بھارت سے تعلقات کی نوعیت؟

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان سالہا سال کی کڑی اور انتھک جدوجہد کے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اور اس طویل جدوجہد میں ہزاروں بلکہ لاکھوں شہیدوں کا لہو شامل ہے ۔ 14اگست 1947ء کی صبح آزادی کی نویدلے کر آئی ۔تقسیم ہند کو بھارت نے پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا ۔ کشمیر پر قبضہ ،1965، 1971اور کارگل کی جنگ نے اس خطے میں اسلحے کی وہ دوڑ شروع کر دی ہے جس نے پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دونوں ممالک دہشت گردی، غربت، بے روز گاری اور کرپشن جیسی لعنتوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔اس کے باوجود قومی بجٹ کا ایک کثیر حصہ دفاع پر خرچ ہو رہا ہے ۔ دونوں ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے کی پسپائی میں دونوں ممالک نے اپنی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے ۔ ان حالات میں دونوں ممالک کی حکومت نے تمام معاملات بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے ۔

بھارت ہمارا پسندیدہ ملک کیوں؟ کا سوال پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے بعد بھارت کے شدید رد عمل کے بعد آیا۔چین کے صدر کے دورہ پاکستان نے بھارتی ارباب اختیار اور جنتا کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ بھارتی میڈیا نت نئے پروپیگنڈے کر رہا ہے ۔اورصورت حال اس حد تک گھمبیر ہوگئی ہے کہ پاک بھارت جنگ چھڑ جانے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ بھارت کا یہ جنگی جنون وقتاََ فوقتاََ سر اٹھاتا ہے اور افواج پاکستان کے نڈر سپہ سالاروں کو منہ توڑ جواب کے بعد یہ جنون دم توڑ دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مودی حکومت کے اس جارحانہ رویے کے بعد یہ سوال دوبارہ جنم لے رہا ہے کہ آیا کہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے یا پھر بھارت کے اس رویے کا جواب اسی انداز میں دیا جائے۔ اس تناظر میں بھارت کو پسندیدہ ملک تسلیم کرنے کے حوالے سے عوام کی اکثریت دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔

اس فیصلہ کی حمایت کرنے والے طبقہ نے اسے ایک مثبت پیش رفت قراردی ہے۔ ان کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ مزید یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت سے دونوں ملکوں کی معیشت بہتر ہوگی ۔ بر آمدات اور درآمدات میں اضافہ ہوگا ۔ کھیل کے میدان میں جو تناؤ کی فضا ء ہے وہ ختم ہوگی اور سیر و سیاحت کے شعبہ کو فروغ ملے گا ۔ حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونو ں ممالک کے لوگوں کے صدیوں سے تاریخی اور جغرافیائی روابط رہے ہیں ۔ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک یہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک آ ج دنیا کا نقشہ تبدیل ہو چکا ہے ۔ دنیا شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ جنگ کی بجائے امن کے معائدے کرنے ہونگے ۔ ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں جو ایک بدترین تباہی ہو گی اور اس کے علاوہ ہمسائیہ ممالک کے ساتھ زیادہ عرصہ تک کھچاؤ کی کیفیت برقرار رہنا دونوں ممالک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے ۔

بعض لوگ قطعی طور پر بھارت کو پسندیدہ ملک ماننے کے لیے تیا ر نہیں ۔ انھوں نے حکومت وقت کے اس فیصلہ پر کڑی تنقید کی ہے کہ بھارت کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کیے جائیں۔ان کے نزدیک بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا ایک ہڈحرام ضدی دوست کو منانے کے مترادف ہے۔ ان کے نزدیک بھارت ایک سانپ ہے اور سانپ کو اگر دودھ بھی پلایا جائے تب بھی وہ ڈسنے سے باز نہیں رہتا۔ بھارت نے آج تک پاکستان کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا ۔ ہمارے خلاف ان کابغض اور عناد کبھی ختم ہوہی نہیں سکتا ۔وہ پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کے درپہ ہے ۔کبھی وہ پاکستان کے حصے کا پانی بند کرکے ملک میں خشک سالی کا سبب بنتاہے تو کبھی اضافی پانی چھوڑ کر سیلاب کو مزید خوفناک بنادیتاہے ۔مخالف طبقہ کا اصرار ہے کہ بھارت کشمیر سے اپنی فوجوں کو واپس بلائے پھر اس ملک کے ساتھ تعلقات استوار کیے جاسکتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے ہاکی میچ میں پاکستان کی بھارت کے اندر فتح کے دوران بھارتی تعصب کو پوری دنیا نے دیکھا ۔پاکستان کی معیشت کا حقیقی قاتل پاکستان کی سرحدوں کا حقیقی دشمن ہمارا دوست کیسے بن سکتا ہے۔ بھارت اس سلسلہ میں پہلے اپنے جاسوس ہمارے ملک سے نکالے اور مختلف مقامات پر حملے بند کرے تب جاکر اس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاسکتا ہے ۔کراچی اور ملک کے دیگر مقامات پر دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی"را" کے براہ راست ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں ۔ اور بلوچستان میں بلوچ قوم کو بغاوت پر اکسانے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینے پر یہ ایجنسی بھر پور مالی معاونت کررہی ہے۔ ان حالات میں کسی ایسے ملک کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات کیسے استوار ہوسکتے ہیں جو ہمہ وقت ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے در پہ ہو۔

دونوں طبقات کے نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ایک حقیر سی تجویز دینا چاہتاہوں کہ رشتے کبھی یکطرفہ پروان نہیں چڑھتے دونوں طرف سے پہل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں ہم بھارت کو پسندیدہ ملک ماننے کیلئے تیار ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کے بھی خواہاں ہیں وہاں بھارت کو بھی چاہیے کہ پاکستان پر الزامات پر سلسلہ بند کرے ۔بغیر ثبوت کے الزام تراشی سے تعلقات میں خلش پیدا ہوتی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ کشمیر سے اپنی فوجیں جذبہ خیر سگالی کے طور پر نکال لے اور سیاچن گلیشئر سے اپنی فوجوں کی واپسی کو ممکن بنائے۔ بھارتی جیلوں میں قید تمام پاکستانیوں کو فی الفور رہاکیاجائے اور سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کی منڈیوں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے اور ہمارے چیئر مین بورڈ کی پیش کش کا مثبت جواب دیتے ہوئے بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجی جائے اور بال ٹھاکرے جیسے بد تہذیب لوگوں کی شدت پسند تنظیموں پر پابندی لگائی جائے ۔سکوت ڈھاکہ کے دوران بھارتی فوج کی مداخلت پر پوری پاکستانی قوم سے معافی مانگی جانی

چاہیے جس کا اقرار گزشتہ روز وزیر اعظم ناریندر مودی نے کھلم کھلا کیا۔ اور روز روز کی گیدڑ بھبکیوں سے گریز کیا جائے۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 104928 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More