BBC کا کھڑاک

پیپلزپارٹی او رمتحدہ قومی موومنٹ دو ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں بہت کچھ مشترک۔ کرپشن دونوں کو محبوب ومرغوب،ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری اورزمینوں پرقبضے کے الزامات دونوں پر ،بڑھک بازی میں دونوں لاثانی۔ متحدہ کے قائدالطاف حسین تو’’بڑھکیں‘‘لگاتے ہی رہتے ہیں اور بقول خواجہ آصف ’’یہ لوگ عشاء کے وقت بات کرکے سحرکے وقت معافی مانگ لیتے ہیں‘‘ لیکن جنابِ آصف زررداری نے پہلی بارکھل کراسٹیبلشمنٹ سے ’’مَتھا‘‘ لگایااورپھر چاروناچار معذرت کیے بغیراپنے خاندان سمیت دبئی ’’پھُر‘‘ ہوگئے ۔ بلاول زرداری البتہ ایک دفعہ پھراپنے باپ سے بغاوت کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالنے پاکستان لَوٹ آئے ۔کہاجا سکتاہے کہ جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سماسکتیں اُسی طرح اب پیپلزپارٹی میں بھی’’دو زرداری‘‘ نہیں سما سکتے۔ شنیدہے کہ زرداری صاحب امریکہ پہنچ بھی چکے ،امریکہ سے واپسی کب ہوتی ہے یہ اﷲ جانے یازرداری صاحب۔اویس مظفرٹَپی اپنے بھائی کی لاش لینے لندن پہنچے اورپھر وہیں کے ہورہے۔ زرداری صاحب کی بہن فریال تالپوربھی اپنے ’’فرنٹ مین‘‘ محمدعلی شیخ کی گرفتاری اورانکشافات کے بعدبیرونِ ملک کھسک گئیں اور زرداری صاحب کے اِدھراُدھر بسنے والے احباب اورآفیسرزبھی یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سَرسے سینگ۔باقی بچی’’بیچاری‘‘ ایان علی یاپھر اُس کے’’باڈی گارڈ‘‘ فاروق ایچ نائیک اورلطیف کھوسہ۔ وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے پہلے تواپنی پریس کانفرس میں ایان علی کو ’’بیچاری‘‘ کہہ دیالیکن پھرالیکٹرانک میڈیا کے خوف سے فوراََ ہی وضاحت بھی کردی کہ ایان علی تومحض ایک ’’ذریعہ‘‘ ہے اِس لیے اُسے بیچاری کہا۔ وہ تواُس’’خفیہ ہاتھ‘‘ کی تلاش میں ہیں جس نے اِس بیچاری ، معصوم، بھولی بھالی ماڈل کوگرفتارِبَلا کردیا ۔ چودھری صاحب بتائیں کہ ایان علی کوجیل میں دی جانے والی وی ، وی ،وی ،آئی پی سہولیات کیا حکومت کی طرف سے ہیں یااُسی ’’خفیہ ہاتھ‘‘ کی طرف سے جس نے بقول چودھری صاحب ایان علی کو’’گرفتارِبَلا‘‘کیا؟۔ حضرت عمرؓ نے تو فرمایاتھا ’’اگرکسی کی وجاہت کے خوف سے قانون کاپلڑا اُس کی طرف جھُک جائے توپھر اﷲ کی بادشاہت اورقیصر وکِسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہے؟‘‘لیکن یہ کیسی اسلامی حکومت ہے جس میں ایان علی کوتمام سہولیات ،حتیٰ کہ میک اَپ کی سہولت بھی بہم پہنچائی جارہی ہے ؟۔وہ گردن پر ’’ٹیٹو‘‘ بنائے پورے طمطراق سے عدالت میں یوں آتی ہے جیسے امریکی ’’خاتونِ اوّل‘‘۔ جیلرصاحب سے پوچھاجا سکتاہے کہ ایان علی کومیک اَپ کروانے کے لیے ’’بیوٹی پارلر‘‘ بھیجاجاتا ہے یا پھرجیل میں ہی بیوٹی پارلرکھول دیاگیا ہے۔

آمدم بَرسرِمطلب ،زرداری صاحب نے ہمارے سپہ سالارکا نام لیے بغیریہ ’’بڑھک‘‘ لگائی کہ ’’آپ نے تین سال بعدچلے جاناہے ،پھرہم نے ہی رہنا ہے‘‘۔ جواباََہم نے اُسی دِن(18 جون کو) اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ جنرل صاحب نے توتین سال بعدبھی اِدھرہی رہناہے البتہ زرداری صاحب کا ’’کَکھ‘‘ پتہ نہیں کہ وہ دبئی میں مستقل سکونت اختیارکرتے ہیں یا لندن میں‘‘لیکن یہ ہمیں بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی ’’کھسک‘‘ لیں گے۔۔۔۔پیپلزپارٹی اورایم کیوایم میں بہت کچھ مشترک ہونے کے باوجودایک واضح فرق کہ پیپلزپارٹی اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود محبِ وطن لیکن متحدہ کی حب الوطنی پرعشروں سے سوالیہ نشان۔ اب BBC کے صحافی اون بینٹ جونزنے اپنی ڈاکومینٹری میں جو ’’کھڑاک‘‘کیا اُس سے توپورا پاکستان ہِل کے رہ گیا۔ اُس نے یہ ہولناک انکشاف کیاکہ گزشتہ 10 سالوں سے بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی طرف سے متحدہ کے کارکنوں کو تربیت دی جارہی ہے اور’’را‘‘ اِن تربیت یافتہ کارکنوں کو نہ صرف اسلحہ بلکہ مالی امدادبھی دیتی ہے۔ سوشل میڈیاپر ایم کیوایم کے رہنماء اوررابطہ کمیٹی کے سابق رُکن طارق میرکا برطانوی پولیس کو30 مئی 2o12ء کودیا گیابیان بھی آگیا جس میں طارق میرنے اعتراف کیاکہ ایم کیوایم کے 1994ء سے بھارت سے رابطے تھے ،ایم کیوایم کے کارکنوں کو تربیت کے لیے بھارت بھجوایاجاتا تھااور ایم کیوایم کوبھارت سے سالانہ 8 لاکھ پاؤنڈرقم ملتی تھی جوالطاف حسین کودے دی جاتی ۔گزشتہ دنوں ایس ایس پی کراچی راؤ انوارنے بھی اپنی پریس کانفرنس میں ایسے ہی الزامات لگائے جس کی بناپر اُن کاتبادلہ کردیا گیا۔ وزیرِدفاع خواجہ آصف صاحب نے بھی ’’شرم کرو، حیاکرو‘‘ کی گونج میں کہاکہ متحدہ کی لوڈشیڈنگ ہونے والی ہے اوریہ شام کو ’’استغفار‘‘کرتے نظرآئیں گے ۔اُسی دِن برطانوی صحافی اون بینٹ جونزکی ڈاکومینٹری سامنے آگئی جس کی بناپر یہ شورمچاکہ خواجہ صاحب کوپہلے سے ہی علم تھا ۔ہم اپنے سیالکوٹی خواجہ صاحب کو’’ہَتھ ہَولا‘‘ رکھنے کی استدعاکرتے ہوئے یہ ضرورکہنا چاہیں گے کہ حکومت کی جانب سے ایساکوئی بیان سامنے نہیں آنا چاہیے جس سے یہ تاثرپیدا ہوکہ یہ سب کچھ حکومتی ایماء پرہو رہاہے۔

ایم کیوایم ایک سیاسی حقیقت ہے لیکن اُسے اپناوجود برقراررکھنے کے لیے اپنی صفوں سے شَرپسند عناصرکو نکالنا ہوگا البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ ’’الطاف بھائی‘‘کی قیادت میں ایسا ہوتانظر نہیں آتا۔ چاہیے تویہ تھا کہ الطاف حسین اپنے خطاب میں کہتے کہ ایم کیوایم برطانوی عدالت میںBBC کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ کررہی ہے مگروہ تواُلٹا دھمکیوں پر اُترآئے۔اُنہوں نے کہا’’وزیرِاعظم ایم کیوایم کے ساتھ ’’مَتھا‘‘ نہ لگائیں۔حکومت اوراسٹیبلشمنٹ بتائے کہ ہمیں جینے دیناہے کہ ہمارے ساتھ لڑناہے۔ہم اوپرسے لوڈشیڈنگ کرسکتے ہیں،نیچے سے بھی۔ وزیرِدفاع کی حرکتوں سے پاکستان کا دفاع تونہیں ہوسکتا ،پاکستان دفع ضرورہو سکتاہے‘‘۔ عرض ہے کہ جس نے پاکستان سے ’’دفع‘‘ ہوناتھا وہ تو1992ء میں ہی رات کے اندھیرے میں ’’دفع‘‘ ہوچکا۔ اب اورکِس کِس نے ’’دفع‘‘ ہوناہے، اِس کافیصلہ محبِ وطن پاکستانی کریں گے۔

بھارت تو تشکیلِ پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کے ’’ضمیرفروشوں‘‘ کی خریداری میں مَگن ہے۔ قائدِاعظم نے توقیامِ پاکستان کے 70 دِن بعد، 24 اکتوبر 1947ء کوہی ایک منظم منصوبے کاذکر کردیا تھاجس کامقصد پاکستان کومفلوج کرکے اتنامجبور کردینا تھاکہ وہ خودانڈیا میں شمولیت کی استدعاکرے۔ اُس وقت کاوزیرِاعظم جواہرلال نہروتو جہنم واصل ہوا لیکن اُس کی بیٹی اندراگاندھی پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں محض اِس لیے کامیاب ہوگئی کہ تاریخی حقائق کے مطابق شیخ مجیب الرحمٰن تو1962ء سے ہی ’’را‘‘ کے ہاتھوں میں کھیل رہاتھا اوراُس نے اُسی سال پاکستان سے علیحدگی کے لیے ایک خفیہ تنظیم کی بنیادبھی ڈال دی تھی۔الطاف حسین شایدیہ بھول گئے کہ 1971ء اورآج کے حالات میں بہت فرق ہے۔ اُس وقت مشرقی اورمغربی پاکستان کے درمیان ہزارمیل لمبی سرحدپر مکاردشمن براجمان تھا لیکن اب ضمیرفروش توموجود لیکن سرحدکوئی نہیں ۔اگر ثابت ہوگیاکہ برطانوی صحافی نے جو کچھ کہا وہ سچ تھاتو پھرکراچی کے محبِ وطن شہری ہی ایم کیوایم کونیست ونابود کرنے کے لیے کافی ہیں۔ الطاف حسین کہتے ہیں ’’ایم کیوایم کوختم کرناپاکستان کاخاتمہ ہے‘‘۔ پتہ نہیں الطاف حسین کویہ زعم کیسے ہوگیاکہ متحدہ اورپاکستان لازم وملزوم ہیں۔ اگروہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج مکتی باہنی کے روپ میں لڑی ویسی ہی کوئی سازش کراچی میں بھی پنپ سکتی ہے تووہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں کیونکہ بھارتی کبھی گھاٹے کاسودانہیں کرتے اوروہ خوب جانتے ہیں کہ بھارت کاایک ایک شہرہمارے ایٹمی میزائلوں کے نشانے پرہے۔ وہ توضمیرفروشوں کو خریدکر صرف افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ دفاعی لحاظ سے مضبوط پاکستان اقتصادی لحاظ سے بھی مضبوط نہ ہوجائے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 863 Articles with 556095 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More