13 جولائی یوم شہداء کشمیر…… تاریخ انسانیت کی بے مثال قربانی

۳۱جولائی ۱۹۳۹ء کو کشمیر کے نوجوانوں نے ایک ایسی قربانی رقم کی جس کی مثال تاریخ اسلام اور تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی۔ ڈوگرہ راج میں سر اٹھا کر بات کرنا کتنا مشکل تھا، آج کے لوگ اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ تب انگریز سامراج پورے برصغیر پر قابض تھا اور اس نے کشمیر کو چند ٹکوں کے عوض ڈوگرہ کو فروخت کردیا تھا۔ تب انسانوں کی حیثیت بھی مال، مویشی اور دیگر اشیائے فروخت سے زیادہ نہ تھی۔ کشمیری بنیادوی طور پر حریت پسند واقع ہوئے ہیں، ہندوستان کے لوگوں نے انگریز سامراج کے تسلط کو قبول کرکے خود کو ان کے سپرد کررکھا تھا جب کہ کشمیر یوں نے سامراجی تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا تھا اور ہر دور میں انہوں نے علم بغاوت بلند کیے رکھا۔ جس کی ہزاروں مثالیں تاریخ کے اوارق میں بکھری پڑی ہیں۔ انہی کاوشوں کا ایک تسلسل ۳۱ جولائی ۱۹۳۹ء کا یہ واقعہ بھی ہے جو تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد بنا اور رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے ایک مثال بنا ۔

ڈوگرہ بھی کیا جاہل لوگ تھے، خطبہ جمعہ میں امام صاحب موسی اور فرعون کا تذکرہ کررہے تھے، ڈوگرہ سامراج کی خفیہ ایجنسی نے اس ڈوگرہ کے خلاف بغاوت سے تعبیر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ پر پابندی کی تجویز دی، جو ڈوگرہ سامراج نے قبول کرتے ہوئے جموں اور گردونواح میں خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ پر پابندی عائد کردی۔ حریت پسند اہلیان جموں و پونچھ نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ڈوگرہ نے بزور قوت خطبہ جمعہ پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی اور اس دوران پولیس اہل کاروں نے قرآن کریم کے نسخے پھاڑ دئیے اور مسجد سے باہر پھینک دئیے۔ اہلیان جموں، پونچھ اور ملحقہ علاقوں کے عوام سراپہ احتجاج بن گئے۔ اس تحریک کے دوران گرفتار ہونے والوں پر مقدمات قائم کیے گئے۔ ان مقدمات کی سماعت کے دن ہزاروں لوگ جمع ہوجاتے۔ عوامی ردعمل کے خوف سے مہاراجہ نے اس کیس کی سماعت جموں سے سرینگر جیل میں منتقل کردی۔اس سماعت کے دوران ہزاروں لوگ سرینگر جیل کے باہر جمع تھے۔ جلسہ جاری تھا۔ اس دوران نماز ظہر کا وقت آن پہنچا۔ ایک نوجوان نے جیل کی دیوار پر چڑھ کر آذان شروع کی، ڈوگرہ سامراج نے اسے گولی مارکر شہید کردیا، ایک دوسرا نوجوان دیوار پر نمودار ہوا اور اس نے بقیہ آذان کے الفاظ ادا کرنے شروع کیے، اسے بھی گولی کا نشانہ بنا یا گیا، اس لاش نیچے گرنے سے پہلے تیسرانوجوان جیل کی دیوار پر چڑھا اور آذان مکمل کرنے کی کوشش کی، اسے بھی گولی کا نشانہ بنایا دیا گیا، اس کی لاش گرتے ہی اگلا نوجوان دیوار پر پہنچ گیا اور اﷲ ، اﷲ اکبر کی صدا لگائی، وہ بھی گولی کا نشانہ بنا، اس طرح یکے بعد دیگر ۲۲ نوجوانوں کی قربانی سے آذان مکمل ہوئی۔ کیا ایمان افروز منظر تھا اور کیا قابل فخر نوجوان تھے، جو اپنے رب کے نام پر یکے بعد دیگر قربان ہو رہے تھے۔ بائیس نوجوان بغیر کسی وقفے، بغیر کسی ترویج، بغیر کسی توجہ اور بغیر کسی منصوبے کے دیوانہ وار خود کو گولیوں کے سامنے پیش کرتے گئے اور آذان کی تکمیل کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ کیا تعلق تھا اور کیا جذبہ، کیا آذان کے ساتھ کمٹمنٹ تھی، کیا ایمان اور کیا ایمان کی قیمت اور جنت کی طلب۔ ایسی مثال تاریخ انسانیت میں ڈھونڈنے کو بھی نہیں ملتی۔

یہ تاریخ انسانیت کا انوکھا ترین واقع تھا، اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار کی عمدہ ترین مثال تھی۔ ڈوگرہ سامراج نماز جمعہ پر پابندی لگانا چاہتے تھے، وہ صدائے لاالہ اﷲ کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا چاہتے تھے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ ڈوگرہ سامراج صفہ ہستی سے مٹ گئے، اسلام غالب رہا اور اہل اسلام کامیاب اور کامران ہوئے۔ ڈوگرہ شیطانوں کا آج کوئی نام بھی نہیں جانتا لیکن شمع اسلام پر قربان ہونے والے ۲۲ نوجوان رہتی دنیا تک اسلام کے ہیروہ قرار پائے۔یہ دن اور یہ واقع تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد بنا اور آج لاکھوں انسانوں کے قربانیوں کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے۔ جس تحریک کی بنیاد ’’ اﷲ اکبر، اﷲ اکبر‘‘ کی صداء پر پڑی ہو، جس تحریک کی جڑیں اپنے رب کی رضا جوئی سے پیوستہ ہوں، اسے لاکھ کوششوں کے باوجود ’’دھرتی ماتا‘‘ کی تحریک نہیں بنایاجاسکا۔ کچھ گمراہ آج بھی مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کے مسئلے تک محدود کرنا چاہتے ہیں، کچھ لوگ اسے محض چند لاکھ لوگوں کا مسٗلہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ وہ کتنے بیوقوف ہیں، جس تحریک کی بنیاد صدائے لاالہ الا اﷲ پر رکھی گئی ہو، وہ علاقائی، لسانی، انسانی اور محدود جدوجہد نہیں بلکہ آفاقی، نظریاتی اور خالص مذہبی تحریک ہوتی ہے۔الحمدﷲ اس تحریک کی بنیاد اﷲ کے نام پر پڑی تھی، اس تحریک کو ہمیشہ جلا بھی اسلام کے دیوانوں اپنے خون سے بخشی اور آج بھی کشمیر کے کونے، کونے میں بھارت سامراج کو اسلام کے پروانے ہی تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔ میدان آج بھی ہمارے خون سے رنگین ہے۔ سیکولرازم کے گمراہ کن تصورات کے حامل چند روزہ گوریلہ جنگ کے بعد چوہے کی طرح کسی بل میں گھس چکے ہیں۔ ان شاء اﷲ اسلام کے پروانے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور آزادی کی منزل پاکر ریاست جموں وکشمیر کو پاکستان کا حصہ بنائیں گے اور ہرگلی کوچہ صدائے لاالہ الااﷲ سے گونج اٹھے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ۱۳ جولائی کے شہداء کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ایک فلم بنائی جائے، جس کے ذریعے نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کی کارناموں سے متعارف رکھا جاسکے۔حکومت آزادکشمیر تو ایسے کاموں کے لیے فنڈنگ نہیں کرسکتی البتہ تحریک سے وابستہ اداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔اس تاریخی قربانی کو دنیا کے ہرانسان تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔یہ رائے عامہ ہموار کرنے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس تحریک کے پشت پرکھڑا کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ اہم تعلیمی اداروں اور شاہرات کے نام ان ۲۲ نوجوانوں سے منسوب کرکے بھی ہم کی یاد تازہ کرسکتے ہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105139 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More