شور صحت پر منفی اثرات ڈالتا ہے

تحریر: نادیہ عزیز

شور نہ صرف انسان کی ذ ہنی اور جسمانی صحت پر مضر اثرات ڈالتا ہے بلکہ پیشہ ورانہ کارکردگی اور تفریحی عمل کو بھی شدید متاثر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سونے اور آرام کرنے کے معاملات میں بھی دخل انداز ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ شور بہت زیادہ ہو بلکہ معمولی شور بھی اسی طرح کی منفی خصوصیات کا حامل ہو سکتاہے۔ شور کی تعریف کرنا نہائیت پیچید عمل ہے کیونکہ کوئی شخص موسیقی کو تیز آواز (جو کہ شور کی زمرے میں آتی ہے) میں سن کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ جبکہ یہی عمل کسی دوسرے کے لیے سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اور شور کے زمرے میں آتا ہے تاہم صوتی آلودگی کا بہت عرصہ تک سامنا صحت میں بتدریج نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ صوتی آلودگی سے متاثرہ جسمانی نظام میں ہاضمہ ، معدہ ، دل کے امراض ، پٹھے اور جسمانی دھانچے کا متاثرہونا وغیرہ شامل ہے۔ عام طور پر شور ہمارے جسم کو تین طرح سے متاثر کرتا ہے۔

قوت و سماعت میں کمی۔ دباؤ جو محتاط جسمانی پیچیدگیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔ نیند میں کمی
سماعت میں کمی (85 ڈیسی بیل) کا بہت دیر تک اور مستقل سامنا کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ یا دوسری صورت میں شور کا سامنا تو تھوڑی دیر کے لیے کیا جائے لیکن شور بہت زیادہ ہو۔ تاہم سماعت میں کمی کے زیادہ کیس پہلی صورت کے ہوتے ہیں یعنی شور کا بہت عرصے تک سامنا کرنے کی صورت میں ایسا ہو تا ہے۔ اس کا سبسب یہ ہے کہ کان کے اندر آواز کو نشر کرنے والے بالوں کی طرح کے سیل تباہ ہو جاتے ہیں۔ جس کے بعد شور کا سامنا سماعت میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قوت سماعت میں کمی یا بہرہ پن صرف ایک دین سے نہیں ہوتا بلکہ بہت دنوں سے جمع شدہ اثرات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور یہ نقصان ناقابل تلافی ہے۔ نقصان دہ آواز سے کان کے اندر سیل نما بال اور سننے کی اعصاب پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان آوازوں کا مسلسل سامنا کرنے کی وجہ سے کان کے سیلز مختلف تبدیلیوں سے گزرتے ہیں جو آخر کار سماعت کی محرومی یا کانوں میں سنسناہٹ کا سبب بنتے ہیں ۔ بہرہ پن ایک لمحے میں ہونے والا مرض نہیں بلکہ یہ انتہائی پر شور آواز میں مستقل بنیاد پر سننے کے بعد دھیرے دھیرے ابھر آنے والا مرض ہے۔ شروع شروع میں آوازیں مبہم سنائی دیتی ہیں اور ان کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شروع میں آپ کو اس نقصان کا اندازہ نہ ہو تا ہم اس کے لیے ایک ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے ۔ ابتدا میں لوگوں کو ہر وقت گھنٹی، سر سرا ہٹ وغیرہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ بھی سکتی ہیں۔ سنسناہٹ ایک یا دو کانوں میں ہو سکتی ہے۔ اس طرح مسلسل شور کا سامنا عارضی بہرہ پن پیدا کر سکتا ہے۔ تاکہ مستقل بہرہ پن سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کئے جا سکیں۔ قت سماعت کے نقصانات سے بچنے کے لیے مختلف طریقے موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ بہرہ پن سے بچنے کے لیے قوت سماعت کے آلات مثلاً کانوں کے پلگ اور کانوں کے سمور (muffs) کو استعمال کرنا چاہیے۔ اوسطاً شور کا زیادہ انحصار انفرادی طور پر لوگوں میں حساسیت اور آواز کی بلندی اور اس کے اثرات پر ہے۔ قوت سماعت میں نقصان انسان کے سماجی ، جذباتی حالات اور پیشے پر اچھے اثرات مرتب نہیں کرتا۔ حد سے زیادہ شور نا صرف ہمارے معدے اور نظام انہظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ امراض قلب کا بھی باعث بنتا ہے۔ شور سے انسان میں دباؤ غصہ ، نفرت اور جارحیت پیدا ہوتی ہے۔ جس سے سماجی تعلقات پر برا اثر پڑتا ہے۔ شور دباؤ کی ایک بہت اہم وجہ ہے۔ خصوصاً اس وقت جب شور میں کمی نہ ہو رہی ہو۔ اگر شور ناپسند اور مخل ہو تو اس کے نتیجے شدید دباؤ کی صورت میں رد عمل سامنے آتا ہے۔ جن میں دباؤ کے ہارمون کا اخراج، دل کی دھڑکن میں تبدیلی، خون کے کولیسٹرول میں اضافہ اور نظام ہاضمہ گر بڑ شامل ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کی طویل المیعاد شور اور ہائی بلڈ پریشر کا آپس میں گہرا تعلق ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کی شور دل کی بیماریوں میں سے ایک اہم سبب ہے۔ ایسے لوگ جو جذباتی دباؤ کا شکار ہوں ان کے لیے شور زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مدت تک شور کا سامنا کرنے کے نتیجے میں دباؤ کے ہارمون کا اخراج بڑھ جاتا ہے جو مدافعتی نظام کو بگاڑ سکتے ہیں اور یہ صورتحال ایسے لوگوں کے لیے انتہائی نقصاندہ ہے۔ جو پہلے ہی ساے مدافعتی نظام کی خرابی یا کسی بیماری مثلاً کینسر یا ایڈز وغیرہ میں مبتلا ہوں۔

ناپسندیدہ آوازوں سے لوگوں کا رویہ ان کے دباؤ کے درجے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو جتنا لاچار محسوس کریں گے دباؤ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ جو شخص آواز سے جتنا تنگ ہو گا اتنا ہی شدید رد عمل ظاہر کرے گا۔ دباؤ مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے مثلاً سر میں درد، بے چینی، بے خوابی، بد ہضمی اور نفسیاتی عوارض وغیرہ۔ شور کی وجہ سے لوگوں کے آرام کرنے اور سونے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ جس کا نتیجہ دن میں سستی ، تھکن ، بے توجہی ، عدم دلچسپی اور دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ شور کسی بھی طرح کی ناپسندیدہ آواز ہو سکتی ہے۔ ٹریفک کی تیز آواز یا کسی موسیقی کے اجماع کی آواز حتیٰ کہ بعض اوقات پنکھے کی ہلکی سی آوا ز بھی متاثر کر سکتی ہے۔

شور اس بات کو طے کرتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کس طرح پیش آتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔ پرشور علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں جارحیت ، فساد اور عداوت پسندی کی عادات عام ہوتی ہیں۔ سیکھنے کا عمل بھی پر سکون علاقوں کی نسبت بہت سست ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے ذہنی سنجیدگی کے کام کرنا مشکل ہوتے ہیں۔ اور غلطیاں ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ پر شور علاقوں میں جرائم کی تعداد پر سکوں علاقوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ شور سے ابلاغ کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ لوگ ایک دوسرے سے اتفاق رائے نہیں کر سکتے اور آپس میں نفاق بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں کے سماجی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جس سے پیچیدہ سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شور کام کرتے ہوئے لوگوں پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم اپنی گاڑی کی کھڑکی بند کر دیتے ہیں تو ہمیں کافی سکون ملتا ہے۔ اس کے علاوہ شور سے دماغی طور پر انسان بے سکونی کا شکار رہتا ہے۔ مثال کے طور پر پنکھے کی آواز کانوں میں زیادہ دیر تک رہنے سے دماغ میں ایک بوجھ کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔ ہم ہر روز مختلف قسم کے شور سنتے رہتے ہیں۔ اور ہم اس شور کے عادی بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ شور بہت بری طرح سے ہمارے دماغ پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ہم شور کے نقصانات سے مختلف طریقوں سے بچ سکتے ہیں۔ مثلاً ائیر پلگ لگانے سے ہم قوت سماعت کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اچھی غذا صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اور جسمانی نظام کے دباؤ کے اثرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ مناسب نیند لینے ساے بھی ان مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ دباؤ کو کم کرنے کی مختلف تراکیب استعمال کریں مثلاً یوگا یہ دباؤ کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتاہے۔ اس کے علاوہ ورزش کریں۔ ورزش کرنے سے جسم میں دباؤ کے ہار مون سے نجات میں مدد ملتی ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 51277 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.