بے زبان

حارث کوئ باقاعدہ کبوتر باز تو تھا نہیں شام ڈھلے جب کبوتر باز محلے کی چھتوں پر کبوتر اڑانے کا شوق پورا کرتے تو ان سفید غلوں کو دیکھ کر اس کا بھی بڑا من کرتا آخر اس کی روز کی ضد سے تنگ آکر اسکے بابا نے اسے سفید کبوتروں کا ایک جوڑا لا کر دے ہی دیا.اسکے لیئے وہ جوڑا کسی من پسند کھلونے کی طرح ہی تھا وہ اپنی طرف سے انکا پورا خیال رکھنے کی کوشش کرتا شام کو انکے پنجرے سے نکال کر انکے پاؤں میں ایک ہلکی سی ڈوری باندھ کر انھیں اڑانے کا شوق بھی پورا کرلیتا لیکن وہ کوئ باقاعدہ کبوتر باز تو تھا نہیں اسلیئے وہ بہت سی بنیادی باتوں سے ناواقف تھا جو کبوتر پالنے کے لیئے ضروری ہوتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ کچھ دن بعد وہ دونوں کبوتر بیمار رہنے لگے. ایک نر کبوتر تو کچھ دن پہلے ہی مر گیا جبکہ مادہ کبوتری کچھ بچے دینے کے بعد ختم ہوگئ..حارث وقتی طور پر بہت غم زدہ ہوگیا پر اب اب پہلے سے زیادہ ان بچوں کا خیال رکھتا.ان میں ہی ایک چھوٹی کبوتر ی جسکا نام اس نے جھمری رکھا بہت پیاری سی تھی.حارث نے اسکی ایک ٹانگ مین ایک ایک چھوٹا سا گھنگھرو بھی باندھا ہوا تھا جب وہ چلتی تو فضا میں دیر تک اسکے گھنگھرو کی آواز ایک موسیقی کا سماں باندھے رکھتی.دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ وہ بڑی ہونے لگی حارث اسکے لیئے ایک نر کبوتر اور بازار سے لے آیا. جلد ہی وہ پنجرہ پھر سے بہت سے اور چھوٹے چھوٹے کبوترون سے بھر گیا.اب ڈال کر حارث کبوتروں کی ٹانگ میں ڈوری اڑانے کا شوق نہیں پورا کرتا بلکہ وہ ہر ماہ احتیاط سے انکے پروں کو تھوڑا کاٹ دیتا اور انھین روز شام کو تھوڑی دیر کے لیئے صحن میں کھلا چھوڑ دیتا.کچھ دن سے جھمری کی طبیعت میں عجیب سا چڑ چڑاپن تھا جب شام کو صحن میں کبوتر چہل قدمی کرتے تو وہ ایک کونے میں سب سے الگ تھلگ جاکے کھڑی ہوجاتی اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا وہ سب سے الگ تھلگ کھڑی تھی جبھی حارث کو پنجرے میں سب کبوتر بند کرتے وقت نہیں دکھی.وہ عجلت میں تھا شاید اسلیئے بھی اس نے جھمری کی غیر موجودگی محسوس نہیں کی.اسکے جانے کے بعدبھی وہ کافی دیر تک ادھر ادھر پھرتی رہی دھیرے دھیرے بڑھتے اندھیرے اور دیواروں پر پھیلتے سائے خوفناک سا ماحول پیدا کر رہے تھے دفعتا کسی جانب سے بلی کی آواز آتی محسوس ہوئ جھمری نے ایک عجیب سے احساس سے جھرجھری لی.اسکے رونگٹے کھڑے ہونے لگے .بے چینی کی کیفیت میں وہ پاس ایک چھجے پر چڑھ گئ آواز قریب آتی محسوس ہورہی تھی.اور ....اور...جھمری نے اپنے پر پھیلادیئے پروں میں بھرنے والی ٹھنڈی ہوا نے اسے ایک الگ ہی احساس دلایا اس نے اپنے پر پھڑ پھڑ اکر اڑنے کی کوشش کی اسکے کٹے ہوئے پر تھوڑے بہت بڑھ چکے تھے.سو اسکی یہ کمزور سی کوشش کسی حد تک کامیاب ہو گئ اور و ہ چھجے سے اڑ کر پاس والی چھت تک پہنچ گئ خوف اب پہلے سے تھوڑا کم اور اعتماد پہلے سے تھوڑا زیا دہ تھا.اس نے ایکبار پھر اڑنے کی کوشش کی. پرواز کا یہ نیا احساس ایک عجیب سی سرشاری لیئے ہوئے تھا.آزاد فضا اور اسکے پیرمیں بندھا گھنگھرو ملکر ایک خوبصورت ماحول باندھ رہے تھے.پر وہ ٹھیک سے اڑنے سے ناواقفی کی بناء پر بار بار گر پڑتی رات کے اندھیرے چھٹ رہے تھے چڑیوں کی چہچہاٹ سورج کے نکلنے کا اعلان کررہین تھیں .جھمری مین سڑک تک پہنچ چکی تھی.جہاں دھیرے دھیرے گاڑیوں کاشور بڑھتا ہی جارہاتھا حیرت یہ تھی کہ کسی کا بھی اسکی طرف دھیان نہیں گیا تھا کیونکہ وہ ایسی جگہ تھی جہاں آوارہ کتے بھی کافی تعداد میں ٹہلتے رہتے تھے یا شاید اسکی قسمت بہت اچھی تھی کہ اسے ایک اور کبوتر پاس میں نظر آگیا ایک خوشی کی کیفیت اسکےی رگ رگ میں جیسے بھر گئ کافی دیر کے سفر کے بعد اسے اپنے جیسا کوئ راستے میں ملا تھا.وہ اسکے پاس پہنچی تو اس نے بھی گویا حیرت سے اسکا خیر مقدم کیا وہ ایک عمر رسیدہ کبوتر تھا. دونوں جلد ہی مانوس ہوگئے اور ساتھ اڑان بھرنے لگے.لیکن جلد ہی اس عمررسیدہ کبوتر کو احساس ہوگیا کہ جھمری ابھی اڑنے کے فن سے ناآشنا ہے لیکن ساتھ ہی اس میں اڑنے کی چاہ موجود تھی.اس نے جھمری کی مدد کی ٹھان لی. اور اسکی اڑنے میں جو مدد ہوسکتی تھی کرنے لگا اس نے اپنے بازوؤں سے اسے سہارا دے کر اڑانے کی کوشش کی.وہ زیادہ اونچا نہیں اڑ پاتی اور بار بار گرتی یہانتک کہ اس بار قدرے غیر ہموار اور پتھریلے راستے پر گرنے کی وجہ سے اسکے بازو شدید زخمی ہوگئے..لیکن شاید آزادی اور اونچی فضا میں اڑنے کا احساس اس سے زیادہ طاقتور تھا وہ دونوں جلد ہی شہر سے نزدیک جنگل پہنچ چکے تھے. جنگل پہنچ کر جھمری نے دیکھا وہاں اس جیسے کئ کبوتر جھنڈ کی شکل میں موجود تھے.ہر طرح ہر نسل کے پر یہ کیا اسے یکلخت ہی اننن ننھے کبوتروں کا خیال ستانے لگا جھنی وہ بہت پیچھے چھوڑ آئ تھی. وہ مزید آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے لگی.اسکی آنکھوں میں اس وقت ایک عجیب سی مقناطیسی چمک محسوس کی جاسکتی تھی.وہاں کچھ کھونے یا پانے کا احساس نہیں بلکہ کچھ کر گذرنے کا مصمم ارادہ جھلک رہا تھا وہ جنگل کی آزاد زندگی میں سانس لیتے ہوئے اس پورے جھنڈ کو حیرت اور بہت سے ان کہے سوالوں کی گرفت میں چھوڑ کر واپس ہولی اسی قفس کی جا نب جہاں سے اس نے پہلی اڑان بھری تھی.مزید اور کچھ گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ واپس اس گھر کی منڈیر پر پہنچ چکی تھی. اس بار اسکی پرواز قدرے مستحکم اور تجربہ کار تھی. ملگجی شام پھر پھیلنا شروع ہوگئ تھی سورج کی روپہلی کرنیں مکان کی کچی منڈیروں پر اپنا ڈیرہ جما رہین تھیں. تبھی حارث کی نظر اس پر پڑی وہ دوڑ کے اسکے پاس آیا کل رات سے وہ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جیسے تھک سا گیا تھا اب تو امید بھی ہار دی تھی کہ یکلخت وہ نظر آگئ.تبھی اس کا دوست عذیر چلایا ارے یہ تو جھمری ہے یہ واپس آگئ جلدی پکڑ اسے کہیں پھر سے نہ اڑ جائے اور ہاں اس دفعہ اسکے پر اور زیادہ کاٹ دینا کہیں پھر سے نہ اڑ جائے..حارث نے اسے پیار سے پسکار کر دھیرے سے اپنے ہاتھوں میں پکڑا دیکھ عذیر اسکے گھنگھرو پر جنگل کی گیلی مٹی لگی ہے پھر وہ اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا اور اسکی آنکھوں کی چمک میں جیسے مہبوت سا ہوگیا. اور کہنے لگا اب یہ کہیں نہیں جائے گی.اب اسکے پر کاٹنے کی ضرورت بھی نہیں.اگر اس نے آزاد ہی ہونا ہوتا تو کبھی واپس اڑ کے یہاں نہ آتی. یہ کہہ کر اس نے جھمری کو واپس اسکے بچوں کے پاس پنجرے میں ڈال دیا پنجرے میں جیسے ننھے ننھے دوسرے کبوتروں کی عید ہی ہوگئ وہ دوڑ کر اسکے پھیلے ہوئے پروں میں سمٹ آئے یہ بات ممتا کے جذبے سے سرشار جھمری کے اچھے سے سمجھ آچکی تھی کہ آزادی صرف فرد واحد کے لیئے نہیں یہ ایک وسیع تصور ہے ایک ایسا جذبہ ہے جسے وہ اپنی اولاد میں پروان چڑھانے کے لیئے واپس لوٹی تھی.وہ کیفیت اور خوشی جو اس نے چند لمحوں کے لیئے خود فضا میں محسوس کی وہ اسے آگے منتقل کرنی تھی.اس بار اسے صرف اپنے لیئے نہیں سب کے لیئے آزادی چاہیے تھی.اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس بار وہ قید میں بھی مطمئن تھی اور پہلے سے زیادہ پرسکون-

Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 87154 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More