ویلڈن جنرل راحیل شریف

کشمیر پاکستان کے قیام کی ابتدا ہی سے پاکستان اور بھارت میں تنازع کا شکار ہو گیا۔ کشمیر پر قبضہ اوراختیار کے حوالے سے پاکستان کا حق بنتا تھا۔ جس پر تمام قوانین اوراخلاقی آداب کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت نے قبضہ کر لیا۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا تحفظ کرتے ہوئے قبائلیوں کے تعاون سے کشمیر کے کچھ حصے کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ خطہ آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہشمند رہاہے۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالا بلکہ کشمیری عوام پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے بھارت اپنے بجٹ کا کثیر حصہ فوج پر خرچ کر رہا ہے اور پانچ لاکھ سے زائدہندو فوجی مقبوضہ کشمیر میں موجود ہیں۔ آئے دن ہونے والی ناکہ بندیوں، گھر گھر تلاشی، خواتین کی بے حرمتی اور نو جوانوں کو بلا وجہ پکڑ کر زندان میں ڈالنے جیسے مظالم ہندوﺅں کی سفاکیت کا ثبوت ہیں۔

مقبوضہ کشمیر و کشمیر میں موجود مسلمان جو کشمیر کی آزادی کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں وہ آج بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملد درآمد کروانا چاہتے ہیں لیکن بھارت کسی بھی صورت ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بھارت نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کٹھ پتلی حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ جو کشمیریوں کی حمایت یافتہ نہیں ہے۔ بھارت ہر ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس میں پاکستان پرالزامات کی بوچھاڑ نہ کرے۔ ابھی حال ہی میں پاکستانی علاقے سے جانے والے ایک کبوتر کو جاسوس قرار دے دیا گیا۔ اس مسئلے پر بھارت کو پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہمیشہ کی طرح انہیں اس مسئلے پر ہونے والی خفت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ دوسری جانب پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی روابطہ قائم ہونے پر بھارت کو بہت زیادہ تکلیف ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والا اقتصادی راہداری کا معاہدہ جو پاکستان کے معاشی استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس پر بے جا تنقید بھارت کی طرف سے کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں انہوں نے ایک بے پرکی اڑائی کہ ہم پاکستان اور چین کو گلگت بلتستان سے اس راہداری کو بنانے نہیں دیں گے کیونکہ یہ کشمیر ہے اور پاکستان نے جو چند سال پہلے گلگت بلتستان کو ایک الگ حیثیت دی ہے یہ بھی غلط ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر شاہراہ قراقرم بنائی اور وہ عرصہ دراز سے رواں دواں ہے۔ اس پر تو کبھی اعتراض نہیں ہوا اور اب اچانک گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار دے کر اقتصادی راہداری پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں جو یکسر غیر منصفانہ، غیر اخلاقی اور سفارتی آداب کے خلاف ہے اور دوسرے ملک کے معاملات میں دخل دینے کے مترادف ہے۔ اس پس منظر میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کا ڈیفنس یونیورسٹی میں دیئے جانے والے صدارتی خطاب میں کشمیر کے مسئلے پر اظہار خیال بلا جواز نہیں اور ان کا یہ کہنا بالکل درست اور صائب ہے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے اور مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونے سے ہی خطے میں امن قائم ہو گا۔ اس امن کے حصول کیلئے اسلام ہمیںایسے ہی اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ امن کا حصول جہاد اور جہاد کی تیاری کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ جس کی بہترین مثال نبی کریم ﷺ کے گھر میں قائم حجرہ مبارک میں لٹکی ہوئی نو تلواریں ہیں ۔ کھانے کیلئے گھر میں وافر مقدار میں خوراک موجود نہیں ہے۔ لیکن امن کے قیام کیلئے اپنی تیاری مکمل ہے۔ جنرل راحیل شریف کے اس بیان اور اس خطاب کو پوری قوم تحسین کی نظروں سے دیکھتی ہے اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بھارت کی بے جا تنقید کا مناسب جواب آ گیا ہے۔

دوسری طرف اندرون پاکستان ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ ضرب عضب کی کامیاب تکمیل سے ہی ممکن ہے، اس کیلئے جہاں قبائلی اور شمالی علاقہ جات میں کارروائیاں کی جارہی ہیں وہاں ہم فوج سے بھی یہ توقع رکھیں گے کہ شہروں اور دیگر علاقوں میں غیر ملکیوں کے آلہ کاروں کو تلاش کر کے انہیںعبرتناک انجام سے دو چار کیا جائے۔ یقینی طور پر ملک کی سالمیت اس وقت قائم رہتی ہے جب اس کی سر زمین کو دیگر ممالک اپنی پراکسی وار کیلئے استعمال نہ کر سکیں۔ پاک فوج کے سپہ سالار کا یہ عندیہ کہ پاکستان کی سر زمین کو ہم پر اکسی وار کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، یہ بھی بہت صائب اور خوش آئند بیان ہے۔ ماضی میں ہم نے پیارے وطن میں ہونے والی پراکسی وار کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے۔

اگر مضبوط ارادوں کے ساتھ کام کا آغاز کر لیا جائے تو انشاءاللہ تعالیٰ پاکستان پر آنچ نہیں آئے گی اور وہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رہے گا۔ جنرل راحیل شریف ایسی کمٹمنٹ سیاستدانوں کو بھی دکھانی ہو گی۔ ایپکس کمیٹی میں طے شدہ قومی امن کیلئے بیس نکات پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا، جب تک ان نکات پر عملدرآمد شروع نہیں ہو گا امن کا حصول خواب بن کررہ جائے گا۔کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں بزرگ سیاستدان میاں افتخار کیخلاف درج کیا جانے والا جھوٹا قتل کا مقدمہ اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے وزیر کا بلدیاتی انتخابات کے دن کھلم کھلا بیلٹ بکس لے کر بھاگنا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل معاملہ اقتدار کے حصول کا ہے نہ کہ عوام کی خدمت کا۔کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صوبائی حکومت کی الیکشن کمیشن پرکی جانے والی تنقید بے جا ہے۔ حقیقتاً امن و امان کے قیام کی ذمہ داری صوبائی حکومت کا فرض بنتا تھاجو کہ صوبائی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔بلدیاتی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کی جانی چاہئیں ۔جبکہ دوسری طرف عمران خان کا بیان کہ”الیکشن دوبارہ کروا لیے جائیں“انتہائی افسوس ناک ہے۔کیونکہ یہ کوئی گڈے گڈی کا کھیل نہ ہے کہ آئے دن ہوتا رہے۔ اس کے لیے بھرپور تیاری کرنا پڑتی ہے اور رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔سیاست دانوں کو اب فیئر پلے کرنا ہو گا اور اپنی روش کو درست کرنا ہو گا۔ جب تک سیاستدان اس روش کو ختم نہیں کریں گے پاکستان ترقی کے راستے پر نہیں چل سکے گا۔ ۔۔
 
محمد راغب حسین نعیمی
About the Author: محمد راغب حسین نعیمی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.