پاکستان کی اغواء کاروں سے رہائی۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی اغواء کاروں سے رہائی۔۔۔۔۔۔ عوام نہیں خواص کی قربانی سے ممکن ہے
پاکستان نظریاتی بنیادوں پر صدیوں میں وجود میں آنے والی ایک مملکت ہے ۔ انگریز کی غلامی اور ہندو ؤں کے تسلط سے آزادی پر جس شکر کی ادائیگی ہم پر واجب تھی لگتا ہے وہ آج تک واجب الادا ہے۔ا نگریز کے تسلط کے دوران بھی دوسرے کئی اندرونی عذاب ہم پر مسلط چلے آئے ہوں گے لیکن محسوس ہوتے دکھائی نہیں دیے۔اسی(80) کی دہائی میں ایک بار ہندوستان بلکہ عالم اسلام کے مایہ ناز اسکالر اور علمی و دینی شخصیت سید ابوالحسن علی ندوی سے ایک ملاقات میں معلوم کیا کہ ہندوستان میں شیعہ سنی فسادات کم ہونے کا سبب کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ ہندوستانی مسلمانوں پر خطرے کی ایک بڑی تلوار نمایاں لٹک رہی ہے اس لئے چھوٹے خطرات کے موجود ہونے کے باوجود ان کی شدت محسوس نہیں ہوتی۔

بانی تحریک آزادی کشمیر مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اکثر سناتے رہے کہ ہندو ڈوگرہ کے جانے کے بعد جہاں جہاں سے گزر ہوتا لوگ دھڑا دھڑ درخت کاٹ رہے ہوتے اور اپنی گائیں بیل بلا ضرورت بھی ذبح کرتے دکھائی دیتے تھے۔ جب ان سے سبب معلوم کیا تو لوگوں کا جواب تھا کہ چونکہ ڈوگرہ نے پابندی لگا رکھی تھی اور اب ہم آزاد ہیں اس لئے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔ مجاہد اول جواب میں لوگوں کو سمجھاتے کہ ڈوگرہ یقینا چلا گیا ہے لیکن یہ جنگل اور مال مویشی تو آپ لوگ اپنے اور اپنی نسلوں کے لئے سنبھالنے کے بجائے بے دریغ ضائع کر رہے ہیں جس میں ڈوگرہ کا نہیں بلکہ خود آپ کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔

قائد اعظم اور مسلم لیگ کے اس عظیم قافلے میں پاکستان کے مخالفین تو تھے ہی ،کچھ بے عقیدہ حامی بھی موجود تھے جن کا اپنی منزل اور آزادی پر یقین کبھی بھی پختہ نہیں تھا۔ مخالف عناصر ،مایوس اور موقع پرست طبقات نے آزادی کے بعد کے ماحول سے پورا فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بقول عبدالرب نشتر مرحوم
؂نیرنگئیِ سیاست ِدوراں تو دیکھیئے۔۔۔۔ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

پاکستان میں منظم دھاندلی کی بنیاد کسی غیر جمہوری شخص نے نہیں کی بلکہ سیاسی حکومت نے ڈالی۔ آئین سازی میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور ملک کے اہم مسائل سے روگردانی کے مظاہرے دیکھنے میں آنے لگے۔

قائداعظم کا بطور گورنر جنرل کا بینہ کو اس بات کا پابند کرنا کہ ہر فیصلہ کابینہ خود کرے لیکن جموں و کشمیر کے معاملے میں ہر فیصلے پر حتمی راہنمائی خود قائد اعظم سے لی جائے۔ یہ کس بات کی نشاندہی ہے۔ بلدیاتی جمہوریت ایک فوجی حکومت کے دور میں متعارف ہوئی لیکن اسے سیاسی حکومتوں نے چلنے نہیں دیا۔ جنرل یحیٰ خان نے صدارتی طرزحکومت کے تحت انتخابات کروائے لیکن بھٹو صاحب نے اس نظام کو بدل کر پارلیمانی جمہوریت کے شوق کی تسکین کر نا چاہی۔ جنرل پرویز مشرف نے ناظمین کا بلدیاتی نظام دیا جسے بعد میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے نہیں چلنے دیا ۔ ان نظام ہا میں بھی خرابیاں ہو سکتی ہیں لیکن نچلی سطح پر ایک عام آدمی کی شرکت تو بحرحال موجود تھی لیکن چونکہ موجودہ پارلیمانی جمہوریت ایک مخصوص طبقے کے گرد گھومتی ہے اس لئے عام آدمی کا کار حکومت میں شرکت کا ہر دروازہ سیاسی نظام نے بند کر رکھا ہے۔ ہر نظام میں اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں جو موجودہ نظام میں بھی ہیں یقینا کئی شرفاء ، دیانتدار اور باعزت لوگ اس نظام میں بھی شامل ہیں تاہم عام آدمی کے نزدیک موجودہ نظام کی جو تعریف کی جاتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ’’کرپٹ لوگوں کی حکومت، کرپٹ لوگوں کے ذریعے، کرپٹ لوگوں کے لئے‘‘۔ جمہوریت کی پرانی تعریف اب مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
’’Government of the people by the people for the people‘‘ کااب دور دور تک تصورباقی نہیں رہا۔

اکثر سیاستدان اداروں پر یقین ہی نہیں رکھتے ۔ نئے ادارے بنانا تو دور کی بات ہے بنے ہوئے اداروں کی توہین معمول کی بات ہے۔ جو حکومت وزیر خارجہ کی اہمیت سے آگاہ نہیں اسے خارجی امور کیسے سمجھ آئیں گے اور وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو کیسے اور کیونکر چلا سکتی ہے۔جس عدالتی نظام میں ایک سابق چیف جسٹس کو لوگ کھل عام ’’تھیف جسٹس ، Thief justice‘‘کہہ کر پکارتے ہوں وہاں سے کس کو انصاف کی توقع ہو سکتی ہے۔

نوے(90) کی دہائی میں قتل کے ایک نامزد ملزم کو ہائیکورٹ کا جج لگا دیا تھا ۔ ممبران اسمبلی کے کوٹے پر بھرتی ہونے والے چند اچھے پولیس کے اہلکاروں کو چھوڑ کر بڑی تعداد میں پشہ ور مجرم اور ڈاکو پولیس کی وردی اور تنخواؤ ں کے اہل قرارپاچکے ہیں۔ انتظامیہ عضو معطل ہے یا لوٹ مار کا حصہ ہے یا بعض اپنی عزت بچانے کے لئے خاموش ہیں یا تعلیمی رخصت کی پناہ میں ہیں۔فوج کی امداد کے بغیر امن عامہ کا تصور بھی محال ہے ۔ میری تودیر سے تجویز رہی ہے کہ امن عامہ کے بجٹ کو دفاعی بجٹ کا حصہ قرار دیا جائے۔پولیس میں بھرتیاں فوجی ریکروٹمنٹ سنٹرز کے ذریعے کروائی جائیں۔ تعلیمی اداروں کو آرمی پبلک سکول اور صحت کے شعبہ کو آرمی میڈیکل کور سے منسلک کر کے بھرتیوں ، تقرریوں اورتبادلوں کا وہی نظام متعارف کروایا جائے جو امن عامہ، تعلیم اور صحت کے فوجی نگرانی میں چلنے والے اداروں میں موجود ہے ۔ کور کمانڈرز کی سربراہی میں صوبائی سیکورٹی کونسلیں قائم کی جائیں اور اسطرح زندگی کے دیگر شعبہ جات کی اصلاح کی جائے ۔ ملک مانگی تانگی جمہوریت کے مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس خطے کے غریب آدمی نے دو سو سالہ محنت کی ،قربانی دی تو پاکستان وجود میں آیا۔ گزشتہ 70 سال سے اس ملک کا ہر غریب شخص نسل در نسل قربانی دیکر اپنے حق سے زیادہ ادا کر چکا ہے۔ ملک کی بہتری کا سفر جلد اختیار کرنا ہے ، پاکستان میں داخلی استحکام اور عالمی وقار کے حصول اور دنیا کی لیڈر شپ ٹیم میں حاصل ہونے کی پوری پوری صلاحیت بدرجہ کمال موجود ہے۔

چند ماہ قبل مجھے قطر ،انگلینڈ اور دوبئی کے دورے پر جانا ہوا توایک بات وجدان کے اصرار پر اپنی تقاریر کے دوران میں نے کئی بار کہی کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی مزدور کو دوبئی اور قطر سے بہتر تنخواہیں پاکستان میں مل جایا کریں گی۔پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو ستر (70) سال سے بدترین لوٹ مار کے باوجود پوری طرح قائم دائم ہے اوریہی اس کی فطری صلاحیت کا بڑا ثبوت ہے ۔سیاستدانون کی نااہلی سے ملک دو لخت ہوا ۔ سیاسی ناکامی کو افواج کے گلے میں ڈالا گیا لیکن اس المیے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا بلکہ پاکستان کو توڑنے کے بعد لوٹ مار اور کرپشن کا ایسا اجتماعی نظام وضع کر دیا گیا جو رفتہ رفتہ میثا ق جمہوریت جیسے رسوائے زمانہ معاہدے پر آن پہنچا جس کے ذریعے ہر قسم کی سیاسی اپوزیشن کا خاتمہ کر کے تمام توانائیاں ایک دوسرے کی بد عنوانی کے تحفظ کی طرف موڑ دی گئیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر جمہوری فیشن کی آڑ میں وطن عزیز کی دفاعی قوتوں کو راستے کی رکاوٹ سمجھ کر ہدف تنقید بنانے کا رواج متعارف ہوا۔ خدا کا شکر ہے کہ میثاق جمہوریت کے تحت کرپشن کو آئینی تحفظ دینے کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔

پاکستان دشمن قوتوں کی سب سے بڑی خواہش افواج پاکستان کو کمزور کرنا ہے اور گزشتہ چند سالوں کا ریکارڈ شاھد ہے کہ کئی سیاستدان، کئی اخبارات ، کئی ٹی وی چینلز، کئی دانشور ، کئی علمائے دین ، کئی کاروباری طبقات ، کئی سفارت کار ، کئی سرکاری اہل کار، کئی بڑے بڑے عدالتی مناصب کے حامل ، کئی حکومتیں اور جماعتیں اپنا سارا زور افواج پاکستان کی طرف موڑے ہوئے ہیں اور جہاں ان سب کا ایک دوسرے سے بھی کوئی نہ کوئی تعلق موجود ہے وہاں ساتھ ہی ان میں سے اکثر کے تانے بانے نہ صرف پاکستان مخالف قوتوں سے ملے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر کام کر رہے ہیں اور اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ PIA ، ریلوے اورسٹیل مل سمیت اداروں کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ مسلم کمرشل بینک سکنڈل سے لیکر ہر طرف سکینڈل پر سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔ قوم بجلی ، پانی، گیس اور امن عامہ کی سہولت سے محروم ہے۔ خالص خوراک اور اصلی ادویات کا تصور ہی اب با قی نہیں رہا۔ پاکستان کمزور اور یہ چند افراد اور گھرانے مضبوط سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ بری سے بری جمہوریت بھی کسی اچھے سے اچھے نظام سے بہتر ہے۔ مزید وقت ضائع کئے بغیر فیصلہ کرنا ہو گا کہ پاکستان کو جمہوریت کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہے یا جمہوریت کو پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

لباس کو انسانی جسم کے مطابق ٹھیک کرتا ہے یا لباس کے احترام میں جسم کو کپڑوں کے مطابق تراشنا ہے۔ یہ فیصلہ جلد از جلد کرنا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ملک کے اندر لوگ فوج کی طرف دیکھتے تھے اب پاک چین اقتصادی راھداری ہو ، شنگھائی تعاون معاہدہ ہو، خطے میں تجارت اور ایشیائی امن کی بات ہو عالمی برادری بھی افواج پاکستان کی طرف ہی دیکھ رہی ہے اور اعتماد کر رہی ہے۔ کوئی عالمی معاہدہ فوج کی ضمانت کے بغیر مکمل قرار نہیں پاسکتا ۔ یہ مواقع کم دیکھنے میں آئے ہیں کہ اندرون ملک اور بیرون ملک سب کی نظریں فوج پر ہیں۔اس موقع سے جلد از جلد استفادہ کرنا ہے۔ آصف زرداری اور ہمنواہ جنرل راحیل شریف کے مدت ملازمت کے باقی ماندہ دنوں کی گنتی میں مصروف ہیں۔ اگر چہ مارشل لاء کو ئی مستقل حل نہیں تاہم میں 1995 ء سے باقاعدہ لکھ رہا ہوں کہ ’’پاکستان کو تنہا ء سیاست دانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘۔

اقدامات کی رفتار کو ملک کے خلاف سازشوں کی مناسبت سے تیز کرنا ہو گا۔ فوج مخالف قوتیں ایک بار پھر سر جوڑ رہی ہیں۔ ایک آخری داؤ کھیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگر چہ پہلی بار منفی قوتیں اجتماعی طور پر پسپائی کا راستہ بھی ڈھونڈ رہی ہیں تاہم فوج مخالف خطرات کو نذر انداز نہ کیا جائے۔ احتساب کا عمل ہوتا رہے گا۔ وی آئی پی نہیں بلکہ وی وی آئی پی طرز پر فائیو سٹار جیل خانہ جات بھی مستقبل کی اہم ضرورت ہیں تاہم چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں کو یکساں بے نقاب کر کے انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ذوالفقار مرزا کی کراچی میں پیشکی کے موقع پر جس طرح گمنام نقاب پوش آئے اور اپنا کام کر کے غائب ہو گئے اسطرح کے ایک آپریشن کی ضرورت ہے۔ ایک زور دار آپریشن درکار ہے ۔ چند سو کی قربانی سے بیس کروڑ کے مستقبل کو سنوارا جا سکتا ہے۔ تمام محب وطن قوتوں سے میری درخواست ہے کہ پاکستان کو جتنا جلد ممکن ہوتین چار سو سیاسی ،اقصادی اور نظریاتی اغواء کاروں سے رہا کر وایا جائے اور یہ عمل عوام نہیں بلکہ چار پانچ سو خواص کی قربانی سے ہی ممکن ہے جس کے بعد با آسانی پاکستان کو دنیا کا ایک بہترین مستحکم اور باوقار ملک بنایا جا سکتا ہے۔ان شا ء اﷲ
Sardar Attique Ahmed Khan
About the Author: Sardar Attique Ahmed Khan Read More Articles by Sardar Attique Ahmed Khan: 23 Articles with 38095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.