کراچی میں موت کا رقص

شہر قائد اس وقت گرمی ،ہوس کے باعث سخت ترین گرم شہر بن گیا ہے جلتی پر کاکام سرانجام دینے کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنی روایتی مجرمانہ غفلت کا شکار نظر آتی ہیں کیونکہ گرم موسم ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی اور پانی شہر قائد میں نایاب ہو چکا ،لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں ہر طرف میتیں ہی میتیں نظر آرہی ہیں ہسپتالوں مردہ خانوں میں جگہ کم پڑ گئی لوگ اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوس،گرمی کے باعث سفر آخرت کو جاتا دیکھ کر آہ وبکا کر رہے ہیں کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آرہا سوائے چند ایک دینی فلاحی اداروں کے۔۔۔۔ ہر طرف سے روایتی بیانات داغے جا رہے ہیں اپنی غلطیوں کو دوسروں پر ڈالنے کا سلسلہ جاری وساری ہے ہزار گھروں میں میتیں اٹھنے کے باوجود کراچی یا سندھ کارڈ استعمال کرنے والے لیڈران کرائم اب کراچی کو بند کرنے ہڑتال کی کال دینے سے قاصر نظر آتے ہیں تاکہ ان کے مسائل حل ہو سکیں۔ایسے لگ رہا ہے کہ یہ مرنے والے انسان نہیں ہیں۔ ہاں ہاں ان کے نزدیک یہ انسان نہیں ہیں کیونکہ یہ غریب ،مفلوک الحال ،تیسرے درجے کے لوگ ہیں ان اہل جمہوریت کی نظر میں اپنے منظورو نظر اور ایلیٹ کلا س کے لوگ ہی انسان ہیں ان کیلئے ہمدرد ی ہے انہی کیلئے شہر قائد کو بند کرنے کی کال دی جاتی ہے اب مجھے کوئی لیڈر نظر نہیں آرہا جو اس سانحہ عظیم کو قومی سانحہ قرار دے کر ان کے اصل ملزمان،مجرمین کا تعین کر سکے،بس زبانی کلامی خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے راقم کے نزدیک ان مظلوم،بے گناہ،غریب انسانوں کی موت کے ذمہ دار وفاقی اور صوبائی ذمہ دار ہیں ماہ صیام میں بدترین لوڈشیڈنگ نے اہلیان پاکستان کا جینا حرام کردیا ہے عوام کے شدید احتجاج کے باوجود بے حس حکمرانوں کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی ،حکمران ذاتی مفادات میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ انسانوں کی جانوں کی کوئی پروا نہیں ،روزہ دار سخت گرمی میں بجلی کے باوجود روزہ بڑی مشکل سے پورا کر سکتا ہے چے جائیکہ کئی کئی گھنٹوں لوڈشیڈنگ کرکے انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے، حکمرانوں کا یہ رویہ اﷲ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام کو سستی مسلسل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاتی تاکہ ماہ صیام میں مسلمانوں کو تکلیف نہ ہوتی مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا،وفاقی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا مگر آج لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی بجائے لوڈشیڈنگ کا جن بوتل سے ایسے باہر آگیا ہے جسے حکمران اسے کنڑول کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے مطالبات کرتے نظر آرہے ہیں کہ عوام کا پہلے معاشی قتل کیا گیا اب انھیں موت کے سرٹیفٔٔٔیکیٹس دئیے جارہے ہیں قوم کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اگر یسا نہیں ہو سکتا تو وفاقی حکومت اقتدار سے الگ ہوجائے۔ایک طبقہ یہ کہتانظر آرہا ہے کہ میڑوبس،سڑکوں کا جال بچھانے والے حکمران پہلے بجلی پر سرمایہ کاری کرکے بجلی بحران ختم کریں تاکہ عوام کو معاشی استحکام نصیب ہو گھروں کے چولہے گرم ہوسکیں،خوشحالی کا دور آئے مگر یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت عوام پر مصنوعی بجلی،پانی،گیس کی لوڈشیڈنگ کا جن سوار کیا جارہاہے تا کہ عوام کو روزی روٹی سے ہی فرصت نہ ہو ،روزی روٹی کا انتظام ہی بمشکل کر سکیں تاکہ مفاد پرست،کرپٹ لیڈران کرائم کا احتساب کرنے کیلئے عوام سڑکوں پر نہ آسکیں۔

اپنے آپ کو مسلمان اور خلفائے راشدین ؓ کا پیروکارکہلانے اور اپنے خود ساختہ نظام کو ان مقدس ہستیوں کا نظام قرار دینے والے یہ حکمران (جنھیں ان کے چہیتے ثانی سیدناعمر فاروقؓ کہہ رہے ہیں(نعوذ باﷲ) اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ کتاب اس عنوان پر لکھ یا لکھوا ماری۔۔۔) جان سکیں کہ خلیفۂ دوئم نے اپنے دور حکومت میں کیا کیا اور ہم ان کی کس قدر خلاف ورزی کر رہے ہیں آئیے ایک جھلک اس پر ڈالتے ہیں خلیفۂ دوئم سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک مرتبہ شکایت پر گورنر مصرعمروبن العاصؓ کے بیٹے محمد بن عمروبن العاصؓ کو گرفتار اور گورنر کو طلب کیا ۔ شکایت یہ تھی کہ گورنر مصر کے بیٹے نے ایک بے گناہ شخص کو کوڑے مارے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے باپ بیٹے کو طلب کرلیا جب وہ آگئے تو حضرت عمرؓ نے متاثرہ شخص سے فرمایا کہ گورنر کے بیٹے کی پشت پر اتنے ہی کوڑے مارو جتنے اس نے تمہاری پشت پر مارے جب وہ شخص گورنر کے بیٹے کی پشت پر کوڑے مار چکا تو خلیفۂ دوئم ؓ نے متاثرہ شخص سے کہا کہ اب گورنر مصر کی پشت پر بھی ایک کوڑا مارو تاکہ انھیں پتا چلے کہ ان کا بیٹا کیا کرتا ہے؟ تو متاثرہ شخص نے کہا کہ اے امیر المومنین ؓ!گورنر مصر نے تو مجھے کوئی کوڑا نہیں مارا لہٰذا میں انھیں معاف کرتا ہوں ۔ اس کے بعد سیدناعمرؓ گورنر مصر عمروبن العاصؓ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ اے عمروؓ !تمہیں کیا ہو گیا ان کی ماؤں نے تو انھیں آزاد جنا تھا تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا ہے؟اے اربا ب اقتدار !کیا تمھاراانداز حکمرانی ایسا ہے ۔۔۔۔۔؟ذرا تنہائی میں سوچنا ان حکمرانوں کی لغو محبت میں گرفتار ہوکر ان حکمرانوں کو ثانی سیدنا عمرؓ قرار دینے والے احمقو! ذرا سوچو،جانو کہ یہ حکمران اور ان کی اولادیں گورنر مصر کے بیٹے سے کہیں بڑھ کر جرائم کر رہی ہیں مگر ان پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں اگر کوئی صرف بات کرتا ہے تو انتقام کی آگ ان کے جسموں سے نکل کر مخالف کو بھسم کردیتی ہے ایک لیڈر کے احتساب پر اس نے کہا کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہواتو ہم سارا پاکستان بند کردیں گے پھر کوئی اسے کھلوا نہیں سکے گا ۔۔۔۔ اے غافل عوام! اتنے طاقتور ہیں جمہوریت کی چھتری کے نیچے جرائم کرنے والے یہ بااثر مجرمین۔۔۔ اے حکمرانو! عوام کے حقوق کی بابت حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓ سے پوچھا جائے گا مگر آج بھوک ،پیاس،ہوس کے باعث انسان مرکر رہے ہیں جو کرپٹ لیڈراور کرپٹ نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اب قوم کوکرپٹ لیڈرز اور کرپٹ نظام کی بجائے صالح قیادت اور ا سلامی نظام خلافت کی طرف سفر کرنا ہوگا جو عوام کا حقیقی معنوں میں وفادار ہے قوم مرحومین کے لوحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے رمضان المبارک میں جو مسلمان گرمی کے باعث شہید ہوگئے یہ ا موات شہادت کی ا موات ہیں اﷲ تعالیٰ مرحومین کو شہادت کے درجے سے سرفراز کرے۔ اور اہلیان پاکستان کو اسلام اور پاکستان سے سچی محبت کرنے والا ،خلفائے راشدینؓ کا پیروکار حکمران نصیب فرمائے(امین)
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244257 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.