ایک بھینس کی زندگی

یہ ان سنہرے دنوں کی بات ہے جب میں سول سروسز اکیڈمی لاہور میں ایک زیر تربیتی افسر تھا۔ اس تربیتی مدت کے دوران ہمیں ”Probationary Officers“ کہا جاتا تھا جس کا ترجمہ ہم نے ”افسر نما“ کر رکھا تھا۔ ہم” افسر نما“ انسانوں کو ہر فن مولا بنانے کے لئے اکیڈمی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سوسائٹیز اور گروپس وغیرہ میں حصہ لینے پر بھی ابھارا جاتا تھا۔ ایسی ہی اردو ادب کی ایک سوسائٹی کا سیکریٹری میں بھی تھا۔ اس سوسائٹی کی پہلی تقریب کے لئے میں نے اشفاق احمد (مرحوم) سے صدارت کی درخواست کی جو انہوں نے مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے ہوئے قبول کرلی۔ اشفاق صاحب کی آمد کا سن کر اکیڈمی کا ہال نوجوان لڑکے لڑکیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ اور تھوڑی دیر بعد جب اشفاق صاحب نے اپنی جادوئی گفتگو شروع کی تو مجمع مبہوت ہوگیا۔ مجھے اب وہ تمام باتیں تو یاد نہیں البتہ ان میں سے ایک بات ضرور یاد ہے کہ اشفاق صاحب نے اس موقع پر ایک نہایت ہی دلچسپ سوال اٹھایا تھا جس کا میرے سمیت اس وقت کسی کو بھی ڈھنگ کا جواب نہیں سوجھا۔ اشفاق صاحب نے پوچھا تھا کہ ”ہم میں اور ایک بھینس کی زندگی میں کیا فرق ہے؟“ پہلے تو ہمیں لگا کہ شاید ہم سے سننے میں کچھ غلطی ہوئی ہے لیکن جب انہوں نے اپنا سوال دو تین بار دہرایا تو ہم مخمصے میں پڑ گئے اور احمقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ہماری شکلیں دیکھ کراشفاق صاحب کو کچھ ترس آ گیا اور انہوں نے اپنے سوال کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ” جس طرح ایک بھینس صبح سے رات تک چارہ کھاتی ہے، دودھ دیتی ہے، بچے پیدا کرتی ہے، ایک جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جاتی ہے، جگالی کرتی رہتی ہے، لا تعلقی سے چاروں طرف دیکھتی رہتی ہے اور پھر رات کو سو جاتی ہے، کم و بیش اسی طرح ہم لوگ بھی ایسی ہی زندگی گزارتے ہیں تو پھر ہماری اور ایک بھینس کی زندگی میں کیا فرق ہوا؟“

اصولاً اس تشریح کے بعد سوال کو واضح ہو جانا چاہئے تھا لیکن اس کا اثر بالکل الٹ ہوا یعنی ہم مزید الجھ کر رہ گئے۔ اچانک ایک افلاطون ٹائپ صاحب نے ہاتھ کھڑا کیا اور بولے ”سر! ہم میں اور ایک بھینس میں عقل کا فرق ہے، بھینس میں عقل نہیں ہوتی لیکن ہم میں عقل ہے“۔ اشفاق صاحب کے جواب دینے سے پہلے ہی پیچھے سے ایک آواز آئی ”ممکن ہے بھینس کا بھی آپ کے بارے میں یہی خیال ہو؟“یہ سننا تھا کہ ہال فلک شگاف قہقہوں سے گونج اٹھا۔ یہ جواب سن کر اشفاق صاحب بھی مسکرائے اور پھر اپنے مخصوص مشفقانہ لہجے میں بولے ”بیٹا! میں نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ ہم میں اور ایک بھینس میں کیا فرق ہے؟ کیونکہ اگر ہم صرف فرق کی بات کریں تو فرق صرف عقل کا ہی نہیں ہے بلکہ ایسے اور بھی بہت سے فرق ہیں مثلاً وہ جانور ہے، ہم انسان ہیں، وہ چارہ کھاتی ہے، ہم گوشت کھاتے ہیں، وہ جگالی کرتی ہے، ہم نہیں کرتے۔ میرا سوال یہ تھا کہ ہماری زندگی ایک بھینس کی زندگی سے کیسے مختلف ہے پھر ایک آواز آئی ”سر! ہم محنت کرتے ہیں، اپنے بچے پالتے ہیں، زندگی میں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے ہیں جبکہ بھینس یہ سب کچھ نہیں کرتی“۔ اس دفعہ اشفاق صاحب نے پر زور انداز میں سر ہلایا ” شاباش! آپ کافی قریب پہنچ گئے ہیں لیکن جواب میں ابھی بھی کچھ تشنگی باقی ہے“۔

”ان تشنہ لبوں کی پیاس تو آپ ہی بجھا سکتے ہیں“۔ سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے کہا اس کی بات سن کر اشفاق صاحب نے مخصوص انداز میں اپنی داڑھی کو کھجایا اور بولے۔

” دیکھو بچو! جس قدر شعور خدا نے بھینس کو دیا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ انسان کو دیا ہے لہٰذا اگر کوئی انسان پڑھ لکھ جاتا ہے یا اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے تو وہ کوئی ایسا کمال نہیں کرتا جو اسے بھینس سے ممتاز کر سکے کیونکہ بھینس کے پاس اس عقل و شعور کا عشر عشیر بھی نہیں جو انسان کے پاس ہے لیکن بھینس بھی اپنے بچے پیدا کرتی ہے، انہیں دودھ پلاتی ہے، پالتی ہے وغیرہ وغیرہ یعنی دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم میں سے زیادہ تر انسان شعور رکھنے کے باوجود بھینس جیسی زندگی ہی گزارتے ہیں۔ میرا ایک دوست اس بھینس تھیوری سے اتفاق نہیں کرتا، اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی طور بھی بھینس سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس کی زندگی بھینس کے مقابلے میں کہیں زیادہ تخلیقی ہے۔ اپنی بات کے حق میں وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ بھینس کو صبح صبح شیو کر کے نوکری پر نہیں جانا پڑتا۔ اس مثال پر میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ شیو کرنا یا نوکری کرنا تخلیقی کام کیسے ہو گیا؟ اس پر موصوف نے حقارت سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”اگر اپنے چہرے پر ایک تیز دھار بلیڈ چلانا تخلیقی کام نہ ہو تو لوگ کبھی اس کام کے لئے کسی ایکسپرٹ کے پاس نہ جائیں (ایکسپرٹ سے یہاں ان کی مراد نائی ہے) اور رہی بات نوکری کی تو کیا تم نے کسی بھینس کو سرکاری نوکری کرتے دیکھا ہے؟“ میں نے اس بات پر ایک قہقہہ لگایا اور کہا ”بھینس تو نہیں البتہ کئی بھینسے ضرور سرکاری افسر ہیں !“

”بات کو مذاق میں مت اڑاؤ…اچھا یہ بتاؤ کہ میں ہر ویک اینڈ پر اپنی فیملی کو گھمانے لے جاتا ہوں، انہیں فلم دکھاتا ہوں، ان کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارتا ہوں …بھلا میری زندگی بھینس جیسی کیسے ہو گئی؟“

”دیکھو یار، میں نے تمہیں اشفاق صاحب کی جو بات سنائی ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم سب لوگ کسی بھینس کی طرح ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کو مناسب طریقے سے گزارنے کے لئے جو کام ہم کرتے ہیں جیسے شادی، بچے پیدا کرنا، نوکری یا کاروبار کرنا…کسی باشعور انسان کی زندگی اس سے کہیں زیادہ کا مطالبہ کرتی ہے“۔”بہرحال، جو بھی ہو مجھے تو اپنے آپ کو بھینس تصور کر کے سخت گھن آتی ہے۔ تقابل ہی کرنا تھا تو شیر کے ساتھ کرتے، آخر بھینس ہی کیوں؟“میرا دوست ناک چڑھاتے ہوئے بولا۔

” غالبا ً انہوں نے بھینس کی مثال اس لئے دی تھی کیونکہ انسان اپنی ساری زندگی میں جس سکون اور طمانیت کے لئے جدوجہد کرتا ہے، وہ اس طمانیت کا عشر عشیر بھی نہیں جو جگالی کرتے ہوئے بھینس کے چہرے پر ہوتی ہے“۔

اشفاق صاحب والا واقعہ کئی سال پرانا ہے لیکن آج بھی جب مجھے ان کا یہ سوال اور باتیں یاد آتی ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کہیں ہم سب کسی بھینس کی طرح تو زندگی بسر نہیں کر رہے؟ کیا ہم اپنی زندگیوں میں کوئی ایک بھی ایسا کام کر رہے ہیں جسے ہم تخلیقی نوعیت کا کہہ سکیں یا کوئی ایسا کام جو ہم اپنی نوکریوں یا کاروبار کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے کر رہے ہوں اور جس سے کسی دوسرے شخص کا بھلا ہو رہا ہو؟ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو آپ کو خوش ہو جانا چاہئے کیونکہ آپ ایک انسان کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اگر ان سوالوں کا جواب نا میں ہے تو پھر آپ کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ آپ کی اور ایک بھینس کی زندگی میں کیا فرق ہے؟

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 60527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.