آؤ!!!!میں تمہیں ترقی کا راز بتاؤں۔۔

ت۔ر۔ق۔ی چار حروف پر مشتمل لفظ ''ترقی ''پڑھنے میں اور سننے میں بہت بھلا لگتاہے ۔ہر شخص کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ یہ لفظ اور اس کی تاثیر میری زندگی کا حصّہ بن جائے ۔انسان پیدائشی طورپرہی ترقی کا خواہش مند ہے ۔نومولود بچہ بھی ترقی کا خواہش مند ہوتاہے ۔آپ بھی کہہ رہے ہوں گے ڈاکٹرظہور صاحب سٹھیاگئے ہیں ۔لگتاہے ڈاکٹرصاحب اپ سیٹ ہیں!!لیکن ایسا نہیں ۔ذرا غور کیجیے !میرے کہنے کا مقصد سمجھ جائیں گئے ۔نومولود بچّہ پیشاب میں لت پت ہے۔یہ اس کے لیے تنزلی کا مقام ہے ۔چنانچہ وہ بھی راحت و سکون اور ترقی کا طلبگار ہوتاہے ۔چنانچہ وہ ان کے حصول کے لیے حرکت کرتاہے ۔اپنے رونے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ۔اپنی ماں کو اس مطلع کرتاہے۔کوشش کرنے کے بعد اس کی ماں اسے ایک سازگار ماحول دیتی ہے ۔جس کے بعد ہو بچّہ راحت جسے آپ ترقی سمجھیں ،اپنے ہدف کے حصول کے بعد چپ سادھ لی۔

امید ہے بات سمجھ گئے ہوں گے ۔میر ا،آپکا،ہم سب کا یہ فطری حق ہے کہ ہم ترقی کریں ۔لیکن ہر شخص کے سامنے ترقی کے معیار علحیدہ ہیں لیکن ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ترقی کے حصول کے لیے کی جانے والی محنت ،لگن ،کڑہن اور ہدف کی جانب پیش رفت ہے ۔میں کافی دنوں سے سوچ رہاتھاکہ جس حلقہ احباب کی محفل میں بیٹھو۔ترقی ترقی کی گردان کئیے جاتاہے ۔سوچا کیوں نہ اس موضوع پر قلم کو جنبش دی جائے ممکن ہے اس سے انسانیت کے لیے نفع بخش نقوش ترتیب پاجائیں ۔

محترم قارئین!آپ کی توجہ درکارہے ۔ترقی سے مراد عمومی مفہوم میں کسی بھی معاشرے میں اسکے رہنے والوں کے معیار زندگی (standard of living) میں ہونے والی بہتری کی ہوتی ہے، جس سے براہ راست ہر فرد کی کیفیت حیات( (quality of life) اور راحت الوجود (well being) کے درجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری ہر تحقیق اور ہر تحریر کا حاصل میرا دین ہی ہوتاہے ۔چنانچہ یہاں تاریخ کا اہم مکالمہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے لگاہوں ۔میں مطالعہ کررہاتھاتو میری نظر سے گزرا۔آج مسلمانوں کی بدحالی ،عدم استحکام کو دیکھ کر سوچاآپ کے ذوق مطالعہ کی نظر کروں کہ آخر جب مسلمانوں پر عروج تھا تو اس ترقی کا راز کیا تھا؟اس راز سے کچھ تو پردہ ہٹے تاکہ جس اندھیرنگری کی جانب ہم چل پڑے ہیں ہمیں اپنی غفلت و نادانی کا اندازہ تو ہو۔یہاں میں شکریہ کہ ساتھ ایک ویب سے حاصل شدہ اقتباس کو آپ کی خدمت میں پیش کررہاہوں ۔ہواکچھ اسطرح کہ عباسیوں کے عہد خلافت میں مسلمان افریقہ اور ایشیا میں بہت بڑی طاقت بن گئے تھے۔ مسلمانوں کی تہزیب و ترقی نے ساری دنیا کو حیران کر دیا تھآ۔ قسطنطنیہ کے رومی دربار میں ایک مجلس مشاورت منعقد ہوء ی کہ مسلمانوں کی طاقت و ترقی کا اصل راز معلوم کیا جا سکے۔ بحث و مباحثہ کے بعد اس مجلس میں طے پایا کہ چند ہشیار اور قابل آدمیوں کو مسلمانوں کے شہروں میں بھیجا جائے، وہ حالات کا جائزہ لے کر رومی دربار میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔ چنانچہ چند لائق فائق لوگ سوداگروں کا بھیس بدل کر مسلمانوں کے شہروں کو چل گھڑے ہوئے۔ واپسی پر قیصر روم اور وفد کے سربراہ کے درمیان یہ گفتگو ہوئی۔
قیصر روم: پہلے اپنے سفر کی روداد بیان کرو۔
رومی سربراہ: جناب والا، سب سے پہلے میں کپڑوں کے تاجر کا بھیس بدل کر دمشق میں داخل ہوا میرے ساتھ میرا وفادار غلام بھی تھا۔ جس کی ماتحتی میں میرے دوسرے خادم وغلام تھے۔ دمشق مِیں میں نے مسلمان تاجروں کے ساتھ لین دین کیا اور ہر طرح سے پرکھا۔
قیصر روم: لین دین میں تم نے مسلمان تاجروں کو کیسا پایا؟
رومی سربراہ: مسلمان تاجر لین دین میں کھرے اور بات کے پکے تھے۔ تجارت میں دیانتداری ان کا اصول تھا لیکن میں نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔
قیصر روم: کیوں؟
رومی سربراہ: تجارت کا اصل اصول ہی دیانت داری ہے۔ کاروبار دیانت سے پھلتا پھولتا ہے۔ دنیا کا ہر اچھا تاجر اس اصول کو سھمجتا ہے اور ایمان داری کو بہترین پالیسی کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ اس میں مسلمان اور عیسائی تاجر کی قید نہیں۔ اس لیے میں نے تجارت میں مسلمانوں کی دیانت داری کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور ان کی ترقی کے راز کی تلاش میں آگے بڑھا۔
قیصر روم: آگے کہاں؟
رومی سربراہ: دمشق سے میں بغداد آیا۔
قیصر روم: وہاں کیا دیکھا؟
رومی سربراہ: بغداد میں مسلمان عالموں سے ملا، وہاں کے مکتب خانے دیکھے، ان کے علمی اور سائنسی کارناموں کا جائزہ بھی لیا لیکن اس سوال کا جواب پھر نہ ملا کہ اسلام کے اتنی تیزی سے پھیلنے اور عوام مِن اتنا زیادہ مقبول ہونے کا کیا داز ہے؟
قیصر روم: کیا مسلمانوں کی علمی و ساء نسی ترقی اس سوال کا شافی جواب نہیں؟
رومی: نہیں۔
قیصر روم: کیوں؟
رومی: اس لیے کہ علمی و ساء نسی ترقی سے عوام براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔ علمی و سائنسی ترقی سے ملک فتح ہو سکتے ہیں پر دل فتح نہیں ہو سکتے۔ اس لیے مِن گوہر مقصود کی تلاش میں اور آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ میں مسلمانوں کے سرحدی شہر حمص تک پہنچ گیا۔ میں نے اپنا باقی ماندہ سامان تجارت ایک مسلمان تاجر کے ہاتھ فروخت کیا۔ اس شہر میں خوب گھوما پھرا ان کی عبادت گاء یں دیکھیں۔ میلے ٹھیلے ارو تہواروں کے نظارے کیے لیکن وہ راز پھر بھی حل نہ ہوا۔
مسلمانوں کے مذہب کے اس طرح پھیلنے کا سبب نہ ان کی فوجی طاقت ہے نہ تجارتی برتری۔ بلکہ اس کا راز کچھ اور ہی ہے جو کم از کم مجھے معلوم نہ ہو سکا۔
قیصر روم: مسلمانوں کے شہر حمص میں تم نے کیا دیکھا؟
رومی: حمص مِں یوں تو کوء ی خاص بات نہیں ہوئی لیکن ایک واقعہ ضرور ایسا پیش آیا جس نے مجھے حیران کر دیا۔
قیصر روم: وہ کیا؟
رومی: وہ مسلمان تاجر جسکے ہاتھ میں نے اپنا باقی سامان تجارت فروخت کیا تھا اس نے مجھے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی جو میں نے اس خیال سے قبول کر لی کہ دیکھیں ان کا کھانا پینا کیسا ہے؟
قیصر روم: پھر کیسا تھا؟
رومی: مسلمان تاجر بہت مالدار تھا، اس نے بڑی شاندار ضیافت کا اہتمام کیا تھا، سازوسامان، برتن، کھانا، ہر چیز معیاری اور اپنی قسم کی بہترین تھی۔ لیکن میں نے اس شان و شوکت کو کوء ی اہمیت نہیں دی۔
قیصر روم: کیوں؟
رومی: اس لیے کہ اس قسم کے ٹھاٹھ روپے کے بل پر ہوتے ہیں جو ہم اس سے زیادہ کر سکتے ہیں۔ البتہ اس دعوت میں ایک چیز میں نے ضرور ایسی دیکھی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کم از کم یہ لوگ تہزیب کے آداب سے واقف نہیں۔
قیصر روم: وہ کیسے؟
رومی: وہ یہ کہ جب میں اپنے خادموں اور غلاموں کے ساتھ اس مالدار مسلمان تاجر کے ہاں پہنچا تو اس نے میرےعلاوہ میرے غلاموں سے بھی مصافہ اور معانقہ کیا۔ مھجے بڑا عجیب معلوم ہوا بلکہ اپنی ہتک محسوس ہوئی کہ کہاں آقا اور کہاں غلام، ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہوتا ہے لیکن بات یہیں رہتی تو چنداں مضاء قہ نہ تھا لیکن جب اس مسلمان تاجر نے میرے غلاموں اور خادموں کو بھی میرے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے کی دعوت دی تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ حفظِ صراتن کا لحاظ ضروری ہے۔ شکر ہے کہ میرے غلاموں اور خادموں نے خود ہی انکار کر دیا اور بڑے ادب سے میرے پیھچے آ کر کھڑے ہو گئے۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے میزبان نے اپنے غلاموں کو دستر خوان پر بیھٹنے کی دعوت دی تو وہ آدابِ مجلس سے ناواقف بڑی بے تکلفی سے اپنے آقا کے دائیں بائیں بیٹھ گئے اور بڑے مزے سے ہاتھ بڑھا بڑھا کر اپنے آقا کی قاب سے کھانے لگے۔ میں حیران و پریشان یہ نظارہ دیکھتا رہا اور سوچتا رہا قدرت نے ان لوگوں کو عروج دیا ہے جو آدابِ مجلس سے بھی واقف نہیں لیکن اس دعوت کے آخر میں میں نے جو کچھ دیکھا اس نے مجھے سکتے میں ڈال دیا۔
قیصر روم: وہ کیا بات تھی؟
رومی: میں نے دیکھا مسلمان تاجر نے اپنے غلام کی کھائی ہوئی روٹی کے ٹکڑے اٹھا لیے اور یہ کہہ کر کھانے لگا کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رزق کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جناب والا یہ ہے میرے سفر کی روداد، لیکن مسلمانوں کے مزہب کی مقبولیت کا راز کھلنا تھا نہ کھلا۔
قیصر روم: لیکن میں اس راز کو پا گیا ہوں۔
رومی: جناب والا، پھر اس راز سے پردہ اٹھائیے۔
قیصر روم: پہلے یہ بتاوّ کہ وہ تمھارا غلام اور دوسرے لوگ جو تمھارے ساتھ اس سفر پر گئے تھے ان کا کیا حال ہے؟
رومی: جناب والا؛ مجھے بڑی ندامت ہے کہ ہمارے آدمیوں میں سے بیشتر بھاگ کر مسلمانوں کے علاقے میں چلے گئے ہیں اور مسلمان ہو گئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ میرا وفادار غلام جس پر مجھے بڑا ناز تھا وہ بھی دغا دے گیا۔
قیصر روم: حمص کے مسلمان تاجر کے ہاں جو کچھ تم نے دیکھا وہی مسلمانوں کی ترقی اور اسلام کی مقبولیت کا راز ہے۔ ان کے دین میں آقا اور غلام، اہم وغریب سب برابر کا درجہ اور حق رکھتے ہیں۔ یہ نہ ہوتا تو تمھارے غلام نہ بھاگتے اور نہ مسلمان ہوتے۔
قیصر روم: پہلے اپنے سفر کی روداد بیان کرو۔
رومی سربراہ: جناب والا، سب سے پہلے میں کپڑوں کے تاجر کا بھیس بدل کر دمشق میں داخل ہوا میرے ساتھ میرا وفادار غلام بھی تھا۔ جس کی ماتحتی میں میرے دوسرے خادم وغلام تھے۔ دمشق مِیں میں نے مسلمان تاجروں کے ساتھ لین دین کیا اور ہر طرح سے پرکھا۔
قیصر روم: لین دین میں تم نے مسلمان تاجروں کو کیسا پایا؟
رومی سربراہ: مسلمان تاجر لین دین میں کھرے اور بات کے پکے تھے۔ تجارت میں دیانتداری ان کا اصول تھا لیکن میں نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔
قیصر روم: کیوں؟
رومی سربراہ: تجارت کا اصل اصول ہی دیانت داری ہے۔ کاروبار دیانت سے پھلتا پھولتا ہے۔ دنیا کا ہر اچھا تاجر اس اصول کو سھمجتا ہے اور ایمان داری کو بہترین پالیسی کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ اس میں مسلمان اور عیسائی تاجر کی قید نہیں۔ اس لیے میں نے تجارت میں مسلمانوں کی دیانت داری کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور ان کی ترقی کے راز کی تلاش میں آگے بڑھا۔
قیصر روم: آگے کہاں؟
رومی سربراہ: دمشق سے میں بغداد آیا۔
قیصر روم: وہاں کیا دیکھا؟
رومی سربراہ: بغداد میں مسلمان عالموں سے ملا، وہاں کے مکتب خانے دیکھے، ان کے علمی اور سائنسی کارناموں کا جائزہ بھی لیا لیکن اس سوال کا جواب پھر نہ ملا کہ اسلام کے اتنی تیزی سے پھیلنے اور عوام مِن اتنا زیادہ مقبول ہونے کا کیا داز ہے؟
قیصر روم: کیا مسلمانوں کی علمی و ساء نسی ترقی اس سوال کا شافی جواب نہیں؟
رومی: نہیں۔
قیصر روم: کیوں؟
رومی: اس لیے کہ علمی و ساء نسی ترقی سے عوام براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔ علمی و سائنسی ترقی سے ملک فتح ہو سکتے ہیں پر دل فتح نہیں ہو سکتے۔ اس لیے مِن گوہر مقصود کی تلاش میں اور آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ میں مسلمانوں کے سرحدی شہر حمص تک پہنچ گیا۔ میں نے اپنا باقی ماندہ سامان تجارت ایک مسلمان تاجر کے ہاتھ فروخت کیا۔ اس شہر میں خوب گھوما پھرا ان کی عبادت گاء یں دیکھیں۔ میلے ٹھیلے ارو تہواروں کے نظارے کیے لیکن وہ راز پھر بھی حل نہ ہوا۔
مسلمانوں کے مذہب کے اس طرح پھیلنے کا سبب نہ ان کی فوجی طاقت ہے نہ تجارتی برتری۔ بلکہ اس کا راز کچھ اور ہی ہے جو کم از کم مجھے معلوم نہ ہو سکا۔
قیصر روم: مسلمانوں کے شہر حمص میں تم نے کیا دیکھا؟
رومی: حمص مِں یوں تو کوء ی خاص بات نہیں ہوئی لیکن ایک واقعہ ضرور ایسا پیش آیا جس نے مجھے حیران کر دیا۔
قیصر روم: وہ کیا؟
رومی: وہ مسلمان تاجر جسکے ہاتھ میں نے اپنا باقی سامان تجارت فروخت کیا تھا اس نے مجھے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی جو میں نے اس خیال سے قبول کر لی کہ دیکھیں ان کا کھانا پینا کیسا ہے؟
قیصر روم: پھر کیسا تھا؟
رومی: مسلمان تاجر بہت مالدار تھا، اس نے بڑی شاندار ضیافت کا اہتمام کیا تھا، سازوسامان، برتن، کھانا، ہر چیز معیاری اور اپنی قسم کی بہترین تھی۔ لیکن میں نے اس شان و شوکت کو کوء ی اہمیت نہیں دی۔
قیصر روم: کیوں؟
رومی: اس لیے کہ اس قسم کے ٹھاٹھ روپے کے بل پر ہوتے ہیں جو ہم اس سے زیادہ کر سکتے ہیں۔ البتہ اس دعوت میں ایک چیز میں نے ضرور ایسی دیکھی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کم از کم یہ لوگ تہزیب کے آداب سے واقف نہیں۔
قیصر روم: وہ کیسے؟
رومی: وہ یہ کہ جب میں اپنے خادموں اور غلاموں کے ساتھ اس مالدار مسلمان تاجر کے ہاں پہنچا تو اس نے میرےعلاوہ میرے غلاموں سے بھی مصافہ اور معانقہ کیا۔ مھجے بڑا عجیب معلوم ہوا بلکہ اپنی ہتک محسوس ہوئی کہ کہاں آقا اور کہاں غلام، ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہوتا ہے لیکن بات یہیں رہتی تو چنداں مضاء قہ نہ تھا لیکن جب اس مسلمان تاجر نے میرے غلاموں اور خادموں کو بھی میرے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے کی دعوت دی تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ حفظِ صراتن کا لحاظ ضروری ہے۔ شکر ہے کہ میرے غلاموں اور خادموں نے خود ہی انکار کر دیا اور بڑے ادب سے میرے پیھچے آ کر کھڑے ہو گئے۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے میزبان نے اپنے غلاموں کو دستر خوان پر بیھٹنے کی دعوت دی تو وہ آدابِ مجلس سے ناواقف بڑی بے تکلفی سے اپنے آقا کے دائیں بائیں بیٹھ گئے اور بڑے مزے سے ہاتھ بڑھا بڑھا کر اپنے آقا کی قاب سے کھانے لگے۔ میں حیران و پریشان یہ نظارہ دیکھتا رہا اور سوچتا رہا قدرت نے ان لوگوں کو عروج دیا ہے جو آدابِ مجلس سے بھی واقف نہیں لیکن اس دعوت کے آخر میں میں نے جو کچھ دیکھا اس نے مجھے سکتے میں ڈال دیا۔
قیصر روم: وہ کیا بات تھی؟
رومی: میں نے دیکھا مسلمان تاجر نے اپنے غلام کی کھائی ہوئی روٹی کے ٹکڑے اٹھا لیے اور یہ کہہ کر کھانے لگا کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رزق کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جناب والا یہ ہے میرے سفر کی روداد، لیکن مسلمانوں کے مزہب کی مقبولیت کا راز کھلنا تھا نہ کھلا۔
قیصر روم: لیکن میں اس راز کو پا گیا ہوں۔
رومی: جناب والا، پھر اس راز سے پردہ اٹھائیے۔
قیصر روم: پہلے یہ بتاوّ کہ وہ تمھارا غلام اور دوسرے لوگ جو تمھارے ساتھ اس سفر پر گئے تھے ان کا کیا حال ہے؟
رومی: جناب والا؛ مجھے بڑی ندامت ہے کہ ہمارے آدمیوں میں سے بیشتر بھاگ کر مسلمانوں کے علاقے میں چلے گئے ہیں اور مسلمان ہو گئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ میرا وفادار غلام جس پر مجھے بڑا ناز تھا وہ بھی دغا دے گیا۔
قیصر روم: حمص کے مسلمان تاجر کے ہاں جو کچھ تم نے دیکھا وہی مسلمانوں کی ترقی اور اسلام کی مقبولیت کا راز ہے۔ ان کے دین میں آقا اور غلام، اہم وغریب سب برابر کا درجہ اور حق رکھتے ہیں۔ یہ نہ ہوتا تو تمھارے غلام نہ بھاگتے اور نہ مسلمان ہوتے۔
محترم قارئین!!اس مکالمہ کو درج کرنے کے بعد میں نہیں سمجھتاکہ مجھے مزید آپ کو ترقی کے متعلق کچھ بتانے کی حاجت ہے ۔توپھرآج اور ابھی سے حقیقی اور بامعنی ترقی کے حصول کے لیے کوشش شروع کردیجیے ۔یہ آپ کا فطری حق ہے ۔اللہ عزوجل ہمیں دنیا وآخرت میں سرخرو فرمائے ۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542109 views i am scholar.serve the humainbeing... View More