صحت عامہ اور وزیر صحت کا اعتراف

انسانی حقوق

وزیر صحت پنجاب جناب اسلم ہمایوں نے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ اپنی صبح کی بات چیت میں اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ ملک میں صاف پانی کے حصول سے متعلق سنگین مسائل موجود ہیں اور عوام الناس کی صحت اور زندگی کو اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ وہ ۱۲ تاریخ کو پی ٹی وی کے ساتھ صبح کی تشریات میں صحت سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیا ل کر ہے تھے۔ وزیر صحت نے بات چیت میں اپنے رفقائے کار پنجاب کے محکمہ صحت کے ڈاکٹر اور pcsir کی ایک اعلی عہدیدارکے ہمراہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ عام کوگوں کی صاف پانی تک رسائی تاحال ناممکن دکھائی دیتی ہے اور تمام حکومتیں اپنے اپنے ادوار میں عوام کے ساتھ بھرپور وعدے کرنے کے باوجود اس عہد کو پورا نہ کرسکی ہیں۔

وزیر صحت کا اصرار تھا کہ لوگوں میں صاف پانی اور اس کے مسائل سے آگاہی کے لئے ملک بھر میں مختلف طریقوں سے تعلیمی اور تربیتی پروگرام شروع کیے جانے چاہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ اس طرح لوگوں کو ان کے مسائل کے بارے میں شعور اور آگاہی دی جا سکتی ہے۔

وزیر موصوف کی ان باتوں کو سن کر ایسا لگتا تھا جیسے ان کا دیش غالبا پاکستان نہیں کوئی انگریز ملک ہے جہاں ۹۸ فیصد لوگ ذیور تعلیم سے آراستہ ہیں اور انہیں بس اشارہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

وزیر صحت نے ایکبار بھی ان سنگین مسائل کی جانب اشارہ تک نہیں کیا جو ہمارے آبی وسائل کو زیر زمین،زمین پر اور پانی کی ترسیل سے متعلق تمام کوششوں اور جدو جہد کو ثبوتاژ کر رہے ہیں اور ان امور و پراجیکٹ پر اٹھنے والے سالانہ اربوں روپے کھو کھاتے جا رہے ہیں۔ نیز آئے دن ہسپتالوں میں پانی سے متعلق بیماریوں اور مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر ہر سال اربوں روپے خرچ بھی کیے جا رہے ہیں تاہم نہ تو ان کی تعداد میں کوئی کمی واقع ہو رہی ہے اور نہ، ہی پانی کے وسائل کو زیر زمین ،زمین پر اور ترسیل کے زرائع کو درست اور ان بیماریوں سے پاک کرنے کی کوئی دانشمندانہ و سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے۔

تاہم ایک بات شرط ہے ،آپ جس سرکاری دفتر میں چلے جائیں آپ کو یہ مناظر ضرور دیکھنے میں آئیں گے،متعلقہ آدمی سیٹ پر موجود نہیں،چائے پی رہا ہے،سیگرٹ پی رہا ہے،سرکاری ٹیلی فون کا بیڑہ غرق کر رہا ہے اور پلاٹو کریسی میں مشغول ہے،آپ سے مخاطب ہو کر کہ رہا ہے،آپ لیٹ آئے ہیں، کل آئیں، صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آج سے دس سال قبل میں نے راولپنڈی کے ۳۵ ٹاٹ سکولوں کے لئے صاف پانی کی فراہمی کا پراجیکٹ ایک سال کی محنت کے بعد تین مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو دیا تھا ،اس کا کیا حشر ہوا تھا اور مجھ پہ کیا الزام لگے تھے۔عالم یہ تھا کہ لوگ اس بات کو ماننے پر آمادہ ہی نہ تھے کہ صاف پانی کی بات کوئی وجود رکھتی ہے۔ سب یہ کہتے تھے کہ یہ کوئی محض گپ شپ ہے۔ اور میں اس حوالے سے مال پانی بنانا چاہتا ہوں۔ پھر اﷲ کا کرنا یہ ہوا کہ انہی اداروں نے نہ صرف اس حقیقت کو تسلیم کر لیا بلکہ اس شعبے میں زور شور سے فنڈنگ بھی شروع کر دی۔

لیکن ہماری حکومت کے متعلقہ ادارے تا حال وہیں کے وہیں کھڑے ہیں اور اس اہم ترین و زندگی اور موت سے متعلق معاملہ پر غیر سنجیدہ ہیں کہ ابھی تک وہ اس بارے میں اتفاق نہیں کر پائے کہ یہ مسلہ کیا ہے، کیوں ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ا ٓبی وسائل کو زیر زمین اور زمین پر کون سے عوامل کتنی شدت کے ساتھ آلودہ کر رہے ہیں اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو اسکی کیا قیمت ادا کرنی ہو گی۔

لیکن افسوس کہ ایک بھی شخص یا ادارہ ان مسائل کی جانب قدم بڑھانے کوتیار نہیں ۔بلکہ ذمہ دار ادارے اب یہ کہ رہے ہیں کہ انہیں حکومت کی جانب سے عندیہ ہے کہ صنعتی اداروں کے ساتھ اس بارے میں نرم رویہ رکھا جائے تاکہ ملک میں صنعتی ترقی کا رحجان فروغ پا سکے۔لیکن اس کے برعکس یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ تمام تر صنعتی ترقی کس قیمت پر حاصل کی جا رہی ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ ہماری زندگی کی قیمت پر ہو رہا ہے اور ملک کے تما صنعتی ادارے بڑی تیزی کے ساتھ ہمارے آبی وسائل اور ماحولیات کو تباہ کر رہے ہیں اور اب پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اس بارے میں انتہائی سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے ان اداروں پر سخت ترین پابندیوں کے اطلاق کو یقینی بنائے ۔ نیز عوام کی آگاہی کے پروگراموں میں ان باتوں کا برملا ذکر کیا جائے کہ ماحولیات کی تباہی و بربادی کے اصل ذمہ دار صرف صنعتی ادارے ہی نہیں،وزارت ماحولیات اور اس کے ذیلی ادارے اور ضلعی حکومتیں بھی اس بھیانک کھیل میں برابر کی شریک ہیں ۔

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کے اپنے ادارے اور تحقیقی ایجنسیاں اس بارے میں انتہائی اہم سروے رپورٹیں حکومت کو فراہم کر چکی ہیں جن میں کاٹج انڈسٹری سے لیکر ہیوی انڈسٹری تک کے تمام اداروں،کارخانوں،فیکٹر یوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو یو این ڈی پی کی جانب سے ان کی سالڈ و لیقوئیڈ ویسٹ یا گندگی کو ٹھکانے لگانے اور ان کے سٹاف کو ویسٹ کو مینجمنٹ کے لئے ہر طرح کی سہولتوں کی فراہمی کا بھی ذکر موجود ہے۔

کاش ان باتوں کا ذکر وزیر صحت خود کرتے اور کہتے کہ انہوں نے ماحول اور ملک کے آبی وسائل کو آلودہ کرنے واے اداروں کی تعلیم و تربیت اور آگاہی کا بھی پروگرام شروع کیا ہے اور بہت جلد اس پر عملدرامد ہونے والا ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Anwer Baig
About the Author: Anwer Baig Read More Articles by Anwer Baig: 20 Articles with 13106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.