’ہوا کے دوش پر ‘ اور ڈاکٹر فیروز عالم

’ہوا کے دوش پر‘ ممتاز معالج ڈاکٹر فیروز عالم کی خود نوشت ہے جو انھوں نے اپنے بچوں کے لیے لکھی۔کتاب تخلیق ادب کراچی نے زیور طبع سے آراستہ کی ہے اور ۴۷۲ صفحات پر مشتمل ہے ۔سید معراج جامی نے اسے ایک صابر وشاکر انسان کی سرگزشت قرار دیا ہے۔فیروز عالم کا تعلق میرپور خاص سے تھا اور اس سے پہلے جودھپور سے ۔ان کی پیدایش جودھپور کی ہے۔وہ عمر میں پاکستان سے بڑے ہیں۔عمر کے سات عشرے گزار چکے ہیں لیکن سترے بہترے نہیں :ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔’کتاب زندگی‘ میں ان کا امریکیوں کے بارے میں یہ تحریر کرنا کہ وہ فراخ دل ہوتے ہیں: مجھے تو حیران ہی کر گیا۔وہ جو اقدار اور تہذیب اور مذہب کے دشمن ہیں اور امریکی عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد ان کا خدائی فیصلے سے براہ راست ٹکراؤ شروع ہو چکا ہے جو ان کی بربادی تک جاری رہے گا کیونکہ صرف دنیاوی ترقی ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ہم امریکیوں کو دنیاوی معیارات سے ناپتے ہیں جو صحیح رویہ نہیں۔

فیروز نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے اور اپنے خاندان کے حالات و واقعات بیان کیے ہیں۔ان کا تعلق سادات کے خاندان سے ہے لیکن انھوں نے اس کو اپنے نام کا حصہ نہیں بنایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ برادری کی جکڑ بندیوں کے قائل نہیں اور سماج کے عام رویوں سے ہٹ کر روش اختیار کرتے ہیں۔ان کا خاندان اپنے دور کے پڑھے لکھوں کا خاندان تھا جو یقینا باعث فخر ہے۔ خود نوشت تاریخ بھی ہوتی ہے اور انھوں نے غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ کو مختصر سا بیان بھی کیا ہے جو تشنہ محسوس ہوتا ہے۔انھوں نے جودھپور اور میرپور خاص کی قبل تقسیم کی تاریخ کو بھی بیان کیا ہے۔یہ خودنوشت فیروز کی زندگی کے پہلے ۲۵ سالوں کی ہے جو ان کی زندگی کے مشکل ترین سال تھے۔اس لیے اس کو مختصر ہونا چاہیے تھا۔فیروز کو اپنی زندگی کے کچھ وہ حالات و واقعات بھی شامل کرنے چاہیے تھے جو ان کے امریکہ بس جانے اور پیشہ وارانہ زندگی سے متعلق تھے کیونکہ اس سے دو معاشروں کا ایک تقابل بھی سامنے آتا۔

میرپور خاص کی جس مذہبی ہم آہنگی کی بات انھوں نے کی ہے وہ اب کہاں۔اب شیعہ اور سنی ایک ہی مذہب کے دو مسلک لگتے ہی نہیں۔خیر یہ تو پورے پاکستان میں اب کم ہی ہے۔اسی طرح ریلوے کا تو سارا نظام ہی تلپٹ ہو چکا ہے۔ اس کی ایک مثال اسی ماہ کا ٹرین حادثہ ہے جو ایک پل کے ٹوٹنے کی وجہ سے ہوا۔ہمارا ریلوے اب سفید ہاتھی ہے اور اس کے آفیسر پورس کے ہاتھی۔کتاب خانوں کی حالت دگرگوں ہے اور جو آپ نے اپنے دور کا حال لکھا ہے تو وہ اب قصہ ء پارینہ ہے۔اب تو اس ملک میں کتاب دشمنی ہے۔کتاب دوستی کے اب صرف قصے ہیں۔سکول کے زمانے کے دلچسپ واقعات پڑھ کر مجھے بھی اپنے سکول کے دور کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔آپ کو تو ایک تھپڑ یاد رہا لیکن مجھے تو دسمبر کی یخ بستہ سردی میں ایک ماسٹر نے چار ڈنڈے جڑ دیے تھے اور اس سے نفرت ۳۰ سال بعد بھی موجود ہے۔ہمارے ہاں سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کا رواج ہے۔

فیروز عالم کی یہ خودنوشت مختصر خاکوں کا مجموعہ بھی لگتی ہے جس میں ان کی والدہ ، والد ، بہنوں ، بھائیوں ، دوستوں اور کلاس فیلوؤں کے مختصر خاکے شامل ہیں۔یہ ستر سال پہلے کے دور کی چلتی پھرتی تصویریں بھی ہیں۔اقدار بدل چکیں ، مادیت نے رشتوں کو گہنا دیا اور ان حالات میں آپ کے بچوں کو ، جو سونے کا نوالہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ، عجیب لگے ہوں گے۔اس کتاب کو پڑھ کر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ محنت کے ذریعے منزل کا حصول ہر شخص کے لیے ممکن ہے لیکن جو مقدر میں ودیعت ہو وہ ضرور ملتا ہے البتہ ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ جو جتنی کوشش کرتا ہے اس کو ضرور وہی ملتا ہے۔میں اس خود نوشت کو ایک شریف آدمی کی بپتا بھی کہوں گا کیونکہ اس میں فیروز نے تنقید اور اختلاف کم ہی کیا ہے۔

ڈاکٹر ڈراگو کی طرح کے کردار اب بھی اس ملک میں موجود ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت بھی ہے۔’وہ کیسی ہوں گی‘ آج بھی سادہ لوحوں کا احساس ہے جناب۔ تاہم یہ جملہ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے اور بڑا لطف دے گیا۔نجمہ شیخ کے ساتھ فیروز عالم کی آتش زیر پا قسم کی محبت کی داستان ادھوری رہی اور اچھا ہی ہوا کیونکہ آپ نے اس محبت کو اپنی طاقت کے لیے استعمال کیا بالکل علامہ اقبال کی عطیہ فیضی سے محبت کی طرح۔کیونکہ اگر آپ ایسا نہ کرتے تو آپ کبھی بھی اپنی منزل نہ پا سکتے۔مجھے یہ خود نوشت اس لیے بھی بہت پسند آئی کہ اس میں لکھنے والے نے کہیں بھی اوپر جانے کے لیے شارٹ کٹ استعمال نہیں کیا اور اب اس سماج میں اس طرح کے افراد کم ہی رہ چکے ہیں۔ جو ایک ایک سیڑھی چڑھتے ہوئے اوپر گئے ہیں ورنہ یہاں تو ہر ایک شارٹ کٹ کے ہی چکر میں ہے۔

اس خودنوشت کے ذریعے کچھ دلچسپ حقائق کا بھی معلوم ہوا جو میری نظروں سے اوجھل تھے۔جس کے مطابق ۱۹۶۳ء میں متحدہ پاکستان میں کل ۸ میڈیکل کالج تھے ، تین مشرقی اور پانچ مغربی پاکستان میں۔۵۲ سالوں میں ترقی تو ہوئی ہے کہ صرف ہماری چھوٹی سی ریاست آزادکشمیر میں تین میڈیکل کالج ہیں۔البتہ معیار کے مسائل موجود ہیں بلکہ بڑھے ہیں۔فیروز نے میڈیکل کالج کے تجربات کو خوب صورت انداز میں اردو زبان میں بیان کیا ہے۔اصطلاحات کے مسائل تو بہرحال ہر زبان میں موجود ہوتے ہیں اور یہ انگریزی میں بھی موجود ہیں۔انگریزی نے اصطلاحات کو یونانی اور لاطینی سے جوں کا توں لیا جیسے الفا، بیٹا ، گیما، تھیٹا وغیرہ۔کسی دور میں انگلستان میں معالج تعلیم لاطینی میں حاصل کرتے تھے لیکن اپنے تجربات کو آسان انگریزی میں بیان کرتے تھے۔اس طرح علم کا ایک وسیع ذخیرہ انگریزی زبان میں منتقل ہو گیا۔اسی طرح کی کوشش آپ کو کرنی چاہیے تاکہ علم کے ذخائر اردو میں منتقل ہو سکیں۔

میری فیروز عالم سے یہ التماس بھی ہو گی کہ اپنے طبی تجربات پر مشتمل ایک کتاب اردومیں لکھیں۔یہ طب اور میڈیکل کی اردو دنیا کے لیے ایک بڑا کام ہوگا۔فیروز نے میڈیکل کالج کے پانچ سالوں کے واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے اور کہیں بھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیا حالانکہ یہ تمام واقعات عام آدمی کے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے یا عام قاری اس کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتا۔ویسے بھی دقیق تحریروں کو ہم ’آگ کا دریا‘ کے پہلے ۱۵۰ صفحات کی طرح چھوڑ کے گزر جاتے ہیں۔امراض زچگی اور خواتین کے امراض پر اردو زبان میں لکھنے کی ضرورت ہے ۔’ایک غلطی‘ اکثر طلبہ کرتے ہیں اور اگر نہ کریں تو دوسرا کیسے آگے بڑھے۔ایک کی ایک غلطی ہی دوسرے کے لیے ترقی کے راستے نکالتی ہے۔

ایم بی بی ایس کے بعد اس دور میں نوکری کے لیے جتنی تگ و دو آپ نے کی تو آج کے ایم بی بی ایس کو تو واقعی نوکری کے لیے جوئے شیر لانا پڑے گی کیونکہ اب تو بیسیوں میڈیکل کالج اور ہزاروں میڈیکل گریجویٹ ہیں جو ہر سال فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔کراچی اور سندھ میں اس دور میں طب کی حالت اگر دگرگوں تھی تو اب تو مزید دگرگوں ہو چکی اور کوئی پرسان حال بھی نہیں کہ اخلاقی انحطاط عروج پر ہے۔پیشہ وارانہ زندگی میں مشکلات کو برداشت کرنا ہی ایک ایسا رویہ ہے جو ایک نوآموز کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔یہ رویہ آج بھی موجود ہے، اگرچہ کم ہے۔یہ خودنوشت کیونکہ ایک معالج کی ہے تو اس کو پڑھ کر ایک معالج کے مسائل اور حساسیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔معالج بھی ایک انسان ہوتا ہے اور اس سے بھی غلطی کا ارتکاب ممکن ہے۔وہ بھی جذباتی ہوتا ہے۔تاہم یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کے بارے میں لوگ زیادہ حساس اور جذباتی ہوتے ہیں اور شاید اسی لیے ایک معالج کو مسیحا بھی کہا جاتا ہے۔

فیروز عالم کی ایک اور جذباتی حرکت انجو بالا تھی لیکن انھوں نے اس پر بہت جلد قابو پا لیا لیکن بہرحال یہ تذکرہ آپ کو کتنا مہنگا پڑا ہوگا اس کے لیے اس خود نوشت کا دوسرا حصہ آنا چاہیے۔تاہم یہ آپ کا، ایک عملی انسان کا رویہ لگا۔ایک ایک روپے کے لیے، اچھے کھانے کے لیے اور اچھے پہننے کے لیے ناآسودہ تمنائیں لیکن مسلسل محنت کرنے والا: یہ ہے ڈاکٹر فیروز عالم اور ان کی خود نوشت۔تاہم فیروز کو خاندان کی بھرپور محبتیں ملیں اور یہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔

امریکی اور برطانوی نظام تعلیم پر فیروز نے مختصر بات کی ہے۔ہم میڈیکل کی تعلیم میں ان سے بہت پیچھے ہیں اور ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں :اس پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔وہ کیا چیز ہے کہ ہمارا نوجوان ان کے نظام میں جا کر بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن اپنے نظام میں فیل ہو جاتا ہے۔کیا ہمارے رویے یا ہمارا نظام حکومت اس کے ذمہ دار ہیں۔’سنگین حادثہ ، بچے نے بندہ نگل لیا اور قتل کا پہلا کیس ‘دلچسپ لگے۔ ڈاکٹر ناظر کو آپ نے ایک وجہ سے ڈاکٹر محسن کے مقابلے میں مقام سے گرا دیا۔یہ انسانی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ہم صرف اپنے مسائل کو ہی دیکھتے ہیں۔کیا زندگی کے کسی موڑ پر آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ تھی کہ انھوں نے آپ کی مدد نہیں کی۔

میں اس خود نوشت کو ایک کنوارے کی خود نوشت بھی کہوں گا کہ ابھی فیروز کا ازدواجی سفر شروع ہی نہیں ہوا کہ یہ کتاب ختم ہوگئی۔اس میں شک نہیں کہ یہ ان کی زندگی کے مشکل دور کا احاطہ کرتی ہے لیکن اس کے بعد بھی مشکل وقت ان پر آیا ہوگا اور پھر ایک نئے سفر کا آغاز ،انھوں نے بیان ہی نہیں کیا۔آپ کی شادی ، بچے ، کامیابیاں ، بچوں کی تعلیم ، امریکی معاشرے میں آپ کی حیثیت، ۱۱/۹ کے واقعات اور اس کے بعد کی امریکی سوسائٹی کا آپ اور آپ کے بچوں سے سلوک۔ آپ کی اپنی جڑوں سے محبت کا پڑھ کر اچھا لگا کہ آپ کی پاکستانیت شک سے بالا ہے۔یہ ایک ایسے انسان کی آپ بیتی ہے جس پر ہم سب کو فخرہے۔وہ اس ملک کا سرمایہ ہے اور اس ملک کا فخر بھی۔ہم ڈاکٹر فیروز عالم کی صحت ، عمر اور صلاحیتوں میں برکت کے لیے دعاگو ہیں۔
 

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 50998 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More