تیری ڈھاڈے دے نال پریت

روایت ہے کہ ایک روز حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ اپنے نفس کا محاسبہ کرنے بیٹھے اور اس سے کہنے لگے: ’’اے نفس تیری عمر ساٹھ سال ہو گئی ہے اور تیری اس عمر کے دن اکیس ہزار چھ سو (21600 ) بنتے ہیں۔‘‘اِتنا ہی کہا تھا کہ آہ بھری اور بے ہوش ہو گئے،جب ہوش میں آئے تو معتقد لوگوں نے پوچھا آپ کس وجہ سے بے ہوش ہوئے فرمایا’’میں نے اپنی عمر کے دنوں کا حساب کیا اور نفس سے کہا کہ دنیا میں آئے ہوئے مجھے ساٹھ سال ہو گئے،اگر اس میں سے نابالغی کی عمر کو نکال دیا جائے تو باقی زندگی کے دن سولہ ہزار دوسو بنتے ہیں۔اے نفس تُو نے ہر روز بیس گناہ تو کئے ہونگے؟ نفس نے کہا ’’نہیں‘‘ ۔میں نے کہا دس تو کیے ہونگے؟اس نے کہا ’’نہیں‘‘ ۔میں نے کہا ایک تو کیا ہوگا؟ اُس نے کہا’’ہاں ایک تو کیا ہوگا۔ ‘‘میں نے کہا اگر تُو ہر گناہ پر ایک ایک پتھر اکٹھا کرتا رہتا تو اب تک پہاڑ بن گیا ہوتا اور اگر ہر گناہ پر ایک ایک مٹھی خاک جمع کرتا رہتا تو ایک بہت بڑا ڈھیر بن گیا ہوتا۔اے نفس تُو نے آخرت کے خوف کے باوجود اتنے گناہ کیسے کر لیے؟ تم نے اس ہیبت کو کیسے نظر انداز کر دیا تیرے باپ آدم علیہ السلام کو ایک ہی لغزش پر سرزنش کر کے دنیا کے قید خانے میں بھیج دیا گیا۔تو نے اس فرمانِ الٰہی کو یاد کیوں نہ رکھا کہ ترجمہ:’’آدم اپنے رب کا حکم بھول کر راہ سے ہٹ گئے‘‘ (طٰہٰ۔121 ) (جب ان پر اللہ تعالیٰ کی گرفت کا یہ عالم ہے تو)بے چارے آدم زاد کو اتنے گناہوں کی خلاصی کی امید کس طرح ہو سکتی ہے؟ عزازیل (شیطان) کو ایک ہی نافرمانی کی پاداش میں فرشتوں اور عابدوں کی صف سے نکال دیا گیا اور اس کا نام ابلیس رکھ دیا گیا اور لعنت کا داغ دیا گیا اور فرمان جاری کر دیا گیا ترجمہ: ’’بے شک لعنت ہے تجھ پر قیامت کے دن تک‘‘ (ص۔78 )

بے شک اللہ کی رحمت ہر شے پر حاوی ہے لیکن اگر اس کی رحمت کی امید اس کی عظمت ،ہیبت،گرفت،پکڑ اورخوف سے آزاد کر کے گناہوں کی چھوٹ دے دے تو یہی رحمت خود بخود عذاب میں تبدیل ہو جاتی ہے۔حیرت ہے ان انسانوں پر جن کے سامنے اللہ کی گرفت اور عذاب کی لاتعداد مثالیں موجود ہونے کے باوجود گناہ کرتے ہوئے ان کے دل خوف سے کانپ نہیں اُٹھتے۔اس کی گرفت سے تو اس کے کامل بندے اور انبیاء بھی بچ نہ پائے تو عام انسان جانے کس خوش فہمی کی بنا پر گناہ پر گناہ کیے جاتا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کو چھوٹی سی لغزش پر جنت سے نکال دیا گیا ۔حضرت یونس ؑ کو ایک معمولی نافرمانی پر مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا گیا حالانکہ انبیاء معصوم او رگناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔جب اللہ کے محبوب بندوں کے لیے اس کی گرفت کے اصولوں میں کوئی تبدیلی یا نرمی نہیں ہوتی تو عام انسانوں کے لیے کیوں ہوگی۔

اللہ تعالیٰ نے جہنم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسے انسانوں سے بھر دے گا اور وہ انسان ہم اور آپ میں سے ہی کچھ ہوں گے۔قرآن اور حدیث میں قبر اور جہنم کی ہولناک سزاؤں کا جابجا ذکر ہے اور اللہ بار بار اپنی سخت پکڑ کا خوف انسانوں کو دلاتا ہے پھر نا جانے اپنے آخرت کے انجام کے متعلق وہ کونسی خوش فہمیاں ہیں جو ہمیں گناہ کے وقت خوفِ خدا سے غافل کر دیتی ہے۔جھوٹ ،فریب،مال اور جاہ(دوسروں پر اپنی برتری) کی ہوس ،تکبر ،کینہ جیسے کبیرہ گناہ جو ہم اپنے دلوں میں ہمیشہ پالتے ہیں،ہمارے لئے گناہ رہ ہی نہیں گئے بلکہ ہماری عمومی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں اور ان تمام گناہوں کے باوجود اپنی ذات کے لیے ہماری خود پسندی اور غرور بڑھتا ہی جا رہاہے۔خدا کا خوف تو دور کی بات ہمیں تو اس بات کی شرم بھی نہیں آتی کہ روزِ قیامت جب خوبصورت جسموں کے لبادے اُتر جائیں گے تو ہماری گندی روحیں ہمارے بزرگوں اور ہمارے چھوٹوں اور ان سب عزیزوں کے سامنے برہنہ ہونگی جن کے سامنے ہم نے اپنی پارسائی کا جھوٹا ڈھونگ رچا رکھا تھا۔اس دن کہیں منہ چھپانے کو جگہ بھی نہ ملے گی۔اللہ فرماتا ہے:
ترجمہ :بے شک گناہگار لوگ دیوانگی میں مبتلا ہیں ۔اُس روزِ (قیامت) اوندھے منہ آگ میں گھسیٹے جائیں گے ۔اب آگ کا مزہ چکھو۔(سورۃ القمر۔47,48 )
ترجمہ: اور جس نے میری یاد (ذکرِ الٰہی اور اللہ کے احکامات کی بجا آوری) سے منہ موڑا تو اس کے لیے زندگی(دنیا اور آخرت دونوں کی)تنگ ہو گی اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا اُٹھائیں گے۔وہ کہے گا اے میرے رب تُو نے مجھ کو اندھا کیوں اُٹھایا جبکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔اللہ فرمائے گا اس لئے کہ تمہارے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تُو نے ان کو بھلا دیا(ان کے مطابق عمل نہ کیا)اسی طرح آج ہم تم کو بھلا دیں گے۔(سورۃ طٰہٰ124۔126)
ترجمہ: زیادہ مال کی حرص نے تمہیں (یادِ خدا سے )غافل کر رکھا ۔یہاں تک کہ تم قبروں کو جا پہنچے اب اس کا انجام تم دیکھو گے۔(سورۃ تکاثر3۔1)

خدا کا خو ف اس قدر سخت ہے کہ اللہ فرماتا ہے ترجمہ: ’’ اگر ہم یہ قرآن (جس میں جہنم کے عذاب کا ذکر ہے) کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خو ف سے دب جاتا،پھٹ جاتا‘‘ (سورۃ الحشر۔21 )
شاید ہمارے آقا علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حقِ شفاعت کے زعم نے ہمیں ہمارے اصل انجام سے غافل کردیا ہے اور ہم اسی کی امید پر گناہ پر گناہ کیے جاتے ہیں حالانکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ ’’بد ترین گناہ وہ ہے جو شفاعت کی امید پر کیا جائے‘‘ کیونکہ ایسے تمام گناہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت کو داغدار کرنے کے مترادف ہونگے۔اگر ایسی ہی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خودبار بار اپنی امت کو خوفِ خدا نہ دلاتے اور عذابِ قبر اور جہنم کی ہولناک سزاؤں کے متعلق آگاہ نہ کرتے۔جن کی حقیقی سنتوں کی نہ کبھی خلوصِ دل سے پیروی کی،نہ اُن کے نیک اعمال کی اتباع کی،نہ ان کے احکام پر عمل کیا، جن کی شفاعت کی امید پر گناہ پر گناہ کرتے ہوئے ان کے حقِ شفاعت کو بھی اپنی نفس کی لذتوں کے حصول کے لیے ناجائز طور پر استعمال کیا،اپنی گناہوں سے آلودہ روح لے کر اس پاک ہستی کے سامنے پیش ہوتے شرم نہ آئے گی۔بجائے اس کے کہ ہم دنیا میں ان کی پیروی میں نیک اعمال کر کے روزِ آخرت تمام انبیاء کی امتوں کے سامنے اپنے نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لیے فخر کا باعث بنیں الٹا گناہوں سے لتھڑ کر اس حالت میں پیش ہونگے کہ ان کے لیے بھی اللہ کے ہاں ندامت کا باعث بنیں گے(نعوذ باللہ)۔

جس خوفِ خدا سے پہاڑ بھی پھٹ جاتے ہیں وہ کب ہماری روحوں کو جھنجوڑے گا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایاکہ ’’اللہ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے پر دو امن اور دو ڈر جمع نہیں کرتا۔جو دنیا میں مجھ سے ڈرا وہ آخرت میں امن میں ہوگا اور جو دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا وہ قیامت کے دن خوف میں ہوگا‘‘ دنیا میں کیے گئے خوفِ خدا سے تو آخرت میں امن مل جائے گا لیکن جو حالتِ خو ف آخرت میں قائم ہوگی اس سے امن کبھی نہ مل پائے گا۔بہتر ہے کہ اسی دنیا میں خوفِ خدا کو دلوں میں قائم کیا جائے کیونکہ انسان کی سرشت ہے کہ جب تک اسے ڈھیل دی جائے وہ غلط راہ پر چلتا جاتا ہے اور جب اس پر سختی برتی جاتی ہے صرف تب ہی وہ سیدھا چلتا ہے۔خوفِ خدا انسان ہی کی بھلائی اور اسے سیدھے راستے پر چلانے کے لیے ہے۔اس خوف کو دلوں میں قائم رکھنے کا ثمر آخرت میں یقیناًاچھی صورت میں حاصل ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الرحمٰن میں فرماتا ہے ترجمہ: ’’جو اللہ کے سامنے حاضر ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتیں ہیں‘‘ ایک اللہ کے قرب کی جنت اور دوسری حالتِ خوف سے امن اور سکون کی جنت۔
تحریر: مسز عنبرین میغیث سروری قادری

Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 47678 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.