معاشی مسائل اور مسلمان معاشرے

رمضان المبارک کا مہینہ غمگساری کا مہینہ ہے۔ جہاں مسلمان اس ماہ مبارک میں روزہ رکھتے ہیں وہاں اپنے خون پسینے کی کمائی سے دنیابھر کے لاچار، بے بس اور مستحقین افراد کی مالی دستگیری بھی کرتے ہیں ۔ خصوصا زکوۃ و صدقات کے ذریعے معاشرے کے مفلوک الحال لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ دین و دنیا اورمادہ و روح کے درمیان یہی خوبصورت امتزاج سلام کا حقیقی حسن ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے موحول پر غور و کریں تو انسانی زندگی کے حوالے سے دو طرح کے نقطہ ہائے نظر دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی زندگی کے حوالے سے مادی نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ ماں کی گود سے شروع ہوکر موت کی آغوش تک ہے۔ جبکہ زندگی کا اسلامی اور حقیقی تصور یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ہی کامل زندگی نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور بالآخر اسے بعد از مرگ اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے کیے پر جوابدہ ہونا ہے۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اپنے ماننے والوں کو مادی ضرورتوں سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے اور نہ ہی مادیت میں گم ہو کر روحانی اور اخلاقی روایات کوخیر آباد کہنے کی اجازت ۔ مادہ و روح کے درمیان تفریق کر کے ان کی ترقی کی راہیں جدا نہیں کرتا بلکہ ایک ایسی متوازی شاہراہ متعین کرتا ہے کہ روح اور مادہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ سفر کرتے ہوئے انسان کو اپنی حقیقی منزل مقصود پر پہنچا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کی ان با برکت گھڑیوں میں ایک طرف حالت روزہ میں اہل ایمان تقوی و طہارت کی کیفیات سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف مادی دولت کو غربا پر خرچ کر کے روحانی سکون پا تے ہیں۔ یہی وہ متوازی طرز زندگی تعمیر انسانیت کی ضمانت ہے۔ اگر اسلامی نظام معیشت کا منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہی کہ اس کی تشکیل ایسے حکیمانہ انداز پر کی گئی ہے جو کہ انسان کیلئے تزکیہ نفس اور اور اخلاقی بالیدگی کے ذریعے ترقی کی راہیں متعین کرتا ہے۔

بحیثیت مسلمان ہمیں آگاہ ہونا چاہیے کہ مال و دولت اور متاع حیات انتہائی قابل قدر چیزیں ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن پاک نے مال و دولت کو زندگی کی بقا کا موجب اوراﷲ کا فضل قرار دیا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو جد و جہد اور کاوش کر کے اسے کمانے کا حکم دیا ہے۔ اسلامی معاشرے میں نکھٹو اور نکمے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔اسلام نے جس مال و دولت کو اس قدر اہمیت دی ہے اسی کے شایان شان معاشرے میں اس کی تقسیم کارکے نظام کو بھی متعارف کرایا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسب معاش کیلئے ہر انسان کی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور نہ ہی ہر ایک کیلئے حالات سازگار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ مقدور بھر کوشش کے باوجود اپنی ضروریات پوری کرنے سے بھی بھی قاصر رہتے ہیں ۔ کچھ وہ ہیں جن کی بنیادی ضروریات حسب منشا پوری ہو جاتی ہیں لیکن قابل ذ کر بچت نہیں ہوتی ۔ لیکن کچھ وہ بھی ہیں کہ جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بھی کافی کچھ بچ جاتا ہے۔ اس صورت احوال میں ان صاحب ثروت لوگوں کا فرض منصبی ٹھہرایا گیا کہ معاشرے کے غریب اور محروم طبقات کی طرف دست تعاون بڑھائیں۔ لیکن اسے صرف اور صرف ما لدار لوگوں کے رحم و کرم اور احساس زمہ داری پر ہی نہیں چھوڑا بلکہ باضابطہ طور پر معاشی نظام کے طور پر اس انسانی مسئلہ کا قابل عمل نظام تجویز کیا ہے۔ ذکوۃ کو دین کا اہم ترین رکن قرار دیا گیا۔ اس کی ادائیگی اور مستحقین کی مکمل تفصیلات قرآن میں بیان کر دی گئیں۔ حکومت اسلامیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وقت اورحالات کے مطابق معاشرے میں نظام صلاۃ و زکوۃ قائم کریں ۔ اسلام کے بتائے ہوئے اس انداز معیشت میں دولت کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف رہتا ہے۔تاکہ دولت اور سرمایہ سمٹ کر چند ہاتھوں میں کھلونا بننے کی بجائے سماج میں بسنے والے ہر فرد تک پہنچ سکے۔ اگر صرف اسلام کی نظام زکوۃ کو کسی بھی خطہ زمین میں نافذ کردیا جائے تو یقینی طور وہاں سے غربت اور افلاس کا دیس نکالا ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے لوگ زکوۃ لیکر پھریں اور لینے والا کوئی نہ ہو اور اس طرح قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوجائے۔ مالی معاملات کرتے ہوئے اخلاقی قدریں اور عقیدہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اﷲ کی رضا کیلئے مخلوق خدا پر خرچ کرنے والوں کو کئی گنا اجر کی خوش خبریاں سنائی گئیں۔ دولت کی بے جا محبت میں گرفتار ہو کر ا س سلسلے میں غفلت اور کوتائی کے نتیجے میں سخت ترین سزاؤں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ انسانی اور اسلامی رشتوں میں اخوت اور بھائی چارے کی تلقین کی گئی۔ فرمایا گیا کہ تکمیل ایمان تب ہو گی جب مسلمان اپنے بھائی کیلئے بھی وہی پسند کرے گا جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اس صورت حال میں کیسے ممکن ہو گا کہ اپنے لئے تو پسند نہ کرے لیکن اپنے بھائی کیلئے ناپ تول میں کمی کرے۔ عیب دار یا نقلی چیز کو فروخت کر کے اصلی کی قیمت وصول کرے۔ معیشت کے عمل کو صاف اور شفاف رکھنے کیلئے بد نیتی پر مبنی ذخیرہ اندوزی (Hoarding) سے سختی سے منع کیا گیا۔ ایسے تاجر جو زخیرہ اندوزی کرکے بازار میں اشیاء کی مصنوئی قلت پیدا کرتے ہیں اور بعد ازاں لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی کی قیمت وصول کرتے ہیں انہیں حدیث میں خطاکار اور ملعون قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم آج کے مسلمان معاشروں پر نظر دوڑائیں تو خوفناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ تقسیم ہے۔ کہیں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو کہیں عیاشیوں کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ خصوصا آج کل لوٹ مار اور کرپشن سے متعلقہ پاکستان سے آنے والی خبروں نے تو نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ ملک عزیز کو لوٹنے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جو کسی کرپٹ ذہن میں آسکتا ہے۔ آبی لانچوں میں نوٹوں کے تھیلے بھر بھر کر دوسرے ملکوں میں پہنچائے گئے۔اس قبیح فعل کیلئے خوبرو فلمی دوشیزاؤں کو استعمال کیا گیا۔ نہ معلوم اور کون کون سے حربے آزمائے گئے۔خوف خدا سے عاری اشرافیہ نے اس بے دردی سے لوٹ کھسوٹ کی کہ جس جس کے ٹریلر چلنے سے ہی دل کانپ رہے ہیں اگر پوری حقیقت سامنے آئی تو نہ معلوم کیا ہو گا۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالی کو پاکستانی قوم پر رحم آگیا ہے۔ ہر روز بد عنوان عناصرکے کالے کرتوتوں سے پردہ کشائی پاکستانی قوم کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 216676 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More