بیچاری بیوروکریسی اور ہماری منڈیاں

پنجاب کے چیف سیکرٹری نے ویڈیو لنک کے ذریعے صوبے کے ڈویژنل کمشنرز اور ڈی سی اوز (DCOs) سے رمضان بازاروں کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور انہیں ہدایت کی کہ اشیائے خورونوش کی وافر مقدار کی دستیابی یقینی بنائیں اور مناسب قیمتوں کے ساتھ ساتھ چیزوں کے معیار کی بھی کڑی نگرانی کریں۔ چیف سیکرٹری نے رمضان بازاروں میں خواتین، بزرگوں اور معذور افراد کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ہدایت کی اور رمضان المبارک میں رمضان پیکج کے ثمرات حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنے کا کہا۔ انہوں نے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے کا کہا تا کہ رسد اور معیار برقرار رکھا جا سکے۔ انہوں نے کم ناپ تول میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کا بھی حکم دیا اور ڈی سی اوز کو منڈیوں میں اشیاء کی نیلامی کے عمل کا خود جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

چیف سیکرٹری کی ہدایات سب ٹھیک او ربروقت سہی مگر منڈیوں میں جائے گا کون؟ ڈی سی اوز تو بہت بڑی بات، کوئی مجسٹریٹ منڈی میں داخل نہیں ہوتا۔ یہ ممی ڈیڈی ٹائپ بیوروکریٹ طبقہ رمضان بازاروں کی حد تک تو ٹھیک کہ جہاں صفائی کی صورتحال بہت بہتر ہوتی ہے۔ منڈیوں میں اگر کسی ذمہ دار نے آنا ہو تو چار پانچ دن ٹریکٹر راستوں کی صفائی کرتے ہیں۔ تب منڈی قدرے بہتر شکل میں نظر آتی ہے مگر بو کا وہ عالم ہر طرح برقرار رہتاہے کہ وہاں سوائے ان لوگوں کے جن کا کاروبار منڈی سے وابستہ ہے یا میرے جیسا کوئی جنونی جسے ہر حال میں سستی چیز درکار ہوتی ہے منڈی میں گھس ہی نہیں سکتا۔ کبھی چیف سیکرٹری صاحب بمعہ بیگم کے منڈی کا چکر لگائیں میں اُن کی خوبصورت باتوں کا قائل ہو جاؤں۔ میں ایک دن بیگم کو لے گیا تھا۔ بغیر کچھ لئے فوراً واپس پلٹنا پڑا اور آج تک کوئی گھر کا فرد میرے ساتھ منڈی جانے کو تیار نہیں۔ چیف سیکرٹری سب سے پہلے منڈیوں کی صفائی کا حکم دیں اور اُس کا نتیجہ دیکھنے ایک آدھ دفعہ کسی منڈی کا چکر بھی لگائیں۔ آپ کو زمینی حقائق تو پتہ چلیں۔

منڈیوں کا اپنا ایک مزاج ہے۔کسان ہو یا عام آدمی، منڈیوں میں پوری طرح لوٹا جاتا ہے۔ آپ کسی نیلامی میں حصہ لیں بولی سو روپے دی ہو مگر نیلام کرنے والا ایک سوپچاس پر رکے گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ جس بندے کو وہ کہہ دیں کہ تم نے ایک پچاس بولی دی ہے وہ دبا دبا احتجاج توکرتا ہے مگر انکار نہیں کرتا۔ انکار کی صورت میں نیلام کرنے والا اور اس کے ساتھی کھلے عام اس شخص کو گالیاں دیتے اوربہت بے عزتی کرتے ہیں۔ میرے جیساکوئی کھڑا ہو توحلئے سے اندازہ لگا کر نیلامی کے بغیر ہی معقول رقم طلب کر لیتے ہیں۔ جو بہرحال بازار سے بہتر ریٹ ہوتا ہے۔ بولی کی رقم کے علاوہ بھی آپ کو کچھ رقم دینی ہوتی ہے جسے وہ ڈالی کی رقم قرار دیتے ہیں۔ اس کا کسان کی آمدن والی رقم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو پھل آپ خریدتے ہیں، اس میں سے بھی کچھ پھل ڈالی کے نام پر نکالا جاتا ہے جو خالصتاً نیلام کرنے والوں کی ملکیت ہوتا ہے۔ جسے بیچ کر وہ علیحدہ رقم حاصل کرتے ہیں۔ کسان کو رقم دیتے ہوئے وہ کمیشن بھی معقول لیتے رہتے ہیں اور پھر کسان کو رقم دیتے وقت بہت سے فنڈز وصول کرتے ہین۔ جیسے مرمت فنڈ، مسجد فنڈ، کوئی نہیں جانتا کونسی مرمت او ر کس کی مرمتاور پھر کونسی مسجد؟ مگر یہ فنڈز وصول ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔

میں ایک دن منڈی میں سبزی خرید رہا تھا۔ دکاندار نے پیاز کے ریٹ 40 روپے کلو اور مٹر کا ریٹ 90 روپے کلو بتایا۔ اچانک شور اٹھا کہ مجسٹریٹ صاحب آگئے ہیں اور انہوں نے ایک دکاندار کو پکڑ لیا ہے۔ بہت سے دکاندار بھاگ کر اس کی مدد کو چلے گئے۔ میں نے دیکھا ایک پولیس والا اور اس کے ساتھ گندے سے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص موجود تھا، اُس گندے کپڑوں والے شخص کو وہ غریب اور سادہ سے دکاندار مجسٹریٹ کہہ رہے تھے جب کہ وہ کسی اعتبار سے مجسٹریٹ تو کیا ریڈر بھی نہیں تھا۔ اس کا لہجہ، اس کا لباس، اس کی جوتی اور اس کا حلیہ بتا رہے تھے کہ مجسٹریٹ کی عدالت کا کوئی بہت چھوٹا اہلکار ہوگا۔ دکاندار اکٹھے ہو کر اُسے چھڑانے کے حربے استعمال کررہے تھے۔ شاید کوئی یونین بھی ان لوگوں نے بنائی ہوئی تھی جس کے عہدیدار کو لایا گیا۔ میں جس دکاندار سے سودا لے رہا تھا اسے واپس بلایا ۔آتے ہی اس نے مٹر کے ڈھیر پر کپڑا ڈال دیا کہ یہ برائے فروخت نہیں ہیں اور پیاز کا ریٹ 50 روپے ہو گیا۔ مگر کیوں؟ ساتھ ہی ایک کاغذ پڑا تھا جو اُس نے میرے آگے کر دیا۔ جناب یہ حکومت کی ریٹ لسٹ ہے میں اس کے مطابق سودا دوں گا۔ ریٹ لسٹ کے مطابق پیاز پچاس روپے کلو تھا اور مٹر تیس روپے کلو۔ اب وہ پیاز تو بیچنے کو تیار تھا مگر مٹر نہیں۔ کہنے لگا میں نے (80) اسی روپے کلو خریدے ہیں۔ میں کم کیسے بیچوں؟ یہ ریٹ گھر بیٹھ کر بنا لیتے ہیں۔ وہ جسے پکڑا ہے وہ بھی مٹر نوے (90) روپے کلو بیچ رہا تھا۔ ہم مجسٹریٹ صاحب کو سمجھا رہے ہیں کہ جس چیز کا تھوک ریٹ اسی (80) روپے ہے اسے ہم نوے (90) سے کم کیسے بیچیں؟ میں نے کہا کہ یہ شخص جو خود کو مجسٹریٹ کہہ رہا ہے ہرگز بھی مجسٹریٹ نہیں۔ اس سے اس کا کارڈ تو مانگو، پتہ چلے کہ واقعی مجسٹریٹ ہے یا کوئی جعلساز؟ ہنس کر کہنے لگا کہ جناب ہم میں اتنی جرات اور ہمت ہوتی تو روزی کے حصول کے لئے اسقدر گندی جگہ پر ہی بیٹھے ہوتے۔

چیف سیکرٹری صاحب کو زمینی حقائق جاننے کے لئے خود بھی کچھ ہمت کرنا ہوگی۔ تمام اضلاع کے ڈی سی اوز (DCO) حضرات منڈی نہیں جائیں گے۔ کوئی مجسٹریٹ بھی منڈی نہیں جائے گا۔ اعلان کر دیں کہ چیف سیکرٹری ہفتے میں کسی ایک منڈی میں اجناس کی قیمتوں اور صفائی کی صورتحال کا جائزہ لینے خود جائیں گے۔ کسی ایک منڈی کا چکر لگا لیں۔ ایک تو زمینی حقائق سے آپ خود آگاہ ہو جائیں گے، دوسرا آپ کی پیروی میں ہر شخص وہاں جائے گا اور آپ کے کسی بھی وقت آنے کا سن کر ذمہ داران منڈیوں کی صفائی جو میرے خیال میں ایک بہت بڑا آپریشن ہے، پر کچھ نہ کچھ توجہ ضرور دیں گے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441483 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More