زید حامد اور تحریک تکمیل پاکستان

یہ زیدحامدکون ہے جسے سعودی عرب میں سزاہونے پرپاکستان میں کئی برساتی مینڈک ٹرٹرکررہے ہیں؟زیدحامدکون ہے
جاننے کے لیے میرے قابل فخرشاگردمولانامفتی محمدوقار،ایم فل،جامعہ کراچی کایہ چشم کشامقالہ ملاحظہ فرمائیے!!

زیدزمان۔ تعارف وتعلیم اورابتدائی سرگرمیاں:
زیدحامدکے زمانہ طالب علمی کے اورشروع کے دوستوں کاکہناہے کہ زیدحامد کااصل نام'' زیدزمان ''ہے،اس کاشناختی کارڈ نمبر''37405-1071347-7''ہے ،اس کاباپ فوج کاایک ریٹائرڈکرنل تھا،اس کانام ''زمان حامد''تھا،بلاک B-13،پی۔ ا ی۔ سی ۔ایچ ۔ایس سوسائٹی کراچی کے علاقے نرسری میں چنیسرہالٹ اورشاہراہ فیصل کے بیچ میں واقع KFCوالی گلی میں پیچھے اس کی رہائش تھی۔1980ء میں حبیب پبلک اسکول سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعداس نے کالج میں داخلہ لیا۔پھر 1983ء میں'' NED''یونیورسٹی میں داخلہ لیا،NEDیونیورسٹی سے اس نے'' بی اے'' کی ڈگری حاصل کی۔(اس کے علاوہ اس نے پوسٹ گریجویشن،ایم ،ایس اورپی ایچ ڈی وغیرہ نہیں کی اورنہ ہی کبھی وہ درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہاہے،لہٰذااسے ڈاکٹریاپروفیسروغیرہ لکھنایاکہناغلط ہے، ناقل)جس زمانے میں وہ NEDیونیورسٹی میں داخل ہواتووہ ایک ماڈرن نوجوان تھا،لیکن بہت جلدہی اس کااسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ تعلق ہوگیااوران کے سرگرم کارکنان میں اس کا شمارہونے لگا۔زیدحامدجمعیت کے دوسرے کارکنوں کے مقابلے میں نسبتاًلمبی ڈاڑھی،سرپرپکول پہنے،سبزافغان جیکٹ اورکلاشن کوف زیب تن کیے رہتاتھا۔زیدحامدشروع سے ہی غیرمعمولی ذکی وذہین تھا،ان دنوں چونکہ جہادافغانستان کادورتھا،اس لیے تحریکی ذہن کایہ نوجوان بھی عملی طورپرجہاد افغانستان کے ساتھ منسلک ہوگیااوربڑھتے بڑھتے اس کاجہادافغانستان کے بڑے لوگوں'' جلال الدین حقانی ،گلبدین حکمت یاراوراحمدشاہ مسعود''کے ساتھ تعلق ہوگیااورعملی جہاداورگوریلاجنگ کے تجربات کاحامل قرارپایا۔اردواس کی مادری اورانگریزی اس کی تعلیمی زبان تھی،جبکہ پشتواورفارسی اس نے افغانستان میں رہ کرسیکھی تھی،اس لیے وہ اردو،انگریزی،پشتواورفارسی زبانیں روانی سے بولنے لگا۔اسی دوران اس کو جلال الدین حقانی ،گل بدین حکمت یاراوراحمدشاہ مسعودسے نہ صرف تقرب حاصل ہوگیا،بلکہ گل بدین حکمت یار اوربرہان الدین ربانی کے پاکستانی دوروں کے موقع پروہ ان کی ترجمانی کے فرائض بھی انجام دینے لگا۔اسی طرح دوسرے جہادی اورتحریکی را ہنماؤں سے بھی اس کے قریبی مراسم ہوگئے۔تعلیم سے فراغت کے بعدوہ ''برنکس''نامی ایک سیکیورٹی کمپنی کامنیجرربن کرکراچی سے راولپنڈی منتقل ہوگیا۔پھرکچھ عرصہ بعداس نے برنکس کمپنی چھوڑ کر''براس ٹیکس ''کے نام سے اپنی کمپنی بنائی اوراسی کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی ترتیب دی(براس ٹیکس کی حقیقت ہم آگے صفحات میں بیان کریں گے)ہماری معلومات کے مطابق اس وقت سے لے کراب تک زیدحامدراولپنڈی ہی میں رہائش پذیرہے۔(1)
سعدموٹن بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم کارکن تھے،ان کاکہناہے کہ زیدزمان سے میراتعارف یوسف علی کے خاص مقرب رضوان طیب نے کرایا،یہ اس زمانے کی بات ہے جب افغان جہادکے آخری مراحل چل رہے تھے اورطالبان کابل کوفتح کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے۔کراچی کے کچھ لوگ تیارہوکرافغان جہادمیں حصہ لینے کی غرض سے جارہے تھے،جب طالبان حکومت بنی توکچھ لوگوں نے سوچاکہ کیوں نہ پاکستان میں بھی طالبان طرزکی حکومت قائم کی جائے۔مذہبی سوچ رکھنے والوں کواپنی طرف راغب کرنے کے لیے انہیں خلافت کانعرہ دیاگیا،یہی کافی تھا۔رضوان طیب کے اسلامک سینٹرکے پلیٹ فارم پرزیدحامدسے ملاقات ہوئی،پھریہ دونوں ''مسلم ایڈ''کے لیے کام کرنے لگے اورمیں بھی ان کے ساتھ کام کرنے لگا۔مسلم ایڈکاکارڈآج بھی میرے پاس موجودہے۔میں ان کے ساتھ مل کرفنڈاکٹھاکرتاتھا،ہم نے افغان جہادکے حوالے سے ایک مووی ''قصص الجہاد''کے نام سے بنائی تھی،زیدزمان اس کاڈائریکٹرتھا،جبکہ اس کی سیل اورفروخت کی ذمہ داری میری تھی۔اس کے بعدزیدزمان کی ملاقات یوسف علی (کذاب، مدعی نبوت)سے ہوئی اوروہ اسے کراچی لے آیا۔رضوان طیب،سہیل احمداورعبدالواحدکراچی میں ان کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ان لوگوں نے خلافت کانام لے کرکراچی سے ایک تحریک کاآغازکیااوراسلامی جمعیت طلبہ اورجماعت اسلامی کے لوگوں کوٹارگٹ بنایا،اگرکوئی جہادسے متاثرتھاتواس کے حوالے سے اوراگرکوئی تصوف یاکسی دوسری فکرسے وابستہ تھاتواس لائن سے اس کوقریب لانے کے لیے اس فکرکے قصیدے پڑھے گئے،یوں کل کامجاہدزیدزمان ایک صوفی اورذکرکی لائن کاآدمی بن کرابھرااوراسے یوسف علی(کذاب )کااتناقرب حاصل ہواکہ (نعوذباللہ )یہ اس کاصحابی اورخلیفہ قرارپایا۔(2)
زیدزمان سے زیدحامداورپھرسیدزیدزمان حامدتک:
زیدحامدکے شناختی کارڈمیں اس کانام'' زیدزمان'' ہے۔ NEDیونیورسٹی سے افغانستان تک اورپھریوسف کذاب کے بیت الرضاء سے سیشن کورٹ تک یہ زیدزمان کے نام سے پکاراجاتاتھا۔NED یونیورسٹی میں زیدزمان نے افغان کمانڈروں کومدعوکرکے ان کے بیانات کروائے اوران تقریروں کاترجمان زیدزمان خودتھا۔یونیورسٹی کے وہ ساتھی جنہوں نے اسلحہ کے زورپرزیدزمان کایہ پروگرام کروایاتھا،آج بھی زیدزمان کے جھوٹ کاپردہ چاک کرنے کے لیے تیارہیں کہ زیدزمان ہی زیدحامدہے۔یوسف کذاب کے انجام کوپہنچنے کے بعدزیدزمان نے بدنامی اوررسوائی سے بچنے کے لیے اپنانام ''زیدزمان'' سے ''زیدحامد''رکھ لیا۔زیدحامد،یوسف کذاب کی موت کے فوراً بعداگریہ اقدام نہ کرتاتواسے ڈرتھاکہ کہیں کوئی مسلمان اسے بھی عبرت ناک انجام سے دوچارنہ کردے۔قصہ مختصرزیدزمان نے یوسف کذاب سے اپنے تمام تعلق کو نام کی تبدیلی کے ذریعے اس ہوشیاری سے چھپایاکہ کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ آسکی کہ یہ وہی شخص ہے جس کویوسف کذاب اپناصحابی اورخلیفہ قراردیاکرتاتھا۔زیدزمان نے دوسری کروٹ یہ بھی لی کہ اب وہ اس نئے نام سے مختلف ٹی وی پروگراموں،کالجزاوریونیورسٹیزمیں نظرآنے لگا۔مارچ 2010ء میں زیدحامدکی طرف سے ایک پریس ریلیزجاری کی گئی جس میں اس نے اپنے نام میں ترمیم کرلی اورنیانام ''سیدزیدزمان حامد''رکھ لیا۔تاحال اس کایہی نام چل رہاہے۔
ملحوظہ:حیرت کی بات تویہ ہے کہ زیدحامداس مشغلے میں بھی اپنے گرویوسف کذاب کے نقش قدم پرنکلا،کیوں کہ اس کاگرویوسف کذاب بھی اپنانام تبدیل کرتارہتاتھا۔یوسف کذاب نے خودعدالت میں اپنایہ بیان ریکارڈکروایاتھاکہ اس کاپیدائشی نام'' محمد''تھا،لیکن بعد میں اس کے والدین نے اس کانام اسکول کے داخلہ فارم میں ''یوسف علی'' لکھوادیااورکالج میں یہی نام رہا،نویں جماعت میں اس کانام ''یوسف علی ندیم'' لکھاگیا،تعلیمی اسنادمیں تبدیلی آنے کی وجہ سے اس نام کوتبدیل کرنامشکل تھا،لہٰذایہ نام اس کے سروس کارڈمیں بھی لکھاگیا،جیسے ہی اس نے ملازمت کوخیربادکہا،اس نے اپنانام'' محمدیوسف علی ''کردیا،بعدمیں اس نام میں'' ابوالحسنین'' کاسابقہ بھی لگادیا۔یوسف کذاب نے انگریزی میں ایک جھوٹاسر ٹیفکیٹ بنایاجس کونبی اکرم ۖ سے منسوب کیاکہ آپ ۖ نے مجھے اپنی خلافت عظمیٰ دے کریہ سر ٹیفکیٹ جاری فرمایاہے(نعوذباللہ)، اس جھوٹے سر ٹیفکیٹ میں یوسف کذاب نے اپنانام اے ایچ محمدیوسف علی رکھا،آخری باراس کانام سیشن جج میاں محمدجہانگیرعلی نے تبدیل کیا،جج صاحب لکھتے ہیں:اس فیصلے میں ملزم کومحمداورعلی کے بجائے محض ''یوسف کذاب ''کہاجائے گا۔(3)
زیدحامدبحیثیتِ تجزیہ نگار:
ہم پیچھے ذکرکرآئے ہیں کہ زیدحامداردو،انگریزی،پشتواورفارسی زبانیں روانی سے بولتاہے ۔باتوں میں چاشنی،الفاظ میں روانی،جملوں کابرمحل استعمال،شروع میں اندازقدرے دھیما اورپھرآہستہ آہستہ جوشیلاہوجانا اس کاخاص فن ہے۔ایک عام محب وطن شہری اوردین سے لگاؤرکھنے والاطالب علم اسے سنتاہے تو اس کی باتوں سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔زیدحامداپنے پروگراموں میں صرف ملکی ہی نہیں بلکہ دیگرممالک کے مسائل پربھی اپنا تجزیہ پیش کرتاہے۔وہ ملک کودرپیش مسائل کاذکرکرکے انہیں حل کرنے پرزوردیتاہے۔زیدحامد امریکا،اسرائیل اوربھارت کی زورداراندازمیں مخالفت کرتا اوراپنے سامعین وناظرین کوخطے میں پاکستان کی گراں قدرخدمات اورکردارسے روشناس کراتے ہوئے روشن مستقبل کی نویدبھی دیتاہے۔وہ اپنے ہم وطنوں کواس بات کااحساس دلانے کی کوشش کرتاہے کہ وہ کمزوراوربے بس نہیں بلکہ ان میں بہت کچھ کرنے اورکردکھانے کی صلاحیت موجودہے۔وہ نئی نسل کو لہوولعب اورکھیل کودمیں مشغول کرنے کویہودی سازش قراردیتاہے کہ اس طرح دشمن ہمیں مصروف کرکے اپناکام نکالناچاہتاہے۔خو ب صو رت انگریزی،خوش لباسی،کچھ کردکھانے کاعزم،ملک دشمنوں کوصفحہ ہستی سے مٹانے کاجوش،ملک کے شمالی علاقوں کے حالات پرگہری نظر،بھارت کے دفاعی تجزیہ کاروں سے دوبدولڑائی،انٹرنیٹ کی دنیامیں غیرمعمولی سرگرمی،مؤثرنیٹ ورک ،غیرمعمولی روبط اورعزائم کے ذریعے نسل نوکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانااس کی بنیادی خصوصیات کہی جاسکتی ہیں۔وہ اپنی تقاریرمیں شاعرمشرق علامہ محمداقبال کے اشعارکچھ اس اندازسے سناتاہے کہ مجمعہ مسحورومبہوت ہوکررہ جاتاہے، انھی خوبیوں کی وجہ سے عام طورپروہ امریکااوریہودیت کے خلاف دلائل کے انبارلگانے والے، ہندولابی کے زبردست نقاداوراسلام کادردرکھنے والے تجزیہ نگارسمجھا جاتاہے۔ اس کاہدف کالجزاوریونیورسٹیزمیں زیرتعلیم جواں سال ،جواں ہمت اورامنگوں سے بھرپورنوجوان ہے ،اسی طرح وہ محب وطن شہری بھی اس کاہدف ہے جوملک کی موجودہ صورت حال سے متفکراوردستورمے خانہ کی تبدیلی کے خواہاں ہے۔
اس کامقصدومشن ''تحریک تکمیل پاکستان ''ہے،اسی سلسلے میں موصوف نے ملک میں خلافت راشدہ کانظام قائم کرنے اورمعاشی صورت حال کوبہتربنانے کے لیے سودجیسی لعنت کے خاتمے کے لیے اپنی جدوجہدشروع کررکھی ہے۔اس کاکہناہے کہ معاشی بحران کے خاتمے کے لیے ملک سے جرائم اوردہشت گردی کاخاتمہ ضروری ہے اوراس کی روک تھام کے لیے حکومت کواپنے اقدامات مستقل بنیادوں پرجاری رکھنے چاہییں،اورپاکستان کوقائداعظم اورعلامہ اقبال کے خواب کی تعبیربنانے میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔اس کانعرہ خلفائے راشدین کانظام،خلافت کاقیام اوراقبال کاتصورخودی ہے۔اس نے ملک کی مقتدرقوتوں کی توجہ ''ملی غیرت''کے نعرے کے ذریعے بھی حاصل کی۔یہ حقیقت ہے کہ زیدحامدنے ایک متاثرکن اورسحرانگیزمہم چلائی ہے جس نے ملک کے ا ہل دل،اہل درداورکچھ کردکھانے کے خواہش مندطبقات،جن میں نوجوان اوراسٹوڈنٹس سرفہرست ہیں،کی توجہ سمیٹی ہے،لیکن یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ موصوف کی ان کاوشوں کے پس پردہ کیاعزائم ہیں؟کہیں وہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملکی وقارکوبگاڑنے کے مشن پرتوعمل پیرانہیں؟کہیں ان کی یہ کوششیں مسلمانوں میں مزیدتفرقے اورانتشارکاسبب تونہیں بن رہیں؟یہ وہ عقدے ہیں جن کی تاحال مکمل گرہ کشائی نہیں کی جاسکی ہے۔
زیدحامدبحیثیتِ مصنّف:
یوں توزیدحامدنے انگریزی میں بھی کافی کتابیں لکھی ہیں اورمختلف موضوعات پراپنے تجزیے بھی رقم کیے ہیں ،تاہم ہماراموضوع ان کی وہ اردوتصنیفات ہیں جوان کے مشن کوکافی حدتک نمایاں کرتی ہیں۔ان کتابوں کے سرسری جائزے سے ہم اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ مصنف خودکومسلمانوں کی قیادت کے منصب پرفائزسمجھتے ہیں،البتہ گہرائی میں جانے سے تمام اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اورواضح ہوجاتاہے کہ لوہے،پیتل پرسونے کاپانی چڑھاکراسے اصلی سوناثابت کرنے پرسارازورصرف کیاجارہاہے،گویاوہ اس مصرعے کامصداق نظرآتے ہیں۔
ہیں کواکب ہیں کچھ نظر آتے ہیں کچھ
ہم ان کی کتب پرتبصرہ کرنے کے بجائے صرف ان کے نام ذکرکرناکافی سمجھتے ہیں:۔
(1)…خلافت راشدہ
(2)…دہشت گردی کے خلاف امریکی عزائم
(3)…موجودہ پاک افغان تعلقات۔ایک تاریخی المیہ
(4)…پاکستان۔ایک عشق، ایک جنون
(5)…نعمت اللہ شاہ ولی۔پیشین گوئیاں
(6)…اقبال پراسرار
(7)…یہودی اورعیسائی صہیونیت
(8)…معاشی دہشت گردی
(9)…دریائے سندھ سے دریائے آموتک
(10)…اسلام کاسیاسی تصور(پاکستان میںمذہبی فرقہ وارانہ تشدد)
یوسف کذاب اور اس کے عقائد و نظریات
سب سے پہلے ہم زید حامد کے گرو یوسف کذاب کا تعارف اور اس کے عقائد کے بارے میں مختصر طور پر بیان کریں گے، تاکہ زید حامد کا اس کے گرو یوسف کذاب کے ساتھ تعلق اور یوسف کذاب کااسے اپناخلیفہ قراردینے کی حقیقت واضح ہوجائے۔
یوسف کذاب کامختصرتعارف:
ابو الحسنین محمد یوسف علی1949 ء کو جڑانوالہ میں پیدا ہوا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اسلامیات کیا۔1970ء سے قبل وہ پاک آرمی میں تھا اور بعد ازاں کیپٹن کے عہدے سے استعفاء دے کر جدہ چلا گیااور دو سال بعد لاہور شادمان میں رہائش پذیر ہوااور بعد میں218،کیو بلاک، ڈیفنس میں رہائش اختیارکرلی۔ یوسف کذاب نے ''ورلڈ اسمبلی فار مسلم یونیورسٹی '' کی بنیاد رکھی جومحض ایک کاغذی تنظیم تھی ، وہ خود ہی اس کا صدر اور ڈائریکٹر جنرل تھا اوراس کے گھر میں ہی اس کا دفتر تھا ۔ ایک روزنامہ کے ادارتی صفحہ پر کالم '' تعمیر ملت'' لکھتا رہا۔اس نے500 روپے فی جمعہ کے حساب سے مسجد بیت الرضاء میں خطبہ جمعہ دینا شروع کیااور جمعہ کے بعد مسجد سے ملحقہ حجرہ میںمحفل لگانا شروع کردی، یہیں مختلف لوگوں کو بشارتیں دیتا کہ میرا اس وقت تک انتقال نہیں ہوگا جب تک رسول اللہ ۖ سے ملاقات نہ کرلوںاور دعویٰ کرتا کہ وہ رسول اللہ ۖ سے کسی بھی شخص کی ملاقات کرواسکتا ہے ، لوگ یہ سن کر خوش ہوجاتے، اس پرہدیے،نذرانے نچھاورکرتے اوراس کے ایک اشارہ ابرو پرسوجان سے فداہونے کے لیے تیاررہتے تھے۔یہ ان لوگوں کو درود شریف پڑھنے پر لگا دیتا اور ملاقات کے لئے مختلف شرائط رکھتا ، کسی کو کہتا کہ آپ ساری دولت مجھے دے دو ، کسی کے گھر کی رجسٹری مانگ لیتا، جس کی بیوی خوبصورت ہوتی اس سے کہتا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو ، تاکہ باقی زندگی حضور (یوسف علی) کی ہم رکابی میں گزارے ۔ اس کا یہ طریقہ کار تھا کہ زبان سے کہہ دیتا کہ فلاں لڑکی آج سے اس کی بیوی ہے ۔ یوں اس نے بغیر نکاح کے کئی عورتوں کی زندگیاں خراب کیں۔جب یوسف کذاب دیکھتا کہ کوئی شخص نبی کریم ۖ کے دیدار کے لیے مضطرب ہے تو اس کو کمرے میں لے جاتا اور پھر اس کو کہتا کہ آنکھیں بند کرلو اور درود شریف پڑھو ، پھر کہتا کہ آنکھیں کھولو اور پوچھتا کہ کہ دیدار ہوا؟ سامنے بیٹھا شخص حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا،جب وہ دیکھتا کہ کمرے میں یوسف کذاب کے علاوہ اور کوئی شخص موجود نہیں تو پریشان ہوجاتا جس پر یوسف کذاب اس سے کہتا کہ ''انامحمد '' (یعنی: میں ہی محمد ہوں) میرا یہ راز کسی کو مت بتانا، درود شریف پڑھتے رہنا اور مجھ پر بھیجتے رہنا، جلد ہی ہم دنیا میں اپنا آپ ظاہر کریں گے۔یوسف کذاب نے جن افراد کو اس انداز میں اپنا دیدار کرواتے ہوئے خود کو محمد کہا ، ان میں کراچی کے ایک ریٹائر ڈاکٹر کموڈور ، ایک بریگیڈڈاکٹر ، ایک سکواڈرن لیڈر ، ایک فارمسٹ اور متعدد تعلیم یافتہ اچھے گھرانوں کے کاروباری افراد شامل ہیں۔ ان تمام افراد نے تھانہ ملت پارک لاہور پولیس کے ایس ایچ او ملک خوشی محمد کو اپنے انفرادی بیانوں میں یہ بتایا اور تحریری طور پر لکھ کر دیا کہ وہ تمام افراد یوسف کذاب کا بطور محمد دیدار کرچکے ہیں۔(4)
یوسف کذاب کے باطل دعوے اورعقیدے:
یوسف کذاب نے ابتدامیں خود کو مرشد اور مرد کامل ، حضرت ، امامِ وقت ، اللہ اور رسول ۖ کا نائب اور سفیر بناکر پیش کیا ۔سٹیٹ بنام یوسف علی سیشن کورٹ کیس نمبر 60، آف1998ء میں پیش کردہ یوسف کذاب کی آڈیو ، ویڈیو ، تحریریں ، ڈائری اور کتابوں سے اس کے دعاوی اور عقائد لیے گئے ہیں ، اس کے چندغلیظ اور خطرناک عقائد مندرجہ ذیل ہیں(نقل کفر،کفرنہ باشد):
٭…یوسف کذاب نے مرد کامل ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مرد کامل درحقیقت محمد ۖ کی شاندار شکل ہے ۔ (5)
٭…یوسف کذاب نے کہا کہ وہ امام وقت ہے اور دعوی ٰ کیا کہ جب اللہ اور محمد ۖ کسی فرد پر نزول کرتے ہیں، وہ رسول یا امام وقت ہوجاتا ہے۔(6)
٭…یوسف کذاب کا دعویٰ ہے کہ محمد ۖ جسمانی طور پر اب تک زندہ ہیں ، ان کی پہلی شکل آدم اور موجودہ شکل محمد یوسف علی ہے ۔(7)
٭…یوسف کذاب کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ طبعی جسم رکھتا ہے اور اس نے دعویٰ کیا کہ رب اس کے اندر بول رہا ہے اور اس کے چیلوں نے لکھا ہے کہ یوسف علی ہی رب دو جہاں ہے ۔ (8)
٭…یوسف کذاب نے کہا کہ محمد ۖ ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کی مثل ہیں اور یہ دعویٰ کیا کہ اللہ ، محمد ایک ہی ہیں اور جواپنے آپ کواللہ ، محمد کے علاوہ سمجھ رہا ہے، وہ مشرک ہے۔(9)
٭…یوسف کذاب کا دعویٰ ہے کہ قرآن پاک کے تمام ترجمے اور تفسیریں غلط ہیں۔ (10)
٭…یوسف کذاب نے دعویٰ کیا کہ اس کی قیام گاہ ''غار حرا '' ہے ، حج اور عمرہ کے لیے وہاں دورجانے کی کیا ضرورت ہے ، یہاں کرادیتے ہیں۔(11)
٭…یوسف کذاب کا دعویٰ ہے کہ یوسف علی (یعنی وہ خود)رسول اور اس کے مصاحب(ساتھی) صحابہ ہیں۔ (12)
محترم قارئین! یہ تھا یوسف کذاب کا تعارف اور اس کے عقائد کا مختصرتذکرہ، اب ہم آئندہ سطور میں یہ ثابت کریں گے کہ زید حامد کا تعلق اپنے گرو یوسف کذاب کے ساتھ صحابیت کا رہا ہے ، اس پر ہم علمائے کرام کے بیانات اورکچھ اخباری رپوٹس پیش کرتے ہیں۔
زید حامد۔ یوسف کذاب کا ساتھی و صحابی، حقیقت یافسانہ؟
تصویرکاپہلارخ:
ایک یونیورسٹی کے طالب علم نے زید حامد سے اس کے یوسف کذاب کے ساتھ تعلق کے بارے میں پوچھا تواس نے کہا کہ میری یوسف علی سے1992ء میں ملاقاتیں ہوئیں تھیں، پھر میں کراچی چھوڑ کر راولپنڈی چلا آیااور اس کے بعد میرا اس سے رابطہ نہیں ہوا ۔''wake up pakistan''کے عنوان سے یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات میں رائے عامہ بیدار کرنے کی مہم کے دوران یوسف کذاب سے ''نبی و صحابی'' والا تعلق اور رابطہ چھپانے کے لیے نہ جانے زید حامد کتنے جھوٹ بول چکا ہے اور کتنے جھوٹ مزید بولنے پڑیں گے ؟ زید حامد نے مارچ 2010ء کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے بھی یوسف کذاب کے ساتھ لمبی رفاقت کا سفر گول کردیا۔ لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں زید حامد نے حلفاً کہا کہ میں محمد ۖ پر ایمانِ نبوت رکھتا ہوں ۔آ پ ۖ کے بعد کسی مدعی نبوت ،کذاب ، نجس ، ملعون، مردود ، کافر اور ملحد کے ساتھ میرا دینی و مذہبی اعتبار سے کوئی تعلق نہ تھااور نہ کبھی رہے گا، ایسے شخص کو عقیدہ ختم نبوت کے فلسفہ کی بنیاد پر کافر اور ملحد سمجھتا ہوں(اس کی یہی پریس ریلیز انٹرنیٹ پر جاری کی گئی اور علمائے کرام سے تائید لینے کے لیے ہر جگہ جاکر یہی حلف دیتا رہا۔)
ان دومیں سے پہلی بات سے صرف ملاقات کی حدتک زیدحامدکایوسف کذاب سے تعلق وتعارف ثابت ہوتاہے ،جبکہ دوسری بات سے اس کے عقیدہ ختم نبوت پراعتقاداوریوسف کذاب سمیت کسی بھی مدعی نبوت ،کذاب ، نجس ، ملعون، مردود ، کافر اور ملحد کے ساتھ دینی و مذہبی تعلق کی بڑی شدت سے نفی ہوجاتی ہے۔کیازیدحامدکی ان باتوں پراندھااعتمادکیاجاسکتاہے؟نہیں اورہزگزنہیں ،کیوں کہ غیرجانب داری سے حقائق کامشاہدہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زید حامد اپنی اس نوع کی باتوں اوروضاحتوں سے لوگوں کو دھوکا دینا اور جھوٹ بولنا چاہتا ہے۔
تصویرکادوسرارخ:
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ زید حامد کا یوسف کذاب کے ساتھ تعلق رہا ہے اور وہ اس کے عقائد و نظریات سے متأثر بھی تھا۔1992ء کے بعد سے لے کر یوسف کذاب کو قادیانیوں کے قبرستان میں دفن کیے جانے تک باقی مریدوں کی نسبت زیدحامد کا ساتھ مدعی نبوت یوسف کذاب سے سب سے زیادہ رہا تھا ۔ زید حامد اب بھی یوسف کذاب کا خفیہ طور پربھر پور دفاع کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، یوسف کذاب کا دفاع کرتے ہوئے علمائے کرام کے خلاف نازیباکلمات کہتا اور جھوٹ پر جھوٹ بول کر یوسف کذاب کو سچا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتاہے ۔ ہم آئندہ سطور میں یہ بات ثابت کردیں گے کہ مدعی نبوت کذاب، نجس، ملعون ، کافراورملحد یوسف کذاب کے ساتھ زید حامد کادینی و مذہبی تعلق رہا تھااوربالخصوص 1997ء سے2000ء تک کاعر صہ جو زید حامد نے یوسف کذاب کی خدمت میں بھر پور طریقے سے گذارا تھا۔
٭…زید حامد ، ملعون مدعی نبوت یوسف کذّاب کے گمراہ کن عقائد پر مبنی پمفلٹ چھپواکر انہیں تقسیم کرنے کا انتظام خود کیا کرتا تھا۔
٭…یوسف کذاب کے اور ورلڈ اسمبلی آف مسلم یونٹی کے اجلاس کیلئے چھوٹی بڑی تقاریب کا اہتمام زید حامد کی ذمہ داری تھی۔
٭…یو سف کذاب کے عقیدت مند جو نقد رقم اور دیگر اشیاء نذرانے کے طور پر دیا کرتے تھے ، ان کا حساب کتاب بھی زید حامد کے پاس ہوتاتھا۔
٭…28 فروری 1997ء کو نام نہاد ورلڈ اسمبلی آف مسلم یونٹی کے اجلاس منعقدہ ''بیت الرضائ'' چوک یتیم خانہ ملتان روڈ لاہور میں جب یوسف کذاب نے اپنا تعارف بطور نبی کروایا تو زید حامد بھی شریک تھا۔ یوسف کذاب نے کہا تھا :
'' کائنات کے سب سے خوش قسمت ترین انسانو ! اللہ سے محبت کرنے والے خوش نصیب صاحبان ایمان! حضور ۖسے وابستہ ہونے والو! ان پر وارفتہ ہونے والو! آپ کو مبارک ہو کہ آج آپ کی اس محفل میں القرآن موجود ہے ، پارے بھی موجود ہیں ، آیات بھی موجود ہیں ، آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ایک آیت ہے ، کچھ خوش نصیب اپنی اپنی جگہ پر پارہ ہیں جن کو اپنے پارے ہونے کا احساس ہے ان کو قرآن کی پہچان ہے ۔ آج نور کونین نچھاور کرنی ہے اور نور کے اس سفر میں جو لوگ انتہائی معراج پر پہنچ گئے ہیں ، ان کا بھی آپ سے تعارف کروانا ہے ۔ آج کم از کم یہاں اس محفل میں100صحابہ ہیں ،100 اولیاء موجود ہیں ، ہر عمر کے لوگ بھی موجود ہیں ، ایک ایک کا تعارف کروانے کو جی چاہتا ہے ، لیکن ہم آج صرف دو کا تعارف کروائیں گے ۔ بھئی! صحابی وہی ہوتا ہے ناں ،جس نے صحبت رسول میںایمان کے ساتھ وقت گزارا ہواور ان پر قائم ہو گیا ہو اور رسول اللہ ہیں ناں ! اگر ہیں تو ان کے صاحب بھی ہیں ، ان کے صاحب جو مصاحب ہیں وہی تو صحابی ہیں ،انہی صحابہ کے ذریعے کائنات میں رزق تقسیم ہورہاہے ، انہی کے ذریعے کائنات میں رنگ لگا ہوا ہے اورانہی کے صدقے شادی بیاہ ہورہے ہیں ، پانی مل رہا ہے ، ہوا چل رہی ہے اور چاند کی چاندنی اور سورج کی روشنی ہے ، یہ نہ ہوں تو اللہ بھی ان کی قسم اٹھاتا ہے کہ کچھ بھی نہ ہو ، حتیٰ کہ یہ جو سانس آرہا ہے ، یہ بھی انہی کے صدقے ہے۔آج اس محفل میں100 صحابہ موجود ہیں اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ نمونہ ہے اور ہر ایک کا تعارف کروانے کو جی چاہتا ہے ، لیکن آج ہم دو کا تعارف کروائیں گے ۔ ایک وہ خوش نصیب ہستی ہے ، کا ئنات میں واحد ہستی ہے ، نام بھی ان کا عبد الواحد ہے۔محمد عبدالواحد ایک ایسے صحابی اور ایک ایسے ولی اللہ ہیں کہ پوری کائنات میں جن کا خاندان سب سے زیادہ تقریبا سارے کا سارا وابستہ ہے ، رسول سے وارفتہ ہے ، رسولِ محمد سے وابستہ ہوکر محمد مصطفیٰ تک پہنچا ہے اور محمد مصطفیٰ کے ذریعے ذات حق سبحانہ تعالیٰ تک پہنچاہے ۔ اب میں دوسر ا تعارف اس نوجوان ولی کا کرواؤں گا ، صحابی کا کرواؤں گا جس کے سفر کا آغاز ہی صدیقیت سے ہوا ہے اور جس دن ہمیں نیابت مصطفی عطا ہوئی تھی اگلی صبح ہم کراچی چلے آئے تھے اور سب سے پہلے وابستہ ہونے والے اور وارفتہ ہونے والے'' سید زید زمان حامد ''ہی تھے ۔''
جب اس اجلاس میں زید حامد کا تعارف مقام صدیقیت سے آغاز کرنے والے صحابی کی حیثیت سے ہواتو اس نے کھڑے ہوکر شکریہ کے چند جملے کہے جن کے الفاظ یہ ہیں :''کتابوں میں پڑھا تھا ، چالیس چالیس پچاس پچاس سال چلّے کیے جاتے تھے ، ریاضت اور مجاہدہ کیا جاتا تھا، میرے آقا سیدنا علیہ الصلاة والسلام کی انتہاء سے شدید انتہائی محبت کے بعد ایک طویل سفر ریاضت اور مجاہد ے کا گزارا جاتا تھا تو زیارت ہوتی تھی ، کہاں یہ ماحول ، کس کے پاس وقت ہے کہ چلّے کرے، کس کے پاس وقت ہے کہ صدیوں کی عبادتیں کرے اور پھر دیدار نصیب ہو ، تڑپ تو تھی کہ دیدار نصیب ہو ، مگر ابروز سمجھ میں آیا کہ زہد ہزاروں سال کا ایک طرف اور پیار کی نگاہ ایک طرف۔
نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اپنے کسی پیار ے کو دیکھیں جو پیار کی نگاہ دے تو صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوجاتا ہے ۔ نعرہ تکبیر…!
زید حامد لاکھ جھوٹ بولے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ اس کی آڈیو ریکارڈنگ عدالت میں پیش کی جا چکی ہے ، عدالت میں ثابت ہوچکاہے کہ یہ تقریر یوسف کذاب اور زید حامد کی ہے ، اس محفل میں موجود لوگوں نے اس تمام واقعے کی عدالت میں شہادت بھی دی ہے جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے اور زید حامد کے جھوٹے پروپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب بھی ، البتہ ''میں نہ مانوں'' کاتو کوئی علاج نہیں ہے۔
٭…یوسف کذاب کے خلاف تھانہ ملت پارک میں درخواست دی گئی تو یوسف کذاب اور اس کے اہل خانہ کی حفاظت کی ذمہ داری زید حامد کے ذمے لگائی گئی جو زید حامد نے '' برنکس کمپنی'' کے ذریعے پوری کی۔
٭…یوسف کذاب کیس کی پیروی زید زمان اور سہیل احمد نے بھر پور طریقے سے کی ۔
٭…یوسف کذاب کے کیس کے سلسلے میں زید حامد علمائے کرام سے ملتا رہااور اس کی تصویر کا ایک رخ دکھلاکر اور جھوٹ بول کر دھوکہ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔
٭…زید حامد، مولانا عبد الستارخان نیازی کے پاس آیا اور دھوکے اور جھوٹ کا سہارا لیکر یوسف کذاب کے بارے میں بیان لے گیااور اخبار میں چھپوا دیا ۔ جب مولانا عبدالستار خان نیازی کو یوسف کذاب کی تحریروں ، تقریروں اور ڈائری کے بارے میں بتایاگیاتو انھوں نے تردیدی بیان جاری کیا،جس کے الفاظ یہ ہیں '' یوسف کذاب کے بارے میں مجھے تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا،زید زمان نامی لڑکا چند افراد کے ساتھ آیا،''مرد کامل کا وصیت نامہ''سے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے ، ان میں سے کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی ، صحیح صورتحال کا علم مجھے نہیں تھا، یوسف کذاب کی آڈیو کیسٹ بھی نہیں سنی تھی جس میں اس نے100صحابہ والی بات کی ہے ، وہ واقعی گستاخ رسول ہے تو کلیئرنس دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہوں۔ (13)
٭…یوسف کذاب کے نمائندہ کی حیثیت سے زید حامد پیغام لیکر روزنامہ '' خبریں ''کے دفتر گیا اور اصرار کرتا رہا کہ یوسف کذاب کا مسئلہ عدالت کی بجائے علماء بورڈ میں حل کیا جائے ، زید حامد کا یہ اقرار انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔(14)
٭…یوسف کذاب کی اہلیہ نے جب یوسف کذاب جیل میں تھا، بعض کاغذات زید حامد اور سہیل احمد کے ذریعے امریکی قونصلیٹ کو بھجوائے۔
٭… زید حامد نے یوسف کذاب کو اس ملک سے فرار کروانے کے لیے حقوق انسانی کی تنظیموں اور غیر ملکی سفارتخانوں سے بھی رابطے کیے ۔
٭…جب یوسف کذاب کے خلاف گستاخی رسالت اور دعوائے نبوت کی بنیاد پر سزائے موت کا عدالتی فیصلہ آیا تو زید حامد نے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: '' یہ عدل و انصاف کا خون ہے''۔(15)
٭…زید حامد، یوسف کذاب کی رہائی کے سلسلے میں سب سے زیادہ سر گرم رہا اور عدالت میں ہر تاریخ پر موجود ہوتا تھا۔
٭…مؤرخہ 22 جون 1999ء کو زید حامد نے سیشن کورٹ لاہور میں ملزم یوسف کے بارے میں ایک درخواست دائر کی کہ یوسف کذاب بیماری کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتے ، نیز زید حامد نے اس درخواست کے ساتھ میڈیکل ہیلتھ سر ٹیفکیٹ بھی پیش کیا، درخواست منظور ہوئی اور یوسف کی حاضر ی معاف کرتے ہوئے 22 جولائی 1999ء تک کے لیے کاروائی ملتوی کردی گئی۔
٭…جب یوسف کذاب کو سزائے موت کا حکم سنایا تووہاں موجود یوسف کذاب کے ساتھیوں میں سے سب سے زیادہ پریشان زید حامد تھا اور زید حامد مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔(16)
اسی طرح روز نامہ ''نیا اخبار''نے اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ یوسف کذاب کو عدالت سے سز ا سنائے جانے کے بعد جب جیل لے جایا جانے لگا تو اس موقع پر اس کے خلیفہ زید زمان نے تڑیاں لگانی شروع کردیں، زید زمان زور زور سے کہنے لگا کہ ''تم تباہ ہوجاؤ گے، اپنا انتظام کرلو'' یاد رہے کہ یوسف کذاب نے زید زمان کو (نعوذباللہ )اپنا صحابی قرار دے رکھا تھا۔(17)
٭…یوسف کذاب کے قتل کیس سے لیکر اس کی لاش کو قبرستان میں دفن کرنے تک تمام امور میں زید حامد پیش پیش تھا۔
٭…زید حامد ، یوسف کذاب کے افکار و نظریات سے بغاوت کرنے اور اسے کذاب کہنے پر اپنی اہلیہ مسماةنصرت جمیل پر تشدد کرتا رہا اور بالآخر اسے طلاق دے دی۔ مسماةنصرت جمیل اس بات کی تصدیق کرنے والوں میں شامل ہیں کہ زید حامد اپنے اندرونی حلقوں میں یوسف کذاب کا پرچار کرتا رہاہے۔
٭…تنظیم اسلامی نے اپنا موقف مؤرخہ ''17مارچ2010ئ''کوجاری کیا جس میں لکھا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ زید حامدکا یوسف کذاب سے ماضی میںقریبی تعلق تھا۔ (18)
٭… اس کے علاوہ 2008ء کے اگست اور جولائی میں زید حامد کے حوالے سے حقائق بھی سامنے آنے لگے جس میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ زید زمان حامد کا یوسف کذاب سے غیر معمولی عقیدت مندانہ خلافت کا تعلق رہا ہے۔یوسف علی پر ہونے والے کیس ، اس کے قتل یا اس کے حشر پر اس کو دکھ ہے جس کا ثبوت 13 اگست 2000ء کو ڈان میں چھپنے والے مضمون'' convicted for blasphemy''سے ملتا ہے۔جب بھری محفل میں اس سے سوال ہوتا ہے تو اس کا ایک جواب تو یہ ہوتاہے کہ کفر کا الزام تو قائدا عظم اور علامہ اقبال پر بھی لگاتھا، مجھ پر لگ گیا تو کون سی بڑی بات ہے ؟ دوسر ا یہ بہتان لگانا بہت بری بات اور گناہ کا کام ہے ، تیسرا جس کو جواب درکار ہے ، اس کے دفتر میں آکر اس سے ملے ، کیونکہ وہ اگر اجتماعات میں اس الزام کا جواب دینے لگے تو فرقہ وارانہ فسادات کا خطرہ ہے ۔
الحمد للہ !ان باتوں کی بھی قلعی کھل گئی ،جب شفاء کالج آف میڈیسن اسلام آباد کے طلباء عبدالمالک ، یوسف رضا اور علی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ فروری کے ایک جمعہ کو ملاقات کے لئے زید حامد کے پاس اس توقع کے ساتھ پہنچے کہ وقت کا یہ بڑا سکالر اور اسلام کا ماہر یوسف کذاب جیسے لوگوں پر سو بار لعنت بھیجے گا ، مگر اس وقت یہ نوجوان شدید صدمے کا شکار ہوگئے جب زید حامد ان لوگوں کو بتانے لگے کہ یوسف علی کس قدر بڑاصوفی ،اسکالر اور وقت کا درویش تھا اور کس طرح فسادی ملاؤں نے اسے قتل کروادیا، ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ: ہاں! میں نے سچ کہاتھاکہ میں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا، میں تو محمد یوسف علی کو جانتا ہوں جس کو بہت سے دیگر لوگ جانتے ہوں گے ، دیگر ملنے والوں سے انہوں نے یہ بھی کہا کہ دراصل پلاٹ کا کوئی تنازعہ تھا جس کے انتقام میں یوسف کذاب کو پھنسایا گیا وہ بطورتائید مشہور عالم دین اور جمعیت علمائے پاکستان کے راہنما مولانا عبدالستارخان نیازی کا نام بھی لیتاہے کہ ان کے نزدیک یوسف کذاب معصوم تھا ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا عبد الستارخان نیازی کہتے تھے کہ ا ن کے پاس دو نوجوان آئے اور انہوں نے یوسف کو بطور معصوم پیش کیا جس پر میں نے ہمدردی کا اظہار کیا ، مگر حقیقت معلوم ہونے کے بعد انہوں نے یوسف کے خلاف مقدمے کی حمایت کی۔(19)
محترم قارئین! مذکورہ بالاشواہد اور یوسف کذاب کے بنفس نفیس اقرار کرنے کے بعد اس بات میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ زید حامد کا یوسف کذاب کے ساتھ نہ صرف تعلق رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ والہانہ عقیدت بھی تھی جس کاثبوت یہ بھی ہے کہ یوسف کذاب بھرے اجتماع میںاسے اپنا خلیفہ بھی قراردے چکاہے۔ یہی وجہ ہے کہ زید حامدنے آج تک کھل کر یوسف کذاب سے اپنی برأت کا اعلان نہیں کیااورشایدآئندہ بھی نہ کرسکے۔
کیاعلمائے کرام نے یوسف کذاب کادفاع کیاتھا؟
جب زید حامدیوسف کذاب کے حوالے سے عوام میں اپنی بات نہ منوا سکا تو جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے علمائے کرام کے حوالے دینے شروع کردیے، تاکہ عوام اس کی بات پراندھا اعتماد کرلیں اور اصل حقائق کوجاننے کی کوشش ہی نہ کریں، اس کا کہنا ہے کہ علمائے کرام میں سے مولانا عبدالرحمان اشرفی ، مولانا عبد اللہ (دیوبندمکتبہ فکر)مولانا عبدالستارخان نیازی ، مفتی غلام سرور قادری (بریلوی مکتبہ فکر)جیسے جیدعلمائے کرام یوسف کامسلسل دفاع کرتے رہے اور وہ کہتے رہے کہ یوسف پر ظلم ہورہا ہے،وہ دعوائے نبوت نہیں کرسکتا ۔
محترم قارئین ! زید حامد نے جن علمائے کرام کی طرف اس بات کو منسوب کیا ہے ، ہم ان سب کی رائے اور تردیدی بیان بمع ثبوت پیش کرتے ہیں جس سے زید حامد کی جھوٹی ملمع سازی کا پردہ چاک ہوجاتا ہے۔
٭…مولانا عبد الرحمان اشرفی اور یوسف کذاب:
جب مولانا عبد الرحمان اشرفی کو اس بارے میں علم ہوا کہ زید حامد نے ان سے متعلق ایک جھوٹ منسوب کیا ہے تو مولانا نے اگلے ہی دن مؤرخہ 15 مارچ 2010ء کو پریس کانفرنس کی جس میں اس جھوٹ کی تردیدکی، تفصیلی رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:
لاہور (پ۔ر)جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم مولانا عبدالرحمان اشرفی نے کہا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے مجھے کئی احباب نے فون کیے اور متعدد افراد نے مجھے آکر بتلایا کہ ٹی وی اینکر زید حامد جس کا تعلق مدعی نبوت یوسف کذاب سے رہا ہے ، وہ اپنے بیانات میں میرے بارے میں یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ اچھا آدمی تھااور میرا بہترین دوست تھا، اس نے میرے ساتھ حج کیا تھا ، نیز اس نے کارکنان ختم نبوت اسلام آباد کی ایک پریس کانفرنس کے جواب میں اپنی تردیدی تقریر اور ویڈیو کیسٹ میں کہا ہے کہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا عبدالرحمان اشرفی بہت بڑے بزرگ اور اعلیٰ پائے کے اسکالر ہیں اور وہ ابھی تک زندہ ہیں، جب تک یوسف مرانہیں اس وقت تک اس کا دفاع کرتے رہے اور انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کو بلاکر ڈانٹا کہ تم ظلم کررہے ہو ، کیونکہ یوسف علی نے دعویٰ نبوت نہیں کیاوغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک میرے بارے میں یوسف علی کے ساتھ دوستی کرنے کا حوالہ دیا جارہا ہے تو میں (مولانا عبدالرحمان اشرفی) اس بات کی وضاحت کرتا ہوں کہ حقیقت حال یہ ہے کہ یو سف علی میرے پاس ایک مرتبہ ملنے کے لیے آیا تھا اور اس وقت میں اور مولانا اجمل خان حج کوگئے تو منیٰ میں جہاں مولانا اجمل خان کا درس تھا ، وہیں یوسف علی بھی درس دے رہا تھا۔ لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ میں نے یوسف علی کے ساتھ حج کیا تھااور میری اس کے ساتھ دوستی رہی۔میرا زید حامد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی میں نے اس سلسلے میں یوسف علی کے حق میں کوئی اخباری بیان دیا ہے اور نہ ہی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے متعلقین کی اس سلسلے میں کوئی سر زنش کی ۔ میر ا موقف بھی یوسف علی کے بارے میں وہی ہے جو دیگر علمائے کرام اور ارباب فتاویٰ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کا ہے اور اس سلسلے میں ، میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہوں ، لہذا یہ تمام باتیں جو مجھ سے منسوب کی گئی ہیں ، سراسرجھوٹ اور خلاف واقعہ ہیں ، میں زید حامد پر یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ آئندہ ان باتوں کی نسبت وہ میری طرف نہ کرے۔(20)
٭…مولانا عبداللہ اور یوسف کذاب :
زید حامد کہتا ہے کہ لال مسجد کے خطیب مولاناعبداللہ جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رکن تھے اور بہت دلیر اور بہادر آدمی تھے ، وہ یوسف کذاب کے معاملے میں خاموش بیٹھے رہے، یہ ہوہی نہیں سکتا تھا کہ گستاخی رسالت ۖ کا کوئی ارتکاب کرے اور مولانا عبداللہ چپ بیٹھ جائیں ، مولانا عبداللہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ممبر تھے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ہی یوسف کذاب کا کیس لڑا ہے ۔ مولانااسماعیل شجاع آبادی نے مؤرخہ 9 مئی 2000ء کو عدالت میں گواہی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس مقدمے میں اپنی پارٹی کے سربراہوں سے صلاح مشورے کے بعد ان کی ہدایت پر مدعی بنا ہوں ، مولانا اسماعیل نے 11مئی کو عدالت میں گواہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ میں اپنی پارٹی کی ہدایت پر اور ایک مسلمان کی حیثیت سے لڑ رہا ہوں ، یہ کیس عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے دائر ہوا ہے ، زید حامد کے بقول مولانا عبداللہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ممبر تھے ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے کیس دائر ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ مولانا عبداللہ خاموش نہیں رہے ، بلکہ یوسف کذاب پرکیس کروانے والوں میں شامل تھے۔(21)
٭…مولانا عبدالستار نیازی او ریوسف کذاب:
زید حامد کہتا ہے کہ مولانا عبدالستارخان نیازی آخری وقت تک یوسف کا دفاع کرتے رہے ہیں، مولانا نے مجھے خود بتایا کہ وہ خودیوسف کو کورٹ میں جاکر بچانا چاہتے ہیں تو جج نے کہا کہ آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں ، آپ آرام کریں ، ہمیں پتہ ہے آپ کا فتویٰ میرے پاس پہنچ چکا ہے ۔ مگر قارئین! سچ تو یہ ہے کہ مولانا عبدالستار خان نیازی کا یوسف کے حق میںبیان 9 جولائی 1997ء کو جاری ہوا ، مگر اگلے روزان کی طرف سے تردید آگئی، مولانا اس وقت کے کیس سے باخبر نہ تھے ، زید حامد نے ان سے دھوکہ دہی اور فراڈ سے تصویر کا ایک رخ دکھاکر بیان جاری کروایا تھااور آج تک اسی بیان کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے ، اگلے ہی روز مولانا عبدالستارخان نیازی کا تردیدی بیان آگیا ۔ مولانا نے10جو لائی 1997ء کو اپنے تردیدی بیان میں فرمایا کہ '' زید زمان نامی لڑکا چند افراد کے ساتھ مرد کامل کا وصیت نامہ سے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے ، ان میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی جس سے میں یوسف علی کو غلط سمجھتا ۔ اگر یوسف علی واقعی گستاخ رسول ہے تو میں کیا کوئی بھی اسے کلیرنس دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا،زید زمان نے مجھے تصویر کا ایک رخ دکھایا ہے ۔ اس کے علاوہ جج صاحب نے کوئی عدالتی کاروائی کے دوران یہ نہیں کہا کہ عبدالستار خان نیازی صاحب آپ بیمار اور بوڑھے ہیں ، گھر بیٹھیں ، بلکہ مولانا کا تردیدی اخباری بیان کورٹ میں پیش ہوا اور دوران اشاعت گواہوں سے بھی اس پر گفتگو ہوئی تھی۔(22)
٭…مفتی غلام سرور قادری اور یوسف کذاب:
زید حامد نے طلباء کے سامنے مفتی غلام سرور قادری کے بارے میں بھی جھوٹ بولا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے ایڈوائزر مفتی غلام سرور قادری یوسف کا دفاع کرتے رہے، لیکن زید حامد کا یہ جھوٹ بھی پکڑا گیا جب مفتی غلام سرور قادری کا تردیدی ویڈیو بیان'' یو ٹیوب''پر آیا جس میں مفتی غلام سرور قادری نے کہا:'' میں نے یوسف کذاب کو ایک دوست کے گھر دیکھا ، یوسف کذاب کو پہلے میں نہیں جانتا تھا ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یوسف کذاب کی دینی تعلیم نہ تھی، پھر بعد میں، میں سنتا رہاکہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور جیل چلا گیا ہے اور یہ بھی اخبار میں پڑھا کہ کسی نے جیل میں اسے قتل کردیا ہے ، اسے سزائے موت دی گئی تھی۔ میں نے اب 2010ء میں پہلی مرتبہ اس کی تقریر سنی ، اس تقریر سے پتہ چلا کہ وہ دجال ہے ، اور ان دجالوں میں سے ایک دجال ہے جس کے بارے میں نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ'' وہ کذاب ہونگے ، دجال ہونگے ، میری امت کو فریب میں ڈالیں گے ، نبوت کا دعویٰ کریں گے۔'' یوسف کذاب کا کہنا ہے کہ100صحابہ میری اس محفل میں موجود ہیں ، میں دیکھ رہا ہوں ۔لہذا یہ سب مکار ی اور فریب کا ری ہے ، زید حامد جھوٹ بول رہا ہے، میں نے اس شخص کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے اور نہ ہی علمائے اہل سنت والجماعت( بریلوی )نے کبھی اس کی حمایت کی اور نہ کرسکتے ہیں،یوسف، ملعون اور کذاب تھا اور کذاب کو جو اللہ تعالیٰ نے سزا دی ہے وہ واقعی اس کا حقدار تھا۔''
قارئین ! اس سلسلے میں مفتی غلام سرور قادری صاحب کا تردیدی بیان کراچی کے اخبار روزنامہ جسارت میں بھی شایع ہوا ، ملاحظہ فرمائیے:
کراچی (نمائندہ جسارت)دیگر مسالک کے ساتھ ساتھ بریلوی مسلک نے بھی زید زمان کو خبیث ، جھوٹااور شیطان قرار دیکر واضح کیا ہے کہ یوسف کذاب کے معاملے میں تمام مسالک کے علماء کل بھی متفق تھے اور آج بھی ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ خود ساختہ دفاعی تجزیہ کا ر زید زمان نے اپنی اعتراضی ویڈیو میں یوسف کذاب کا دفاع کرتے ہوئے دیوبند پر لعن طعن کرکے بہتان لگایا تھا کہ مولانا عبدالستار خان نیازی اور اس وقت وفاقی شریعت بورڈ کے مشیر مفتی مولانا غلام سرور قادری یوسف کذاب کااس کے آخری وقت تک دفاع کرتے رہے ہیں ۔ مولانا عبدالستار خان نیازی وفات پاچکے ہیں، تاہم بریلوی مسلک کے علمائے کرام نے زید زمان کے بہتان پر ردّعمل کا مظاہرہ کرکے اسے گستاخ قرار دیا ہے ۔ اپنے ویڈیو پیغام میں مولانا سرور قادری نے کہاکہ انہوں نے کبھی بھی یوسف کذاب کے حق میں بیان دے کر اسے دیوبندی ، بریلوی مسئلہ قرار نہیں دیاہے ۔ انہوں نے کہا کہ دیوبندی ہوں یا بریلوی ہوںدونوں اس بات پر متفق ہیں کہ آخری نبی محمد ۖ ہیں ۔ یوسف کذاب قابل قتل تھااور اس کے خلاف عدالت نے درست فیصلہ دیا ہے۔ یوسف کذاب شیطان تھاتو اس کا دفاع کرنے والا بھی شیطان ہے ، کذاب کی ترجمانی کرکے طلباء کو گمراہ کرنے والے کو ایسے کھلانہیں چھوڑنا چاہیے، زید کو صحابی کہنا غلط ہے ، صحابی صرف رسول ۖ کا ہوتا ہے، اسے شیطان یوسف کا چیلہ کہناچاہیے۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اہل سنت نے کبھی اس کذاب کی حمایت نہیں کی ، اسے جو سزاملی ، اس کا وہ حقدار تھا، ایسے خبیث آدمی کے دفاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ امت کا اجماع ہے کہ جو نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کافر ہوگااور جو اسے کافر نہیں کہتاوہ بھی کافر ہے۔ زید حامد کو توبہ کرنی چاہیے ،اسے کسی اسٹیج پر آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ، ایسا شخص فتنہ انگیز ہے ، حکومت کی طرف سے ایسے شخص پر پابندی ہونی چاہیے ۔واضح رہے کہ اس سے قبل دیو بندی عالم مولانا عبدالرحمان اشرفی نے بھی زید حامد کے بہتان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا یوسف علی کے بارے میں وہی موقف ہے جو دیگر علما ئ، ارباب فتاویٰ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا ہے اور اس سلسلے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو یقین دلاتاہوں کہ جو باتیں مجھ سے منسوب ہیں وہ سراسر جھوٹ اور خلاف واقعہ ہیں۔س(23)
محترم قارئین! جن علمائے کرام کی طرف زید حامد نے جھوٹ کو منسوب کیا تھا ، جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو ان کی طرف سے فوراًتردیدی بیانات شائع ہوئے، جیسا کہ آپ نے گذشتہ صفحات میں پڑھ لیا۔ان علمائے کرام کے بیانات کی روشنی میں ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زید حامد محض جھوٹی باتوں کو معزز علمائے کرام کی طرف منسوب کرکے عوام اور بالخصوص طلباء کو گمراہ کرنا چاہ رہا تھا ، مگر جب اس میں وہ ناکام رہا تو''کھسیانی بلی کھمبانوچے ''کے مصداق علمائے کرام پر لعن طعن کرنا شروع کردیا۔ملاحظہ فرمائیے!
علماء کو کوڑے پڑیں گے، زید حامد
جب یوسف کذاب کی حقیقت لوگوں کے سامنے آئی اور اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا تواس موقع پر زید حامدنے کہا:
''شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ، یوسف پر دو الزامات لگائے گئے: ایک د عوائے نبوت کا الزام اور دوسرا زنا کا الزام۔ یوسف کذاب پرزنا کا الزام ثابت نہیں ہوا ، لہذا جنہوں نے یوسف کذاب کے خلاف شہادت دی ہے ، وہ جھوٹے ثابت ہوئے، ان کو جھوٹی گواہی دینے پر (حد قذف ) کوڑے مارے جائیں۔ ہم خلافت راشدہ کا نظام لائیں گے تو انہیں کوڑے کی سزادیں گے ، ان کی گواہی معتبر نہیں رہی، لہذا یوسف پر دعویٰ نبوت کا الزام بھی جھوٹا ثابت ہوا۔''
محترم قارئین !زید حامد اگرچہ معروف تجزیہ کار ہی کیوں نہ ہو ، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات سچ اور قابل یقین بھی ہوجس کی وجہ سے اس پراندھا اعتماد کرلیا جائے ، زید حامد نے کئی ایسے صریح جھوٹ بولے ہیں ، ان میں سے ایک جھوٹ یہ بھی ہے۔ ہم اس مقدمے کی اصل حقیقت آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں،تاکہ اس کے الزام واتہام کی قلعی کھل جائے۔
زید حامد نے جو بات ذکر کی اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس مقدمے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سر براہوں سے صلاح مشورے اور ان کی ہدایت پر مولانا اسماعیل شجاع آبادی مدعی بنے ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی تاریخ اللہ تعالی کے محبوب ،خاتم المرسلین ،حضرت محمد ۖ کی ختم نبوت کے دفاع کی خاطر قربانیوں سے بھر پور ہے ، اس جماعت کی کوشش سے ''فیڈرل شریعت کورٹ '' میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں مطالبہ کیاگیاکہ توہین رسالت سے متعلق اسلامی قانون کو پاکستان میں نافذ کیا جائے، تاکہ کسی بد بخت کو گستاخی رسول ۖ کی جسارت نہ ہو، اس مقدمے میں تمام اسلامی مکاتب فکر کے علماء کو بطور مشیر طلب کیا گیا، سب نے متفقہ موقف کی تائیدکی اورپٹیشن منظور ہوجانے کے بعد توہین رسالت کی سزا ''سزائے موت '' مقرر ہوئی،اس سزاکے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی، لیکن بفضلہ تعالی وہاں بھی فیصلہ''فیڈرل شریعت کورٹ ' 'کے حق میںہی ہوااور 1991ء سے باقاعدہ قانون توہین رسالت اس ملک میں نافذ ہوا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے متعلق مذہبی علماء ، وکلاء اور دوسر ے شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی کوششوں اور جدوجہد سے پاکستان کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ C۔ 295 میں تبدیلی ہوئی۔مدعی مولانا اسماعیل شجاع آبادی نے جو درخواست یوسف کذاب کے خلاف دی اور جو ایف ۔ آئی ۔ آر درج ہوئی ، اس میں لکھاگیاتھاکہ'' محمد یوسف علی نامی شخص نبوت کا دعویٰ کرکے لوگوں کو گمراہ کررہا ہے، اس کی تحریروں اور ڈائری کے علاوہ اس کی تقریری کیسٹ بھی ہمارے پاس موجود ہے جس میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ محمد رسول ۖ کا تسلسل ہے اور اس دور کا (نعوذباللہ)رسول ہے، اس نے اپنے گھرانے کو اہل بیت اورپیروکاروں کو اصحاب رسول قراردیا اور کنواری لڑکیوں کو ورغلانے اور ان سے بدکاری کی کوشش کی ہے ، پھر اپنے گمراہ پیروکاروں سے نذرانے کے طور پرلاکھوں روپے وصول کیے ہیں جس کے چشم دید گواہ موجود ہیں ، اس کے خلاف توہین رسالت اور دیگر جرائم کے تحت فوجداری کیس رجسٹرڈ کیا جائے ، تاکہ اس کو اس کے گھناؤنے جرم کی قرارواقعی سزا ملے۔''
اس مقام پریہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ توہین رسالت کا قانون انگریز کا بنایا ہو ا نہیں ہے ،جیساکہ عام طورپریہ مغالطہ دیاجاتاہے، بلکہ یہ قانون قرآن و سنت سے لیا گیا ہے اور اس میں دو شہادتیں پیش ہوںاور جرم ثابت ہوجائے تو ملزم کے انکاری بیان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ، ملزم یوسف کذاب کے کیس میں14 افراد بشمول مدعی نے گواہی دی ،آڈیو، ویڈیو کیسٹیں اور تحریریں پیش ہوئیں ، گواہوں پر یوسف کذاب کے وکیل نے بھر پور جرح بھی کی ،( اگر گواہ شہادت کے معیا ر پر پورے نہ اترتے تو یوسف کا وکیل ان پر جرح نہ کرتا ) یوسف کذاب نے عدالت میں اپنی خلافت عظمیٰ کا سر ٹیفکیٹ بھی پیش کیاجس پر فلوٹڈ بھی لگاہوا تھااور(نعوذباللہ) بقول یوسف کذاب یہ سر ٹیفکیٹ نبی کریم ۖ نے اسے دیا تھا، یوسف کذاب کا یہ سر ٹیفکیٹ تیار کرنا بھی توہین کے زمرے میں آتا ہے ۔ یوسف کذاب کیس میں پیش ہونے والے گواہوں میں تین ایسے شخص بھی تھے جوماضی میںاس کے خاص معتقدین شمارکیے جاتے تھے اور اس سے کراچی میں ان کا گہرا تعلق بھی رہا تھا ۔ آڈیو اور ویڈیو ثبوتوں کے علاوہ ان گواہوں نے بھی شہادت دی کہ یوسف کذاب نے نبوت کا دعوی ٰ کیا اور ''انامحمد '' (میںہی محمدہوں)کا دعویٰ کرکے اپنا دیدار کروانے کے عوض لاکھوں رو پے لو گوں سے بٹورتارہا،اپنے گرو کو سچا ثابت کرنے کے لیے یوسف کذاب کیس میں عدالتوں میںدھکے کھانے والے زید حامد کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایف ۔ آئی۔ آر میں زنا کا الزام نہیں لگایا گیا، البتہ یوسف کذاب نے عورتوں سے بدکاری کی کوشش ضرور کی تھی اور لاکھوں کے نذرانے بھی وصول کیے ، جب زنا کا الزام لگا ہی نہیں اس بات کاکیاجوازبنتاہے کہ پورے پاکستان کے طلباء کے پاس جاکر شور مچایاجائے کہ علمائے کرام کو کوڑے پڑیں گے ۔ حد قذف تو الزام ثابت نہ ہونے پر لگائی جاتی ہے ۔لہذا زید حامد یوں ہی ہوا میںبن دیکھے تیرچلاکر عوام اور طلباء کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ (24)


براس ٹیکس اورتحریکِ تکمیل پاکستان
براس ٹیکس کی حقیقت:
زید حامد تعلیم مکمل کرنے بعد'' برنکس کمپنی'' میں منیجر کی نوکری پر کا م کرتا رہا، بعد ازاں سن 2000 ء میں اس نے اپنی ایک الگ ویب سائٹ بنالی جس کا نام اس نے ''براس ٹیکس ''رکھا، زید حامد اس ویب سائٹ اور مختلف پروگراموں کے ذریعے اپنا مشن(جس کووہ '' تکمیل ِپاکستان'' کانام دیتے ہیں)لوگوں تک پہچانا چاہ رہے ہیں ۔ سادہ لوح عوام،طلبہ اوراکثرنوجوان ،جوان کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے، ان کے پروگرام دیکھ کر متأثر ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ موصوف ایک محب وطن پاکستانی اورکامیاب تجزیہ کارکی حیثیت سے پاکستان کا دفاع کررہا ہے۔ معروف صحافی سید بدر سعیدنے زید حامد سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا جس میں انہوں نے زید حامد سے بہت سے سوالات کئے ،ان سوالات میں سے ایک سوال براس ٹیکس کے بارے میں کیا گیا کہ براس ٹیکس کی حقیقت کیا ہے؟اور اس کے لئے اب تک کتنی کاوشیں کی گئیں؟ اس کے جواب میں زید حامد نے کہاکہ'' براس ٹیکس کا آغاز میرے بیڈ روم سے ہوا ، براس ٹیکس کیا ہے ؟ اور اس وقت کیا تھا؟ براس ٹیکس صرف ایک کنٹریشن تھی ، جیسے ایک ڈاکٹر اگر اپنا کلینک کھولتا ہے تو اس کے لئے اسے کتنا فنڈ چاہئے ؟کتنی میز اور کرسی کی ضرورت پڑے گی ؟ وغیرہ وغیرہ کے بارے میں سوچتا ہے، میرا بھی کنٹریشن کا کام تھا تو ہم نے مشکل سے 15 سے 20ہزار کے بجٹ سے اس کام کو شروع کیا تھا اوروزیٹنگ کارڈ اور لیٹر ہیڈ چھپوائے ، جتنے مارکیٹ میں کارپو ریٹ کلائنٹس اور کمپنیاں تھیں ،آئل اور گیس کمپنیاں تھیں، بڑے بڑے تجارتی ادارے تھے ، ان کو ہم نے خط لکھنا شروع کیا اور کچھ تعلقات بھی تھے ، لوگوں میں جان پہچان تھی تو ان لوگوں نے بھی ہمیں کام دینا شروع کیا ، ہم نے ان کو سیکیورٹی پالیسی رپورٹس لکھنا شروع کیں، ہمیں کام ملنا شروع ہوگیا اور 2007 ء تک ہم نے براس ٹیکس اپنے گھر سے چلایا ، میرے ڈرائنگ روم میں براس ٹیکس ہوتا تھا ، ہمیں ملازم رکھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی ، مشرف کے دور تک ہم سر کاری کام کرتے رہے پھر جب زرداری کا دور آیا تو ہم نے ''NEWS ONE ''میں کام کرنا شروع کردیا (''نیوز ون ''ٹی وی چینل کا شمار پاکستان کے بڑے ٹی وی چینلز میں ہوتا ہے ، یہ ٹی ون میڈیا گروپ کا نجی چینل ہے۔ناقل ) ''نیوز ون ''والوں کی طرف سے ہمیں پیسے ملتے تھے ، کوئی ڈھائی تین لاکھ ہمیں مہینہ کا دیا کرتے تھے ، ساتھ ہی ہمیںدوسری جگہوں سے کنٹریکٹ بھی آتے رہے اور اس طرح ہمارا کنٹریکٹ دنیا بھر میں ہوگیا جن میں بالخصوص ایران اور سعودی عرب شامل ہیں ۔''(25)
قارئین ! زید حامد نے برنکس کمپنی اور براس ٹیکس ویب سائٹ کے علاوہ اور بھی بہت سے ٹی وی چینلز جن میں ایکسپریس نیوز ، آج نیوز ،دن نیوز،ZEM ٹی وی وغیرہ میں پروگرام کیے ہیں اور مختلف موضوعات پر ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے اپنی رائے اور مقصدکااظہاروپرچارکیاہے، تاکہ اس کامخصوص نظریہ لوگوں کے دل ودماغ کواپیل کر سکے ۔ گزشتہ سطور میں زید حامد نے براس ٹیکس سے متعلق انٹرویو سے جوکچھ معلوم ہوا،ہماری تحقیق کے مطابق یہ براس ٹیکس کی مکمل حقیقت نہیں ہے ،اس تشنگی کودورکرنے کے لیے ذیل میں ہم آپ کے سامنے براس ٹیکس کی حقیقت سے پردہ چاک کرتے ہیں جس سے زید حامد کے عزائم اور اس کی ویب سائٹ کی اصلیت بخوبی واضح ہوجائے گی ۔
ریسرچ کے دوران ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ براس ٹیکس اصل میں ''انڈین آرمی کے آپریشن '' کا نام ہے جو انڈیا میں راجستھان کے مقام پر 1986ئ، 1987ء میں کیا گیاتھا ۔ یہ دراصل اس آپریشن کی پریکٹس تھی جو انڈیا آرمی نے پاکستان کے خلاف کرنا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ زید حامد نے اپنے پروگرام کا نام'' براس ٹیکس'' ہی کیوں رکھا؟اس تناظرمیں بہت سے سوالات ہر عام و خاص کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں ،مثلاً: کیا وہ انڈیا کا ایجنٹ ہے اور وہ انڈیاکے ایماء پر اس پروگرام کے ذریعے اسلام کانام لے کر لوگوں کو گمراہ کر کررہا ہے ؟کیا اس کا مشن اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے ؟ یا واقعی وہ اسلا م کا دفاع کررہا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔
زیدحامداورانڈیاکے درمیان تعلق کے تاثرکواس بات سے تقویت ملتی ہے کہ انڈیا کے ایک اخبار '' ملاپ '' میں زید حامد کو انڈیا حکومت کی طرف سے احتیاط کے ساتھ کام کرنے کی ہدایت کی گئی ،یہ اس وقت کی بات ہے جب سے علمائے کرام کی طرف سے زید حامد کی اصلیت کو عوام پر ظاہر کیا گیاتھا، تب انڈیا حکومت کو فکر لگ گئی کہ کہیں ہمارا ایجنٹ پکڑا نہ جائے۔ذیل میں ہم قارئین کے سامنے وہ رپورٹ پیش کرتے ہیں:
ممبئی6 مارچ (یو این آئی)مسلمانوں کے مذہب اسلام میں ردّعمل کرکے بادشاہ اکبر کے طرز کی تبدیلیاں لانے اور ہندو دھرم کا پرچار کرنے کے لیے گرو یوسف (جن کو اسلام کے ایک پرچاری نے پاکستان سرکار سے سزائے موت دلوائی تھی) کے چیلے زید حامد پچھلے کچھ عرصے سے کا فی متحرک تھے۔یاد رہے یہ وہی زید حامد ہیں جو افغان جنگ میں انڈیاکے لیے جاسوسی کا کام کرتے تھے اور افغان جنگ ختم ہوجانے کے بعد انہیںگرو یوسف کے ساتھ اسلامی صوفی بن کر اسلام میں تبدیلی کا مشن ہماری تنظیم کی جانب سے دیا گیا تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب جارہے تھے کہ یکایک پاکستان کی ساری عاشقِ رسول تنظیمیں ان کے پیچھے لگ گئیں اور ان کے ہر فنکشن کو ناکامی میں تبدیل کردیا۔یہ وہی تنظیمیں ہیں جنہوں نے گرو یوسف کو بھی پھانسی کی سزا دلوائی تھی اور پھر جیل میں ہی مار دیا تھا اور ان کو شمشان گھاٹ یا قبرستان بھی نصیب نہیں ہوااور تو اور انہی جہادیوں کی ایک ویب سائٹ فیس بک پر بھی زید حامد ایکسپوزیشن کے نام سے کا م کررہی ہے جس نے زید حامد کا مکمل طور پرکریا کرم کردیا ہے۔اندرونی اطلاعات کے مطابق بھارت سرکار کی طرف سے زید حامد کو محتاط رہ کر اپنا مشن آگے بڑھانے پر زور دیا ہے اور فی الوقت اپنے پروگراموں کو سلو کرنے کی کامنا کا بھی اظہار کیا ہے ۔(26)
تحریکِ تکمیل پاکستان :
براس ٹیکس ویب سائٹ کے مطابق :
٭…تکمیل پاکستان موومنٹ ایک جدوجہد ہے جو پاکستانی قوم کو وہ مقام دلائے گی کہ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھااور قائد اعظم نے سوچا تھا۔دنیا کی اقوام کے درمیان پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بننا تھا جس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔
٭… علامہ اقبال کے خواب کا پہلا حصہ ہم نے 14اگست 1947ء کو پاکستان حاصل کرکے مکمل کرلیا تھا، تاہم اس خواب کی مکمل تعبیرکاحصول ہماری ضرورت ہے ۔ یہ وقت کی پکار ہے کہ قوم کو بدلا جائے اور پاکستان کی تکمیل کی طرف جدوجہد کی جائے جو کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کا ہدف تھا ۔
٭… علامہ اقبال کے نظریات کو ازسرنو تازہ کیا جائے ، قوم کو جگایا جائے اور ایک مشترکہ جدوجہد ان خطوط پر کی جائے جس کا راستہ قائد اعظم ، علامہ اقبال اور دیگر بزرگوں نے دکھایا تھا۔23 مارچ 1940ء کی روح اور شوق و جذبہ کو ایک بار پھر تازہ کیا جائے اورہم یہ کرسکتے ہیں اور کریں گے۔ 23 مارچ 2010ء کو ستر سال بعد جب قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی ، پاکستانی عوام جمع ہوکر ایک بار پھر تاریخی قرار داد تکمیل پاکستان منظور کریں گے اور تحریک پاکستان کی روح کو پھرسے زندہ کریں گے ۔ آج ہم اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے تاوقتیکہ پاکستان اپنی تکمیل کے مرحلے تک نہ پہنچ جائے۔
تحریکِ تکمیل پاکستان کے حوالے سے زید حامد کی نصیحت :
تحریک ِتکمیل ِپاکستان کے حوالے سے زید حامد نے محب وطن پاکستانیوں کو ایک'' اہم نصیحت ''کی ہے، جس میں انہوں نے اپنا مقصد اور مشن واضح کرنے کے علاوہ بطور تعریض کچھ نازیبا باتیں بھی کی ہیں۔ ذیل میں ان کی نصیحت ذکر کرنے کے بعد ہم اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں:
''عزیز ممبران ! یہ ایک نہایت اہم نصیحت ہے۔
شیطان کا سب سے بڑا فتنہ اور ہتھیار یہ ہے کہ وہ انسان کو جھوٹے مسائل کی بحث ومباحثہ میں الجھائے رکھتا ہے تاکہ ان کی توجہ ان مسائل سے ہٹ جائے جو اللہ اور اس کے رسول ۖ کے نزدیک سے زیادہ اہم ہیں ۔اللہ تعالیٰ جو کسی مؤمن کو سب سے بڑا تحفہ دیتے ہیں وہ شرح صدر ہے۔یعنی ان چیزوں کی بصیرت حاصل ہونا جو دوسرے نہ دیکھ سکتے ہوں۔حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے دعامانگی تھی کہ ان کو شرح صدر نصیب ہو، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ۖ کو شرح صدر عطا فرمائی تھی '' الم نشرح لک صدرک''۔
جب اللہ تعالیٰ کسی کو سزا دیتا ہے تو اس کے دل کو اندھا بنا دیتا ہے اور اس سے بصیرت چھین لیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ اس عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے ۔ یہ لوگ بد ترین مخلوق ہیں اور اپنی کم نظری اور سیاہ دلوں کی وجہ سے ہمیشہ فتنہ پھیلاتے ہیں ، کیونکہ یہ بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں ۔ یہ اس وقت کے ابو جہل ہیںجو قرآن کی آیات اور سنت مبارکہ کو سمجھنے کی فراست نہیں رکھتے ۔ مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں۔
ہم اکیسویں صدی کے سب سے بڑے مشن پر ہیں اور جو کام ہم اب کر رہے ہیں یہ آگے چل کر انسانیت کے مستقبل اور قسمت کا تعین کرے گا۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے ، یہ کوئی چھوٹی موٹی خیرات یا نیکی نہیں ہے ۔ سود کے خلاف اس جنگ میں ہم اللہ اور اس کے رسول ۖ کے صف ِ اول کے مجاہدین کا کام انجام دے رہے ہیں ۔ جو بھی اس جنگ میں ہمارے خلاف ہے ، دراصل وہ اللہ اور اس کے رسول ۖ سے حالت جنگ میں ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ۔ اس بات کو سمجھیے کہ سود گناہ عظیم ہے ۔ کوئی اور گناہ انسانی معاملات میں اس سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ۖ سود اور سودی نظام یعنی کاغذی کرنسی اور بینکاری کے ساتھ جنگ میں ہیں۔اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں روایت ہے کہ سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ااور ان میں سے سب سے معمولی درجے کے گناہ کی مثال اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے کی مانند ہے۔
کیا آ پ کو اندازہ ہوا ہے کہ یہ کتنی بڑی جنگ ہے ؟پوری مسلم دنیا اور اس کے راہنماؤں اور علمائے کرام سوائے چند ایک کے سود کو ایک ناقابل ترمیم اور اٹل حقیقت کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ مسجد نبوی کے مضافات میں بھی سودی لین دین کرنے والے سینکڑوںکا جال بچھا ہوا ہے ۔ کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا ۔ اگر کسی کی ڈاڑھی چھوٹی ہو ، اس کا تعلق دوسرے فرقے سے ہو یا وہ نماز مختلف انداز سے ادا کرتا ہو تو لوگ اتنی معمولی باتوں پر مرنے مارنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، لیکن جب سود کے نظام کی بات آتی ہے تو مکمل طور پر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ کیا یہ جہالت ہے ، حماقت ہے یا اندھا پن ہے یا اللہ کا عذاب ہے؟حقیقت یہ ہے کہ یہ ان سب کا مجموعہ ہے ۔ یہ ایک عذاب ہے جس سے امت آج کل دوچار ہے ۔لوگ میری ڈاڑھی ، سرخ ٹوپی اور شرٹ پر اعتراض کرتے ہیں ، اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ میری اس تصویر میں پیٹھ پر روضہ رسول ۖ ہے یا یہ کہ سکے پر کلمہ لکھا ہوا ہے یا یہ پروپگینڈہ ہے کہ میں(نعوذباللہ) قادیانی ہوں یا آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہوں ، لیکن اس فقیر پر سب اعتراض کرنے والے سود کے معاملے میں مکمل خاموش ہیں ۔ دراصل یہ لوگ دانستہ اور نا دانستہ طور پر اللہ اور رسول ۖسے حالت جنگ میں ہیں ، لیکن ان کی پوری توجہ ان چھوٹی باتوں پر بحث کرنے کی طرف ہے، جس میں شیطان نے ان کو الجھایا ہوا ہے ۔اس بات کو سمجھیے کہ ہم رسول ۖ کی عزت وعظمت کے دفاع کے لیے دجال سے سب سے بڑی جنگ لڑرہے ہیں تو ایسے وقت پر معمولی مسائل پر بحث کرکے موضوع کو تبدیل کرنے والے مکمل طور پر شیطان کے اثر و رسوخ کے تحت ہیں اور وہ خود اس حقیقت سے بے خبر ہیں ،اگر آپ میں سے کوئی ایسا کررہا ہے تو رک جائے اور ہوش کے ناخن لے اور توبہ و تدبر کرے۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھیے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کو کفار ذبح کررہے ہوں ، لیکن کوئی بھی ان کی مدد کو نہ آرہا ہو ، مگر جب ایک مجاہد اپنی تلوار نکال کر ان کمزور مسلمانوں کی مدد کو آئے تو مسلمانوں کے دیگر تماشائی گروہ '' حرام حرام '' کا شور مچائیںصرف اس بنیاد پر کہ اس مجاہد کی ڈاڑھی چھوٹی ہو یا اس کی تلوار پرکلمہ لکھا ہو ۔ اس مثال میں غور و فکر کریں۔
یہی سب کچھ آج کے مسلمان کر رہے ہیں ۔ وہ معمولی اور غیر اہم مسائل پر اعتراض کرکے بڑی تحریکوںاور ان کے اپنے راہنماؤں کو تباہ کررہے ہیں ۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ فقیر اور اس کا گروہ امت کے لیے کیا خدمات سر انجام دے رہے ہیں؟ اور یہ کہ ان کی بہت بھاری ذمہ داری کے سامنے معمولی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔یہ مومن کی فراست ہوتی ہے جس سے وہ جان جاتا ہے کہ کس کام کو ترجیح دینی ہے ؟ اور یہ کہ کس وقت کون سا قدم اٹھانا ہے ؟ ہر کسی کو یہ حکمت و فراست تحفے میں نہیں ملتی ۔ شیطان کے آلہ کا ر بن کر چھوٹی چھوٹی باتیں جو عظیم مشن کے سامنے بے حیثیت ہیں ، ان پر نکتہ چینی کرکے فتنہ و فساد پھیلائے۔ اللہ کسی ایسے شخص پر رحم کرے گا جو امت کو ان کے اصل مسائل سے دور لے جائے؟…
اللہ صمد ہے ، پوری کائنات سے بے نیاز ہے ، اسے ہماری ضرورت نہیں ہے ، بلکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے ۔ اگر آپ نے اپنا رویہ درست نہیں کیا تو آپ دنیا و آخرت میں خسارہ میں رہیں گے ۔ جو حقیقت میں نیک نہیں ہے وہ اپنے آپ کو نیک بناکر پیش نہ کرے ، ہم سب عاجز لوگ ہیں ،ہم غلطیوں سے پاک نہیں ہیں اور مغفرت کے لیے ہم اللہ کی رحمت کے طلب گار ہیں۔ آپ اپنی فکر کریں اور اپنی ذمہ داری نبھائیںاور ایسے مسائل کھڑے کرکے جو یا تو جھوٹ پر مبنی ہیں یا پھر اہم مسائل کے سامنے بے معنی ہیں ، دوسروں کا وقت برباد نہ کریں ۔ جو کوئی بھی مشن تکمیل پاکستان کے خلاف کھڑا ہوگا یا راستے میں رکاوٹ ڈالے گا ، وہ شیطان کا پیروکار ہوگا۔ اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہیں۔ اللہ آپ کو شیطان کا آلہ کار اور شر کا باعث بننے سے بچائے ۔ آمین'' (27)
زید حامد کی نصیحت پر طائرانہ نظر:
قارئین کرام!زید حامد نے اپنی اس نصیحت میں انتہائی لفاظی اور ملمع سازی سے کام لیا ہے ، اس میں ابتداء میں موصوف نے اپنے آپ کو ایک مفکر ، مدبر اور دانشمند کی حیثیت سے ظاہر کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے کسی اور شخص کو اتنی بصیرت اور تدبر عطا نہیں کیا، جتنا اسے عطا کیا گیا ہے ، گویا اس کی نظر میں پاکستان کی بھلائی اور بہتری کے لیے اس سے بہتر سوچنے اور سمجھنے والا اور کوئی نہیں ہے حتیٰ کہ اللہ کے نیک بندے اورعلمائے کرام بھی نہیں…!!!
آگے چل کر موصوف سود کے خلاف جنگ کرنے پر زور دیتا ہے اور پاکستان کی معیشت بہتر بنانے کی تلقین کرتا ہے ۔ یہ بات ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سودی نظام کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے ،مگر سوال یہ ہے کہ زید حامد کی اس مہم پر پیش رفت صرف ٹی وی اینکر زاور گلو کار وںکے ذریعے سے ہی کیوں کی جاری رہی ہے؟کیا انہیں لگتا ہے کہ اس مہم میں اسے علمائے کرام کی مدد یا نیک بندوں کی دعائیں لینی چاہئیں؟ ان کے اقدام سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ علمائے کرام سودی نظام کا خاتمہ کرنے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں یا وہ اتنی بصیرت نہیں رکھتے کہ ان سے مشاورت بھی کی جاسکے ۔کیا بصیرت والے اور دانشمند لوگ صرف موصوف اور اس کے اینکرو گلو کار ہی ہیں؟اگرایساہے توخاکم بدہن اس سے پھر سودی نظام کے استحصال کے بجائے اسے اور زیادہ فروغ ملے گا۔
زید حامدکا اپنے اوپر کیے جانے والے اعتراضات کادفاع کرتے ہوئے یہ کہناہے کہ ''میں جب بھی سودی نظام کا خاتمہ یا ملک میں خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنے کی بات کرتا ہوں تو مجھے قادیانی کہاجاتا ہے ، میری ڈاڑھی چھوٹی ہونے پر طعنہ دیا جاتا ہے ، مجھے آئی ایس آئی کا ایجنٹ ظاہر کیا جاتا ہے ، مگر مجھ پر اعتراض کرنے والے سودی معاملات پر مکمل خاموش رہتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتے ''۔لیکن قارئین! اعتراض ہمیشہ اسی پر کیا جاتا ہے جس پر شک ہو یا جس کے عزائم اورنظریات میں کھوٹ ہو، زید حامد پر کیے جانے اعتراضات بالکل بجاہیں ، مگراسے معلوم ہے کہ اگراس نے اپنی توانائیاں اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کاجواب دینے میں صرف کردیںتو ہو سکتا ہے کہ اس کا اصلی مقصد اور مشن ہاتھ سے چھوٹ جائے ، اسی لیے وہ ان باتوں کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے اورایک شاطروعیارشخص کی طرح ان مسائل کی طرف عوام کی توجہ پھیرنے کی کوشش کرتا ہے جن کو لے کر وہ پریشان ہیں ،یوںلوگ ان مسائل میں الجھ کررہ جاتے ہیں اور اس کی اصل حقیقت سے قطع نظرکرلیتے ہیں ، یہ توعوام کامعاملہ ہے ،جہاں تک علماومقتدیانِ قوم کامعاملہ ہے تووہ دین کی آوازبلندکرنے کے دعوے دارہرشخص کی مکمل چھان بین کرکے اس کااصل چہرہ عوام کے سامنے لاتے ہیں، وہ مذہبی راستوں میں رکاوٹ ڈالنے والے کسی شخص کوصرف اس بناپرسندجوازمہیانہیں کرتے کہ وہ دین کانام لیتاہے ، وہ ہر معاملہ میں اسلام مخالف دشمن پر آواز ضرور اٹھاتا ہے اورایساہونا بھی چاہیے کہ یہی ان کی ذمہ داری اورفریضہ ہے ۔
زید حامدکے نصیحت بھرے الفاظ پڑھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور اس کی دانشمندی کابھرم بھی کھل جاتاہے،جب وہ ایک مرد مجاہد کی مثال دیکر لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ ''اگر مسلمانوں کو کفار نیست و نابود کررہے ہوں اور ان کی مدد کو کوئی نہ آئے ، ایسے میں ایک مجاہد اپنی تلوار لے کرمیدان میں داخل ہوتا ہے اور مسلمانوں کی مدد کرتا ہے تو مسلمانوں کے دیگر تماشائی ''حرام حرام''کا شور مچانا شروع کردیتے ہیں اور اس کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ نہیںکرتے ۔'' زید حامد اس مثال کو بیان کرکے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں سود کی وبا تیزی سے پھیل چکی ہے، خلافت کا نظام رائج نہیں ، جگہ جگہ اسلام کو کمزور کیا جارہا ہے ؛ ایسے میں جب میں (زیدحامد)مرد مجاہد بن کر پاکستان کے حق میں آواز اٹھاتا ہوں اور خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنے کی کو شش کرتا ہوں تو لوگ مجھے طرح طرح کے طعنے دینے شروع کردیتے ہیں، میری ذات کو لے کر مجھے اپنے مقصد سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، گویا پاکستان میں موصوف زید حامد کے علاوہ اور کوئی مرد مجاہد اور اسلام مخالف دشمن کے خلاف آواز اٹھانے والا موجود نہیں ہے۔
تحریک تکمیل پاکستا ن کے ذریعے زید حامد کے عزائم:
یوںتو زید حامد تکمیل پاکستان کے ذریعے بڑے عزائم کے دعوے دار ہیں ، مگر ان کے عزائم میں للٰھیت ، اخلاص اور حب وطنی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ زید حامد کے بقول تحریک پاکستان کا مقصد سود سے پاک معاشی نظام ، غزوہ ٔہند ، خلافت راشدہ ، فتح بیت المقدس ، ریاست ہائے متحدہ اسلامیہ ، ریڈیو پاکستان دہلی اور آزادی ہے۔ چونکہ زید حامد خلافت راشدہ ، سود سے پاک معاشی نظام کا ذکر زیادہ اور باقی چیزوں کا ضرورت کے تحت کرتے ہیں ، اسی لیے ہم آئندہ سطور میں ان کے چند عزائم پر تبصرہ کرنے پراکتفاکریں گے:
٭…خلافت راشدہ کا قیام:
زید حامدپاکستان میں خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنے کے لیے گھر گھر آواز پہنچانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے وہ اپنی کتاب ''خلافت راشدہ'' میں لکھتا ہے کہ'' خلافت راشدہ کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی ماڈل اتنا حیرت انگیز اور خداداد ہے کہ اس کی مثال آج بھی دنیا کا کوئی اور ماڈل دے ہی نہیں سکتا، مگر جب انسان آج کی جمہوریت ، آمریت اور بادشاہت کی عینک لگا کر خلافت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ہمیشہ پریشان ہوتا ہے۔انسانیت نے خلافت سے بہتر کوئی دوسرا ماڈل تخلیق نہیں کیا ، یہ خلافت راشدہ سے پہلے اور اس کے بعد انسانیت کی تاریخ میں اس سے بہتر سیاسی ، معاشی اور عدالتی نظام اس کا ئنات میں پیدا ہی نہیں ہوئے،یہ نہایت ہی مسحور کن دور تھا اور انسانیت کی معراج تھی ۔ آج دنیا میں جتنی بھی خیر نظر آرہی ہے اور خاص طور پر مغرب نے جو بھی خیر کے نظام ، مثلاً: معاشرتی فلاح اور معاشرتی انصاف اپنے ملک میں قائم کیے ہیں اور جو بھی بہتر حکومت اور گورنمنٹس کے نظام قائم کیے ہیں اس کی تما م مثالیں خلافت راشدہ میں بہت پہلے موجود ہیں۔''
ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ '' خلافت اور شورائیت یہ وہ نظام ہیں جو ہمیں آنے والے وقت میں اپنانے ہیں، ہمیں موجودہ جمہوریت ، بادشاہت اور آمریت کو خیرباد کہنا ہے، مرضی اکثریت کی نہیں ، بلکہ اللہ اور اس کے رسول ۖ کی ہونی چائیے جو خلیفہ کے ذریعے نافذ کی جانی چاہیے اور اس مرضی کے نفاذ کے لیے خلیفہ شوریٰ سے مشورہ لے سکتا ہے جو کہ معاشرے کے بہترین افراد پر مشتمل ہو ، یہ اسلام کا سیاسی نظام ہے۔''(36 )
مزیدلکھتا ہے کہ''اسلام دشمنوں کو یہ بھی قابل قبول نہیں کہ یہ فقیر قرآن و سنت کے نظریے، خلافت راشدہ بطور سیاسی ، معاشی ، عدالتی ماڈل، عشق رسول زندگی کا مقصد اور مدینہ ثانی پاکستان کو ایک مقدس امانت قرار دے،ہم نے پاکستان میں مذہبی اور سیاسی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ، لسانیت ، فرقہ واریت ، صوبائیت اور عصبیت جاہلیہ کے خلاف سب سے بڑی آذان ہم دے رہے ہیں ، ہم نے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنا خون اور پسینہ بھی بہایا ہے اور اب دشمنوں کے پراپیگنڈا کا مقابلہ کررہے ہیں ، ہم پاکستان کے مسلمانوں کو متحد کرکے ایک مضبوط امت میں پرونا چاہتے ہیں ، اقبال کے اس شعر کے مطابق:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل لیکر تابخاک کاشغر
تاکہ امت مسلمہ پاکستان کوبنیاد بناکر اپنی نشاة ثانیہ کو دوبارہ حاصل کرسکے ،ہمارایہ مشن ایک روحانی ، نظریاتی اور اخلاقی بنیاد پر مبنی ہے جس کی اساس عشق رسول ۖ اور ادب رسول ۖ ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ پاکستان کہ جس کی تعمیر لا الہ الا اللہ پر ہوئی تھی،اب اس کی تکمیل محمد رسول اللہ ۖ پر کی جائے ۔''(28)
٭…سودسے پاک معاشی نظام:
زید حامد مشن تکمیل پاکستان کے ذریعے سود کے خلاف ایک مہم چلارہا ہے ،جس کے مطابق ملک پاکستان میں سود جیسی لعنت تمام معاملات میں تیزی سے پھیل چکی ہے اورنوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اگر ایک سچامسلمان سود کا معاملہ نہ بھی کرنا چاہے تو بھی اس کی کچھ نہ کچھ بو اسے پہنچ جاتی ہے ،زید حامد کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سود کے خلاف واضح طور پر جنگ کا اعلان کیا ہے اور ہمیں بھی سود کے خاتمہ کے لیے تگ ودو کرنا چاہیے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجھے آئی ایس آئی ، را اور ہندو یہود کے خلاف بولنے پرنشانہ بنایا جارہاہے ۔ ہم نے سود اور رباء کے نظام کے خلاف آذان دی اور بیت المال کے نام پر ایک خالص اسلامی معاشی اور فلاحی نظام کی جدوجہد میں مشغول ہیں،اللہ اور اس کے رسول ۖ نے سود کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے اور ہم بھی اعلان جنگ کرچکے ہیں ۔(29)
محترم قارئین ! ملک پاکستان کی معیشت آج جو خسارے میں جارہی ہے ، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام مخالف دشمن نے سودی وبا ہمارے ملک میں اس قدر پھیلادی ہے کہ اگر اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش بھی کی جائے توسالوں لگ سکتے ہیں ،ہمیں اس سودی نظام کے خلاف آواز اٹھاناچاہیے اور جس قدر ممکن ہو ملک پاکستان میں اسلامی معاشی نظام لانے کی جدوجہد کرنی چاہیے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں سود جیسا ناسور پھیل چکا ہو وہاں ہم اس کا متبادل حل پیش کریں، اس کے شرعی معیارات وضع کریں اور اس کے مطابق ہر ایک کو معاملات کرنے کا پابند کریں ۔
میرے استاد محترم جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ''غیر سودی بینکاری'' میں سود ی نظام اور اس کے متبادل کے بارے میں کچھ یوں ذکر کیا ہے کہ
سودی معیشت نے پچھلے چار سو سال میں جس طرح سے اس نظام کو جمانے کے لیے ہر سطح پر کو ششیں ہورہی ہیں ۔اس کے لیے تعلیم و تربیت کا خاص نظام بنایا گیا ہے ، حساب و کتاب رکھنے کے طریقے وضع کرکے دنیا بھر میں انہیں نافذ کردیا گیا ہے ، اس کے مناسب قوانین بنائے گئے ہیں ، اسی کو مدد دینے کے لیے ٹیکسوں کا ایسا نظام تیار کیا گیا ہے جو سود کی حوصلہ افزائی کرے اور غیر سودی تجارت کی ہمت شکنی ہو ۔ لہذا بات صرف اتنی نہیں تھی کہ معاملات کو صحیح کرنے کے لیے ایک نظام تجویز کردیا جائے ، بلکہ اس نظام کو ٹھیک ٹھیک چلانے کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت تھی جس میں سب سے پہلا کام ایسے افراد کی تربیت تھی جو اس نظام کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور اس پر دیانت داری سے عمل کریں ۔جن لوگوں نے سودی نظام کے تحت تربیت پائی تھی ، انہیں اس نئے نظام سے آگاہ کرنا اور اس کی نزاکتوں کو سمجھانا ایک مستقل کام تھا جس کے لیے عالم اسلام میں کئی مستقل تربیتی ادارے قائم کیے گئے، پھر حساب وکتاب رکھنے کے طریقے بدلے بغیر اس نئے نظام کو درست نہیں کیا جاسکتا تھا ، کیونکہ حساب و کتاب اور اکاؤنٹنگ اور آڈٹ کے جو معیار اس وقت عالمی طور پر مسلم سمجھے جاتے ہیں ، اگر انہی کے مطابق اکاؤنٹنگ اور آڈ ٹنگ کی جائے تو اس کے نتیجے میں خود معاملات غیر شرعی ہوسکتے ہیں ، چنانچہ اس کے لیے بحرین میں اکاؤنٹنگ اور آڈٹ کے نئے معیار تیار کیے گئے جو ضخیم جلدوں میں بحرین سے شائع ہوئے ہیں ۔
پھر سود کے جن متبادل شرعی طریقوں پر عمل ہورہا ہے ، وہ اگرچہ گنے چنے ہی ہیں ، لیکن مختلف مواقع پر ان کی عملی تطبیق کے اپنے کچھ مسائل ہوتے ہیں جن پر شرعی اور عملی دونوں جہتوں سے غور کرنا پڑتا ہے غرض اس نظام کو روبہ عمل لانے کے لیے اتنی مختلف جہتوں سے کام کرنے پڑا ہے کہ اس کی وسعت کا اندازہ انہی حضرات کو ہوسکتا ہے جو اس میں عملی طور پر شریک رہے ہیں ۔پھر جب کوئی نیا کام شروع ہوتا ہے تو طبعی طور پر اس میں خامیاں بھی ہوتی ہیں ، لوگ ٹھوکریں بھی کھاتے ہیں ، کچھ سادگی میں غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں ، کچھ بدنیت لوگ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جانتے بوجھتے ہوئے بھی غلطیاں کرتے ہیں اور چونکہ غیر سودی مالیاتی ادارے جگہ جگہ قائم ہورہے تھے اور اس بات کا پورا خطرہ موجود تھا کہ کسی متحدہ معیار کی غیر موجودگی میں ہر ادارہ اپنے من مانے طریقے پرشرعی طریقوں کی تشریح کرکے غلط طریقوں کو شرعی طریقے کہہ کر نافذ کرے ، اس لئے ایک متحدہ مجلس شرعی نے ان تمام اداروں کے لیے متحدہ شرعی معیار تیار کرنے کا کام کیا جس کے ذریعے ان اداروں کو ان معیاروں کا پابند بنایا جاسکے ۔ چنانچہ اب تک جو معاییر شرعیہ تیار ہوئے ہیں ، انہیں پاکستان سمیت مختلف اسلامی ممالک کے مرکزی بینکوں نے غیر سودی اداروں کے لیے واجب العمل قرار دے دیا ہے ۔(30)
٭…غزوہ ٔ ہند:
زید حامد کی طرف سے احادیث کی بھی من پسند تشریح و تاویل کی جاتی رہی ہیں ،ہم اس حوالے سے صرف ایک مثال پراکتفاکرتے ہیں ،جس کاتعلق غزوہ ٔ ہندسے ہے۔پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نبی کریم ۖ کے زمانہ میں ''ہند'' کاحدوداربع کیاتھا؟شروح حدیث اورجغرافیہ عرب کی ورق گردانی سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم ۖ کے زمانہ میں ہندوستان یا ہند ، دیبل یا سندھ سے شروع ہوتاتھا اور مکران کے ساحلوں تک جا پہنچتا تھا جس کے ایک طرف بنگال کے ساحل تھے تو دوسر ی طرف کوہ ہندوکش ، اس علاقے میں لڑی جانے والی جنگ اوراس میں شریک ہونے والوں کے حوالے سے نبی کریم ۖ کی مستند احادیث موجودہیں ،ذیل میں ہم صرف دو احادیث پیش کرتے ہیں:
٭…عن ثوبان مولیٰ رسول اللہ ۖ قال ، قال رسول اللہ ۖ عصابتان من امتی احرزھما اللہ من النار عصابة تغزو الھند و عصابة تکون مع عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام۔ الحدیث
ترجمہ :حضرت ثوبان،جو نبی کریم ۖ کے آزاد کردہ غلام تھے،سے روایت ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا کہ میری امت کی دوجماعتوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا ہے ، ایک وہ جماعت جو ہندوستان میں جہاد کرے گی، دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگی ۔(40)
٭…عن ابی ھریرة قال وعدنا رسول اللہ ۖ غزوة الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی ومالی فان اقتل کنت من افضل الشھداء وان ارجع فانا ابو ھریرة المحرر۔ الحدیث
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ نے ہندوستان کے جہاد(غزوہ ہند) کا وعدہ فرمایا (حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ )اگر اس جہاد کو میں نے پالیا تو میںاپنی جان ومال اس میں قربان کردوں گا، چنانچہ اگر میں شہید ہوگیا تو میںافضل شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگرمیں زندہ واپس لوٹا تو جہنم سے آزاد ہوں گا۔(41)
(ان احادیث کے علاوہ نعیم بن حماد سے بھی تین روایات موجود ہیں جن کو ضعیف بتایا جاتا ہے ، جس میں دجال کی موجودگی اور حضرت عیسیٰ کا بھی ذکر ہے )
محترم قارئین ! درج بالا احادیث میں نبی کریم ۖ نے غزوہ ٔ ہند کا وعدہ فرمایا ہے ،اس کاحقیقی مصداق کیاہے؟حضوراکرم ۖ نے اس کی کوئی صراحت نہیں فرمائی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اب تک تمام محدثین اس حدیث کوروایت توکرتے چلے آئے ہیں مگرخودسے اس کامصداق کسی جہادکوقرارنہیں دیتے، محتاط لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تک ہندکے خطے میں جتنے بھی جہاداعلائے کلمة اللہ کے لیے ہوئے ہیں اورآئندہ ہوں گے ،وہ سب اس خوش خبری کامصداق بن سکتے ہیں ،اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم ۖ کے زمانے کے ہندوستان کے ساحلوں تک اسلامی لشکر خراسان کے راستے حضرت عمر کے زمانے میں پہنچ چکے تھے ، مکران کے ساحل کا علاقہ حضرت عثمان کے زیر نگیں آچکا تھا، پہلی باقاعدہ فوجی مہم جوئی کے ذریعے حجاج بن یوسف کے زمانے میں محمد بن قاسم ملتان تک پہنچ چکے تھے ، محمود غزنوی نے ایک نہیں بلکہ سترہ حملے کیے تھے ،،ممکن ہے اس کے علاوہ بھی ہندکے خطے میں جہادی معرکے انجام پائے ہوں،ان تمام پرغزوہ ہندکے الفاظ صادق آتے ہیں۔لیکن زیدحامدکااصرارہے کہ ان میں سے کوئی جہادبھی غزوہ ہندکی فضیلت کامصداق نہیں بن سکا،البتہ کشمیرمیں مہم جوئی ہی جہادہندکا مصداق ہے اوران کے تیارکردہ لوگ ہی اس خوش خبری کے حقدارہوں گے جواحادیث میں آئی ہے۔ (33)
کیایہ بات انصاف کے خلاف نہیں کہ خیرالقرون کے جہادی معرکوں سے صرفِ نظرکرتے ہوئے صرف اپنی من پسندمہم جوئی کوہی غزوہ ہندکامصداق قراردینے کی جسارت کی جائے جس کی تائیدمیں سوائے اپنی بات کے کوئی دلیل بھی نہ ہو ؟ ہمارامقصود غیر مسلم ظالم، جابر ، قابض ، جارح فوج کے خلاف کی جانے والی کسی مہم جوئی کاانکارہرگزنہیں،بلاشبہ جہاد دین کا لاز می حصہ اور جز ہے اورانصاف کاتقاضایہی ہے کہ آج موجودہ بھارت کے خلاف ہونے والی لڑائیوں اور جنگوں کو جہادقراردیاجائے(اگرچہ مخالف نقطہ نظربھی پائے جاتے ہیں) مگر اس جہادہی کو غزوۂ ہندکہنااوراس پراصرارکرناکوئی صحت مندانہ رویہ نہیں کہلاسکتا،ہاں اسے سیاسی چال ضرورکہاجاسکتاہے۔
آپ کویہ جان کرخوش گوارحیرت ہوگی کہ غزوہ ہندکی یہ اصطلاح بھی زیدحامدنے اپنے گرویوسف کذاب سے مستعارلی ہے،ہماری تحقیق کے مطابق یوسف کذاب'' غزوۂ ہند'' کی اصطلاح استعمال کرتا تھا۔(34)
زید حامد کے بارے میں علمائے کرام کا موقف
زید حامد کے نظریات اور عقائد کے بارے میں جب علمائے کرام کو علم ہوا تو انہوں نے بھی اس پر اپنا متفقہ موقف ظاہر کرتے ہوئے اسے یوسف کذاب کا چیلا اور مرید کہا اور لوگوں کو باور کرایا کہ اس گمراہ شخص کا مکمل بائیکاٹ کریں ، تاکہ اس کی ضلالت وگمراہی اور اس کے غلط عقائد دوسروں تک منتقل نہ ہوں ۔ذیل میں ہم علمائے کرام کے موقف کو واضح کرتے ہیں :
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت:
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے زید حامد کو کھلا چیلنج دیا گیاجس کے مطابق انہوں نے کہا کہ یوسف کذاب مدعی نبوت تھا ، لاہور کی سیشن عدالت نے اس کی اپنی کیسٹوں ، تحریروں اور گواہوں کی شہادت پر اس کو سزائے موت سنائی گئی اور اسے جیل ہی میںایک قیدی نے قتل کردیا۔زید حامد چونکہ اس کا خلیفہ اور صحابی ہے ، اس لئے وہ یوسف کذاب کو مظلوم اور سچا مسلمان مانتا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ جس طر ح یوسف کذاب جھوٹا تھا ، اسی طرح زید حامد بھی اس کے عقائد و نظریات کا حامل ہونے کی بناء پر جھوٹا ہے ، مگر زید حامد اب تک اس کا انکار کرتا آیا ہے ، ہم نے ڈیڑھ سال پہلے بھی اس کو چیلنج دیا تھا ، آج پھر اس کو دہراتے ہیں کہ وہ جہاں چاہے ہم اس کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے تیار ہیں ، اگر اس نے ان عقائد سے توبہ نہ کی تو ہم اس کے خلاف بھی اسی طرح قانونی کاروائی کریں گے جس طرح یوسف کذاب کے خلاف کی تھی ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس سے بچیں۔(35)
تنظیم اسلامی کا موقف:
زید حامد سے کچھ عرصہ قبل بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدکی ملاقات ہوئی ۔ پاکستان کے درخشاں مستقبل اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے حوالہ سے ان کے خیالات کو محترم ڈاکٹر نے سراہا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ایک سیمینار بعنوان''بھارت کے جارحانہ عزائم اور سلامتی کونسل کا کردار'' منعقد ہوا جس میں دیگر مقررین کے علاوہ زید حامد کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس پروگرام کے بعد کچھ حضرات کی طرف سے ہمیں توجہ دلائی گئی کہ زید حامد کا نبوت کا دعویٰ کرنے والے یوسف کذاب سے تعلقات رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کی شخصیت متنازعہ ہے ، اس سے قبل ان کی شخصیت کے متنازعہ ہونے کاہمیں علم نہیں تھا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۖکی طرف سے توجہ دلانے پر اور پھر ہماری تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یوسف کذاب کے خلاف پاکستان کی عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنادیا تھا اور انہیں جیل ہی میں کسی قیدی نے قتل کردیا تھا۔ زید حامد سے جب ان حوالوں کے بارے میں پوچھاگیا تو انہیں نے ابتداً یوسف کذاب سے لاتعلقی کا اظہار کیا ، بعد ازاں ان کا یہ موقف سامنے آیا کہ ان کے آخری دور کے تصورات و دعاوی سے اپنی لاتعلقی کا عندیہ دیا۔
ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان اپنے گمراہ کن نظریات سے تائب ہوجائے اور ایسے نظریات پھیلانے والے شخص سے بھی اعلان لاتعلقی کردے تو امت مسلمہ کے ایک فرد کی حیثیت سے اس کے رجوع کو خوش دلی سے قبول کرلینا چاہئے ، تاہم اس کے اپنے خیالات و نظریات کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت مستقبل میں بھی رہے گی ۔ زید حامد کے موجودہ خیالات کو جاننے کے لئے تنظیم اسلامی کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی ، اس ملاقات میں زید حامد نے صاف لفظوں میں اقرار کیا کہ ''وہ ختم نبوت پر یقین رکھنے والے ہیں اور مدعیان نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں ، مزید یہ کہ گستاخان رسول پر بھی اللہ کی لعنت ہے ۔ ماضی میں ان کا یوسف علی سے اگر چہ تعلق رہا تھا ، لیکن اب وہ ان کے آخری دور کے عقائد اور نظریات سے اعلان برأت کرتے ہیں ۔'' اس پر ہمارے وفد نے ان سے تقاضا کیا کہ اپنے اس سہ نکاتی اقرار کا اپنی ویب سائٹ اور ''فیس بک'' وغیرہ پر بھی اعلان کریں ، انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ۔ زید حامد اگر اپنی ویب سائٹ وغیرہ پر یہ اعلان و اقرار''اپ لوڈ'' کردیں تو ہمارے نزدیک ان کی پوزیشن صاف ہوجائے گی۔
یہاں ہم یہ بات بھی واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں تک پاکستان میں خلافت راشدہ کے نظام کا قیام ، سود کی حرمت علاوہ ازیں امریکہ اور یہود و ہنود کے مذموم ایجنڈے کا تعلق ہے ، ہمیں زید حامد کی آرا سے بالعموم اتفاق ہے، لیکن ہم نائن الیون کے بعد اپنا ئی گئی افغان و طالبان پالیسی ، لال مسجد ، سوات ، مالا کنڈ کے علاوہ آزاد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کو پاکستان اور اسلام کے حوالہ سے انتہائی ضرر رساں بلکہ تباہ کن سمجھتے ہیں ، ہم ان کی مخلوط محافل کے اہتمام کو بھی شریعت کے تقاضوں کے ہم آہنگ نہیں سمجھتے۔(36)
تنظیم اسلامی نے زید حامد کے بارے میں موقف کی مزید وضاحت 17 مارچ 2010ء کوکی،جس میں کہا کہ ہمارے 9 مارچ 2010ء کے جاری کردہ موقف پر زید حامد سے یہ دعویٰ کرنا کہ ہم نے یوسف کذاب کے حوالے سے ان کی وضاحت کو قبول کرلیا ہے ، نیز یہ تاثر دینا کہ محترم ڈاکٹر اسرار احمد اور تنظیم اسلامی کا ان کو تعاون حاصل ہے ، صحیح نہیں ہے ، لہذا ہم اپنے جاری شدہ موقف کی مزید وضاحت پیش کررہے ہیں ۔
ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان اپنے گمراہ کن نظریات سے تائب ہوجائے اور ایسے نظریات پھیلانے والے شخص سے بھی اعلان لاتعلقی کردے تو امت مسلمہ کے ایک فرد کی حیثیت سے اس کے رجوع کو خوش دلی سے قبول کرلینا چاہئے ، تاہم اس کے اپنے خیالات و نظریات کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پر کھنے کی ضرورت مستقبل میں بھی رہے گی ،ہم نے زید حامد سے یوسف کذاب سے واضح طور پر برأت کا اعلان کرنے کا تقاضا بھی کیا تھا ، مگر زید حامد کی طرف سے تاحال کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔ لہذا ہمارے نزدیک زید حامد کی پوزیشن قطعی طور پر کلئیر نہیں ہوئی، بلکہ مزید مشکوک ہوگئی ہے۔(37)
جماعة الدعوة پاکستان کا موقف:
جماعة الدعوة پاکستان قرآن و سنت کی حامل جماعت ہے ، اس کا مقصد انسانیت کی خیر خواہی اصلاح اور تر بیت ہے ۔ مسلمانوں کو فرقہ واریت ، باہمی اختلافات اور فسادات کی راہ سے نکال کر صحیح اسلام کا تعارف و کردار پیش کرنا ، اسلامی معاشرے کی بنیاد انہی خطوط پر استوار کرنا جو رسول ۖ نے مدینہ منورہ میں رکھی تھی ، جماعة الدعوة سلف صالحین کے منہج دعوت و جہاد پر کار بند ہے اور زید زمان حامد سمیت کوئی بھی شخص جو خلاف شرع عقائد رکھتا ہو ، یا قرآن و سنت سے متصادم نظریات کا پر چار کرتا ہو، ہر میدان میں اس کی مخالفت کرتی ہے اور جماعة الدعوة کی ہمدردی کسی بھی ایسے شخص کے لئے ہرگز نہیں جو ختم نبوت کا منکر اور ناموس رسالت ۖ کا دشمن ہو ۔
جماعة الدعوة کی دفاع پاکستان کے لئے کی جانے والی کوششیں اور عملی جدوجہد کوئی دوچار سال کی بات نہیں، بلکہ ان کو شروع ہوئے ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے اور چاہے 14 اگست ہو ، یوم تکبیر ، یوم دفاع پاکستان یا 23 مارچ کا یوم تکمیل پاکستان کوئی بھی خاص دن ہو ، جماعة الدعوة کی ایسی مہمات جاری رہتی ہیں اور عوام الناس کی بیداری و شعور کے لئے پروگرامات ملک بھر میں منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔(38)
معہد ام القریٰ کا موقف :
جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم مولانا عبد الرحمان اشرفی نے کہا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے مجھے کئی ایک احباب نے فون کئے اور متعدد حضرات نے تشریف لاکر بتلایا کہ ٹی وی اینکر زید حامد جن کا مبینہ طور پر یوسف علی مدعی نبوت سے خلافت و صحابیت کا تعلق ہے ، وہ اپنے بیانات میں میرے بارے میں یہ تاثر دے رہا ہے کہ میں نے یوسف علی کے بارے میں کہاہے کہ وہ اچھا آدمی تھااور وہ میرا بہترین دوست تھا ، اس نے میرے ساتھ حج کیا تھا، نیز اس نے کارکنان ختم نبوت اسلام آباد کی ایک پریس کانفرنس کے جواب میں اپنی تردیدی تقریر اور ویڈیو کیسٹ میں کہاہے کہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا عبد الرحمان اشرفی جو بہت بڑے بزرگ اور بڑے ٹاپ کے اسکالر ہیں اور وہ ابھی تک زندہ ہیں ، جب تک یوسف مرا نہیں،تب تک وہ اس کا دفاع کرتے رہے اور انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کو بلاکر ڈانٹا کہ تم ظلم کررہے ہو ، کیونکہ یوسف علی نے دعویٰ نبوت نہیں کیا ، وغیرہ وغیرہ
جہاں تک میرے بارے میں یوسف علی سے دوستی وغیرہ کا حوالہ دیا جارہا ہے تو میں( عبد الرحمان اشرفی )اس کی وضاحت کرتا ہوں کہ حقیقت حال یہ ہے کہ یوسف علی میرے پاس ایک دو مرتبہ ملنے کے لئے آیا اور اسی دوران میں اور مرحوم مولانا اجمل خان حج کو گئے تو منیٰ میں جہاں مولانا اجمل خان کا درس تھا وہیں یوسف علی بھی درس دے رہا تھا، لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ میں نے یوسف علی کے ساتھ حج کیا اورمیری اس سے دوستی رہی ہے اور میرا زید حامد سے کوئی تعلق ہے ، نہ ہی میںنے اس سلسلہ میں یوسف علی کے بارے میں کوئی اخباری بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے متعلقین کو اس سلسلہ میں کوئی سر زنش کی۔ میرا موقف بھی یوسف علی کے بارے میں وہی ہے جو دیگر علماء ، ارباب فتاویٰ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کا ہے اور اس سلسلے میں میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہوں ۔ لہذا یہ تمام باتیں جو مجھ سے منسوب کی گئی ہیں ، سراسر جھوٹ اور خلاف واقعہ ہیں، میں زید حامد پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ ان باتوں کی نسبت میری جانب نہ کی جائے۔
میں رسول کریم ۖ کے بعد کسی مدعی نبوت کو مرتد اور زندیق سمجھتا ہوں اور اسی عقیدے پر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوکر رسول کریم ۖ کے لوائے حمد کے نیچے ذات نبوت کی شفاعت کا طلبگار ہوں۔میں دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ زید حامد اور اس جیسے دیگر لوگ جو یوسف علی کی باتوں اور سحر میں گرفتار ہیں ان کو ان باتوں سے نجات دے اور سچی توبہ کی توفیق فرمائے ۔ آمین(39)
قائین ! اس کے علاوہ جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن گرومندر روڈ کراچی، جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی اور دیگر مفتیان کرام کی طرف سے بھی زید حامد اور اس کے نظریات کے بارے میں تسلی بخش فتویٰ شائع ہوا ہے جسے متعلقہ ویب سائٹس پر دیکھا جاسکتا ہے۔
حرف ِآخر:
زید حامد کا تعارف ، عقائد اور اس کے عزائم کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ زیدحامد اپنی لفاظی ، سحر انگیز گفتگو اورنام نہادللہیت کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان سے کھیلنا چاہتا ہے ۔ موصوف نے تکمیل پاکستان کے جو عزائم محب وطن اور اہل درد مسلمانوں کے سامنے پیش کیے ہیں ، ان میں وہ اپنی نیک نیتی، خلوص نیت اور رواداری کو اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ ایک عام محب وطن بھی اسے اپنا رہبر اور قائد سمجھنے لگتا ہے ، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ لوگوں کے دلوں کو جیتنے کے لیے ایسے مسائل کا چناؤ کیا جائے کہ جن کی وجہ سے عوام پریشان ہے، اگرچہ اندرون خانہ وہ ایک سوچی سمجھی سازش اور یہودی لابی کے مقاصدکی خاطرسرگرم عمل ہو ، مگر اس کی ظاہری بناوٹ ، جدوجہد ، سرگرمیاں اور پیش رفت کو دیکھ کر یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی یہ سر گرمیاں مسلمانوں کے لیے کارگر ثابت ہوں گی یا نہیں ؟ یوں لگتا ہے کہ وہ اسلا م کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی بجائے اسے کھوکھلا اور کمزور کرنا چاہتا ہے ، اسلام اور اس کے نظام کا سہارالے کر اپنے آپ کو صوفی ظاہر کرکے لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے ، وہ اپنے آپ کو مبصر ، مفکر ، مدبر اور تجزیہ نگار ظاہر کرکے لوگوں کو اپنی گرفت میں لینا اوررکھناچاہتا ہے ، اپنی باتوں کو میڈیا کے اینکرزاورگلوکاروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔
مولا نا سعید احمد جلال پوری نے اپنی کتاب '' رہبر کے روپ میں رہزن'' میں زید حامد پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ،صرف ایک صدی پیشتر متحدہ ہندوستان کے غلیظ فتنہ ، فتنہ ٔ قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی ابتدائی زندگی کو لے لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ شروع شروع میں اس نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ ، اسلام کا ترجمان اور آریوں اور عیسائیوں کے خلاف مناظر سے باور کرایا تھا، مگر یہ سب کچھ ایک خاص وقت اور ایک خاص مقصد کے لیے تھا ، وہ یہ کہ کسی طرح مسلمانوں میں اس کا نام اور مقام پیدا ہوجائے اور بحیثیت مسلمان اس کا تعارف ہوجائے ، مسلمان اس کے قریب آجائیں اور مسلمانوں کا اس پر اعتماد بیٹھ جائے ، چنانچہ جب اس نے محسوس کیا کہ ان مناظروں اور مباحثوں سے اس کے مقاصد حاصل ہوگئے ہیں تو اس نے اپنے باطل افکا ر و نظریات کا اظہار کرکے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کردئیے ، اس کے بعد اس نے جو گل کھلائے ، وہ کسی باخبر انسان اور ادنیٰ مسلمان سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ، ٹھیک اسی طرح زید حامد بھی خاص ایک حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ کررہا ہے ، لہذا جس دن اس کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس کا مقصد پورا ہوگیا ہے یا مسلمانوں میں اس کامقام،اعتماد اور تعارف ہوگیا ہے ،یہ بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اپنے پوشیدہ افکار و عقائد کا اظہار وا علان کردے گا۔(40)''
ہمیںیہ بات بڑے افسوس کے ساتھ لکھنی پڑ رہی ہے کہ زیدحامد جہاں جھوٹ اور ملمع سازی سے کام لیتاہے، وہاں علمائے کرام اور بزرگان دین پر طعن و تشنیع کیے بغیر بھی نہیں رہتا،زید حامداپنے اکثر ویڈیو پروگراموں میں علمائے کرام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتاہے ، اس کی بظاہریہی وجہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ علمائے کرام نے زید حامد کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اس کے گرو کو پھانسی کی سزادلوائی تھی ، اسی وجہ سے وہ آج ان علمائے کرام پر برہم ہے اور جہاں بھی کوئی معاملہ ملکی وقار کا آتاہے تو وہاں علماء پر الزام تراشی ضرور کرتا ہے۔شایدیہی سبب ہے کہ زید حامد نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے علمائے کرام سے مشاورت کی بھی زحمت گوارہ نہیں کرتا اور گلو کاروں اور ٹی وی اینکر زکے ذریعے اپناالو سیدھا کررہا ہے۔
محترم قارئین! اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرنے والے لوگ صرف دورحاضرہی میں نہیں پائے جاتے ، بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے طاغوتی طاقتوں کے سہارے اسلام اور سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنساکر انہیں گمراہ کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے دین کی حفاظت اورمسلمانوں کی مدد کی ہے اور آئندہ بھی کرے گا(ان شاء اللہ تعالیٰ )۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اس قسم کے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کرنے چاہئیں اور ان سے مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے کہ یہی ہماری ایمانی غیرت کا تقاضا ہے ۔زیدحامدکی ذات سے ہمیں کوئی عداوت ودشمنی نہیں،ہمیں شکایت اس کے غلط افکار ونظریات اورعزائم سے ہے ،اگر زید حامد، یوسف کذاب پر علی الاعلان لعنت بھیج دے ، علمائے کرام پر طعن و تشنیع کرنے سے بازآئے اور عقیدہ ختم نبوت پرغیرمتزلزل ایمان کا واضح اعلان کردے تو مسلمانان پاکستان اسے ابھی گلے لگانے کے لیے تیار ہیں ، ورنہ ہماری اس سے مودبانہ گذارش ہے کہ وہ دین کانام لے کراسلامی شعائرکوتختہ ٔ مشق بنانے سے بازآجائے اورسادہ لوح مسلمانوںکو مزید گمراہ نہ کر ے اور میری قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ ہرایرے غیرے اور مجھول شخص کے حلقہ درس میںبیٹھنے سے اجتناب کریں، پہلے اس کا نام و نسب اور اس کی تعلیم اور عقائد کے بارے میں معلوم کریں کہ اس کا علم کہیں خود رو اور ذاتی مطالعہ کی پیداوار تو نہیں ؟ اس کے اعمال اور اخلاق کیسے ہیں ؟ کہیںوہ کسی گمراہ ،بے دین ، ملحد اور مستشرق استاد کا شاگرد یاکسی فتنہ پردازسے متاثراوراس کاآلہ کارتو نہیں ؟ اس کے تعلقات کن لوگوں کے ساتھ رہے ہیں ؟ کہیں وقت کے علمائے کرام نے اسے گمراہ تو نہیں کہا؟وغیر ہ وغیرہ۔
٭…٭…٭…٭
مصادر و مراجع
(1)… مولانا سعید احمد جلال پوری، را ہبر کے روپ میں راہزن، صفحہ نمبر 11
(2)… ایضاً، صفحہ نمبر12
(3)… ویب سائٹ:[email protected]/www.endofprophethood.com، مرکزسراجیہ
(4)… ایضاً
(5)… از بانگ قلندری ، مرد کامل کا وصیت نامہ ، ڈائری یوسف کذاب
(6)… از کالم : تعمیر ملت، ڈائری یوسف کذاب
(7)… از ڈائری یوسف کذاب اور چشم دید گواہوںکے عدالتی بیانات
(8)… از ویڈیو کیسٹ یوسف کذاب، علی نامہ ، ڈائری یوسف کذاب
(9)… از آڈیو کیسٹ، ڈائری یوسف کذاب
(10)… ایضاً
(11)… از آڈیوکیسٹ ،تقریر:28 مئی1997ئ
(12)… ایضاً
(13)…روزنامہ خبریں، 10 جولائی1997ئ
(14)… حوالہ ٔسابقہ ویب سائٹ، مرکزسراجیہ
(15)… روز نامہ ڈان ، 13 اگست 2000ئ
(16)… روزنامہ انصاف، 6 اگست2000ئ
(17)… روز نامہ نیااخبار ۔ 5 اگست2000ئ
(18)… حوالہ ٔسابقہ ویب سائٹ، مرکزسراجیہ
(19)… دیکھئے: ارشد قریشی،فتنۂ یوسف کذاب
(20)… روز نامہ اسلام لاہور،15مارچ 2010ئ
(21)… حوالہ ٔسابقہ ویب سائٹ، مرکزسراجیہ
(22)… روزنامہ خبریں، 10 جولائی1997ئ
(23)… روز نامہ جسارت کراچی :20 مارچ 2010ئ
(24)… حوالہ ٔسابقہ ویب سائٹ، مرکزسراجیہ
(25)… ملاپ اخبار ، ممبئی ، 9 مارچ2010ئ
(26)… ویب سائٹ www.brasstacks.com
(27)…دیکھئے: زید حامد،خلافت راشدہ
(28)… از زید حامد،پریس ریلیز آف براس ٹیکس
(29)… ایضاً
(30)… محمد تقی عثمانی،مفتی،غیر سودی بینکاری ،مکتبہ معارف القرآن کراچی،مارچ 2011ئ، صفحہ نمبر٤٩/٥٠
(31)… ا بو عبد الرحمان ،احمد بن شعیب ،سنن ِنسائی ، کتاب الجہاد، جلد 2 ، صفحہ نمبر 63
(32)… ایضاً
(33)… کاشف حفیظ صدیقی ، دانشوری سے حقیقت تک ، صفحہ نمبر 9
(34)… ایضاً، صفحہ نمبر10
(35)… عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
(36)… تنظیم اسلامی کا موقف، علامہ اقبال روڈ،گڑھی شاھو ، لاہور ، ویب سائٹ:www.tanzeem.org، (updated 9/3/10)
(37)… ایضاً (updated 17/3/2010)
(38)… جماعة الدعوة پاکستان
(39)… معہد ام القریٰ، جامعہ اشرفیہ لاہور پاکستان، ویب سائٹ:(www.jamiaashrafia.org)
(40)… مولانا سعید احمد جلال پوری ، را ہبر کے روپ میں راہزن، صفحہ نمبر 3

٭…٭…٭…٭
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 278971 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More