ایٹم بم وقت کی ضرورت یا پیسوں کا ضیاع؟

گزشتہ کئی دنوں سے میں عجب کشمکش میں مُبتلا تھا، پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں پر کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن دل اور دماغ یہ کہہ کرساتھ دینے سے انکار کر رہے تھے کہ تو تو بچہ ہے اور ذہن کا کچہ ہے،اس لئے میں بات کو سمجھنے کیلئے ایک اُستاد سے ملا، ایک سیاستدان سے ملا، ایک سائینسدان سے ملا لیکن مطمئن نہ ہو سکا،پھر تاریخ کے اوراق ٹٹولے، ریسرچ کیا، تب بات سمجھ میں آگئی کہ ایٹم بم ہے کیا چیز۔۔ریسرچ کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ بہت سے ایسے لوگ اور صحافی ہیں جو ایٹم بم کو صرف اور صرف ایک فضول خرچی سمجھتے ہیں،مجھے افسوس بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی کہ انہوں نے ہیروشیما اور ناگاساکی سے کچھ نہیں سیکھا، اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو مجال ہے کہ امریکہ۔۔۔۔۔میں اُن لوگوں کو یہ بات یاد دلانا نہیں چاہتاکہ 1935 ء میں قائداعظم نے جب مسلم لیگ کے الیکشن میں حصہ لیا تو پوری انڈیا میں مسلم لیگ کو ایک سیٹ نہیں ملی اور اسطرح ایک ہزار سال بعد پہلی مرتبہ کانگرس کو صرف چند صوبوں میں حکومت ملی تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا ؟مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کیلئے تحریکیں شروع کیں، اُردو پر پابندی لگائی گئی، مسجدوں پر پابندی لگائی گئی وغیرہ وغیرہ۔۔۔میں انہیں زید حامد کی یہ بات بھی یاد دلانا نہیں چاہتا کہ اگر پاکستان اپنا نیوکلئیر پروگرام Compromise کر دیں تو ہم اس کے بعد تین سال زندہ نہیں رہ سکیں گے، میں انہیں یہ بھی یاد دلانا نہیں چاہتا کہ جب حضورﷺ کا انتقال ہوا تو گھر میں تین دن سے کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا لیکن گھر کی دیوار کے اوپر تلواریں، نیزے اور اسلحہ اتنا بھرا ہوا تھا کہ جو ایک مجاہد کے گھر میں ہونا چاہئے۔۔لیکن میں ایسے کم ظرف لوگوں کو یہ ضرور یاد دلانا چاہتا ہوں کہ1991ء میں جب سویت یونین کے ٹکڑے ہوئے تو یوکرین کے حصے میں جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ وراثت میں آیا اور یوں وہ ایک آزاد خودمختارتیسری بڑی ایٹمی طاقت بن گیا لیکن پھر وہی ہوا جسکی تجاویز یہ ٹکے ٹکے کے روشن خیال دانشور پیش کرتے ہیں کہــ ’’ آپ دفاعی معاہدہ کر لیں اور کوئی آپکو کچھ نہیں کہے گا، پاکستان بس اپنی معیشت پر توجہ دے اور ایٹمی ہتھیار کسی اور کے حوالے کر دے یا اپناجوہری پروگرام بند کر دے‘‘

جو لوگ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے خلاف تاویلات پیش کرتے ہیں ، ایک نظر صرف یوکرین اور لیبیا کو دیکھ لیں کہ ان کا کیا حال ہوا جب انہوں نے اپنے جوہری اثاثے مختلف دفاعی معاہدے اورامداد کے غیوص دے دیئے،1994ء میں یوکرئن نے ایک میمورنڈم پر دستخط کئے اور آج جب روس نے اُس وقت یوکرئن کے دفاع اور علاقائی سا لمیت کی ضمانت دی تھی ، خود یوکرئن پر چڑھ دوڑا ہے اور اب یوکرئن کے پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ افسوس اور پچھتاوے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہمارے پاکستان کے نفسیاتی دیسی لنڈے کے انگریز اپنے آقاوں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کوغیر جانبدار محقق اور ایک ٹویسٹ بن کر ہمارے نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔۔

دوسری بات یہ کہ اگر ہم ایٹم بم کا ذکر کرتے ہوئے کرنل قذافی کو یاد نہ کریں تو نا انصافی ہوگی،ویسے تو میں قذافی کا ذکر بچپن سے سُنتاآ ّرہاہوں کہ وہ تنازعات اور تضادات سے بھر پور زندگی گزارتے تھے لیکن کچھ دن پہلے میری نظروں سے تنویر صاحب کا کالم گُزرا، پڑھ کر میں قذافی سے بہت متاثر ہوا۔۔۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب الطاف عباسی ہالینڈ گئے تو ڈاکٹر ْقدیر صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک سوئی لینے کیلئے مجھے دس مراحل سے گُزرنا پڑتا ہے اور ایٹم بم بنانے کیلئے پیسہ چاہئے، اس لئے بھٹو صاحب سے کہیں یہ پاکستان کے بس کی بات نہیں اور اگر وہ واقعی یہ مہم سر کرنا چاہتے ہیں تو ابتدائی طور پر پہلے سوملین ڈالر کا بندوبست کریں جو اس عظیم پروجیکٹ کیلئے سیڈ منی ہوگی۔یہ اُس زمانے میں ایک بڑی رقم تھی جسکا انتظام اُس وقت بہت کٹھن تھا چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے الطاف عباسی کو کرنل قذافی کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اگر ہمیں سو ملین ڈالر نہ ملے اور ہم بھارت کے جواب میں ایٹم بم نہ بنا سکے تو پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جائیگا، بھٹو صاحب کی یہ بات بلکل دُرست تھی اور آج بھی دفاعی تجزیہ نگار صاحبان یہی کہتے ہیں کہ اگر پاکستان ایٹم بم نہ بنا دیتا تو آج پاکستان کا نام ونشان تک نہیں ہوتا، تو بات ہو رہی تھی کہ الطاف عباسی، قذافی کے پاس بھٹو صاحب کا پیغام لے کر گیاچنانچہ قذافی نہ صرف اتنی بڑی رقم پر امادہ ہوگئے بلکہ انہوں نے لیبیا کی انقلابی کمان کونسل کے ممبرڈاکٹر سالم بن عامر کو یہ رقم دیکرالطاف عباسی کے ہمراہ ہالینڈ بھیجا، الطاف عباسی کے بقول ،پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے اگر اُس وقت قذافی پیسے نہ دیتا تو پاکستان آج ایٹمی طاقت نہ ہوتا۔۔۔۔۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جتنا رقم ایٹم بم بنانے پر حرچ ہوا اور یہ تعلیم یا صحت کے کسی شعبے پر خرچ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا، میں اُن کو بتاتا چلوں کہ اگرایٹم بم نہ بنتا تو ہم اب تک زندی بھی نہ ہوتے پھر تعلیم اور صحت کا اچار ڈالنا تھا کیا؟؟؟؟

ان سب باتوں کا اگر آپ اندازہ لگائے تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجائیگی کہ قومیں بھوکے تو رہ سکتے ہیں لیکن اپنی دفاع کیلئے اپنی آبرواور عزت کی حفاظت کیلئے ہتھیاروں پر سمجھوتہ نہیں کرتے کیونکہ بھوکا رہنے سے شائد کچھ نہیں ہوتا لیکن بے عزتی ہونے سے سب کچھ چلا جاتا ہے اور یہ بات بھی بھولنے کی قابل نہیں کہ ایٹم بم نہ ہونے کی صورت میں ہم تین سال زندہ نہیں رہ سکیں گے۔