میری ماں کی پانچویں برسی اور معراج الدین کا افطار دستر خوان

میری ماں کو دنیا سے رخصت ہوئے پانچ سال ہوچکے ہیں لیکن یقین نہیں آتا کہ ہمارے ساتھ یہ حادثہ پیش آچکا ہے۔ ماں جیسی ہستی کا سایہ سر سے اٹھ جانا نقصان عظیم سے کم نہیں۔ ماں کی محبت کو الفاظ میں بیان کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں ۔ ’’ماں ـ‘‘ایک عظیم نام ،قدرت کا بے مثال اورانمول تحفہ ، قربانی، ایثار، مروت،صبر و رضا ، پیار و محبت ،خلوص و وفا کی روشن مثال۔ ایک ایسا منفرد اورانمول رشتہ جس کی محبتوں کا، شفقت کا، قربانی کا، ایثار کا، خلوص کا ،وفاؤں کا،تقدس کااور سب سے بڑھ کر ممتا کا کوئی مول نہیں۔ماں تو نام ہے اپنے وجود کی نفی کا، قربانی کا، ایثار کا، اپنی ہستی کو مٹادینے کا۔ پانچ برس بیت جانے کے باوجود ماں کے وجود کو ہر دم، ہر جگہ، ہر احساس میں مجھے اپنی ماں نظروں کے سامنے چلتی پھر تی، محبتیں باٹتی اور مصروف عمل نظر آتی ہے۔ میں نے اپنی ماں سے وہ کچھ سیکھا جو مجھے کسی اور سے آج تک حاصل نہ ہوا حتیٰ کہ مجھے اپنے استادوں سے بھی وہ کچھ حاصل نہ ہوا جو مجھے اپنے ماں کے اس عمل سے حاصل ہواجو انہوں نے اپنی زندگی میں عملی طور پر کر کے دکھایا۔ قربانی کس چیز کانام ہے یہ مجھے اپنی ماں کے ذریعہ معلوم ہوا، درگزر کسے کہتے ہے یہ احساس مجھے میری ماں نے دیا، چھوٹو ں سے شفقت بڑوں کی عزت کرنا مجھے میری ماں نے سکھایا، گھر کو کس طرح جنت بنایا جاتا ہے اس کا عملی مظاہرہ میں نے اپنی ماں کے عمل میں دیکھا، مہمانوں کی کس طرح خاطر کی جاتی ہے میری ماں نے عملی طور پر کرکے دکھایا۔ زندگی کیسے گزاری جائے اس کا سلیقہ مجھے میری ماں سے ملاالغرض اگر مجھ میں کوئی زرا برابر بھی خوبی ہے ، اچھائی ہے تو وہ میری ماں کی عطا ہے ۔

میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے میں بنیادی طور پر راجستھانی یا راجپوت ہوں ،راجستھان آج کل آبادی کے لحاظ سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے، تقسیم سے قبل اس صوبے کانام راجپوتانہ تھااور یہ صوبہ بائیس راجواڑوں (ریاستوں) کا مجموعہ تھا۔ راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپو ت ہی ہیں۔بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔مظفر نگر ہندوستان کے شمالی مغربی اضلاع میں شمار ہو تا ہے۔یہ ایک ایسی مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیا ئے کرام اور فقہا ئے اسلام کو جنم دیا، اہل علم ودانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ،ان شخصیات میں بعض احباب کے نام فخر سے لیے جاسکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اﷲکا مولد مظفر نگر کا موضع ’پھلت‘ تھا، اسے قریہ اولیاء بھی کہا جاتا ہے۔عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ۱۲۸۰ھ میں بمقام قصبہ تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیا قت علی خان کا تعلق بھی مظفر نگر سے تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، حاجی ولی اﷲ محمد احمد سراوے والے ، زاہدحسین ، اولین گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان ،جسٹس (ر)نا صر اسلم زاہد، محمد ابصار حسین قرنی عمر پور والے، مفتی و محدث مولانا عبدلمالک ، مولانا عبد الخالق کاندھلہ والے، شیخ محمد ابراہیم آزادؔ،سابق چیف جسٹس ، بیکانیر چیف کورٹ ،معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، ڈاکٹرالطاف حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ )، مبشر احمد واحدی ، معروف شاعر احسان دانش ، تابشؔ صمدانی اورافسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا وطن بھی تھا نہ بھون مظفر نگر تھا۔اس اعتبار سے مجھے ایسی متبرک سر زمین سے نسبت حاصل ہے جس کی کوکھ نے عظیم ہستیوں کو جنم دیا۔ میرے خاندان میں اکثر احباب تدریس اور شاعری سے شغف رکھتے ہیں،صاحب دیوان شاعر بھی ہیں اور بے دیوان شاعر بھی، میَں شعرگھڑ لیتا ہوں، شاعر ی میرے خمیر میں تو ہے لیکن تاحال باقاعدہ شاعری نہیں کی، موقعہ محل یا ضرورت کے لیے شعر کہہ لیتا ہوں۔

میری ماں سبزواری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور والد راجستھانی۔گویا والد شہری بابو اور والدہ مشرقی پنجاب کی ایک دیہاتی۔شہری اور دیہاتی ملاپ سے جنم لینے والے بندھن نے شہر کراچی میں ایک کامیاب زندگی گزاری ،دنیاوی زندگی کادورانیہ 50 سال 5ماہ اور25دنوں پر محیط رہا ۔اس ملاپ نے سات زندگیوں کو جنم دیا، ساتوں زندگیوں کی پرورش کی، انہیں تناور درخت بنا یا، یہی نہیں بلکہ اپنے شوہر کی تین بہنوں اور دو بھائیوں کی بھی پرورش کی ، انہیں پروان چڑھاکر اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ہم بہن بھائیوں نے جب آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں امی ابا کے علاوہ دو چچاؤں اور تین پھوپھیوں کوبھی پایا۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم سات بہن بھائی نہیں بلکہ دس بہن بھائی ہیں۔ یہ کمال ہمارے والد صاحب کاتو تھا ہی ان سے زیادہ کمال میری ما ں کا تھاجنہوں نے کبھی یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ وہ ان کے دیور اور نندیں ہیں بلکہ انہیں اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیا، عملی تربیت کی اور انہیں اپنے اپنے گھروں کا کیا۔ اپنی اولاد کی تو سب ہی پرورش کیا کرتے ہیں، ایسی مثال بہت کم ملتی ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد سے پہلے اپنے شوہر کے بھائیوں اور بہنوں کی اسی طرح تربیت و پرورش کرے جیسے وہ اس کی اپنی اولاد ہو۔

میری ماں نے مشرقی پنجاب کے ایک دیہات میں آنکھ کھولی ، وہیں پلی بڑھی تھیں، بچپن اور جوانی دیہات کے ماحول میں گزرا تھا جہاں ان کے والد اور ایک بھائی پٹواری تھے۔دیہا ت کے رہنے والے بخوبی واقف ہیں کہ پٹواریوں کا رہن سہن کس قسم کا ہوتا ہے، گندم ،چاول ،گھی ، شکر، سال بھر کا گھر میں جمع، گائیں، بھینس ، بکری اور دیگر جانور ، ساتھ ہی کام کرنے والے نو کرچاکر، الغرض صحت مند آب و ہوا کے ساتھ ساتھ خالص غذا، آج کے دیہاتوں میں بھی یہ سب کچھ میسر ہے ۔فرق یہ ہوا کہ انِ دیہاتوں نے مختصر شہر کا روپ دھار لیا ہے۔جہاں بجلی، ٹیلی ویژن، فرج اور ائر کنڈیشن کی سہولیات میسر آگئیں ہیں۔ایسی ماحول میں پروان چڑھنے والی شادی کے بعدکراچی جیسے شہر میں اور ایک بڑے گھرانے میں داخل ہوئی، جس نے شہر کا ماحول کبھی نہ دیکھا تھا، تعلیم واجبی سی بلکہ ناخواندہ ہوتے ہوئے شہری ماحول میں ایسے گھل مل گئیں جیسے یہ وہ شہری ماحول میں ہی پروان چڑھی ہوں۔

میری ماں مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔روز مرہ آنے والے مہمانوں کی خوش دلی سے خاطر مدارات کیا کرتیں۔اگر کوئی کھانے کے وقت گھر آجاتا تو والد صاحب کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ وہ کھانا کھائے بغیر ہر گز نہ جائے، ہماری امی نے پاپا کی اس خواہش پر ہمیشہ خوش دلی سے عمل کیا۔ہمارے گھر کا دستر خوان ہمیشہ دراز رہا۔یہ دستر خوان ہمیشہ فرشی ہوا کرتا تھا، ہم نے ہمیشہ نیچے فرش پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ اِمی بہت با ہمت اور قوت برداشت کی ما لک تھیں، سارا سارا دن گھر کے کاموں میں لگیں رہتیں، زبان پرکبھی حرفِ شکایت نہیں آیا۔اِمی نے اپنی زندگی میں طویل عرصہ بیماری میں گزارا، اس کے باوجود حرفِ شکایت زبان پر نہیں دیکھا، تمام دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہا کرتیں۔مارچ 2009 میں گلے کی تکلیف کی ابتداء ہوئی ،کھانے پینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی، علاج مسلسل ہوتا رہا لیکن تکلیف میں اضافہ ہی ہو تاگیا، نوبت اس حد تک پہنچ گئی کہ پانی بھی مشکل سے پیا جانے لگا۔ کہا کرتی تھیں کہ مجھے کینسر سے ڈر لگتا ہے، انہیں یہ نہیں بتا یاگیا تھاکہ انہیں گلے کی نالی کا کینسرہو گیا ہے لیکن ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے ۔رمضان المبارک قریب آرہے تھے، ادھر ان کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ صحت مند جسم آہستہ آہستہ کمزور ی کی جانب مائل تھا۔امی کو اسپتال جانے سے بھی خوف آتا تھا۔ہم نے محسوس کیا کہ اگر اسپتال میں داخل کرادیا گیا تو ان کے لیے بھی تکلیف کا باعث ہوگا اور ہم سب بھی پریشان ہوں گے، ان کی تکلیف کا علاج تو اب یہ رہ گیا تھا کہ غذا کے لیے نالی پاس کرادی جائے، اب انہیں آکسیجن کے بغیر سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آکسیجن سیلنڈر بدلنے کے دوران ان کی حالت بگڑ جاتی، بلڈ پریشر ایک دم کبھی ہائی اور کبھی ایک دم کم ہوجاتا۔ میرا چھوٹا بیٹا ڈاکٹر نبیل جو عباسی شہید اسپتال میں تھا اب اسپتال سے اپنی دادی کے پاس ہی آجاتا،ہم سب زیادہ وقت امی کے پاس ہی گزارا کرتے ، ان کا کمرہ اسپتال کا کمرہ ہی بن گیا تھا، اسپتال کا ایک بیڈ بھی پڑوسی سے مل گیا تھا، اس سے اور زیادہ آسانی ہوگئی تھی،رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا، امی کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی تھی، ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئی تھیں۔چہرہ سے نقاہت اور کمزوری صاف عیاں ہونے لگی تھی، ستمبر کا مہینہ شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے، کہا کرتی تھیں کہ جمعرات مجھ پر بھاری ہوتی ہے اور یہ کہ اپنے پاپا(ہمارے والد صاحب) کی اور میری فاتحہ ایک ساتھ ہی کرا دیا کرنا، اس کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب کا انتقال5 ستمبر کو ہوا تھا، جیسے جیسے5 ستمبر نذدیک آرہی تھی ان کی حالت بگڑتی جارہی تھی،جمعرات ۱۲ رمضان المبا رک(3 ستمبر 2009)صبح سے ہی حالت بگڑنا شروع ہو گئی تھی،دن میں کئی بار حالت بگڑی، صبح کے وقت ندیم اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر سید جمال احسن کوجو میرے ایک مرحوم دوست پروفیسر سید ریاض احسن کے بھائی ہیں کو گھر پر لائے ، انہوں نے بھی ناامیدی کا اظہار کیا، اسیِ دن امی کی حالت خراب ہونا شروع ہوگئی، محسوس ہوا کہ وہ جاچکی ہیں، انہوں نے پھر سے سنبھالا لیا،تھوڑی دیر میں اُٹھ کر بیٹھ گئیں ، ہم سب کو مسلسل خاموشی سے دیکھے جارہی تھیں، بالکل خاموش، شایداﷲ تعالیٰ نے انہیں ہم سب اور ہمیں انہیں سانس لیتا دیکھنے کی آخری مہلت دی تھی، اس وقت ہم سب کے اوسان خطا تھے ، ہم نے بھی ان سے کوئی بات نہیں کی، ہم بھی خاموشی سے انہیں تکتے رہے، اچانک کومہ میں چلی گئیں،میَں امی کے پیروں کی جانب کھڑا تھا، میرے برابر میری چھوٹی بہن روحی اورشاہیں کھڑی تھیں، ایک جانب پرویز ، تسلیم، ندیم تھے،امی کی چاروں بہویں شہناز،پروین، روبی اور اسماء بھی ایک جانب کھڑی تھیں، دائیں جانب ارشد ندیم اور بائیں جانب ڈاکٹر بنیل تھے۔نبیل نے امی کے ہاتھ پر بلڈ پریشر کا آلہ لگا یا ہوا تھا ، ایک ہاتھ امی کی نبض پر تھا ، نبض ڈوبتی جارہی تھی، بلڈ پریشر انتہائی نیچے کی جانب تھا، مسجد سے عصر کی اذان شروع ہوئی،ہماری نظریں امی کے چہرہ پر تھیں، گھڑی میں چار بجکرپینتالیس منٹ ہوئے ،یک لخت محسوس ہوا کہ ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا(جسے سرسراہٹ کہا جاسکتا ہے ) امی کے پیروں سے شروع ہوا جب منہ تک پہنچا تو ان کا چہرہ ساکت اور بے جان ہو چکا تھا، اس لمحے میرے منہ سے نکلا ’نبیل امی گئیں‘، اور بس ہم سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے ، ایسامحسو س ہوا کہ کوئی ہمارے بند ہاتھوں سے ہماری انمول متع چھین کر لے گیا ہو ۔اِمی ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں اور ہم اپنے والد صاحب کے بعد اپنی ماں سے بھی محروم ہو گئے ۔ انا اﷲ و انا علیہ راجیعون پروردگا ِ عالم اِمی کو اپنے جوارِ ر حمت میں جگہ دے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے ۔ آمین۔ انہیں والد صاحب کی قبر کے قریب ہی جگہ ملی،صابرہ ، شاکرہ ، عا لی حوصلہ کی زندگی کا سفر جو 1930 میں ہندوستان کی سرزمین سے شروع ہوا تھا 3 ستمبر 2009(مطابق12 رمضان المبارک 1430 کو79 سال بعد کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ ماں سے قلبی تعلق اور عقیدت کا رشتہ اس قدر مستحکم اور اٹوٹ ہے کہ ماں کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی یہ رشتہ اور تعلق ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے۔اس کی یادوں کے دئے ہر دم روشن رہتے ہیں۔

ہرسال 12رمضان ہمارے لیے ماں کی یاد کو خصوصیت کے ساتھ تازہ کردیتا ہے۔ پانچ سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس بار اس یاد کو تازہ کرنے میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا۔ اس بار اپنی ماں کی برسی کے موقع پر مجھے دلی اطمینان کا احساس ہوا۔ اب میں اور میرا چھوٹا بھائی ندیم صمدانی صفورہ چورنگی پر’ حارث بنگلوز‘ میں رہائش پذیر ہیں۔ جب میں یہاں شفٹ ہوا تو مجھے چند احباب کی زبانی معلوم ہوا کہ یہاں ایک صاحب رمضان میں غریبوں کے لیے افطار دسترخوان سجاتے ہیں۔ یہ دستر خوان حارث بنگلوز کے لان میں سجا یا جاتا ہے۔ مجھے اشتیاق ہوا کہ یہ دستر خوان کیسا ہوگا، کیا اس میں دیگر لوگ بھی حصہ لیتے ہوں گے یا نہیں،میں بہت جلد اس پروجیکٹ کے انتظامی معاملات میں شامل کر لیا گیا۔ پتا چلا کے یہاں کی ایسو سی ایشن کے نائب صدر معراج الدین صاحب ہر سال یہ دستر خوان سجاتے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی، درمیانہ قد،گندمی رنگ، فربا جسم،کلین گندمی رنگ ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، کتابی چہرہ، درمیانہ قد، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، کلین شیو، سر پر کالے بال،سنجیدہ طرز گفتگو، خاصے جوشیلے، جذباتی ساتھ ہی با اصول آدمی ہیں۔ بلند آواز سے گفتگو کرتے ہیں ، جس محفل میں یہ موجود ہوں دور ہی سے اس بات کا پتا دیدتی ہے کہ معروج صاحب موجود ہیں۔ انہوں نے 2004میں ملیر سے حارث بنگولز میں سکونت اختیار کی ۔ رفتہ رفتہ ان سے کئی تعلق نکل آئے، ملیر کھوکرا پار میں میرے کئی احباب رہائش رکھتے ہیں ، میرے حقیقی چچا جلیس احمد مرحوم ،اب ان کے بچے وہاں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے علاوہ بعض قریبی عزیز ملیر کے باسی تھے ان سے معراج صاحب کے مراسم اور پھر یہ کہ یہ کہ معراج صاحب ایک کالج میں ملازمت کرتے ہیں، کالجوں سے تعلق رکھنے والوں کا جب بھی ذکر آتا ہے تووہ میرے اور ان کے ثناشہ ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ میری تعلق بھی کراچی کے مختلف کالجوں سے کئی برس رہا۔میں سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسو ایشن (SPLA) میں الیکشن کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے سرگرم رہا۔ یہاں عابد صاحب بھی رہا کرتے تھے جو کالج ڈائریکٹریٹ سے ریٹائر ہوئے تھے، وہ بھی میرے اور معراج صاحب کے کلیک ہی ہوئے۔ وہ جب اس پروجیکٹ سے رخصت ہونے لگے توایک روز ہم دونوں مسجد میں برابر برابر بیٹھے تھے میرے کان خاموشی سے گویا ہوئے کہ ’صمدانی صاحب میں یہاں کی یونین میں فائیناس سیکریٹری کی ذمہ داری جو میرے کاندھوں پر ہے آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں میں نے یہاں کی یونین کے صدر اور دیگر احباب سے آپ کے بارے میں ذکر کردیا ہے‘۔ انہوں نے یہ سرگوشی میں اس طرح ادا کیے کہ مجھے صحیح معنوں میں پوری طرح سمجھ میں بھی نہیں آئے، اسی دوران تکبیر کا آغازہوگیا اور بات آئی گئی ہوگی۔ میں عابد صاحب کو انکار نہ کرسکا، اگر یہ بات کہیں باہر ہورہی ہوتی تو میں یقینا ان سے معزرت کر لیتا۔ یہ ذمہ داری تھی یونین کے فائینانس سیکریٹری کی ۔ یعنی تمام پیسہ اور حساب کتاب رکھنا۔ حساب کتاب سے مجھے شروع ہی سے الجھن تھی،یہی وجہ ہے کہ میٹرک میں حساب کا پرچہ مشکل سے پاس کیا تھا۔مرزا غالب کا بھی حساب سے جی گھبراتا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ’ انہیں جوڑ لگا نا نہیں آتا‘۔اب ہم عمر کے ا س حصہ میں داخل ہوچکے ہیں کہ اس طرح کے کاموں کا بار اٹھانا گویا اپنے اوپر بار ڈالنے کے مترادف ہے۔ تعلیمی ،سماجی، فلاحی ، ثقافتی و تہذیبی کاموں شروع ہی سے دلچسپی رہی، تقریر کرنے سے لے کر پروگرام ترتیب دینے کا طویل تجربہ رہا۔ اس لیے اس قسم کے کاموں سے گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی ، البتہ یہی وقت لکھنے یا پڑھنے میں لگ جائے تو زیادہ اچھا لگتا ہے۔ مختصر یہ کہ جناب عابد صدیقی صاحب اس پروجیکٹ سے رخصت ہوتے ہوئے اپنا بوجھ میرے ناتواں کاندھوں پر ڈال گئے۔ جسے میں چند ماں سے اٹھائے ہوئے ہوں دیکھیں کب کشتی ڈولنے لگے اور میں بوجھ اتار پھینکوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس قسم کے کام گھاٹے کا سودا ہی ہوا کرتے ہیں، تعریف و توسیف تو دور کی بات ہے کوئی اسے سراہاتا بھی نہیں، حساب کتاب میں توجیب سے ہی دینا پڑتا ہے۔پھر بھی نہیں معلوم اﷲ کو ہماری کون سی خدمت پسند آجائے اور کشتی بار لگ جائے۔ اسی جذبہ
سے کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔لکھنے کا عمل بھی یہی جذبہ لیے ہوئے ہے۔

بات اپنی ماں کی برسی اور معراج الدین کے’ افطار دستر خوان‘ کی شروع ہوئی تھی، بیچ میری ذات آگئی پھر عابد صاحب آگئے۔ تو جناب رمضان المبارک شروع ہوا۔ یکم رمضان سے ہی معراج الدین صاحب اپنے جملہ ساز و سامان کے ہمراہ حارث بنگلوز کے مین گیٹ پر لان میں اپنے مددگاروں کے ہمراہ براجمان دیکھے گئے۔ جس چیز کو دیکھنے کا تجسس کئی ماہ سے تھا وہ اختتام کو پہنچا۔ ہم بھی ان کے دستر خوان کو دیکھنے کے لیے عصر کی نماز پڑھ کر وہی بیٹھ رہے۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ کیا بات ہے ۔ اس نفسا نفسی کی دور میں، جہاں پیسہ کمانے کی ریس لگی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اس ریس میں شریک ہوکر آگے سے آگے نکلے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے ۔ دنیا میں ایسے بھی ہیں جنہیں اپنی آخرت کی فکر ہے، اﷲ کے احکامات پر عمل کرنے کی فکر ہے، غریب کی فکر ہے، بھوکے کو پیٹ بھر کھلانے کی فکر ہے۔ اب تک ہم نے کئی دستر خوان دیکھے تھے جیسے ایدھی کا دستر خوان، چھیپا کادستر خوان، سیلانی دستر خوان وغیرہ ۔ یہ افطار دستر خوان کسی بہت بڑی معروف سماجی شخصیت کا نہیں بلکہ یہ ایک ایسی شخصیت کی سوچ کا عملی مظاہرہ ہے جو غریب و نادار لوگوں کا درد اپنے سینے میں رکھتا ہے۔یہ انسانیت کی خدمت کا انفرادی اظہار ہے، مُفلِس لوگوں کو افطار کراکے اپنے آپ کو مطمئن اور شکر بجا لانے موام ہے ، ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی انفرادی طور پر اس قسم کی خدمت انجام دے جو مسلسل تیس روز تک جاری رہے۔ معراج صاحب از خود روزہ داروں کے ہمراہ افطار کرتے ہیں حالانکہ ان کا گھر دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ انہیں یہ خدمت انجام دیتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، پروردگار انہیں صحت دے، ہمت دے، حوصلہ دے کہ یہ انسانیت کی خدمت اسی جوش و جذبہ کے ساتھ آئندہ بھی جاری رکھیں۔

میں نے معراج صاحب سے معلوم کیا کہ انہوں نے اس خدمت کا آغاز کب اور کیوں کر کیا، وہ کیا عوامل تھے کہ آپ نے افطار دستر خان سجانے کا منصوبہ بنا یا ۔ یہ ایک دو روز کا کام نہیں تھا بلکہ تیس روز وہ بھی روزہ کی حالت میں تن تنہا سامان کی خریداری کرنا، پھلوں کو کٹوانا، پلیٹوں میں لگواناتمام کام اپنی نگرانی میں کرانا ایک صبر آزماں کام ہے۔اس کے لیے غیر معمولی حوصلہ و ہمت درکار ہوتی ہے۔ معراج صاحب نے بتا یا کہ وہ 2004میں ملیر سے حارث بنگلوز میں منتقل ہوئے ۔ وہ ہرسال غریبوں کواجناس کے بیگ جن میں کھانے پینے کی اشیاء آٹا، شکر، گھی، تیل ، چاول ، دالیں، چائے ، مرچ مصالے وغیرہ ہوا کرتے تھے دیا کرتے تھے۔ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ پھر انہوں نے ایک دن حارث بنگلوز کے لان کو دیکھا جو اتنا بڑا تھا کہ اس میں سو سے دو سو افراد کی گنجائش ہوسکتی تھی۔ کہتے ہیں کہ انہوں اپنے دوستوں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ افطار دستر خوان لگانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا سب ہی نے ان کی اس خواہش کی تائید کی لیکن ان کے قریبی پڑوسی مسعود الحسن نے ان کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنا نے میں ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ عملی تعاون بھی کیا۔دستر خوان کے لیے اشیاء کی خریداری میں وہ ان کے ساتھ جوڑیا بازار بھی گئے ۔ مسعود الحسن جو اب میرے بھی دوست ہوچکے ہیں ’پاکستانی امریکن ‘ہیں۔کئی برس دیگر ملکوں کے علاوہ امریکہ میں رہے اب بھی امریکہ آتے جاتے رہے ہیں۔ نستعلیق ہیں،متین ، شائستہ، مہذب اور خوش خلق ہیں تعلق لکھنؤ سے ہے۔ ان کے اندر تو ایک لکھنؤی انسان موجود ہی ہے ان کی ظاہری شخصیت لکھنؤ یت لیے ہوئے ہے۔چھوٹا قد،گور ارنگ، کتابی چہرہ، چھوٹی آنکھیں، کشادہ پیشانی، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، ، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار،چلتے ہوئے نیچے نظر، پٹی دار رنگین پاجامہ اور صاف ستھری سفید قمیض، گفتگو میں بھی لکھنؤیت کا حسین اظہار۔مخلص اور بے لوث انسان ہیں۔ گزشتہ برس رمضان میں وہ امریکہ چلے گئے تھے تو وہاں سے افطار کے وقت معراج صاحب کو فون کیا کرتے اور افطار دستر خوان کے بارے میں معلوم کیا کرتے۔ انہوں نے بتا یا کہ اس سال انہوں نے افطار دستر خوان کی وجہ سے اپنے بچوں کے پاس امریکہ جانا ملتوی کردیا۔ معراج صاحب کے مددگار حارث بنگلوز کے دو چوکیدار حبیب اﷲ بلوچ اور شبیر عرف شبو بلوچ ہیں ۔ معراج صاحب کا ایک بھانجا اذلان علی بھی ہے جو عصر کے بعد موٹر سائیکل پر دوڑتا پھرتا ہے ساتھ ہی معراج صاحب کی گھن گرج والی آواز سے ڈانٹ ڈپٹ کھاتا، پھر بھی خوشی خوشی اشیاء افطار لاتا نظر آتا ہے۔معراج حاحب کے گھر کے افراد خصوصاً ان کی بیگم بھی اس کارِ خیر میں برابر کی شریک ہیں اگر گھر کے لوگ ساتھ نہ ہوں تو انسان کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔ یہ تمام لوگ بے لوث خدمت خلق کر رہے ہیں۔ اس کی جزاا ﷲ ہی دینے والا ہے۔

اب میرا معمول ہوگیا کہ عصر کی نماز پڑھ کرلان میں چلا جاتا ، معراج صاحب اور مسعود صاحب جنہیں ہم نواب مسعود الحسن کہتے ہیں سے سیاسی موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے اور افطار کے انتظامات کی نگرانی بھی معراج صاحب کرتے رہتے ہیں۔اس دوران مسعود صاحب ہندوستان کی یادیں بھی تاذہ کرتے رہے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا جسم تو پاکستان آگیا ہے لیکن ان کی روح ابھی بھارت ماتا میں بھٹکتی رہتی ہے۔ افطار دستر خوان کو دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ اس بار اپنی امی کی برسی پر اس دسترخوان پر موجود روزہ داروں کی افطار کرادی جائے ۔ اس خیال کی تائید میرے چھوٹے بھائی ندیم صمدانی نے بھی کی چنانچہ معراج صاحب سے گزارش کی کہ وہ 12رمضان کی افطار ی میں کھانے کا اہتمام ہمیں کرنے دیں اس کی وجہ بھی انہیں بتا دی گئی انہوں نے خوشی خوشی ہماری تجویز کو قبول کر لیا۔ بعد ازااس پر عمل ہوا ۔ یہ لمحہ میرے لیے انتہائی اطمینان کا تھا کہ اپنی ماں کی برسی کے موقع پر ان کے ایصال ثواب کے لیے مستحق و غریب لوگوں کو کھانا کھاتا دیکھ رہا تھے۔ نہیں معلوم آئندہ یہ دن نصیب ہو یا نہیں مجھے اس دن اپنی ماں کی یاد جس شدت سے آئی اسے الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ اس بار میں نے اپنے گھر پر دعا نہیں کی بلکہ ان غریبوں ، مسکینوں ، بے سہارا لوگوں کے ہاتھ دعا کے لیے میرے ساتھ اٹھے ہوئے تھے ۔کسی شاعر نہیں کیا خوب کہا اور سچ کہا ؂
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں جب تھک کر سوجاتی ہے ماں
تب جا کر تھو ڑا سا سکوں پاتی ہے ماں
شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مر تے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں

شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے اپنی ماں کی یاد میں اپنے دُکھ بھرے جذبات اور احساسات کو جس انداز اور اسلوب میں پیش کیا ’’ماں‘‘ کے لیے یہ میرے ہی نہیں بلکہ ہر دکھ بھرے دل کی دردمندانہ اور پر خلوص دعا ہے :
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبہ میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا!
نُور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا !
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے !
(12رمضان المبارک1436مطابق 30جون2015)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277708 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More