غلط فہمی

میں جونہی بس اسٹیشن پہنچا تو دیکھا بس نکل رہی ہے،میں دوڑ کر اس میں سوار ہوگیا۔ایک باریش بزرگ جن کی عمر لگ بھگ سترسال رہی ہوگی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھے تھے اور انکے بغل میں جگہ خالی دیکھ میں دھڑ سے وہاں بیٹھ گیا۔انھوں نے مسکراکر میرا استقبال کیا۔مالیگاؤں شہر تقریباً پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔میں نے وقت گذاری کیلئے گفتگو کی شروعات کردی۔’’چاچا!کہاں جانا ہے آپ کو؟۔‘‘

انھوں نے بے رخی سے جواب دیا۔’’ممبئی کا رہنے والا ہوں،گھر ہی جا رہا ہوں۔‘‘مجھے انکے اس رویے پر حیرانی ضرور ہوئی لیکن میں نے گفتگو جاری رکھنے کیلئے پوچھا۔’’کہاں سے آرہے ہیں؟۔‘‘انھوں نے کہا۔’’بیٹی سے ملنے اس کے سسرال گیا تھا۔‘‘اتنا کہہ کر وہ کھڑکی کے باہر دیکھنے لگے۔میں نے بھی اب مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔اچانک اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے نوجوان کا موبائیل بج اُٹھا،اور اس نے بلند آواز میں فون کرنے والے سے کچھ یوں گفتگو شروع کردی۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔۔ہاں بھئی گاڑی مل گئی اور میں آ رہا ہوں۔۔۔کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔
نہیں،میں ظہر مکہ میں پڑھونگا۔۔۔وہاں سے مجھے کچھ سامان خریدنا ہے،تم سے دو بجے ،ملاقات نہیں ہوپائے گی۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔اچھا
ارے یار! چلو ٹھیک ہے،میں عصر مدینہ میں پڑھوں گا تم بھی وہیں آجانا۔۔۔۔کچھ توقف کے بعد
نہیں آسکتے، ٹھیک ہے۔۔۔ابھی تم کہاں ہو۔۔۔۔۔۔۔ورلی روڈ پر کیا کررہے ہو؟۔۔۔۔۔نہیں میں وہاں زیادہ دیر نہیں رکوں گا۔مجھے اسلام آباد سے افطاری خریدنی ہے اور اسرائیل سے اپنی گاڑی بھی لانی ہے۔گاڑی کے بنا سارا کام رکا ہوا ہے۔وہ اتنی زور زور سے باتیں کررہا تھا کہ میں نے آنکھیں کھول دیں اور میری نظر بغل میں بیٹھے چاچا پر پڑ گئی جن کی ہا تھی جیسی آنکھیں پھیل کر الو کی طرح ہو چکی تھیں اور وہ اُچک اُچک کر آگے بیٹھے نوجوان کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔میں نے اپنی ہنسی کو ضبط کیا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔نوجوان بدستور جاری تھا۔

اچھا ایک کام کرتے ہیں تراویح کے بعد ملتے ہیں۔۔۔۔۔ہاں بھئی لے لوں گا۔۔۔۔۔یادگار سے لوں گا۔۔۔۔۔کلکتہ میں بنواکر لاؤں گا۔۔۔۔۔اور ہاں تم گھر پر بول کر آنا کہ سحری کرکے آؤں گا۔۔۔

نہیں یار! اصل میں تمہاری بھابھی میکے گئی ہے گھر پر کوئی نہیں ہے اس لئے ہم رات پر تفریح کریں گے اور سحری کیرالا میں کرلیں گے۔۔۔۔۔اچھا رکھتا ہوں،اﷲ حافظ۔۔۔۔

اب مجھ سے آنکھیں بند نہیں رکھی گئیں اور میں نے چاچا کی طرف ہنستے ہوئے دیکھاجو حیرت سے کبھی اس نوجوان کو دیکھتے اور کبھی مجھے،آخر اسی تذبذب میں انھوں نے مجھ سے پوچھا۔’’یہ پاگل ہے یا ہم سب پاگل ہیں؟۔‘‘
میں نے ہنسی کو بمشکل روکا اور ان سے کہا۔’’چاچا! نہ یہ پاگل ہے اور نہ ہم۔‘‘

اصل میں مکہ اور مدینہ مالیگاؤں شہر کی دو مساجد کے نام ہیں،اور اسلام آباد ایک محلے کا نام ہے جہاں پھل فروٹ کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔اور اسرائیل کوئی گاڑی کا میکینک ہوگا جس سے اسے گاڑی لینی ہوگی۔

چاچا نے بیچ میں ہی ٹوکا۔’’ارے بھئی ٹھیک ہے لیکن یہ کلکتہ اور کیرالا کا کیا معاملہ ہے؟۔‘‘

میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’کلکتہ پان کی بات ہورہی تھی،اورہمارے شہر میں ایک ہوٹل ایسی ہے جہاں اسلامی کھانا ملتا ہے اس کا نام ہے کیرالا ہوٹل۔۔۔سارے لوگ صرف کیرالا ہی کہتے ہیں۔۔
اب تومیرے ساتھ چاچا بھی ہنسنے لگے۔۔۔۔۔۔
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 22234 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More