سبق

سارا دن جسمانی و ذہنی مشقت کے بعد راحیل بس اسٹاپ پر کھڑاگھر جانے کیلئے بس کا منتظر تھا۔قریب ہی چائے کے ٹھیلے کو دیکھ کر اس کا دل چاہا کہ گرم گرم چائے کی چسکیاں لے کر تھکن اتارلی جائے۔ابھی صرف یہ خیال ہی ذہن میں آیا تھا کہ سامنے سے اسکی مطلوبہ بس آتی دکھائی دی اور اس نے سوچا چلو گھر جاکر بیوی کے ہاتھوں سے ہی چائے بنواکر پی لیں گے۔جلدی جلدی بس میں سوار ہوااور نشست سنبھال لی۔بازو والی نشست پر ایک خوش مزاج شخص اپنی بیوی اور دو بچوں کے ہمراہ بیٹھا تھا،دونوں بچے جن کی عمریں تقریباًچار اور چھ سال رہی ہونگی اسی کی گود میں تھے۔اور وہ شخص بے تحاشہ انھیں پیار کئے جارہا تھا،دونوں بچے بھی اس سے خوب خوش اور مسرور تھے۔

سڑک کی خستہ حالی کے باعث بس ہچکولے کھارہی تھی اور وہ شخص دونوں بچوں کوبڑے احتیاط سے سنبھالے ان کے سروں کو اگلی نشست سے چوٹ نہ لگے اس انداز سے گرفت میں لئے انکے ساتھ کھیل رہا تھا۔وہ شخص راحیل کی توجہ کا مرکز بن گیاکیونکہ راحیل کو بھی دو بچے تھے لیکن اس نے اپنی مصروفیت کے باعث شاید ہی اتنا پیار انہیں کیا ہو،وہی روز انہ کا معمول،صبح اس وقت اٹھنا جب بچے سورہے ہوں اور جب رات میں گھر پہنچے تو بچے گھر کام کرتے کرتے تھک کر سو چکے ہوتے۔لے دے کر ایک اتوار کا دن ملتا وہ بھی دوستوں کے نام ہوجاتا۔کبھی کبھار بیوی بچوں کو لے کر گاؤں کا ایک چکر لگا دیتااور وہ بے چارے خوش ہوجاتے۔

راحیل نے آخر اس شخص سے پوچھ ہی لیا۔’’بھائی! آپ کرتے کیا ہو؟۔‘‘
اس شخص نے مسکرا کر کہا۔’’بیوی،بچوں کے لئے جیتا ہوں بھائی۔‘‘
میرا وہ مطلب نہیں تھا،کام کیا کرتے ہیں آپ؟راحیل نے بھی ہنستے ہوئے پوچھا۔

کچھ خاص نہیں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں،اکاؤنٹنٹ ہوں۔ملازمت کے علاوہ جتنا بھی وقت ملتا ہے اس میں سے زیادہ تر میں اپنے بیوی بچوں پر صرف کرتا ہوں۔ایسا ہے کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں اور انہیں صحیح پیار ومحبت کی ضرورت ابھی ہے۔کل کو یہ بڑے ہونگے تو ہم انھیں گود میں بھلا کیسے لے سکیں گے اور ایسے پیار کہاں کر پائیں گے۔بس یہی سوچ کر زیادہ تر وقت میں بچوں کو ہی دیتا ہوں۔

’’تمہارے کوئی دوست وغیرہ نہیں ہیں کیا؟‘‘۔ راحیل نے تعجب خیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس شخص سے پوچھا۔

اور وہ شخص مسکرا کر کہنے لگا’’ہیں بھئی!دوستوں کے بنا تو زندگی ادھوری ہے۔ رات میں جب یہ سب سوجاتے ہیں تب دو گھنٹے دوستوں کے ساتھ بھی بیٹھک ہوتی ہے بھائی۔

یکایک بس کے بریک لگنے سے ایک لمبی کرخت آواز نے کان کے پردے ہلا دئے۔اور وہ شخص ایک بچے کو گود میں لئے دوسرے کی انگلی تھامے راحیل سے کہنے لگا۔’’ اچھا بھائی،پھر ملیں گے،میرا سٹاپ آگیا۔‘‘اور وہ سب وہیں اتر گئے۔

اب راحیل کے سامنے اس کے بیوی بچوں کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ان بچوں کی معصومیت کو وہ یاد کر رہا تھا،جو سہمے سہمے سے اپنے باپ سے کوئی ضد بھی نہ کرتے تھے۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔ راحیل نے اس شخص سے اتنے کم وقت میں بہت بڑا سبق سیکھ لیا تھا۔آج سنیچر تھا،کل دوپہرکو دوستوں نے ایک پارٹی رکھی تھی۔لیکن اب وہ اپنے ذہن میں نئے تصورات لئے بیٹھا تھا اور اسی مناسبت سے پروگرام بھی ترتیب دے دیا۔بس میں بیٹھے بیٹھے ہی اس نے موبائل فون نکالا اور ایک دوست کے نمبر ڈائل کئے۔ ’’مشتاق،میں کل پارٹی میں نہیں آسکتا۔‘‘ہاں اگر یہ پارٹی رات میں رکھی جائے تو میں تیار ہوں۔

بس منزل پر پہنچ گئی،اور راحیل تیز تیز قدم بڑھاتا اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔اس شخص کے برتاؤ نے بہت گہرا اثر کیا تھا۔اس کی باتیں راحیل کے ذہن میں اب بھی گونج رہی تھی اور وہ من ہی پن سر ہلاتا کہتا جارہا تھا۔سچ ہی تو کہہ رہا تھا وہ کہ بچوں کے بڑے ہوجانے پر انہیں گود میں اٹھا کر پیار کیسے کیا جاسکتا ہے،وہ سنہرا وقت تو ابھی ہے۔انہی خیالات میں گم وہ گھر پہنچا۔لیکن یہ کیا؟؟؟؟؟؟

گھر پر تو تالا پڑا ہوا ہے۔وہ گھبرا گیا۔کہیں بیوی میکے تو نہیں چلی گئی۔کیونکہ اکثر انہی وقت نہ دینے والی باتوں پران میں توتو میں میں ہوتی رہتی تھی۔راحیل صبح کام پر جانے سے پہلے ہونے والی ساری باتوں کو ایک ایک کرکے ذہن میں لاتا چلا گیا۔لیکن آج تو صبح ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔اس نے خود سے کہا اور اپنی جیب سے چابی نکال کر دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔گھر میں اندھیرا تھا۔اچانک ایک دھماکے سی آواز کے ساتھ غبارہ پھٹا اور گھر میں روشنی ہوگئی اور اس پر رنگ برنگے زر گرنے لگے۔سامنے ہی تینوں کھڑے ہنس کر کہہ رہے تھے۔

’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔‘‘راحیل کو یہ تک یاد نہیں تھا کہ آج اس کا جنم دن ہے۔

راحیل دوڑ کر ان کے قریب آیا اور کہنے لگا۔تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔باہر سے تالا کس نے لگایا تھا؟

اس کی بیوی نے کہا۔’’بازو والی خالہ آئی تھیں ،بچوں نے ہی ان سے کہا تھا تالا لگانے کیلئے۔‘‘بچے ایک لمحے کو سہم گئے کہ کہیں مار نہ پڑے اور ڈرے ڈرے باپ کی طرف دیکھنے لگے۔انہیں کیا پتہ تھا کہ خود کے جنم دن پر وہ ایک نیا تحفہ لایا ہے۔باپ نے بڑھ کر دونوں بچوں کو گلے سے لگا لیا اور والہانہ پیار کرنے لگا۔بیوی اس انہونی پر بت بنی انہیں دیکھ رہی تھی۔

دوسرے روز صبح خلاف معمول سب سے پہلے اٹھ کربیوی بچوں کو راحیل نے شرارت کرتے ہوئے جھنجھوڑ کر اٹھایا اور تکیے سے انہیں ہلکے ہلکے مارنے لگا،یہ ان کیلئے نئی صبح تھی۔بدلا کچھ بھی نہیں تھا۔بیوی ،بچے ،گھر اور راحیل بھی وہی تھا ۔صرف اس کے خیالات بدل گئے تھے،جس کی وجہ سے خوشیاں ہی خوشیاں بھراٹھی تھیں۔
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 22230 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More