سندھ میں جگرکی پیوند کاری سینٹرکا قیام۔ایک خوش آئند اقدام

دنیا میں گردے، مثانہ اور جگر کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں جگر کی پیوند کاری (ٹرنسپلانٹیشن ) کے مراکز کی کمی پائی جاتی ہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ جنہوں نے گردہ، مثانہ اور جگر کی پیوند کاری کا مرکز قائم کرکے خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی و ٹرانسپلانٹیشن (SIUT)کا قیام ابتدائی طور پر سول اسپتال میں ـ 1970میں عمل آیا تھا۔ 1991میں اس انسٹیٹیوٹ کو خودمختار ادارے کی حیثیت دے دی گئی۔ 2003میں یہاں جگر کی تبدیلی کے پہلے مرکز نے کام کرنا شروع کیا۔ کراچی میں قائم جگر کی پیوند کاری کا یہ مرکز کراچی کے علاوہ سندھ کو خاص طور پر اور پاکستان کو عام طور پر جگر کی پیوند کاری کی سہولیات فراہم کررہا ہے۔ اس ادارے پر بے پناہ لوڈ ہے۔ عام طو ر پر اس مرض میں مبتلا مریضون کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کا علاج اس ادارے میں ہوجائے۔ اس شعبہ میں نجی ادارے اس قدر مہنگے اور ان میں علاج کسی بھی غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ عرصہ دراز سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں میں گردہ، مثانہ اور جگر کے علاج معالجے سے متعلق مراکز کا قیام عمل میں آئے۔تاکہ دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں سے اس مرض میں مبتلا افراد کو میلوں سفر طے کرکے کراچی علاج کے لیے نہ آنا پڑے۔

سندھ حکومت نے اندرون سندھ جگر کی پیوند کاری کے مرکز کے قیام میں پیش رفت کی جو ایک خوش آئند قدم ہے ۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے جگر کی پیوند کاری کے ماہر سرجن پروفیسر بیکر اور حکومت سندھ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے مطابق گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس((GIMSمیں دو ماہ کے اندر اندرجگر کی پیوند کاری کا آغاز کر دیا جائے گا۔یہ اندرون سندھ کے کسی بھی شہر میں پیوند کاری کا پہلا مرکز ہوگا۔ معاہدے کے مطابق ڈاکٹر بیکر دو سال کے لیے اپنی ٹیم کے سات ارکان کے ہمراہ جی آئی ایم ایس میں کام کریں گے۔ڈاکٹر بیکر کی ٹیم میں تین لیور ٹرا نسپلاٹ سرجن ایک انیستھیتک ڈاکٹر، اسٹاف نرس اور ایک کوآرڈی نیٹر ہوں گے۔ڈاکٹر بیکر کی ٹیم جی آ ئی ایم ایس کے ڈاکٹرز اور عملے کو جگر کی پیوند کاری اور اس کے بعد کی احتیاطی تدابیر کے بارے بارے میں تربیت فراہم کرے گی۔

اگر معاہدے کے مطابق گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس ((GIMSمیں جگر کی پیوند کار کا آغاز کردیا جاتا ہے تو یہ سندھ کے عوام کو طبی خدمات کی فراہمی میں ایک سنگ میل ہوگا۔ اس سے قبل کراچی میں ڈاکٹر ادیب رضوی کی سر پرستی میں پیوند کاری کا مرکزsiutمیں کام کررہا ہے۔ اس مرکز کو پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ معتبر پیوند کاری کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے مراکز سندھ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم کیے جائیں۔ اس مرکز کے قیام سے کراچی کے مرکز پرلوڈ کم ہوگا۔ اندرون شہر سے اس مرض میں مبتلا افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر کراچی آنا نہیں پڑے گا اور وہ اس پریشانی سے بچ جائیں گے۔

پاکستان میں جگر کی پیوند کاری کے حوالے سے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی و ٹرانسپلانٹیشن (SIUT)کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی یہ سہولت محدود پیمانے پر موجو ہے۔ جیسے پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں شفاء انٹر نیشنل اسپتال میں 2009میں جگر کی پیوند کاری کا سینٹر قائم کیا گیا۔ اسی طرح پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(PIMS) میں جگر کی پیدوند کاری کا سینٹر 2011میں 200ملین کی حکومتی گرانٹ سے قائم کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سینٹر میں جگر کی پیوند کاری کا پہلا آپریشن نا کام ہوگیا تھا جس کے باعث اسے بند کر دیا گیا۔فیصل آباد میں لیور فاؤنڈیشن ٹرسٹ (LFT) کے زیر نگرانی جگر کی تبدیلی کا مرکز 2005میں قائم کیا گیا۔ یہ مرکز نجی ادارے کے طور پر شروع کیا گیا۔ اس ادارے کے بارے میں معلومات ویب سائٹliverfoundation.pkپر موجود ہیں ۔

جگر کی خرابی سے پیدا ہونے والی بیماری ہیپاٹائٹس دنیا کی دس خطر ناک بیماریوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت دنیا میں 15کروڑ افراد اس بیماری کا شکار ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پچیس ہزار لوگ ہر سال جگر کے عارضے کا شکار ہوتے ہیں ان میں سے صرف دس فیصد فریض ڈائیلا سیس کی سہولت حاصل کر پاتے ہیں جب کہ 23فیصد افراد جگر کی پیوند کاری کی سہولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ایک اور سروے کے مطابق اس وقت دنیا میں 500 ملین افراد ہیپاٹائیٹس 'B' اور 'C' میں مبتلا ہیں ان میں سے 12فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ پاکستان میں یہ مرض جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ڈائیلا سیس سینٹر کے ساتھ ساتھ جگر کی پیوند کاری کے مراکز حکومتی سر پرستی میں سرکاری اسپتالوں میں قائم کیے جائیں۔تاکہ غریب مریضوں کو سستے علاج کی سہولت حاصل ہو سکے۔اس بیماری کی ایک وجہ مریضوں کا اس مرض سے آگاہی کانہ ہونا ہے۔ بے شمار لوگ اس بیماری میں صرف اس وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ انہیں درست اور بروقت علاج میسر نہیں آتا۔ انہیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ یہ مرج لاعلاج نہیں اگر بروقت اس کا صحیح علاج شروع ہوجائے تو مریض کے جاں بحق ہونے کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔

بھارت اس مرض کے علاج معالجے کے حوالے سے بہتر اور معتبر حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں جگر کی پیوند کاری کے متعدد مراکز قائم ہیں ۔ بھارت میں اس مرض کے علاج پر دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اخراجات بھی کم آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس مرض میں مبتلا افراد علاج کے لیے بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 500سے زیادہ پاکستانیوں کا جگر کی پیوند کاری کا کامیاب علاج بھارت کے مختلف شہروں میں ہوچکا ہے۔بھارت کے Dr. A. S. Sioin،Dr. Sinlash Gupta، Dr. Dr. Vivek VijاورDr. Sanjay S. Negi جگر کی پیدوند کاری کے ماہر سرجن تصور کیے جاتے ہیں۔ ان ماہرین کے بارے میں اور پیوند کاری کے علاج کے بارے میں معلومات ویب سائٹ indian-pospital.com/liver-transplant/پر معلومات دیکھی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی و ٹرانسپلانٹیشن (SIUT)کے بارے میں تفصیل ویب سائٹwww.siut.orgاور ای میل
[email protected]سے حاصل کی سکتی ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1261081 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More