میڈیا پر بے جا تنقید

 تنقید کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ اس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری۔ بس چھوٹی سی زبان کو حرکت دینا ہوتی ہے۔ ہر کسی کی اپنی زبان اور اپنی سوچ ہے۔ وہ کیا بولنا چاہتا ہے اور کیا سوچ رہا ہے اس بات کی ہر کسی کو مکمل آزادی ہے۔ یہی آزادی ہمیں عقل کل کا احساس دلاتی ہے ۔ ہر کسی کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے یا سوچ رہا ہے وہی ٹھیک ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ دوسروں کے عیب پر زبان درازی کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک لیا جائے۔ لیکن سیانوں کی کون سنتا ہے۔ ویسے بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے سر کو جھکانا پڑتا ہے ۔ نہ صرف سر کو جھکانا پڑتا ہے بلکہ شرٹ کا اوپری بٹن بھی کھولنا پڑتا ہے۔ لہذا یہ دونوں کام دنیا کے مشکل ترین کاموں میں شامل ہیں۔جبکہ مشکل کاموں سے ہماری جان جاتی ہے۔

آج کل ہمارے میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔ زیادہ نشانہ اُن ٹی وی چینلز کو بنایا جا رہا ہے جو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مسلمانوں کے ایمان کو تازہ کر رہے ہیں۔ جو لوگ گیارہ مہینے شیطان کی شیطانیت کا شکار ہو کر راہ راست سے بھٹکے رہتے ہیں، یہ ٹی وی چینل اُن کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔بڑے بڑے جید علماء کرام ناظرین کے دلوں کو دین کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔سب سے بڑی اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ گیارہ مہینے ناچ اور گا کر شیطان کو خوش کرنے والے سنگر، ڈانسر اور ایکٹر ایک مہینے کے لیے اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات سے رخصت لے کر رحمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سحری اور افطاری کا جو وقت اﷲ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ہوتا ہے وہی وقت ناظرین ان فضول قسم کی اسلام کے نام پر ہونے والی بیہودگی کی نظر کر دیتے ہیں۔ وہ علما کرام جو کبھی گھر میں ٹیوی رکھنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتے تھے آج خود فضول قسم کے پروگرامز میں تشریف فرما نظر آتے ہیں۔

اگر ایک زاویے سے دیکھا جائے توتمام رمضان ٹرانسمیشنزمیں موجود غریب ، لالچی اور ندیدے حاضرین کی مفت میں لاٹری لگ جاتی ہے۔بس تکا لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ ہماری قوم تکوں پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ دین کو بھی انہی تکوں کے سہارے قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جو جتنا زیادہ جاہل ، کم علم اور تُکا باز ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا فتوہ جاری کر دیتا ہے۔تنقید تو اُن ٹیوی چینلز پر بھی کی جاتی ہے جو فحش قسم کے ڈرامے دکھا کر مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنے میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ان ڈراموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ نہ تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور نہ ہی ہمارا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے ٹیوی چینلز پر چلائے جانے والے انڈیا اور ترکی کے ڈراموں میں جس طرح کا لباس پہنا جاتاہے وہ ہماری کسی بھی ماڈرن سوسائٹی میں کہیں نظر نہیں آتا۔ جس طرح کے غیر اخلاقی قسم کے موضوعات ڈرامے کی کہانی کا حصہ ہوتے ہیں وہ ایک با حیا معاشرے کے لیے نا قابل قبول ہیں۔لیکن تمام تر اختلافات کے باوجود سب چینل اپنی ڈھٹائی پر قائم ہیں۔ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بھی آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔جو ناضرین ان غیر ملکی اور غیر اخلاقی ڈراموں کو شوق سے دیکھتے ہیں اُن کی تعداد ان ڈراموں کو ناپسند کرنے والوں سے بہت کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسے ڈرامے ، پروگرام اورمارنگ شوبھر پور ریٹنگ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناظرین کے پاس جب کوئی آپشن نہیں ہو گی تو وہ وہی کچھ دیکھیں گے جو انہیں دکھایا جا رہا ہے۔ دکھانے والوں کی مجبوری ہے کہ انہیں ریٹنگ چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل کر سکیں جبکہ دیکھنے والوں کی یہ مجبوری کہ اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں۔

کسی بھی ملک کا میڈیا اس کے ناظرین کے لیے معلومات کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ سائنس ، ٹیکنالوجی، انسائیکلوپیڈیا اور دنیا بھر کی خبریں فراہم کرنے میں میڈیا کو ہی سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کی سوچ اور خیالات بدلنے میں بھی میڈیا بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کوئی میڈیا اگر منفی کردار ادا کرے گا تو اُس کے ناظرین کی سوچ پر بھی منفی اثر پڑے گا۔جبکہ مثبت کردار ادا کرنے والا میڈیا اپنے ناظرین کی بہتر کردار سازی کر سکتا ہے۔ہمارے ٹیوی چینل اپنے ناظرین کی کردار سازی میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں۔صبح سویرے دکھائے جانے ولے مارنگ شوز ہماری قوم کے کچے ذہنوں کو نہ جانے کس طرف لے جا رہے ہیں۔ان پرگرامز میں بیہودگی اور لچر پن کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔مارنگ شوز رمضان ٹرانسمیشن سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ یہ ایک مہینے کی بجائے پورا سال چلتے رہتے ہیں۔مارنگ شوز خاص طور پر خواتین کی دلچسپی کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ان شوز کے ناظرین میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ خواتین کی اکثریت صبح سویرے اُٹھ کر خود بھی نماز پڑھتی تھی اور اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیتی تھی۔ اب میڈیا کا دور ہے۔اس لیے عبادت کو کم جبکہ میڈیا کو زیادہ وقت دیا جاتا ہے۔

میڈیا پر تنقید سورج کو چراغ دکھانے، اندھے کو آئینہ دکھانے اور بہرے کو ہیر سنانے کے مترادف ہے۔جس کا کام صرف دوسروں کو دکھانا ہے، وہ دیکھ نہیں سکتا۔ جس کاکام صرف اپنی کتھا سنانا ہے ،وہ دوسروں کی سننے سے قاصر رہتا ہے۔اس لیے بھینس کے آگے بین بجانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ میری اُن ناقدین سے مودبانہ گذارش ہے کہ اپنی اپنی بین توڑڈالیں اور بھینس کو چارہ کھانے دیں۔ اگر کسی کو اس بھینس سے کسی قسم کا خطرہ ہے تو بہتر یہی ہے کہ وہ اس موذی جانور سے دور ہی رہے۔ بھینس دودھ تو دیتی ہے لیکن اس کی ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پاس سے گذرنے والے شخص کے اوپر اپنی گوبر سے لتھڑی ہوئی دم کی مدد سے چھینٹے ڈال دیتی ہے۔ جس سے اُس کے کپڑے اور جسم دونوں ناپاک ہو جاتے ہیں۔ اس ناپاکی اور غلاظت سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ آپ اپنے گھر کی کیبل ہی کٹوا دیں۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99919 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.