بدلتے موسم کے تقاضے

کراچی کا موسم بدل رہا ہے کے عنوان سے جب لکھ رہا تھا بہت سے نکات بیک وقت ذہن میں آرہے تھے کہ اس وقت دیکھا جائے تو پوری دنیا کا موسم تغیر کے مراحل سے گزررہا ہے پورا یورپ گرمی کی ذد میں آیا ہوا ہے ،کراچی میں اچانک موسم کی تبدیلی ،روزے اور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جو انسانی المیہ وقوع پذیر ہوا اس میں اب تک بارہ سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں یہ وہ تعداد ہے جن کی ہسپتالوں میں رجسٹریشن ہو چکی تھی اس سے کہیں بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو ہسپتال پہنچ ہی نہیں سکے ۔

اب اس وقت اخبارات میں بلیم گیم کی جنگ چل رہی ہے صوبائی حکومت اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال رہی ہے کہ کراچی میں یہ اموات کے الیکٹرک کی وجہ سے ہوئی ہے اور کے الیکٹرک وفاقی حکومت کے کنٹرول میں آتا ہے ،وفاقی حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ اس کی ذمہ داری براہ راست کسی پر ڈال تو نہیں رہی لیکن کراچی کے مسئلے پر کوئی سنجیدہ توجہ محسوس نہیں ہو پارہی وزیر اعظم کا دورہ بھی دو روز کے لیے آگے بڑھ گیا حالانکہ پہلے دوسرے روزے کو جب تین سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں آئیں تھیں اسی وقت وزیر اعظم کو دوڑ کر کراچی آنا چاہیے تھا اور اس وقت کچھ ضروری اقدامات کا اعلان ہوتا تو شاید ہم کچھ مزید اموات سے بچ سکتے تھے ۔یکم جولائی کو آئے تو ایسا آئے کہ جیسے کراچی کو چھو کر نکل گئے ہوں صرف چار گھنٹے کے لیے وہ بھی ہسپتال نہیں گئے جہاں مریض ان کا انتظار ہی کرتے رہے اسی پر پروفیسر عنایت علی صاحب نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے ۔
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہو ا۔۔۔۔۔۔۔۔رکا نہیں کوئی حادثہ دیکھ کر۔

شروع کے پانچ چھ روزوں میں جس طرح کی گرمی پڑی وہ ایسی تھی کہ آپ کسی کمرے میں دس پنکھوں کے درمیان بھی بیٹھ جائیں آپ کو سکون نہیں مل سکتا جب تک کے کسی اے سی والی جگہ پر نہ آجائیں اس درمیان جن لوگوں کی اچانک طبیعت خراب ہوئی انھیں فوری طور پر کوئی ٹھنڈی جگہ میسر آگئی وہاں پر ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی ،جن لوگوں کے گھروں میں اے سی ہے یا ہمارے وہ ساتھی جو ایسے دفاتر میں کام کرتے ہیں جہان اے سی کی سہولت ہے انھوں نے خود محسوس کیا ہوگا اس طرز کی شدید نوعیت کی گرمی میں اے سی نے نہ صرف ٹھنڈک فراہم کی بلکہ ایک طرح سے فرسٹ ایڈ کا کام کیا حج پر جانے سے پہلے سعودی عرب کے بارے میں سنتے تھے کہ وہاں پر پوری بلڈنگ کے ہر کمرے کچن اور باتھ روم تک اے سی ہوتے ہیں گاڑیاں تو تمام اے سی ہوتی ہیں اس وقت ہم سوچا کرتے تھے وہاں کیسی گرمی پڑتی ہے اے سی کے بغیر کوئی زندگی ہی نہیں پھر جب مئی1994میں والدہ کے ساتھ حج کی سعادت کے لیے جانا ہوا تو احساس ہوا کہ واقعی مکہ اور مدینے میں ایسی ہی سخت گرمی پڑتی ہے کہ اے سی آسائشات میں نہیں ضروریات زندگی میں شامل ہے سعودی عرب میں باہر نکلیں تو گرمی کی دو طرح کی شدت کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ایک تو حقیقی گرمی دوسرے ہر بلڈنگ میں سیکڑوں اے سی سے باہر نکلنے والی گرم ہوائیں لیکن اس کے باوجود بھی وہاں پر سن اسٹروک کے حادثات ہوتے رہتے ہیں اب سے کئی برس قبل ہمارے ایک رشتے دار اپنی والدہ کے ساتھ حج پر گئے تھے حج کے بعد ان کا سن اسٹروک سے انتقال ہو گیا والدہ بے چاری تنہا واپس آئیں تھیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اگر آئندہ اسی طرح کا موسم ہوتاہے جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں تو ہمیں اس صورت میں کیا کرنا ہو گا ۔

توبہ و استغفار ویسے تو ہر وقت کرتے ہی رہنا چاہیے لیکن یہ جو آغاز رمضان کراچی کے شہریوں پر آفت ناگہانی پڑی اس میں ہمیں اﷲ تعالیٰ سے خصوصی استغفار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ آفت اپنے ساتھ کئی آفتوں کو ساتھ لے کر آئی جس میں دو تو بہت اہم ہیں ایک ایسے موقع پر کے الیکٹرک کی" اعلیٰ کارکردگی "کہ جس نے کراچی کے امیر علاقوں میں تو چوبیس گھنٹے بجلی کی سپلائی جاری رکھی جہاں چوبیس گھنٹے ائیر کنڈیشن چلتے رہے غریب علاقوں میں یہ کہہ کر طویل لوڈشیڈنگ کی کہ یہاں سے ادائیگی پوری نہیں ملتی اس لیے سب لوگوں کو چاہے اس میں وقت پر ادائیگی کرنے والے صارف بھی موجود ہوں انھیں بھی یہ عذاب بھگتنا پڑااور ان ہی علاقوں میں اموات زیادہ ہوئیں دوسری آفت یہ ہے کہ بارش نہیں ہو رہی ہے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے ۔اخلاقی حوالے سے دیکھا جائے تو اس آزمائش کے موقع پر توبہ استغفار کے ساتھ ہمارا رجوع پہلے سے اور بڑھ جانا چاہیے تھا لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ گرمی کی اس لہر کی وجہ سے تراویح میں نمازیوں کی تعداد اچانک کم ہو گئی ہر مسجد میں کئی صفیں کم ہو گئیں جب کہ ہر مسجد میں اب جنریٹر کا انتظام ہو گیا ہے ۔انفرادی طور پر آئندہ کے لیے ذہنی طور سے تیاری ضروری ہے سچی بات یہ ہے کہ اچانک افتاد کی وجہ ہوش وحواس زیادہ گم ہو گئے دوسرے اس بار اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے جو احتیاطی تدابیر بتائی گئیں ان پر عمل در آمد کیا جائے ۔غریب علاقوں میں رہنے والے افراد میں کچھ ایسے متوسط لوگ ہوں یا جن کو اﷲ تعالیٰ نے کچھ نوازا ہوا ہے وہ اپنے گھر کے کسی بڑے کمرے میں یہ سوچ کر اے سی لگا لیں کہ یہ نہ صرف ہمارے اہل عیال اور خاندان کے لیے ہے بلکہ کسی اجتماعی آزمائش کے موقع پر یہ کمرہ خاندان کے دیگر افراد اور اہل محلہ کے ہیٹ اسٹروک کے متاثرین کے لیے فرسٹ ایڈ کا کام انجام دے سکتا ہے ۔ہمارے محلے میں ایک جنریٹر مکینک ہے جس نے برسوں سعودی عرب میں گزارے ہیں وہ جس بلڈنگ میں کرائے پر رہتا ہے اس بلڈنگ کے ہر فلیٹ میں اپنے جنریٹر سے ایک پنکھے کا کنکشن از خود دے دیتا ہے تاکہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں خواتین اور بچوں کو ہوا تو ملتی رہے ۔اسی طرح ابھی حال ہی میں جب شروع رمضان گرمی کہ لہر چل رہی تھی اور ایسے میں بجلی بھی مسلسل بیس گھنٹے سے غائب تھی ان کے پاس ایک جنریٹر تھا جس سے انھوں نے کئی بلڈنگوں میں پانی کی موٹریں چلاکر ہر فلیٹ میں پانی پہنچا دیا ،اس کا کہنا ہے کہ اﷲ میاں کے یہاں جنت عبادات سے نہیں بلکہ معاملات سے ملے گی آپ اﷲ کے بندوں کی ضروریات کا خیال رکھیں ان کے ساتھ احسان کا درجہ رکھیں ان کے دکھ درد کا خیال رکھیں ا سے اﷲ خوش ہوتا ہے اگر آپ کے گھر کے ائیر کنڈیشن سے کچھ لوگوں کو ابتدائی طبی مدد مل جائے اور وہ پھر ہسپتال سے اپنا ٹریٹمنٹ کرالیں تو آپ اس کے اجر و ثواب کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔

وہ سیاسی جماعتیں جو خدمت خلق کا شعبہ بھی رکھتی ہیں وہ اس شعبے کے تحت عارضی طور پر اینٹی ہیٹ اسٹروک سنٹرز بنائیں جس میں ان کے رضا کار ابتدائی طبی امداد کر کے سیکڑوں لوگوں کی جانیں بچا سکتے ہیں اسی طرح اپنے اداروں کی ایمنولنسزکو ریڈی رکھیں ۔

آخر میں حکومت کے کرنے کے کئی کام ہیں کہ کے الیکٹر ک یا اس وقت جس نام سے بھی یہ ادارہ ہو اسے قابو میں رکھے اور عوام پر ظلم روا رکھنے سے روکا جائے اور طویل لوڈ شیڈنگ کے دورانیے کو کم سے کم کیا جائے ،جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے اس پی ایم ٹی سے منسلک جتنے صارفین ہیں ان کے بلوں میں ان چوری کے یونٹوں کو تقسیم کر کے اپنے پیسے تو وصول کر لیتی ہے اس طرح وہ صارفین جو ایمانداری سے اپنا بل ادا کرتے ہیں ان ہی پر چوری کے یونٹوں کا اضافی بوجھ ڈالا جاتا ہے ۔اس کے باوجود ایسے علاقوں کی یہ کہہ کر طویل لوڈشیڈنگ کرنا کہ یہاں بجلی چوری ہوتی ہے اس لوگوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہے جو پابندی سے اپنا ماہانہ بل ادا کرتے ہیں ۔

ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ ایک زمانے میں کراچی میں بڑی تعداد میں درخت ہو اکرتے تھے جو اب ختم ہوتے جارہے ہیں بلکہ ہو گئے سابق ناظم کراچی جناب نعمت اﷲ خان ایڈوکیٹ نے ہزاروں کی تعداد میں باہر سے درخت منگوا کر لگائے تھے ،ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت کراچی میں پچیس لاکھ درختوں کی ضرورت ہے جس سے آئندہ اس شہر میں آنے والی گرمی کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.