتا ہوا وحید کے پاس پہنچا اور اسے زور سے ایک تھپڑ مارا۔
’’کمینے آدمی! مجھے مارتا ہے……‘‘۔ وحید نے گالی بکی اور زور سے ہاتھ گھماکر اپنے بڑے بھائی کے منہ پر ایک تھپڑ دے مارا۔
’’تو کیا سمجھتا ہے تیرے کرتوت مجھے نہیں پتا؟؟؟‘‘ ۔
’’روز رات کو لڑکیاں سوار کئے گھومتا رہتا ہے……‘‘۔ وحید نے دوبارہ پوری طاقت سے ذولفقار پر ہاتھ اٹھایا۔ ’’……اور مجھے مارتا ہے……‘‘ وہ ذولفقار کی عیاشیاں بھی خوب جانتا تھا۔
ذولفقار بے خود سا زمین پر گر گیا۔ اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اپنے سے آٹھ دس سالہ چھوٹے بھائی کے ہاتھوں یہ تھپڑ کھا کر وہ خود پر قابو نہ پا سکا۔
وہ زور زور سے سانسیں لینے لگا۔
’’بھائی …… بھائی…… ذولفقار ……‘‘ ۔ عائشہ سمجھی کہ اسے کسی قسم کا دورہ پڑا ہے۔ وہ اسے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔
وحید ذولفقار کو گالیاں دیتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔ امی اور عائشہ دونوں زاروقطار رونے لگیں۔ذولفقار لڑکھڑاتے قدم اٹھا اور باہر کو نکلنے لگا۔ گھر میں ماتم مچا تھا۔
’’بھائی رکو! ‘‘
’’کہاں جا رہے ہو…… ذولفقار!‘‘
’’رکو!!!‘‘۔ پیچھے سے امی اور عائشہ کے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ مگر وہ کسی کی نہ سنتا ہوا باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ باہر ایک گاڑی رکی اور اس میں سے سدرہ اتر کر اسے لاپروائی سے دیکھتی ہوئی اندر چلی گئی۔

ذولفقار کے جسم سے جان نکل چکی تھی۔ اسکے ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے با مشکل گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھنے لگا۔

بہت رات ہو گئی تھی۔ ذولفقار سمندر کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا سمندر کی لہروں کی طرف بڑھا اور پانی میں جا کر بے خود اپنے گھٹنے ٹیک دئے۔
’’اﷲ……!‘‘ اس نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور پکارا۔
’’یہ کیا ہو گیا اﷲ‘‘۔ وہ رونے لگا۔
’’یہ کیا ہو گیا……!!! ہائے……!!!‘‘
’’میں نے کیا کر دیا……آآآ……‘‘۔ وہ زور سے چیخا۔ سمندر پر مکمل ویرانہ تھا۔
’’یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا…… اﷲ!‘‘
’’سب برباد ہو گیا …… سب ختم ہو گیا‘‘۔ وہ زور زور سے آہ و زاری کر رہا تھا۔

’’اے میرے رب ! میں نے ایسا بھی کیا گناہ کر ڈالا تھا…… جو تو نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا……‘‘
’’نہ میرا بھائی میرا رہا……‘‘
نہ میری بہن…… !‘‘
’’نہ میرا باپ ہے…… اور نہ میری ماں خوش ہے ……‘‘۔
’’نہ میرے پاس مال بچا…… نہ عزت……‘‘
’’اب کیا میں مر ہی جاؤ؟؟؟‘‘۔ اس نے اٹھنا چاہا مگر لڑکھڑا کر لہروں کے دوش پر گر پڑا۔ اس نے گھسٹ گھسٹ کر سمندر کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ شاید وہ خود کشی کرنا چاہتا تھا۔ مگر بار بار کوئی زور آور لہر اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیتی۔ وہ وہیں ساحل کی ریت میں چہرہ دبا کر پھر رونے لگا۔ ’’تُو تو مجھے مرنے بھی نہیں دیتا……‘‘
’’مجھے معاف کر دے……‘‘۔
’’اب تو مجھے معاف کر دے……‘‘
’’میں نے بہت ہی برے کام کئے ہیں اﷲ……!‘‘
’’اﷲ تعالی ! اب میں کہاں جاؤ …… کیا کروں!‘‘
’’کیا کروں میں؟؟؟‘‘۔ وہ آنسو بہائے جا رہا تھا…… جزبات میں بہہ کر نا جانے کیا کچھ بولا جا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ بالکل خاموش ساحل کی ریت پر چت لیٹ گیا۔ سمندر کی لہریں آتیں اور اس سے ٹکراتیں۔ وہ گھور گھور کر آسمان پر چاند اور بادلوں کو دیکھتا رہاا ۔

’’ ایسا نہ کہو ذولفقار!…… میں نے تمہارے ساتھ کیا ہی کیا ہے؟؟؟‘‘۔ اچانک اسکے اپنے منہ سے آواز نکلی۔
’’میں نے تمہارے ساتھ کیا ظلم کیاہے ذولفقار؟…… میں نے تو شروع سے لے کر اب تک تمہیں چاہا…… تمہارا خیال رکھا…… تمہیں اچھے گھر میں صحیح سلامت پیدا کیا……‘‘
’’ تمہیں عزت دی…… تمہیں تعلیم دی…… تمہیں پیسہ دیا…… ‘‘۔
’’تمہیں بن مانگے بہت کچھ دیا ……اور جو کچھ بھی تم نے مانگا سو دیا…… پھر بھی تم مجھ سے شکوہ کرتے ہو؟؟؟‘‘

’’تمہیں میرے دکھ کا بھی کچھ اندازہ ہے؟؟؟ ‘‘۔
’’میں نے ہمیشہ تمھارا خیال رکھا…… ہر دم تم پر نظر رکھی …… حفاظت کا خاص بندوبست کیا…… ہر رات اس انتظار میں رہا کہ کون مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں! کون مجھ سے مانگے میں اسے دوں! کون مجھ سے گناہوں کی معافی چاہے، میں اسے معاف کر دوں ……مگر تم تو مجھے بالکل بھول ہی گئے!!!‘‘۔
’’تم کیا سمجھتے ہو…… اگر میں نے لمحہ بھر بھی تم سے منہ پھیرا ہوتا تو تم اب تک جیتے؟؟؟‘‘
’’میں نے کتنا صبر کیا تم لوگوں کی بے مروتی اور احسان فراموشی پر…… اگر میں لوگوں کو ان کے گناہوں کی پاداش میں پکڑا کرتا …… تو دنیا میں کوئی جاندار زندہ نہ بچتا‘‘۔

’’اے میرے بندے! جس نے گناہ کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے…… اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا…… وہ توسارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘۔
’’اﷲ بے نیاز ہے…… کسی کی عبادت و ریاضت سے اس کی بادشاہت میں کچھ اضافہ نہیں ہو تا…… مگر ایسا بے پروا بھی نہیں…… کہ اس کے بندے اس سے معافی مانگ رہے ہو…… ان کا دل روتا ہو…… اور وہ سنی ان سنی کر دے‘‘۔
’’آخر اﷲ کے سوا بندوں کے گناہوں کا معاف کرنے والا اور ہے ہی کون؟؟؟‘‘۔
’’بس تم اﷲ کی طرف پلٹو!!! اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو رہو…… کیا تمہاری نظر میں اس جیسا کوئی اور بھی ہے!!!‘‘
’’کیا تمہاری نظر میں اس جیسا کوئی اور بھی ہے!!!‘‘
’’کیا تمہاری نظر میں اس جیسا کوئی اور بھی ہے!!!‘‘۔ ذولفقار یہ جملے کہتا کہتا وہیں سو گیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک پر سکون سی مسکرہٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78397 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More