گمنام فلاحی رضا کار

ہر دوسرا شخص خودنمائی اور شہرت کا متقاضی ہوتا ہے۔ دولت ، عزت اور شہرت کے حصول کیلئے انسان بڑی تگ و دو کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسے افراد ، تنظیمیں، اور نجی اداروں کی تعداد وافر مقدار میں موجود ہے جو اپنے فلاحی کام مخص نمود و نمائش کیلئے کرتے ہیں ۔ وطن عزیز میں موجود این جی اووز کاتو اس معاملے میں وطیرہ ہی سب سے نرالہ اور یکسر مختلف ہے۔ وہ اپنے کردہ اور ناکردہ کاموں کی تشریخ اور تشہیر کیلئے بڑی رقوم مختص کرتی ہیں جنہیں وہ اشاعتی اداروں کے ذریعے اپنے کم کام کو بہت زیادہ اور بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اپنے ان مذموم مقاصد میں یہ این جی اووز عموما کامیاب ہی رہتی ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار ایسی ہی تنظیموں کو اہمیت دیتے ہیں اور فلاحی منصوبوں سے متعلق ان کی (نام نہاد) خدمات کے پیش نظر انہیں نوازتی ہیں۔ جس کے منفی اثرات رعایا کے ساتھ معاشرے میں کام کرنے والی دیگر این جی اووز، تنظیموں ، اداروں اور انفرادی حیثیت میں کام کرنے والوں پر پڑتے ہیں۔

رمضان المبارک کے آمد کے ساتھ ہی جہاں نیک کام کرنے کی کوشش کا جذبہ نمایاں ہوجاتا ہے وہیں انفرادی اور اجتماعی طور پرانسانیت کی فلاح و بہود کے ذریعے اﷲ کی رضا کے حصول کیلئے عملی کاوشیں اور اقدامات نظر آتے ہیں ۔ شہر قائد جو منی پاکستان کہلاتا ہے اور اس منی پاکستان میں ہر رنگ و نسل کے لوگ رہائش پذیر ہیں ۔اس شہر میں ہر تہوار کو بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے ۔ وہ ہندوؤں کا دیوالی کا تہوار ہو ، عیسائیوں کے ایسٹر و کرسمس کو، یا مسلمانوں کے رمضان عید کا ۔ شہر قائد کے باسی اپنے طور پر اپنے تہوار کو خوب مناتے اور دوسروں کے تہوار کا احترام کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے جسے قائم رہنا چاہئے۔

رمضان کے آمد کے ساتھ ہی شہر قائد میں جو ملکی تاریخ کی شدید ترین گرمی کا راج رہا اس کے ثمرات ابھی تک موجود ہیں۔ شہر میں گرمی کے ماروں کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں میں ہوگئی ہے۔ گوکہ گرمی کی اس شدت میں کسی حد تک کمی واقع ہوچکی ہے تاہم اموات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان حالات میں شہر قائد میں ٹھنڈا پانی ، برف ہر شہری کی اولین ترجیحات بن گئیں۔ برف بنانے والی کمپنیاں اس گرمی کے موسم میں عوامی ضروریا ت کو پورا کرنے میں قطعی ناکام رہیں ۔ عام شہری اس صورتحال کا اپنے تئیں مقابلہ کر ہی رہے ہیں ان سے زیادہ قابل رحم صورتحال ہسپتال میں موجود مریضوں اور ان کے تیمارداروں کی ہے۔ شہر قائد کے دیگر علاقوں کی طرح ہسپتالوں میں بھی بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے جس سے مریضوں کی تکالیف میں اضافہ ہواہے۔ بجلی اور پانی کی کمی کی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر میں تاحال جاری ہے ۔ شہر میں جلاؤ گھیراؤ مظاہرے معمول بن گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود مسائل کا حل ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

ایسے حالات میں کہ جب پانی کی کمی ہو، بجلی کسی حد تک ناپید ہو ، سکون کے چند لمحے گذرنا مشکل ہو ایسے حالات میں شہر قائد کے سب سے بڑے ہسپتال جے پی ایم سی کے بچہ وارڈ (این آئی سی ایچ ) میں کچھ گمنام سماجی رضاکار اپنی تمام تر مصروفیات ، آرام اور کاموں کو ایک جانب رکھ کر مریضوں ، ان کے تیمارداروں کو ٹھنڈا پانی پہنچانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ وہ لوگ کسی نمود و نمائش کے بغیر رات کی تاریکی میں ہر ہر مریض کے پاس پہنچ کر اس کے بستر کے سرہانے ٹھنڈا پانی دئے رہے ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ ہی ہسپتال کے عملے کو بھی پانی کی بوتلیں دے رہے ہوں تو بے اختیار ان کے اس جذبہ خدمت کو سلام کیا جانا چاہئے ان کا یہ جذبہ نہایت قابل تعریف ہے جو بغیر کسی دنیاوی غرض کے مخص اﷲ کی رضا کیلئے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ جناح ہسپتال کے کئی وارڈ سمیت بچوں کے وارڈ این آئی سی ایچ میں گذشتہ کئی عشروں سے یہ رضاکار اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا نام ، کام کی تفصیل ، اور مکمل تعارف جاننے کیلئے ان سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ ہم اﷲ کے بندے ہیں ، اس کی مخلوق کی خدمت کر رہے ہیں ۔ جس کی رضا کیلئے یہ کام کر رہے ہیں اسے ہمارا نام اور کام سب پتہ ہے ۔ بس وہ اس کام کو اپنی بارگاہ میں قبول کر لے۔

باریش درمیانی عمر کے اس شخص کی یہ بات ان لوگوں کیلئے اک راہ عمل ہے جو اپنی ذرا سی نیکی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور میڈیا کے ذریعے نشر کرواتے ہیں۔ ان صاحب نے مزید اپنے کام کے حوالے سے بتایا کہ وہ صاف پانی ہسپتالوں میں پہلے بھی پہنچایا کرتے تھے تاہم حالیہ گرمی کی لہر کے بعد ان کے اس کام میں تیزی آگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے وارڈ ( واضح رہے این آئی سی ایچ کئی منزلوں مشتمل ہے)میں وہ روزانہ تراویح کے بعد اپنے بچوں اور دیگر احباب کے ہمراہ صاف پانی اور برف کو سوزوکیوں میں رکھواکر تقسیم کراتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ اس کام میں ان کے کئی گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں اس دورا ن ہسپتال کے عملے کا تعاون جاری رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ این آئی سی ایچ کے کئی منازل پر وہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر واٹر کولر لگانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ مریضوں اور ان کے تیمارداروں سمیت ہسپتال کاعملہ ٹھنڈے پانی سے مستفید ہوسکے۔ استفسار کے باوجود انہوں نے اپنا نام اور مکمل تعارف کرانے سے گریز کیا ۔ موصوف کے کئی ساتھی پلاسٹک کی ڈیڑھ لیٹر صاف اور سادہ بوتلوں میں سوزوکی میں رکھی فلٹرسے پانی سے بھر رہے تھے ۔ دیگر افراد انہیں ترتیب سے کریٹوں ، تھالوں اور ٹرے میں رکھ رہے تھے ۔ ان کے علاوہ دیگر چند افراد ان تیار شدہ بوتلوں کو این آئی سی ایچ کی مختلف منازل پر داخل مریضوں کو پہنچا رہے تھے۔ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے بعداین آئی سی ایچ کے اک مختصر دورے میں قریبا سبھی مریضوں کے پاس وہ صاف پانی کی بوتلیں نظر آرہی تھیں۔

یہ باریش اور اس کے ساتھی کون تھے ، کہاں سے آئے تھے اور کیا کرگئے ان سولات کے جوابات رات کے کسی پہر این آئی سی ایچ جاکر معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ پانی کی ٹھنڈی بوتل پالینے کے بعد سکھ اور خوشی کا وہ احساس جو مریض یا اس کے تیماردار کے چہرے ہر نظر آتا ہے وہ ناقابل تحریر ہے۔ اس گمنام سماجی رضاکارکی یہ بات قابل ذکر ہے کہ میرا نام اور میرا کام وہ جانتا ہے جس کیلئے میں یہ سب کر رہا ہوں ۔یقینا ان کا یہ جذبہ قابل قدر ہے اور ان تمام کیلئے مشعل راہ بھی جو انسانیت کی خدمت مخص اﷲ کی رضا کیلئے کرنا چاہتے ہیں۔
Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 162405 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More