افغانستان کا مستقبل

افغانستان کا مستقبل کیا ہے ۔ کیا ایک دفعہ پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی ؟ یہ وہ سوال ہے جس پر آج ہر جگہ بحث کی جارہی ہے ۔ طالبان کے بڑھتے ہوئے حملے اور غیر رسمی مذاکرات کا نتیجہ آخر کا ر کیا نکلے گا، اس پر نہ صرف افغان حکومت تذبذب کا شکار ہے بلکہ افغانستان میں امن کے لیے کوشش کرنے والے ممالک خاص کر پا کستان کو بھی تشویش سے دو چار کر دیا ہے کہ جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو پھر طالبان کی جانب سے حملوں میں تیزی کا مطلب کیا ہو سکتا ہے ۔ افغان سکیو رٹی فورسز اور عمارتوں پر طالبان کے پے درپے حملوں میں گزشتہ چند مہینوں میں کافی اضافہ دیکھنے کو آیا ہے ۔ حالیہ حملوں کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ طالبان کی قوت میں پہلے سے اضافہ ہوا ہے ۔طالبان چودہ سال طویل عر صہ گزرنے کے باوجو د بھی اس پوزیشن میں اپنے آپ کو باآور کررہے ہیں کہ وہ آج بھی افغانستان کی حکومت سنھبال سکتے ہیں جس کا اندازاس طرح بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ طالبان نے کئی صوبوں میں شیڈو حکومت بنائی ہے کچھ دن پہلے ہی انہوں نے صوبہ قندوزمیں دو اضلاع پر قبضے کیا تھاا س کے بعد طالبان نے مشرقی صوبے نورستان کے ضلع وانٹ وایگل پر قبضہ کر لیا ہے ۔ طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کے مطابق لڑائی میں افغان فو جیوں کو قتل کر کے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی لے لیا گیا جبکہ ضلع کے حکومتی سر براہ مولوی رحمت نے میڈ یا کو بتا یا کہ حکومتی فورسز حملے کی صبح ساڑھے پانچ بجے ضلع سے نکل گئی تھی۔اس کے علاوہ گزشتہ روز طالبان نے جنوبی صوبہ ہلمند میں پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کر کے بیس سے زائد پو لیس اہلکاروں کو مار دیا تھاجب کہ اس سے پہلے بھی ہلمند کے دوسرے اضلاع میں طالبان نے حملے کر کے بہت سے پولیس اہلکاروں کو قتل کیا اور بڑی تعداد میں اسلحہ بھی قبضے میں لیا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس سے پہلے طالبان نے جلال آباد میں پولیس ہیڈ کوارٹرزپر خود کش حملہ کیا تھا جس میں بھی دس افراد مر گئے تھے لیکن ان تمام حملوں سے زیادہ المناک حملہ طالبان کا کابل میں پارلیمنٹ پر حملہ ہے جس نے مز ید بہت سے سوالوں کو جنم دیا ۔اس حملے میں جانی نقصان تو کم ہوا یعنی ایک بچی اور خاتون ٹارگٹ ہوئی لیکن سوالات بہت سے پیدا ہوئے کہ طالبان کی قوت آج بھی اتنی ہے کہ وہ پارلیمنٹ پر حملہ کر سکتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاید وہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے اور وہ یہ باآور کر رہے ہیں کہ ہمارا مستقبل پارلیمانی نظام نہیں بلکہ کچھ آاور ہے ۔

تجز یہ کاروں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ پر حملہ دراصل مذاکراتی عمل جو ا بھی تک باقاعدہ طور پر شروع بھی نہیں ہوا ہے اس کو سبوٹاژ کرنے کی کوشش ہے کہ طالبان مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے بلکہ بندوق کے زور پر حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ بھی کہا جارہاہے کہ بعض عناصر افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات نہیں چاہتے بلکہ ان کی کوشش ہے کہ اشرف غنی حکومت اور پاکستان کے درمیا ن تعلقات کو خراب کیا جائے اور امن کے لیے کی جانے والے مشتر ک کوشیش ناکام ہو جائے۔ پا رلیمنٹ پر حملے کو بھی بعض عناصر نے پا کستان سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان میں موجود افغان سفیر جانان موسی زئی کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت میں کچھ لوگ مذاکرات کے حامی ہیں ۔ امید ہے کہ ملاعمر بھی مذاکرات کی حمایت کر یں گے۔افغان سفیر کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی میز پر نہ آنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پا کستان مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان خوش قسمت ہے کہ ان کے پا کستان اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہے۔ دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے افغان طالبان کے خلاف پا کستانی قیادت کو خط لکھا جس میں کہا کیا ہے کہ پا کستان افغان طالبان کے خلاف سخت کارروائی اورانسداد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مز ید تعاؤن کر یں۔پا کستانی فورسز خود قبائلی علاقوں میں جاری آپر یشن ضرب عضب میں مصروف عمل ہے جس میں اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق تین ہزار کے لگ بھگ دہشت گردوں کو مارا گیا ہے مز ید کارروائی بھی کی جارہی ہے لیکن پا کستان کے یہ بھی تحفظات ہے کہ قبائلی علاقوں سے جانے والے شدت پسند افغانستان سے پا کستانی فورسز پر حملے کر رہے ہیں جس سے پا کستان کو نقصان ہو رہا ہے جب کہ افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر نا افغان حکومت کاکام ہے پا کستان کا نہیں ۔

مو جود حالات کے پیش دونوں ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرحدی علاقوں کی حفاظت کے لیے مشتر ک حکمت عملی بنائے ۔دوسر ا اہم کام افغان پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ امن کے لیے پا کستان اور افغان حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہد ے میں اشرف غنی حکومت کا ساتھ دیں ۔ افغانستان میں بھارتی لابی کی مسلسل کوشش ہے کہ اشرف غنی حکومت کی پا کستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہو بلکہ پا کستان کے خلاف افغان عوام میں غلط فہمیوں کو پیدا کی جائے ،۔بحر کیف دونوں ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان سازشوں کو ناکام بنا دے جو ان کے خلاف ہو رہی ہے ۔مو جود حالات کے پیش نظر افغان حکومت کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی چاہیے اور جلد از جلد افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر نے چاہیے ۔ اب افغانستان کی پوز یشن یہ ہے کہ ایک طرف طالبان لڑ رہے ہیں تو دوسری جانب افغان فورسز ان کا مقابلہ کر رہی ہے عملی طور پر اتحادی افواج نے افغان حکومت کو اکیلے چھوڑ دیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں آنے والے دنوں میں پر تشدد کارروائیاں مز ید بڑ ھ جائے گی یا کو ئی تاریخی معاہدہ طے پا سکتا ہے جس کا فیصلہ خود افغان حکومت اور طالبان نے کر نا ہے کہ وہ آخر کب تک افغان سر زمین کوآگ میں جلنے دیں گے ۔ یہ آگ کوئی آور نہیں بلکہ افغانیوں نے خود بجانی ہے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 202696 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More