تیسری سیاسی قوت ۔۔۔۔۔ ایک ناگزیر ضرورت

گزشتہ کالموں میں میثاق جمہوریت کے مختلف پہلوؤں پر بات ہوتی رہی ہے ۔ میری پختہ رائے ہے کہ میثاق جمہوریت کا رسوائے زمانہ معاہدہ جہاں بیرونی محاذ پر پاکستان مخالف قوتوں کی سوچ وفکر کا عکاس ہے وہاں ملک کی داخلی سیاست میں اس کا ایک مقصد سیاست سے اپوزیشن کے تصور کو ختم کر کے دو جماعتی سیاسی مارشل لاء لگائے رکھنا بھی ہے تاکہ ایک طرف کسی تیسری سیاسی قت کے ابھرنے کاا مکان نہ رہے اور دوسری طرف دونوں طبقات ایک دوسرے کے مجرمانہ مقاصد کا تحفظ کر سکیں اور دونوں سیاسی قوتیں مل کر پاکستان کے دفاع پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ افواج پاکستان کو ملک کے دفاع کے بجائے خود فوج کے وجود کا دفاع کرتے رہنے پر مجبور کیا جائے۔

گزشتہ چند سالوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ ایک طرف عسکری دہشت گردی کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرپرستی اور دوسری جانب فوج سے اس دہشت گردی کے مقابلے کا مسلسل مطالبہ باہم کتنا متضاد اور متصادم ہے ۔ ساتھ ہی کرپشن ، اقرباء پروری ، بد نظمی ، بد انتظامی کے ساتھ ساتھ نظریاتی انتشار کی حوصلہ افزائی کتنے سنگین جرائم ہیں جن کا ایک ساتھ ارتکاب جمہوریت کی آڑ میں کیا جا رہا ہے۔ موجودہ سیاسی نظام کو جمہوریت کہا جائے یا ایسی ڈھال جس کی اوٹ میں تمام قومی جرائم بلا روک ٹوک کئے جا رہے ہیں۔

کشمیر اور مسئلہ کشمیر پر مشکل اور پیچیدہ اقدامات کو ایک طرف رکھ لیں ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع قائد اعظم کے سیاسی جانشین اور تحریک آزادی کے عظیم سالار چوہدری غلام عباس ؒ کے مزار سے ملحقہ پچاس سالہ پرانی زمین پر CDA نے پنجاب پولیس کے پہرے میں دن دیہاڑے قبضے کی کوشش کی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مزار سے متصل موجود دفاعی قوتوں نے اپنی جائز ضرورت کے لئے مفصل سروے اور تیاری کے باوجود راستے کا استعمال مزار کے تقدس اور احترام کے باعث ترک کر دیا لیکن مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت نے مل کر اس کے ایک حصے پر جبراً سڑک تعمیر کر کے قبضے کی کوشش کی۔ ان دونوں حکومتوں کو نہ جانے کیوں یہ غلط فہمی کہ چوہدری غلام عباسؒ کسی لاوارث شخص کا نام نہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام اس مزار کو اسی احترام سے دیکھتے ہیں جس سے پاکستان میں محب وطن لوگ قائد اعظم کے مزار کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے انہیں غلط فہمی نہ رہے کہ ان جبری قبضوں کو دیر تک قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اس پر مسلم کانفرنس نے احتیاط کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ تاکہ سنجیدہ حلقے اس کا ازالہ کریں بصورت دیگر اس مجرمانہ فعل پر کسی بھی وقت ملک گیر رد عمل ہو سکتا ہے۔

بہر طوراس با ت کے ذکر کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں مزار قائد اعظم کی بے حرمتی کے واقع پر خاموشی سے چوہدری غلام عباسؒ کے مزار کی بے حرمتی کی کوشش تک درجنوں ایسے واقعات ہیں جو ملک کی نظریاتی پیخ کنی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ میثاق جمہوریت کے تحت جو خرابی ایک نہ کر سکے دوسرا فریق اس کی مدد کے لئے موجود ہوتا ہے۔ کبھی میڈیا کے بعض غیر ذمہ دار عناصر کے ذریعے اور کبھی میثاق جمہوریت کے شرکاء اور فریقوں کے ذریعے پاکستان مخالف مقاصد کی تکمیل کی جا رہی ہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دفاعی اداروں نے ملک کے اندر اور باہر کئی محاذوں پر پاکستان کی نیک نامی کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں۔ زرداری صاحب کی چیخ و پکار بذات خوداس کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔ سیاسی غیرت کے تقاضے تاریخ میں بالکل مختلف طور پر درج ہیں۔ کراچی میں ہزاروں اموات پر صوبائی اور مرکزی حکومت کا رد عمل ان اموات سے بھی زیادہ افسوس ناک اور دلخراش ہے۔ مرنے والوں کے ورثاء پانی اور بجلی کے نہ ہونے کے باعث اپنے پیاروں کی نعشیں ہوٹلوں کے کمروں میں رکھنے پر مجبور ہیں۔ اجتماعی تدفین کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک ایک قبر کی اچھی جگہ ایک ایک لاکھ روپے تک فروخت ہو رہی ہے لیکن ہم جمہوریت کے تقدس پر پوری قوت سے پہرہ داری کر رہے ہیں۔

ہمارے مقتدر اداروں نے یقیناًاس پہلو پر کام کیا ہو گا تاہم اس پر غور کیا جائے کہ ملک میں جمہوریت کی آڑ میں کی جانے والی دانستہ اور منصوبہ بند خرابیوں کے حوالے سے دنیا کے اہم مراکز کو اعتماد میں لیا جائے کہ اگرامریکہ، چین ، برطانیہ، روس اور یورپ میں کہیں بھی ایسی خرابیاں کی جائیں تو وہاں کی حکومت اور قانون کا رد عمل کیا ہو گا جو یقیناًواضح ہے تو دوسرے مرحلے میں ان جرائم کے مجرموں کی سزاو جزاء کے حوالے سے ان ممالک کی رائے معلوم کی جائے ۔ جب یہ سارا عمل اطمینان بخش طور پر مکمل ہو جائے تو ان حکومتوں کو مجرموں کے نام پتے اور چہرے بھی دکھائے جائیں اور یہ مطالبہ کیا جائے کہ اگر کسی وقت پاکستان میں قانون حرکت میں آئے تو ان ممالک کے میڈیا اور سفارت کاروں کو انسانی حقوق کی بے حرمتی کا دورہ نہیں پڑنا چاہئے۔

زرداری صاحب کی دھمکیاں بہت قابل غور ہیں ۔ ان دھمکیوں میں اندرون و بیرون ملک پاکستان مخالف عناصر کا ایک واضح پیغام موجود ہے۔ یقیناًاسے پڑھا اور سمجھا جا رہا ہو گا۔ حاکم علی زرداری مرحوم کے برطانیہ کے اخبارات اور ٹی وی انٹرویوز ، کارگل انکوائری ، ممبئی حملہ کیس اور دیگر اہم ایشوز پر میثاق جمہوریت کی پالیسی کو سامنے رکھ کر اقدامات کی ضرورت ہے۔

زرداری صاحب کا خیال تھا کہ فوج کے خلاف دھمکیوں کے رد عمل میں وہ فوج مخالف قوتوں کے ہیرو بن کر سامنے آئیں گے ۔ انہیں یاد نہیں رہا کہ وقت مختلف ہے ۔ سوری زرداری صاحب آپ نے رانگ نمبر ڈائل کیا ہے۔

ایک وقت تک پاکستان کے دشمن عناصر افواج پاکستان کو ہی پاکستان سمجھتے تھے جو یقیناًدرست تھا لیکن سیاست دانوں کی پے درپے ناکامیوں نے دوست دشمن سب پر یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دیر پا معاملات ملک کی دفاعی قوتوں کے ساتھ ہی کئے جا سکتے ہیں۔

یاد آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مسلم کانفرنس کے اندرونی توڑ پھوڑ (جیسے آج کل کی جا رہی ہے)کے بعد جب کام نہ بنا تو آزاد کشمیر کی تمام کی تمام معروف سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو پیپلز پارٹی میں شامل کر لیا گیا تب بھی بات نہ بنی تو مجا ہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کو (18 ماہ)ڈیڑھ سال کے لئے قید وبند میں ڈال دیا گیا۔ وجوہات نظر بندی کے جواب کا موقع ہر سیاسی قیدی کے پاس ہوتا ہے۔اسی کا استفادہ کرتے ہوئے سردار عبدالقیوم خان نے اس وقت کے سیکرٹری داخلہ کو جو جواب لکھا وہ چالیس سے زائد صفحات پر مشتمل تھا ۔ جسے مجاہد اول کے ایک دیرینہ ساتھی ،رفیق اور عظیم مسلم کانفرنسی رہنما مرحوم سید فرید شاہ گیلانی نے فیڈرل سیکورٹی فورس(FSF) کی وحشت و بربریت کے باوجود کسی طرح کتابچے کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کیا جسے ہم نے بعد میں مجاہد اول کی معروف کتاب ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے آخری حصے میں شامل کر لیا گیاہے۔

مرحوم فرید شاہ نے اس کتابچے کا نام ’’ جمہوری نازی ازم‘‘رکھا ۔ خط بظاہر سیکرٹری داخلہ کے نام تھا لیکن روئے سخن ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کی جانب تھا ۔ اس میں سردار عبدالقیوم خان نے لکھا کہ ’’ مجھے حیرت ہے کہ ہندوستان ہمارے ملک میں اپنے ایجنٹ پیدا کرنے اور اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے لئے اتنی محنت کرتا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے ، بدنامی مول لیتا ہے۔اس کے بجائے انہیں چاہئے کہ آپ لوگوں کو تلاش کر لیں اور آپ سے رابطہ کر لیں تو ان کی ساری ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے مجاہد اول سے لیکر ہم تک سب کو علم ہے کہ پیپلز پارٹی میں بھی بہت محب وطن اور اعلی درجے کے لوگ موجود تھے اور اب بھی ہیں لیکن مقصد ان عناصر کی نشاندہی کرنا تھا جنہیں ہر دور میں بے نقاب کرنا ملکی سالمیت کے تقاضوں میں سے ہے۔

زرداری صاحب نے جب کہا کہ جرنیل چند سالوں کے لئے آتے ہیں اور ہم مستقل ادھر ہیں تو اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ جنرل راحیل شریف صاحب آپ کے تین سالوں میں سے کافی وقت گزر چکا ہے اور جو باقی ہے اسے ہم ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے گزار لیں گے لیکن آپ کو اپنے اہداف پورے کرنے کا موقع خدانخواستہ نہیں دیں گے۔

پاکستان کو لوٹنے کے کیا کیا ذرائع استعمال نہیں ہو رہے؟ آپ اسلام آباد میں بیٹھ کر بلیک منی (کالے دھن) سے دوبئی میں پلاٹ خریدیں اور اپنا دھن سفید کر لیں ۔بلاول بھٹو ہاؤس اور الطاف حسین یونیورسٹی اس دور کا وہ شاہکار مذاق ہیں جن پر کئی مرتبہ PHD کی جا سکتی ہے۔

میری تجویز ہے کہ بلاول بھٹو ہاؤس کی عمارت میں تعلیم یا صحت کا ادارہ قائم کیا جائے اور پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین نام کی کسی زندہ مردہ نامور شخصیت کو تلاش کر کے حیدر آباد کے منصوبے کو اس سے منسوب کیا جائے۔ ویسے بھی ملک میں ایک فائیو سٹار جیل کی ضرورت ناگزیر ہے جہاں سہولتیں بہترین درجے اور سزائیں بدترین سطح کی دی جا سکتی ہوں۔ بلاول بھٹو ہاؤس اس کام کے لئے بھی موزوں جگہ ہے۔

سیاستدانوں اور حکمرانوں کو نجومیوں کے بجائے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ اخبارات اور بالخصوص ہمارے دیرینہ مہربان دوست سینٹر طارق چوہدری کے کسی دوست پروفیسر غنی نے لیڈروں کو جولائی کے مہینے سے اتنا ڈرا دیا ہے کہ وہ ہفتوں مہینوں ملک سے باہر رہنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ پروفیسر مذکور کو عزرائیل علیہ السلام نے بتایا ہو کہ انہیں پاکستان سے باہر کا لوگوں کا اتہ پتہ شاید معلوم نہیں ہوتا۔ پروردگار عالم ہم پر رحم کرے۔ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ چوینڈا سے لیکر ملک کی سرحد کے کونے کونے میں فوجی جوان رضا کارانہ جان دیکر ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں اور کئی زندہ لاشیں اس زمین پر بوجھ بنی بیٹھی ہیں۔

وزیر ستان اور دیگر جگہوں پر ملکی دفاع کے لئے جانے والے کسی حساب دان سے نہیں اپنے ضمیر سے پوچھ کر اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے جاتے ہیں۔ علامہ نے تو اس سے بھی آگے کی بات کی ہے ۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات۔۔۔۔۔۔ مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

میری پختہ رائے ہے کہ ملک میں بلا تاخیر تیسری سیاسی قت کو منظر عام پر آکر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ راقم کا مار چ 1995 ء سے اب تک اصرار ہے کہ ملک کو تنہا ء سیاستدانوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ افواج پاکستان کے کردارو کو آہنی تحفظ فراہم کیا جائے۔ مضبوط اور طاقتور نیشنل سیکورٹی کونسل قائم کی جائے۔ آئین میں58/2-B بحال کر کے فوجی امور کے ماہر کسی سابق جرنیل کو صدر منتخب کیا جائے تاکہ چین پاک اقتصادی راہداری،شنگھائی معاہدے اور اسطرح کی دیگر اہم تبدیلیوں سے پوری طرح ہم قدم ہوا جا سکے۔

sardar attique ahmed khan
About the Author: sardar attique ahmed khan Read More Articles by sardar attique ahmed khan: 17 Articles with 12217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.