صفاتِ الٰہیہ

اللہ تعالیٰ نے ’انسان‘کو اپنی ذات کا آئینہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔جب اللہ تعالیٰ نے خود کو دیکھنا چاہا تو ’انسان‘ کو تخلیق کیا جس میں اپنی روح پھونکی اور اسے اپنی تمام اعلیٰ صفات سے آراستہ کیا۔قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ وَعَلَّمَ اٰدَمَالْاَسْمَآءَ کُلَّھَا (البقرہ۔31 ) ترجمہ: ’’اور آدم کو تمام اسماء کا علم سکھایا‘‘۔اللہ کے اسماء اللہ کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں مثلاً اس کے اسم رحمٰن،رحیم اس کی صفتِ رحمت کو ظاہر کرتے ہیں ۔جب اللہ نے آدم کو ان اسماء کا علم دیا تو آدم یعنی انسان میں اللہ کی صفت رحمت جاری ہو گئی۔اِسی صفتِ الٰہی کی بنا پر انسان دوسری تمام مخلوقات کے لیے اپنے اندر رحمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔اللہ کے اسم رؤف،غفور اس کی معاف کرنے کی صفت کو ظاہر کرتے ہیں۔جب اللہ نے آدم کو ان دونوں اسماء کا علم دیا تو اللہ کی یہ صفت انسان میں جاری ہوئی اور اسی صفت کا اثر انسان میں موجود ہونے کی وجہ سے انسان عفوودرگزر کی صفتِ الٰہی کا اظہار دوسروں کے لیے کرتا ہے۔اللہ کے اسم ’’خالق‘‘ کی صفت کے انسان میں موجود ہونے کی وجہ سے ہی انسان نئے نئے شاہکار اور ایجادات وغیرہ تخلیق کرتا ہے،خواہ مصور ی ہو یا ادب،شاعری ہو یا سائنسی تخلیقات وغیرہ۔چناچہ انسان ہر لحاظ سے اللہ کے اسماء و صفات کا مظہر ہے اسی بنا پر اللہ نے انسان کو اپنا نائب فرمایا۔

لیکن دوسری طرف اسی انسان میں شیطانی صفات بھی کارفرما ہیں کیونکہ انسان کی ہی آزمائش کے لیے اللہ نے انسان کو خیر اور شر دونوں کا مرقع بنایا۔خیر صفاتِ الٰہی کی صورت میں انسان میں موجود ہے اور شر شیطانی صفات مثلاً لالچ ،ہوس تکبر،خودپسندی،کینہ،ریاکاری،مکروفریب اور حسد وغیرہ کی صورت میں انسان میں موجود ہے۔اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی ہی ذات میں موجود شیطانی صفات کو اپنے نفس سے جہاد کے ذریعہ اس حد تک دبائے کہ وہ مکمل طورپر ختم ہو جائیں اور پھر اللہ کی تمام پاک صفات کو اپنائے اس کے رحم، کرم،عفو،جودوسخا کی تمام اعلیٰ صفات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کے بندوں سے اپنا برتاؤ اچھا بنائے۔شیطانی صفات کو کچلنا ہی نفس کا وہ جہادِاکبر ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے اور جس سے رو گردانی انسان کو قربِ الٰہی سے محروم کر کے شیطانیت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتی ہے جہاں پہنچ کر نہ دنیا میں ہی اس کی کوئی عزت رہتی ہے نہ آخرت میں۔دینِ اسلام درحقیقت انسان میں اپنی شیطانی صفات کو کچل کراخلاقِ الٰہیہ اجاگر کرنے کا نام ہے تاکہ وہ دنیا میں بھی خوشگوار زندگی گزاریں اور آخرت کے درجات بھی حاصل کریں۔

ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے کہ تَخَلَّقُوْبِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ترجمہ: ’’ اللہ کے اخلاق اپناؤ‘‘ اللہ کے اخلاق سے مراد اللہ کی صفات ہی ہیں۔بیشک اللہ کے اخلاق سے بہتر کس کے اخلاق ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ذات تمام اخلاقِ الٰہیہ کی مظہر اور بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات میں ہی اللہ کی صفاتِ رحمت اور مغفرت،لطف و کرم،جودوسخا وغیرہ مکمل طور پرظاہر ہیں اور انہی صفاتِ الٰہیہ کے مکمل مظہر ہونے کی بنا پر ان کی ذات تمام بنی نوع انسان کے لیے کامل اور احسن ترین نمونہ ہے ۔جب ایک مسلمان اتباعِ رسول میں اُن کی تمام حقیقی سنتوں پر عمل کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے ان کے سکھائے ہوئے ا خلاقِ الٰہیہ کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور انہی اخلاقِ الٰہیہ کو اپناتے ہوئے وہ اپنے ایمان میں ترقی بھی کرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا مومن ایمان میں بہتر ہے؟ فرمایا جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو اور فرمایا اکمل المؤمنین ایمانا احسناھم خلقا(مشکوٰۃ شریف) ترجمہ:’’ مومنوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے‘‘ یعنی ایمان میں ترقی کے لیے اخلاق میں بہتری لازمی ہے۔جیسے جیسے انسان اپنی ہی ذات میں موجودشر کی صفات کو کچلتا ہے وہ شیطان سے دور ہوتا ہے اور جیسے جیسے وہ اخلاقِ الٰہیہ اپناتا ہے اللہ کے قریب ہوتا ہے اور ایمان میں ترقی کرتاہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ’’ اللہ کے پاس ا خلاق کا خزانہ جمع ہے،جب اللہ اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تواسے یہ عنایت فرماتا ہے‘‘ ایک اور جگہ فرمایا ’’ اللہ کے ایک سو سے زیادہ اخلاق ہیں اگر وہ ان میں سے ایک بھی کسی کو عطا فرمائے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات اپنی مخلوق پر اس لیے ظاہر کیں کہ وہ انہیں اس کی طرف دعوت دیتا ہے اور اگر وہ انسان کے اندر اخلاقِ خداوندی سے متصف ہونے کی صلاحیت نہ ڈالتا تو انہیں اس کی دعوت نہ دی جاتی‘‘۔انسان ذاتِ حق تعالیٰ کا مظہر ،نائب اور خلیفہ ہے ہی اس لیے کہ اس میں صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہونے کی صلاحیت رکھی گئی ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے یہ نہ فرمایاکہ میں دینِ اسلام پھیلانے آیا ہوں یا عبادات سکھانے آیا ہوں بلکہ فرمایا کہ ’’ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘ یعنی انسانوں میں موجود شیطانی صفات کو کچل کر ا خلاقِ الٰہیہ کو مکمل طور پر انسانوں میں ظاہر کرنے کے لیے۔ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ ان المومن لیدرک لحسن خلقہ درجۃ قائمہ الیل و صائم النھار ترجمہ: ’’ انسان حسنِ خلق سے وہ درجہ پا سکتاہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ (مشکوٰۃ۔ترمذی)

حضرت فضیلؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام سے عرض کیا گیا کہ فلاں عورت دن کو روزے رکھتی ہے اور رات کو نماز پڑھتی ہے مگر بداخلاق ہے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف دیتی ہے‘‘ آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ’’اس عورت میں کچھ بھلائی نہیں وہ دوزخیوں میں سے ہے ‘‘ ایسا اس لیے کہ عبادات پر تکبر کرنے کی وجہ سے اس میں شیطانی صفات زیادہ ظاہر ہونے لگیں تھیں کیونکہ شیطان شیطان بنا ہی عبادات پر تکبر کی وجہ سے تھا ۔ایمان کی قوت متکبرانہ عبادات نہیں ہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی صفات ہیں۔ ایک بد اخلاق انسان اپنے ہوس زدہ ،کدورت،بغض ،حسد بھرے غلیظ دل اور روح کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی جرأت کر بھی لے تو اللہ کبھی اس کی طرف نظر نہ کرے گا کہ اس کے دل میں تو سراسر شیطانی صفات کا ڈیرہ ہے ایسے میں لمبی لمبی عبادات اس کے ایمان کو کیا ترقی دے سکتی ہیں؟ چناچہ ایمان کا پہلا اور بنیادی تعلق صفاتِ الٰہیہ اپنانے اور شیطانی صفات کو ختم کرنے سے ہے نہ کہ صرف نمازروزے اور وردوظائف میں کثرت کرنے سے۔صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہونے والا ہی حقیقی انسان ،مومن اور اللہ کا محبوب ہے اور ان صفات کو چھوڑ کر شیطانی صفات اپنانے والا اللہ کا مغضوب اور شیطان کا پیروکار ہے خواہ تمام عمر عبادات میں گزار دے۔
تحریر: مسز عنبرین میغیث سروری قادری

Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 46899 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.