غالب اور لطائف غالب

’’ہر اک سے پوچھتے ہیں کون ہے غالب
تمہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا‘‘
آگرہ دسمبر 1797 ایک وجود کی پیدائش ہوتی ہے جس نے آنے والے دور میں ادب کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننا تھا یہ پیدائش تھی مرزا اسد اﷲ خاں غالب کی ۔غالب سے ہر اردو اور فارسی ادب سے شغف رکھنے والا اچھی طرح آشنا ہے اور آپ کی نثر آپ کے اشعار آج بھی اردو زبان میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں غالب کا مقام ادب کی دنیا میں دن بدن زیادہ ہوتاجا رہا کہ جیسے غالب خود فر ماتے تھے ۔
’’ جتنی بڑھتی گئی پیری غا لب
اتنی میرے شعروں پہ جوانی آئی‘‘
غالب ایک اعلیٰ پایا کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں آپ کے خطوط اردو ادب میں آج بھی بہت بلند مقام رکھتے ہیں غالب کی طبیعت شاعرانہ کے ساتھ ساتھ شگفتہ مزاج بھی تھی میں اس مضمون میں غالب کی چند ایک شگفتہ مزاجیوں کا ذکر کروں گا۔
٭ ایک بار ہوا کچھ یوں کے امراؤ سنگھ جو ہر گوپال تفتہ کے عزیز دوست تھے ان کی دوسری بیوی کا انتقال ہو گیا اور تفتہ نے ان کی وفات کا حال مرزا صاحب کو بھی لکھ دیا تو مرزا صاحب سے تفتہ کو جواباً لکھا ۔
’’ امراؤ سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھے رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے ۔ اﷲ اﷲ ایک وہ ہیں کہ دو بار ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں ہے پجاس برس سے اوپر جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے تو نہ ہی پھندا ہی ٹوٹتا ہے نا ہی دم نکلتا ہے ‘‘
٭ایک روز مرزا کے دوست حکیم رضی الدین خانصاحب جن کو آم پسند نہیں تھے مرزا صاحب کے مکان پر آئے دونوں دوست برامدے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اتفاق سے ایک گدھے والا اپنے گدھے لئے سامنے سے گزرا زمین پر آم کے چھلکے پڑے تھے ۔گدھے نے ان کو سونگھا اور چھوڑ کر آگے بڑھ گیا حکیم صاحب نے جھٹ سے مرزا صاحب سے کہا ’’ دیکھئے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا مرزا صاحب فوراً بولے’’ بے شک گدھا نہیں کھاتا ‘‘
٭ایک روز مرزا صاحب کے شاگرد میر مہدی مجروح ان کے مکان پر آئے دیکھا کی مرزا صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں یہ ان کے پاؤں دابنے لگے مرزا صاحب نے کہا بھئی تو سید ذادہ ہے مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے؟
میر مہدی مجروح نا مانے اور کہا کہ آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجئے گا
مرزا صاحب نے کہا۔ ہاں اس میں مضائقہ نہیں
جب وہ پیر داب چکے تو انہوں نے ازراہِ مزاح میرزا صاحب سے اجرت مانگی مرزا صاحب نے کہا
’’بھیئا کیسی اجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے میں نے تمہارے پیسے دابے حساب برابر ہو گیا‘‘
٭مرزا غالب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے چنانچہ اسی سلسلہ میں کئی مکانات دیکھے جن میں ایک کا دیوان خانہ مرزا صاحب کو پسند آیا مگر محل سرا دیکھنے کا موقعہ نا مل سکا گھر آکر بیگم صاحبہ کو محل سرا دیکھنے کے لئے بھیجا جب وہ دیکھ کر واپس آئیں مرزا صاحب نے پوچھا تو بیگم صاحبہ نے بتایا کہ اس مکان میں لوگ بلا بتاتے ہیں۔ مرزا صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور ہنس کر کہا۔ ’’ کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی اور بلا ہے‘‘
٭ایک مرتبہ جب ماہ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ ظفر بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ مرزا تم نے کتنے روزے رکھے؟
مرزا صاحب نے جواب دیا : پیر و مرشد ایک نہیں رکھا۔
٭ایک دفعہ ماہ رمضان کے مہینے میں میرزا غالب نواب حسین مرزا کے ہاں گئے اور پان منگوا کر کھایا ایک متقی پرہیزگار شخص جو پاس ہی بیٹھے تھے بڑے متعجب ہوئے اور پوچھا حضرت آپ روزہ نہیں رکھتے۔
مرزا صاحب نے مسکرا کر’’ کہا شیطان غالب ہے‘‘
٭ایک دفعہ مرزا صاحب نے ایک دوست کو دسمبر 1858 کی اخیر تاریخوں میں خط ارسال کیا دوست نے جنوری 1859 کی پہلی یا دوسری تاریخ کو جواب لکھا مرزا صاحب ان کو لکھتے ہیں دیکھو صاحب یہ باتیں ہم کو پسند نہیں 1858 کے خط کا جواب1859 میں بھیجتے ہو اور مزہ یہ کہ جب تم سے کہا جائے گا تو کہو گے کہ مینے تو دوسرے ہی دن جوب لکھا تھا ۔
جب مرزا صاحب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارک باد دی مرزا نے کہاکون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں۔
٭زرائع آمدنی مسدود ہو جانے کی وجہ سے مرزا غالب بے حد پریشان تھے اور لوگ روٹی کھاتے ہیں تو بقول غالب وہ خود کپڑا کھاتے تھے ( ناداری کے باعث گھر میں کپڑے اوڑنا بچھونا جو کچھ تھا سب بیچ بیچ کے کھانا پڑا ) پریشانی کی اس حالت میں بھی وہ اپنی رگِ ضرافت کو پھڑکنے سے باز نہ رکھ سکے ایک خط میں میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں’’ میاں بے زرق جینے کا ڈھب مجھ کو آگیا ہے اس طرف سے خاطر جمع رکھنا رمضان کا مہینہ روزے کھا کھا کے کاٹا آگے خدا رزاق ہے کچھ اور کھانے کو نا ملا تو غم تو ہے ‘‘
٭ایک روز مرزا صاحب فتح المک بہادر سے ملنے اس کے ہاں گئے جب غلام گردش میں پہنچے تو خدمت گاروں نے صاحبِ عالم کو اطلاع دی کہ مرزا نوشہ صاحب آرہے ہیں وہ کسی کام میں مشغول تھے اس لئے مرزا صاحب کو فوراً نا بلا سکے۔۔۔۔
مرزا صاحب کچھ دیر وہیں ٹہلتے رہے اتنے میں صاحب ِ عالم نے پکار کر ملازم سے فرمایا ’’ ارے مرزا صاحب کہاں ہیں؟‘‘
یہ سن کر مرزا صاحب نے وہیں سے جواب دیا ’’ غلام گردش میں ہے‘‘
یہ سن کر صاحب ِ عالم خود باہر تشریف لے آئے فوراً مرزا صاحب کو اپنے ساتھ اندر لے گئے۔
٭ ایک بار دلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا صاحب مولنا فیض الحسن فیض سہارن پوری کے ہمراہ واپس آ رہے تھے راستے میں ایک تنگ و تاریک گلی سے گزر رہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھا مولنا نے یہ دیکھ کر کہا،
مرزا صاحب دلی میں گدھے بہت ہیں۔
مرزا صاحب بولے’’ نہیں حضرت باہر سے آجاتے ہیں‘‘
مولنا فیض الحسن صاحب جھنپ کر چپ ہو رہے
٭ایک دن جبکہ آفتاب غروب ہو رہا تھا سید سردار مرزا ، مرزا غالب سے ملنے کو آئے جب تھوڑی دیر کے بعد وہ جانے لگے تو مرزا صاحب خود شمع لے کر کھسکتے کھسکتے فرش کے کنارے تک آئے تاکہ سید صاحب اپنا جوتا روشنی میں دیکھ کر پہن لیں انہوں نے کہا قبلہ آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟ میں جوتا خود ہی پہن لیتا۔
مرزا صاحب بولے ۔ ’’میں آپکا جوتا دیکھانے کو شمع نہیں لایا بلکہ اس لئے لایا ہوں کہ کہیں آپ میرا جوتا نہ پہن جائیں۔‘‘
٭ ایک دفعہ مرزا صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ بیمار ہوئیں مرزا صاحب ان کی عیادت کو گئے اور ان سے پوچھا کیا حال ہے؟
انہوں نے کہا مرتی ہوں قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لئے جاتی ہوں مرزا صاحب فرمانے لگے ’’بوا‘‘ بھلا یہ کیافکر کی بات ہے کیا خدا کے ہاں بھی مفتی صدر الدین خان بیٹھے ہیں جو ڈگری کر کے پکڑوا بلائینگے۔‘‘
1857 کے بعد مرزا کی معاشی حالت دو برس تک دگرگوں رہی آکر نواب یوسف علی خان رئیس رامپور نے100 روپے ماہانہ تا حیات وظیفہ مقرر کر دیا نواب کلب علی خان نے بھی اس وظیفے کو جاری رکھا نواب یوسف علی خان کی وفات کے چند روز بعد نواب کلب علی خان
لفیفٹننٹ گورنر سے ملنے بریلی کو روانہ ہوئے تو چلتے وقت مرزا صاحب سے کہنے لگے خدا کے سپرد
مرزا صاحب نے کہا ’’حضرت خدا نے مجھے آپ کے سپرد کیا ہے آپ پھر الٹا مجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں‘‘
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 27916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.