ذکر اسم اللہ ذات

 
 اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ذاتی اسم اللہ کا ذکر دیا ہے کیونکہ یہ اس کی تمام صفات کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے تمام اسماء میں سب سے قوت والا اسم ہے۔ اللہ کا یہ اسم اس قدر قوت کا حامل ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں اسم '' اللہ '' رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں پوری کائنات' جنت و جہنم رکھ دیئے جائیں تو اسم اللہ ذات والا پلڑا بھاری ہوگا۔ اسم اللہ ذات کے ذکر سے روح کو وہ نورِ بصیرت حاصل ہوتا ہے جو دیدارِ الٰہی کے لیے لازم ہے۔ روح اس قدر قوی ہوجاتی ہے کہ جسم و جان کے تمام حجابات توڑ کر جسمانی موت سے قبل ہی اللہ کا وصال' دیدار اور معرفت حاصل کر سکتی ہے۔ چونکہ ذکرِ '' اللہ ' ہی انسانی مقصدِ حیات یعنی معرفتِ الٰہی کے حصول کی بنیاد ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلی وحی اور سب سے پہلا حکم اللہ کے ذاتی نام کے ذکر کا تھا۔

ترجمہ:پڑھ اپنے ربّ کے نام (اسم اللہ ) سے جس نے خَلق کو پیدا کیا۔
تمام عبادات کی فرضیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت اور پیروکاروں کو اسم اللہ ذات کے ذکر کا حکم دیا تاکہ ان کی ارواح نور بصیرت حاصل کر کے معرفتِ الٰہی تک رسائی حاصل کریں جو تمام عبادات کی روح اور بنیاد ہے۔ دین کی اس بنیاد کے مضبوط ہونے کے بعد ہی ان پر ظاہری عبادات فرض کی گئیں۔ سورۃ مزمل سورۃ الاعلیٰ' سورۃ واقعہ' سورۃ اعراف' سورۃ کہف اور سورۃ طٰہٰ عبادات فرض ہونے سے پہلے مکہ میں نازل ہوئیں ان تمام میں اللہ کے اسم کے ذکر کا حکم بھی دیا گیا ہے اور طریقہ بھی سمجھایا گیا ہے۔

ترجمہ:( اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )اپنے رب کے نام (اسمِ اللہ ) کی تسبیح بیان کرو جو سب سے اعلیٰ ہے۔ ( الاعلی ۔ ١٠ )

ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے رب کے نام (اسمِ اللہ کا ذکر کرو اورسب سے ٹوٹ کر اس ہی کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ (مزمل ۔ ٨ )
ترجمہ: میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔ ( طٰہٰ ۔ ١٤ )
پھر یہ ذکر کرنے کا طریقہ بھی سمجھا دیا۔

ترجمہ:اور صبح و شام ذکر کرو اپنے ربّ کا دل میں' سانسوں کے ذریعے' بغیر آواز نکالے' خفیہ طریقے سے' عاجزی کے ساتھ اور غافلین میں سے مت بنو۔ (اعراف ۔ ٢٠٥ )

ترجمہ:اپنے رب کا ذکر کرو خفیہ طریقے سے' عاجزی کے ساتھ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (اعراف ۔ ٥٥ )
ذکر کا حکم خفیہ طریقے سے کرنے کا مطلب بغیر آواز کے ذکر کرنا ہے اور سانسوں کے ذریعے ذکر کا حکم اس لیے ہے کہ سانس کا تعلق روح سے ہے۔ جیسے ہی روح جسم میں داخل ہوتی ہے جسم سانس لینا شروع کردیتا ہے اور جیسے ہی روح جسم سے نکل جاتی ہے' جسم سانس لینا بند کر دیتا ہے۔ چنانچہ سانسوں کے ذریعے اسم اللہ کا ذکر روح یا باطنی انسان کی قوت کا باعث ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :

ترجمہ:''سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس اللہ کے ذکر کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔''
یعنی جس سانس میں اللہ کا ذکر کیا جائے وہ روح کی زندگی کا باعث ہے۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:

''جو شخص ذکر اللہ کرتا ہے اور جو شخص ذکر اللہ نہیں کرتا اس کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ (بخاری و مسلم)
ذکر اللہ کرنے والے کی روح زندہ اور نہ کرنے والے کی روح مردہ ہے۔ آج کل لوگوں کی اکثریت تو ذکر اللہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتی اور نماز روزوں پر اکتفا کیے بیٹھی ہے اور جو لوگ ذکر اللہ کرتے بھی ہیں تو زبانی ذکر کرتے ہیں ۔ جو لوگ قلبی ذکر کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے نزدیک قلب سے مراد سینے کے بائیں جانب رکھا گوشت کا لوتھڑا (دِل)ہے اور وہ حبسِ دم کر کے زور زور سے اللہ کا ذکر کر کے اسی لوتھڑے کو چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب یہ مادی دل پھڑکنے لگ جائے تو سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی روح زندہ ہوگئی۔ حالانکہ جسم میں رکھے اس دل کا کام صرف خون کی ترسیل ہے۔ یہ بھی باقی جسمانی اعضاء کی طرح ایک عضو ہے جس کو باقی جسم کے ساتھ اسی دنیا میں رہ کر مٹی کا حصہ بن جانا ہے۔ روح غیر مادی ہے' اس کی قوت سانسوں کے ذریعے خفیہ طور پر عاجزی کے ساتھ' مسلسل اسم اللہ ذات کا ذکر کرنے میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ترجمہ: پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے بیٹھے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے ذکر اللہ کرو ۔ ( النساء ۔ ١٠٣ )

اس آیت مبارکہ میں کروٹوں کے بل لیٹنے سے مراد سونا ہے اور سوتے وقت صرف سانسوں کے ذریعے ذکر ممکن ہے۔
جو لوگ مادی دل کو ''قلب'' مان کر اس کا تعلق سانسوں سے جوڑتے ہیں اور پھر مخصوص اوقات مقرر کر کے صرف اسی میں ذکرِ اللہ کرتے ہیں نہ کبھی روحانی زندگی پاسکتے ہیں نہ ہی دیدار و معرفتِ الٰہی۔ ان کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وہ لوگ کتنے احمق ہیں جو دل' نفس' روح اور باطن کا علم نہیں رکھتے اور گوشت کے ایک لوتھڑے کو دل کے مقام سے بند کر کے تفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر قلبی ہے اور گوشت کے اس لوتھڑے کی دھڑکن کو دم کے ساتھ ملا کر سینے میں لاتے ہیں ا ور کہتے ہیں کہ یہ ذکر قربانی ہے اور گوشت کے اس لوتھڑے کو تفکر کی آنکھ کے سامنے رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ ذکر نور حضور ہے اور اسی گوشت کے لوتھڑے کو تفکر سے مغزِ سر میں لے جاتے ہیں اور اسی کا نام ذکر سلطانی روحانی رکھتے ہیں۔ یہ تمام لوگ غلطی پر ہیں۔ یہ تمام وساوس اور خطراتِ شیطانی ہیں(جو اللہ کی اصل راہ اور قرب سے دور کر دیتے ہیں)۔ (کلید التوحید کلاں)
دل یہ نہیں جس کی جنبش تجھے شکم کے بائیں طرف معلوم ہوتی ہے بدن میں یہ حیوانی دل تو کفار' منافق و مسلم سب کے پاس موجود ہے۔ (عین الفقر)
میں حیران ہوتا ہوں اُن احمق اور سنگ دل لوگوں پر جو رات دن بلند آواز میں '' اللہ ھو ‘‘ ‘‘ اللہ ھو ‘‘ کرتے رہتے ہیں مگر اسمِ اللہ ذات کی کنہہ کو نہیں جانتے اور رجعت کھا کر پریشان حال اہلِ بدعت ہو جاتے ہیں اور اُن کے سر میں خواہشاتِ نفسانی سمائی رہتی ہیں۔ (کلید التوحید خورد)
مادی دل سے ذکر کرنا باقی عبادات کی طرح جسم کی عبادت ہے' روح کی زندگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ کا قرب جسم نے نہیں بلکہ روح نے حاصل کرنا ہے گوشت کے لوتھڑے کا ذکر روح کوکوئی تقویت نہیں پہنچا سکتا کیونکہ روح جسم سے بہت بالا تر ہے۔ البتہ روح کا عروج جسمانی اعمال کی درستی کا باعث ہے چنانچہ جسمانی دِل کا یہ ذکر نہ بندے کو ربّ سے ملاتا ہے' نہ اس کا دیدار اور معرفت عطا کرتا ہے۔ لہٰذا بالکل بے فائدہ ہے۔ اصل ذکر سانسوں کے ذریعے کیا جانے والا ذکرِ اسمِ اللہ ذات ہی ہے۔

تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس
Hamid Jamil
About the Author: Hamid Jamil Read More Articles by Hamid Jamil: 18 Articles with 56065 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.