زکوۃ کا حقیقی مستحق کون ؟

شریعت محمدی میں ہر حکم کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے ہر منع کی ہوئی چیز کی کوئی علت ہے (لکل امرلہ حکمۃ و الکل نھی لہ علۃ) قرآن و سنت میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ نماز کے متعلق ارشاد خدا وندی ہے﴿اقم الصلوۃ لذکری﴾(طہ:14)۔’’ میری یاد کی خاطر نماز قائم کرو‘‘ ۔ پتا چلا کہ نماز خدا کی یاد اور اس کے حضور اظہار بندگی کیلئے مشروع کی گئی ہے۔ روزہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿کتب علیکم الصیام ……لعلکم تتقون﴾(البقرہ:183)۔ تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں…… تا کہ تم متقی بن جاؤ ۔ حضور ﷺ نے فرمایا: فان الصوم لہ وجاء ’’روزہ نفس کی خواہش کو روک دیتا ہے‘‘۔ حج اس لئے مشروع کیا گیا ہے کہ اس سے خدا کی نشانیوں کی عظمت ظاہر کی جائے۔ ارشاد ربانی ہے۔﴿ ان بیت وضع اللناس للذی ببکۃ﴾ (اٰل عمران:۹۶)۔ ’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کیلئے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے‘‘۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے۔ ﴿ان الصفا و المروۃ من شعائر اﷲ﴾(البقرہ:158)۔ ’’صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔ قصاص کو قتل و خون سے باز رکھنے کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے: ﴿ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب﴾(البقرہ:179) ۔ اے عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ اور مختلف معاملات میں کفارے اس لئے لازم کئے گئے ہیں کہ گناہوں پر زجر و توبیخ ہوتی رہے۔ جہاد میں یہ مصلحت ہے کہ کلمۂ خدا وندی بلند ہو اور فتنہ فساد ختم ہوجائے۔ فرمان الہی ہے : ﴿وقاتلوھم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین ﷲ﴾(البقرہ:193)۔’’اور ان سے جہاد کرتے رہو تا کہ فتنہ نہ رہے اور دین مکمل اﷲ کا ہوجائے‘‘۔

باہمی معاملات نکاح و طلاق وغیرہ کے احکام کو لاگو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ باہم عدل و انصاف قائم رہے۔ اس طرح شریعت کے تمام بنیادی احکام کسی نہ کسی مقصد کے تحت لازم کئے گئے ہیں۔ اگر کسی عمل کو انجام دینے کے بعد اس سے مطلوبہ مقصد حاصل نہ ہو تو وہ بے سود ہے۔کوئی نماز ادا کرے یاد خدا اور اظہار بندگی نہ ہو، کوئی روزہ رکھے اور تقوی کا حصول نہ ہو، تویہ بے سود ہیں۔ جن مقاصد کے پیش نظر یہ اعمال مطلوب تھے‘ وہی حاصل نہ ہوں تو یہ اعمال مردہ ہیں جن سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ہم شریعت کے نا فذ کردہ اعمال کو ان کے مقاصد کے تحت انجام دیں۔ اور ان اعمال کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد کے حصول کی کوشش کریں تو دنیاوی ، اخروی بے شمار فوائد و برکات حاصل ہوں گے اور مطلوبہ نتائج بھی ۔

اس تمہید کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم زکوۃ کاشرعی نصوص (قرآن و سنت) کی روشنی میں جائزہ لیں کہ زکوۃ کو کیوں فرض کیا گیا ہے ؟اس کو لازم کرنے کا ربانی مقصد کیا ہے ؟ شریعت اس عمل سے ہماری عملی زندگی میں کیا تبدیلی دیکھنا چاہتی ہے؟ زکوۃ کا مقصد و مدعا کیا ہے ؟ تا کہ دین کے اس عظیم رکن کی صحیح تصویر سامنے آئے ‘اس کامقصد واضح ہو جائے ۔ زکوۃ کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے، مختلف الفاظ میں ․․․․ مختلف انداز میں ․․․․چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے ۔﴿ واقیمو الصلوۃ و اٰتوالزکاۃ﴾ (البقرہ: 43 )’’نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو‘‘۔قرآن مجید میں 82بار تقریباً نمازکے ساتھ زکوۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح نماز فرض ہے یونہی زکوۃ بھی بلا کسی تفریق کے فرض ہے۔ اس کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے ﴿خذ من اموالہم صدقۃ تطہرہم و تزکیہم﴾ (توبہ: 103)۔’’ آپ ان کے مال میں سے زکوۃ لے لیں اور اس کے ذریعہ سے انہیں پاک و صاف کردیں‘‘۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زکوۃ سے طہارت و تزکیہ حاصل ہوتا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے الَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْم(توبہ :34)’’ اور جو لوگ سونا ، چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب سے آگاہ کردو‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جمع شدہ مال میں سے زکوۃ ادا نہ کرنا دردناک عذاب کا موجب ہے۔ اس کے علاوہ کئی آیات و احادیث اس ضمن میں وارد ہیں کہ زکوۃ ادا نہ کرنا دنیا و آخرت میں نقصان و عذاب کا باعث ہے۔

زکوۃ کا مقصد و ہدف واضح کرنے والی کچھ آیات وارد ہیں چنانچہ ارشاد ربانی ہے ۔﴿ فِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾ (المعارج:25) ان کے مالوں میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کا ایک مقرر حق ہے۔ یہاں مفسرین کا اتفاق ہے کہ’’ حق معلوم ‘‘سے مراد زکوۃ ہے یہ بتلایا جارہا ہے کہ زکوۃ کے مستحق محتاج و تنگدست ہیں، چاہے وہ مانگنے والے ہوں یا نہ مانگنے والے ہوں۔

ایک اور مقام پر زکوۃ کے مستحقین کے تعلق سے ایک اور آیت وارد ہے ۔﴿إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَإِن تُخْفُوہَا وَتُؤْتُوہَا الْفُقَرَاء فَہُوَ خَیْرٌ لُّکُم﴾ (البقرۃ: 271) ’’اگر تم صدقات (زکوۃ) علانیہ طور پر دو تو یہ اچھی بات ہے اور اگر تم اس کو چھپاؤ اور تنگدستوں کو پہنچاؤ تو وہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے‘‘۔

قرآن مجید میں عموما ً دین کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں تفصیلی احکام احادیث نبوی میں موجودہ ہیں ۔ کہیں کسی قدر تفصیلی احکام بھی ذکر کئے گئے ہیں جو حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں یا جن میں انسانی قوت فکر صحیح اور حتمی فیصلہ لینے سے قاصر ہوتی ہے۔ جیسا کہ میراث کے متعلق ارشاد ربانی ہے ،:﴿ابائکم و ابنائکم لا تدرون ایھم اقرب نفعاً﴾ (نسا: ۱۱)’’تمہارے باپ یا تمہاری اولاد تم نہیں جاتنے کہ کون نفع کے لحاظ سے میں تمہارے سے زیادہ قریب ہیں‘‘۔ زکوۃ کا ذکر قرآن میں جابجا آیا ہے مگر کن اموال میں زکوۃ واجب ہے ؟ ان کی مقدار کیا ہے ؟ زکوۃ کیلئے شرائط کیا ہیں (مثلاً حولان حول، معین نصاب وغیرہ) ان میں سے کسی کے متعلق کوئی واضح حکم قرآن مجید میں نہیں ملتا۔ لیکن مصارف زکوۃ (جنہیں زکوۃ دی جاسکتی ہے )کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کے مصارف شریعت کی نظر میں کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔عین ممکن ہے کہ قرآن مجید زکوۃ کے مصارف کو ذکر نہ کرتاتو پھر یہ مصارف اختلافات کی نظر ہوجاتے، زکوۃ کا اصل مقصود حاصل ہونا شاید مشکل ہوتا۔ لہٰذازکوۃ کے مصارف کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے : إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْم(توبہ: 60)’’زکوۃ حق ہے صرف مفلسوں کا اور محتاجوں کا اور اس پر کام کرنے والوں کا اور ان لوگوں کا جنہیں اسلام کی الفت دی جائے اور(اسے) گردنوں کو آزاد کرانے میں اور قرض داروں (کاقرض ادا کرنے) میں اور اﷲ کی راہ میں اور مسافروں میں (صرف کیا جائے)یہ اﷲ کی طرف سے فرض کیا گیاہے اور اﷲ علم والا حکمت والا ہے‘‘۔ اس آیت میں زکوۃ کے آٹھ مصارف ذکر کئے گئے ہیں مگر ان میں سب سے پہلے مفلس اور محتاج کا تذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کا اولین ہدف تنگدستی اور محتاجی دور کرنا ہے۔ چنانچہ شیخ یوسف القرضاوی اس آیت کی تفسیر میں یوں رقم طراز ہیں:ھذا یدلناعلی ان الھدف الاول من الزکوۃ ھوالقضاء علی الفقر و العوض واھالۃ التراب علی االحاجۃ والمسکنۃ فی المجتمع الاسلامی (فقہ الزکوۃ،ج:2،ص : 544)ترجمہ:’’یہ آیت میں سب سے پہلے مسکین و محتاج کا ذکرکرنا)اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ زکوۃ کا پہلا ہدف محتاجی و تنگدستی دور کرنا ہے اور اسلامی معاشرہ سے مفلسی اور غریبی کو ختم کرنا ہے‘‘۔

اسی معنی کی تائید میں کئی احادیث و نصوص وارد ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ زکوۃ کا اولین مقصد’’ غربت کا خاتمہ‘‘ ہے اور اس کا سب سے پہلا مصرف’’ تنگدست و محتاج‘‘ ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے: الصدقۃ تقع فی یدالرحمن قبل ان تقع فی کف الفقیر (بخاری) ۔’’صدقہ محتاج کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے اﷲ کے دست قدرت میں پہنچ جاتا ہے‘‘۔ یہاں مطلقاً صدقہ کو محتاج اور مفلس سے جوڑ دیا گیااس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کا اول مستحق یہی ہے ۔ ایک اور مقام پر حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : امرت ان آخذ الصدقۃ من اغنیا ئکم واردھافی فقرائکم ( بخاری) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مالداروں سے زکوۃ حاصل کرلوں اور تم میں سے جو محتاج ہیں انہیں لوٹادوں۔ یہی الفاظ حدیث معاذ بن جبل میں بھی وارد ہیں جب آپ کو یمن کیقاضی بناکر بھیجا گیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ان اﷲ فرض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاۂم و تردہا فی فقراۂم ( بخاری)۔ ’’اے معاذ (تم انہیں تعلیم دو کہ ) اﷲ تعالیٰ نے ان پر زکوۃ فرض کیا ہے جسے تم ان کے مالداروں سے لے کر ان میں سے جو ضرورت مند ہیں انہیں لوٹادو‘‘۔ یہاں زکوۃ کو حاصل کرنے کا مقصد ہی یہ بتایا جارہا ہے کہ اسے ضرورت مند اور محتاجوں کو دے دیں۔

ان تمام آیات و احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکوۃ کا سب سے پہلا مستحق غریب و نادار مفلس و محتاج ہے ۔ زکوۃ اولین ہدف معاشرہ سے غربت و محتاجی دور کرنا ہے۔ اور معاشی اعتدال پیدا کرنا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر زکوۃ فرض کی گئی ہے ، صدقات نافلہ کا حکم دیا گیا ،کئی اعمال کے کفارے کے طور پر غلام آزاد کرنا ،محتاج و مسکین کو کھانا کھلانا،ضرورتمند کو کپڑا دیناوغیرہ مشروع ہوئے ہیں۔ہر موقع پر اس مقصد کو پیش نظر رکھا گیاہے…… ۔اسلام نے انسان کے سر‘ کرامت و شرافت کا تاج رکھا ہے ( ولقدکرمنا بنی آدم ) ۔ کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرنا یہ سب سے بڑی شرافت ہے ۔ آج یہ شرافت ہمارے سماج سے ختم ہوتی جارہی ہے ۔ اخوت و بھائی چارہ ‘ باہمی تعاون و ہمدردی ‘ حاجت روائی جیسی اعلیٰ اقدار ہمارے معاشرے سے رخصت ہورہی ہیں۔

آج سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اہل ثروت صحیح معنوں میں زکوۃ ادا نہیں کرتے اور جو کچھ ادا بھی کرتے ہیں تو وہ دیگر مصارف میں خرچ ہوتی ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ مستحق وہ افراد ہیں جو اپنی ضروریات زندگی کی چکی میں پس رہے ہیں ان کی ضروریات کی تکمیل نہیں ہوپارہی ہے، وہ مقروض ہیں جن کے قرضے کا بوجھ زندگی کا سکون غارت کررکھا ہے، وہ مجبور اور لاچار ہیں جو دست سوال دراز کرنے سے شرماتے ہیں،وہ حالات کے مارے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی تک نصیب نہیں۔ دل کڑھتا ہے ،سینے میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ جس دین نے غربت کے خاتمے کا مکمل لائحہ عمل دیا آج اسی مذہب کے پرستار بھوکے مر رہے ہیں ، ضرورتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ، مفلسی و محتاجی انکے پیروں کی اٹوٹ زنجیر بن چکی ہے ۔

اسلام ہر غریب کی آنکھ کے آنسو پونچھنا چاہتا ہے ۔ معاشرے سے مفلسی اور محتاجی کو دور کرنا چاہتا ہے ۔ سماج میں معاشی اعتدال لانا چاہتا ہے ۔ اسکے لئے اس نے مکمل قابل عمل نظام ’’زکوٰۃ‘‘ کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے ۔ تو پھر آج بھی ہمارے معاشرے میں مفلسی کا رونا کیوں ہے ؟ تنگ دستی ہماری آبادیوں کی زینت کیوں بنی ہوئی ہے ؟ اغیار کے آگے دست درازی ہماری پہچان کیوں بنتی جارہی ہے؟ ان ناگوار حالات کی سب سے بڑی وجہ’’ زکوٰۃ کی ادائیگی میں کمی اور ادا ہونے والی زکوٰۃ مستحقین تک نہ پہنچنا ہے‘‘ ۔

بہت تلخ ہے مگر حقیقت ہے کہ مستحقین تک ان کا حق پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ’’ خیراتی ادارے‘‘ ہیں ۔ فلاں ادارہ…… فلاں ٹرسٹ ……فلاں سوسائٹی …… یہ سب ضرورت مند اور ان کو حاصل ہونے والے حق کے درمیان آہنی دیوار بنے کھڑے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنے معاشرے کے ضرورت مندوں تک پہنچ کر ان کا تعاون کریں ۔

آج امت مسلمہ کیلئے سب سے بڑے چیلنج غربت اور جہالت ہیں، اور نظام زکوٰۃ سے ان دونوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ، ان کا صفایہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔یاد رکھیں! قوم افراد سے بنتی ہے افراد کی ضرورتیں پوری ہوں، افراد ترقی کریں‘ تو قوم بھی ترقی یافتہ ہوگی ورنہ قوم مسلم کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔

ان تمام آیات و احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکوۃ کا سب سے پہلا مستحق غریب و نادار، مفلس و محتاج ہے ۔ زکوۃ کا اولین ہدف معاشرہ سے غربت و محتاجی دور کرنا ہے۔ اور معاشی اعتدال پیدا کرنا ہے۔…… دل کڑھتا ہے ……سینے میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے ……کہ اسلام غربت کے خاتمے کا علمبردارہے، معاشرے سے مفلسی اور محتاجی کو دور کرنا چاہتا ہے ، سماج میں معاشی اعتدال لانا چاہتا ہے ،اسکے لئے اس نے مکمل قابل عمل نظام ’’زکوٰۃ‘‘ کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے ، تو پھر آج بھی ہمارے معاشرے میں مفلسی کا رونا کیوں ہے ؟ تنگ دستی ہماری آبادیوں کی زینت کیوں بنی ہوئی ہے ؟ اغیار کے آگے دست درازی ہماری پہچان کیوں بنتی جارہی ہے؟ ان ناگوار حالات کی سب سے بڑی وجہ’’ زکوٰۃ کی ادائیگی میں کمی اور ادا ہونے والی زکوٰۃ مستحقین تک نہ پہنچنا ہے‘‘ ۔ بہت تلخ ہے مگر حقیقت ہے کہ مستحقین تک ان کا حق پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ’’ خیراتی ادارے‘‘ ہیں ۔ فلاں ادارہ…… فلاں ٹرسٹ ……فلاں سوسائٹی …… (الا ماشاء اﷲ )یہ سب ضرورت مند اور ان کو حاصل ہونے والے حق کے درمیان آ ہنی دیوار بنے کھڑے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنے معاشرے کے ضرورت مندوں تک پہنچ کر ان کا تعاون کریں ۔
Abdul Rahman
About the Author: Abdul Rahman Read More Articles by Abdul Rahman: 4 Articles with 7288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.